تھالی کا بینگن — کرشن چندر

تو جناب جب میرم پور میں بھی میرا دھندا کسی طرح سے نہ چلا فاقے پر فاقے ہونے لگے اور جیب میں آخری اٹھنی رہ گئی تو میں اپنی بیوی سے پوچھا ’’گھر میں تھوڑا سا آٹا بھی نہیں ہے کیا؟‘‘
وہ نیک بخت بولی ’’چار چپاتی کا ہوگا۔‘‘
میں نے جیب سے آخری اٹھنی نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا: ’’جابازار سے بینگن لے آ آج چپاتی کے ساتھ بینگن کی بھاجی کھالیں گے۔‘‘ وہ نیک بخت بہت فکر مند ہوکر بولی ’’اس وقت تو کھالیں گے، شام کے کھانے کا کیا ہوگیا؟‘‘
’’تو فکر نہ کر وہ اوپر والا دے گا۔‘‘ میں نے کہا۔ پھر میری نظر شیشے کے اس بکس پر پڑی جس میں چھوٹا سا تاج محل رکھا ہوا تھا۔ یہ تاج محل میں نے اپنی بیوی کے لیے نئی نئی شادی کے دنوں میں آگرہ میں خریدا تھا اور تاج محل کو دیکھ کر ہی خریدا تھا۔ محبت بھی کیا چیز ہے اس بیس روپے کے تحفے کو پاکر میری بیوی کا چاند سا مکھڑا گلابی ہوگیا تھا۔
اس وقت جب میں نے اس شیشے کے تاج محل کو دیکھ کر کہا: ’’کچھ نہ ہوا تو اس کھلونے کو بیچ دیں گے۔‘‘ تو جناب اس کا چہرہ ایسا پیلا پڑ گیا ہے جیسے کسی نے یکایک اس کے چہرے کا سارا خون کھینچ لیا، وہ غصے، خوف، مجبوری اور ناامیدی کے ملے جلے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں بولی: ’’نہیں میں اسے بیچنے نہ دوں گی یہ تو…… یہ تو میرے سہاگ کی نشانی ہے۔‘‘
میں نے اس کے غصے کو ٹھنڈا کرتے ہوئے بہت نرمی سے کہا ’’اچھا نہیں بیچیں گے اسے، کچھ اور بیچ دیں گے ہوسکتا ہے وہ اوپر والا کوئی سبیل پیدا کردے تو اس وقت جاکر بینگن تولے آبھوک سے مرا جارہا ہوں۔‘‘
وہ بازار سے بینگن لے کر آئی رسوئی میں بیٹھ کر اور سامنے لکڑی کے چھوٹے سے پڑے پر رکھ کر اس نے پہلا بینگن کاٹا ہی تھا کہ اسے اندر سے دیکھ کر ٹھٹک گئی ’’ارے!‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’کیا ہے؟‘‘ میں رسوئی کے اندر گیا اس نے مجھے کٹا ہوا بینگن دیکھایا ’’دیکھو تو اس اندر کیا لکھا ہے؟‘‘
میں نے غور سے بینگن کو دیکھا۔ بینگن کے اندر بینگن کے بیچ کچھ اس طرح ایک دوسرے سے جڑ گئے تھے کہ لفظ اللہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔
’’ہے بھگوان‘‘





