باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

فوزیہ کی ماں کچن میں روٹی بنا رہی تھی اورمُنی پاس کھڑی کپوں میں چائے ڈال رہی تھی۔امام بخش بھی اپنی بیساکھیاں سنبھالتا ہوا وہیں آگیا۔
”یہ فوزیہ کیوں نہیں اُٹھی ابھی تک۔اتنی دیر تک تو نہیں سوتی وہ۔”امام بخش نے پریشانی سے کہا۔
”ہاں ابھی نہیں اٹھی وہ۔رات کو سوئی بھی دیر سے تھی،جھگڑا کوئی کم ہوا تھا۔”ماں نے بُڑبُڑاتے ہوئے کہا۔
”منا بھی نہیں آیا رات بھر۔دوستوں کے ساتھ باہر نہ جانے کہاں آوارہ پھرتا رہتا ہے۔” امام بخش نے کہا۔
”نکلتے ہوئے تو میں نے بھی دیکھا تھا،واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔”ماں نے بے پروائی سے کہا۔ ”تو پراٹھا کھائے گا یا روٹی؟”اس نے امام بخش سے پوچھا۔
”نہیں ابھی کچھ نہیں آج نہ جانے کیوں دل بہت بُرا ہو رہا ہے۔”امام بخش نے برا سا منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
”کیوں فوزیہ کا سوچ کر؟”ماں نے امام بخش سے پوچھا۔
”دیکھ فوزیہ کی ماں اس نے اپنی زندگی کا فیصلہ ہی تو کیا ہے، ایسی کون سی بڑی قیامت آگئی کہ سب نے اتنا شور مچادیا۔”امام بخش نے اسے سمجھایا۔
”لیکن فوزیہ کے ابا تو بھی سوچ ذرا اس کی شادی ہو گئی تو گھر کیسے چلے گا۔”ماں نے پریشانی سے کہا تو امام بخش نے ہاتھ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور بولا۔
”اللہ مالک ہے پہلے بھی تو چل رہا تھا،تو کیوں فکر کرتی ہے۔”
ماں نے چائے میں چینی ڈالتے ہوئے مُنی کو ٹرے تھمائی اورمنہ بناتے ہوئے مُنی سے کہا۔ ”لے منی جا کر باجی کو اُٹھا۔اسے صبح صبح چائے پینے کی عادت پتا نہیں کیسے ہو گئی۔نہ منہ دھلا نہ ہاتھ، بندہ بستر پر ہی پڑا چائے کی سُڑکیاں لیتا رہے،لے جا کر دے آاور ہاں کہہ دینا جلدی آجائے ابا اس کے بغیر ناشتہ نہیں کر رہا۔”ماں نے مُنی کو ڈھیر ساری ہدایات دیں۔
”اچھا اماں لا دے ،باجی کی چائے میںچینی تو نہیں ڈالی؟”مُنی نے پوچھا۔
”مجھے پتا ہے نہیں ڈالی، چینی کھا کے موٹی ہو جائے گی وہ، پتا نہیں یہ آج کل کی لڑکیوں کو کیا بھوت سوار ہے۔”ماں نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
مُنی کپ پکڑ کر فوزیہ کے کمرے کی طرف چلی گئی۔امام بخش وہیں بیٹھ کر چائے پینے لگا۔
٭…٭…٭
منی نے بہت آرام سے گنگناتے ہوئے کمرے کا دروازہ کھولااور اندر داخل ہوئی۔
”باجی!باجی اُٹھ جا ابا انتظار …”
مُنی نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس کے ہاتھ میں پکڑا کپ نیچے گر گیا۔فوزیہ بستر پر مردہ حالت میں پڑی ہوئی تھی۔مُنی ہیجانی کیفیت میں چِلائی۔
”باجی… باجی… اماں… ابا… دیکھو باجی کو کیا ہو گیا…اماں… اماں…”
امام بخش نے مُنی کی چیخیں سنیں تو لشتم پشتم فوزیہ کے کمرے کی طرف گیا۔ماں بھی پیچھے پیچھے دوڑی چلی آئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شہریار اپنے آفس میں بیٹھا کنول کو فون کر رہا تھا لیکن اس کا فون مسلسل بند جا رہا تھا۔”کنول نے فون کیوں بند کیا ہے؟”شہریار بُڑبُڑایا۔
اتنے میں اُس کی سیکرٹری کمرے میں آئی اور اس کے آگے کافی کا کپ رکھ دیا۔
شہریار نے سیکرٹری کو دیکھا تو بولا۔” مس کنول کا نمبر ذرا ایکسچینج سے ٹرائی کرواؤ بند کیوں جارہا ہے۔”پھر کچھ سوچ کر اس نے منع کردیا۔” اچھا ٹھہرو رہنے دو، میں خود ٹرائی کرتا ہوں۔”