میں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’یہ تو مسلمانوں کا اللہ ہے۔‘‘
محلہ پور بیاں جہاں میں رہتا تھا Mixed محلہ ہے یعنی آدھی آبادی ہندوؤں کی ہے آدھی مسلمانوں کی لوگ جوق درجوق اس بینگن کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ ہندوؤں اور کرسٹانوں کو تو اس بینگن پر یقین نہ آیا لیکن حاجی میاں اچھن اس پر ایمان لے آئے۔ پہلے نذر و نیاز انہوں نے ہی دی۔ میں نے اس کٹے ہوئے بینگن کو اس شیشے کے بکس میں رکھ دیا جس میں تاج محل رکھا تھا۔ تھوڑی دیر میں ایک مسلمان نے اس کے نیچے ہرا کپڑا بچھا دیا اور منن میاں تمباکو والے نے قرآن خوانی شروع کردی۔ پھر تو کیا تھا شہر کے سارے مسلمانوں میں اس بینگن کا چرچا شروع ہوگیا۔ جناب سمتی پورہ سے میمن پورہ تک اور بیجواڑے سے کمانی گڑھ تک اور ادھر ٹیلا میاں کے چوک سے لے کر محلہ کوٹھیاراں تک سے لوگ ہمارے بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ لوگ باگ بولے ایک کافر کے گھر میں ایمان نے اپنا جلوہ دکھایا۔ نذر نیاز بڑھتی گئی۔ پہلے پندرہ دنوں میں سات ہزار سے اوپر وصول ہوگئے جس میں سے تین سو روپے سائیں کرم شاہ کو دیئے جو چرس کا دم لگا کر ہر وقت اس بینگن کی نگرانی کرتا تھا۔
پندرہ بیس دن کے بعد جب لوگوں کا جوشِ ایمان ٹھنڈا پڑتا دکھائی دیا تو ایک رات جب سائیں چرس کا دم لگا کر بے سُدھ پڑا تھا میں نے آہستہ سے اپنی بیوی کو جگایا اور کٹے ہوئے بینگن کے اوپر سے شیشے کا بکس ہٹا کر کہا دیکھو کیا دکھائی دیتا ہے وہ بولی: ’’اللہ‘‘ میں نے کٹے ہوئے بینگن کا رُخ ذرا سا سرکایا اور پوچھا اب کیا دکھائی دیتا ہے۔
’’اوم۔‘‘ ’’ارے یہ تو اوم ہے۔‘‘ میری بیوی نے انگلی ٹھوڑی پر رکھ لی سارے چہرے پر استعجاب تھا۔
راتوں رات میں نے پنڈت رام دیال کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے بلا کر کٹے ہوئے بینگن کا بدلا ہوا رُخ دکھایا۔ پنڈت دیال نے چیخ کر کہا: ’’ارے یہ تو اوم ہے۔ اتنے دنوں تک مسلمان ہمیں دھوکا دیتے رہے۔‘‘
اس کی چیخ سُن کرسائیں کرم شاہ جاگ گیا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ پھٹی پھٹی سُرخ آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ پنڈت رام دیال نے اسے لات مار کرکہا: ’’نکل بے ہمارا دھرم بھر شٹ کرتا ہے اوم کو اللہ بتاتا ہے۔‘‘
بس پھر کیا تھا سارے شہر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ کٹے ہوئے بینگن کے اندر دراصل ’’اوم‘‘ کا نام کھدا ہوا ہے۔ پنڈت رام دیال نے چارج لے لیا۔ رات دن آرتی ہونے لگی۔ بھجن گائے جانے لگے چڑھاوا چڑھنے لگا۔۔ میں نے رام دیال کا حصہ بھی رکھ دیا تھا کہ جو محنت کرکے اسے بھی اس کا پھل ملنا چاہیے، لیکن بینگن پر ملکیت میری ہی رہی۔ اب شہر کے بڑے بڑے مست جوگی اور سدھا مہاتما اور سوامی اس بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے جہاں اللہ نے اوم بن کر اس کٹے ہوئے بینگن میں گویا مسلمانوں کو شکست دی تھی اور پانی پت کی تینوں لڑائیوں کا بدلہ چکا دیا تھا۔ شہر میں جابجا لیکچر ہورہے تھے۔ ہندودھرم کی فضیلت پر دھواں دھار بھاشن دیئے جارہے تھے۔ شہر میں تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ ہندو کہتے تھے۔ یہ اوم ہے مسلمان کہتے تھے یہ اللہ ہے۔
اوم!
اللہ!
ہری اوم تت ست۔ اللہ اکبر۔ اگلے پچیس دنوں میں کوئی پندرہ ہزار کا چڑھاوا چڑھا اور سونے کی انگوٹھیاں اور ایک سونے کا کنگن بھی ہاتھ آیا۔ لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کا خمار پھر ڈھلنے لگا۔ تو جناب میں نے سوچا اب کوئی اور ترکیب لڑانی چاہیے۔ سوچ سوچ کر جب ایک رات پنڈت رام دیال بھنگ کے نشے میں دھت فرش پر لیٹے ہوئے تھے میں نے اپنی بیوی کو جگا کر کہا: ’’نیک بخت دیکھو اس شیشے کے بکس کے اندر کٹے ہوئے بینگن کے اندر تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟‘‘
’’ہے صاف اوم ہے۔‘‘
میں نے اوم کا زاویہ ذرا سا اور سرکا دیا اور پوچھا۔ ’’اب کیا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ وہ دیکھ کر گھبرا کر منہ میں انگلیاں ڈال کر بولی: ’’ہے رام یہ تو کراس + ہے کرسٹانوں کی صلیب ہے۔‘‘
’’شش۔‘‘ میں نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔ ’’بس کسی سے کچھ نہ کہنا صبح تک چپ رہنا ہوگا۔ کل اتوار ہے کل صبح میں پادری ڈیورنیڈ سے ملوں گا۔‘‘
کٹے ہوئے بینگن میں مسیحی صلیب + کو دیکھنے کے لیے پادری ڈیورینڈ اپنے ساتھ گیا وہ عیسائیوں کو لے کر آئے اور بینگن کی صلیب دیکھ کر اپنے سینے پر کراس بنانے لگے اور عیسائیوں کے بھجن گانے لگے اور سر پر جالی اور رومالی اوڑھے خوب صورت فراک پہنے سول پنڈویلوں والی عورتیں اس معجزے کو دیکھ کر نہال ہوتی گئیں۔
شہر میں تناؤ اور بھی بڑھ گیا۔ ہندو کہتے تھے اس بینگن پر اوم ہے، مسلمان کہتے تھے اللہ ہے، عیسائی کہتے تھے صلیب ہے، بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جانے لگے۔ اِکادُکا چھرے بازی کی وارداتیں ہونے لگیں سمتی پورہ میں دو ہندو مار ڈالے گئے اور مستری محلے میں تین مسلمان۔ ایک عیسائی شہر کے بڑے چوک میں ہلاک کردیا گیا۔ شہر میں دفعہ 134 نافذ کردی گئی۔
جس دن میری گرفتاری عمل میں آنے والی تھی۔ اس سے پہلے دن کی رات میں نے بینگن کوموری میں پھینک دیا گھر کا سارا سامان باندھ لیا اور بیوی سے کہا: ’’کسی دوسرے شہر میں چل کر دوسرا دھندا کریں گے۔‘‘
تو جناب تب سے میں بمبئی میں ہوں۔ میرم پور کے ان دو مہینوں میں جو رقم میں نے کمائی تھی۔ اس سے ایک ٹیکسی خریدلی ہے۔ اب چار سال سے اس ٹیکسی کو چلاتا ہوں اور ایماں داری کی روزی کھاتا ہوں۔ اتنا کہہ کر میں نے ٹیکسی بار کی میز سے اپنا گلاس اٹھایا اور آخری گھونٹ لے کر اسے خالی کردیا۔
یکایک میری نگاہ میز کی اس طرح پر گئی جہاں میرے گلاس کے شیشے میں پیندے نے ایک گیلا نشان بنایا تھا۔ میں نے اپنے دوسرے ساتھی ٹیکسی ڈرائیور محمد بھائی سے کہا۔
’’محمد بھائی دیکھو تو اس گلاس کے پیندے کے نیچے کیا نشان بن گیا ہے اوم ہے کہ اللہ ہے؟‘‘
محمد بھائی نے غور سے نشان کو دیکھا مجھے دیکھا پھر میری پیٹھ پر زور سے ہاتھ مار کر کہا۔ ’’ابے سالے یہ بمبئی ہے یہاں نہ اللہ ہے نہ اوم اور نہ صلیب…… جو کچھ ہے روپیہ ہے بس روپیہ۔ ’’اتنا کہہ کر محمد بھائی نے میز پر ہاتھ پھیر کر پانی کی نشان کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔




Loading

Read Previous

بنتِ حوّا — عزہ خالد

Read Next

داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!