سیکرٹری نے سر ہلا کر حکم کی تعمیل کی اور پھر ڈائری کھول کر شہریار کی میٹنگ کا شیڈول بتایا۔
” دیکھو ابھی میں کوئی میٹنگ نہیں کرنا چاہتا انہیں کسی اور دن کا ٹائم دے دو۔”شہریار نے بے چینی سے کہا۔
”مگر سر یہ میٹنگ پہلے بھی کینسل ہو چکی ہے۔ ”سیکرٹری نے اسے سمجھایا۔
”میں نے جیسا کہا ویسا کرو،میں آج کوئی میٹنگ نہیں کروں گا۔”شہریار نے ترشی سے کہا۔
”اوکے سر میں ابھی کروا دیتی ہوں۔”سیکرٹری نے کہا اور کمرے سے باہرنکل گئی۔شہریار دوبارہ کنول کا نمبر ڈائل کرنے لگا جو مسلسل بند جا رہا تھا۔
٭…٭…٭
ریحان اپنے پارلر میں ایک خاتون کو تیار کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتا جارہا تھا۔
”اُف مسز رحمن آپ کے بال تو بالکل Frizzy ہو گئے ہیں آپ کو کیروٹین ٹریٹمنٹ لینا چاہیے۔”ریحان نے کہا۔
” ہاں ریحان ٹائم ہی نہیں ملتا پہلے آفس،پھر آفس سے گھر پھر بچے اور ڈھیر سارے کام۔” مسز رحمان نے بہت تھکے تھکے انداز میں کہا۔
”لیکن خود پر ٹائم دینا بھی تو ضروری ہے۔”ریحان نے کہا۔پھر کرسی کو اپنی جانب گھما کر اسے بہت غور سے دیکھا۔”مسز رحمان، مجھے تو آپ کا وزن تھوڑا زیادہ لگ رہا ہے،کیا جِم جانا چھوڑ دیا؟”
”بالکل ٹھیک کہا 5 Kg وزن بڑھ گیا ہے میرااور تم نہیں سمجھ سکتے کہ کتنی ڈپریشن میں تھی۔” مسز رحمان نے اداسی سے کہا۔
”کیوں کیا ہوا؟”ریحان نے پوچھا۔
”ہونا کیا تھا،رحمان کو اس کی سیکرٹری کے ساتھ پکڑ لیا رنگ رلیاں مناتے ہوئے۔”انہوں نے کہا۔”پچھلے مہینے کی بات ہے مجھے کہہ رہے تھے کہ میں آج کل آفس سے کام کی وجہ سے لیٹ ہوں۔میں ایک دن آفس پہنچ گئی پھر جو میں نے اس کے ساتھ کی ہے، سارا آفس دیکھ رہا تھا۔”
ان ہی باتوں کے درمیان پارلر میں لگیLCD پر کنول بلوچ کی ایک مُسکراتی سی تصویر نمودار ہوئی اور بریکنگ نیوز چلنے لگی۔
”سوشل میڈیا کوئین کنول بلوچ کو اس کے بھائی نے گلا دبا کر مار دیا۔” ریحان کے ہاتھ سے ڈرائر گر گیا،وہ ہکابکا غائب دماغی سے پوری خبر سُن رہا تھا۔
٭…٭…٭
حلیمہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی تھی۔اس نے سامنے رکھااخبار اٹھاتے ہوئے ملازمہ سے شہریار کے متعلق پوچھا تو جواب ملا کہ وہ آج ناشتہ کیے بغیر جلدی آفس چلے گئے تھے۔ماں نے حیرانی سے اخبار ایک طرف رکھ دیا۔
”کیوں؟”حلیمہ نے پوچھا۔
”بھائی جان کہہ رہے تھے کہ رات سے طبیعت کچھ بوجھل ہے بھوک نہیں لگ رہی۔”ملازمہ نے جواب دیا۔
”ارے تم کم از کم ایک دودھ کا گلاس تو دے دیتیں۔”حلیمہ نے اسے ڈانٹا۔
”میں نے کہا تھا لیکن تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔”ملازمہ نے اپنی صفائی پیش کی۔
”اوہ اچھا!میں ابھی فون کر کے پوچھتی ہوں۔”حلیمہ نے پریشانی میں پاس رکھا موبائل اُٹھاتی ہیں۔
”ناشتہ لگا دوں آپ کے لیے؟”ملازمہ نے پوچھا ۔
”نہیں مجھے بھی بس ایک کپ چائے دے دو میں ذرا ٹھہر کر کروں گی ناشتہ۔”
”شہریار ناشتہ کیوں نہیں کیا بیٹا؟”حلیمہ نے شہریار کو کال کی۔
”ماما دل نہیں چاہا،بڑی تھکی تھکی سی طبیعت ہے اس وقت۔”شہریار نے اداس لہجے میں جواب دیا۔
”تو چھٹی کر لینی تھی۔”حلیمہ نے کہا۔
”ہاں یہی سوچ رہا ہوں جلدی آجاؤں گا۔ دل کچھ عجیب سا گھبرا رہا ہے۔”شہریار نے ماں کو تسلی دی۔
”دیکھوبغیر کچھ کھائے کافی مت پینا،ساتھ میں کوئی بسکٹس منگوا لو۔” حلیمہ نے اسے سمجھایا۔
”جی ماما!ابھی منگواتا ہوں۔”شہریار نے تابع داری سے کہا پھر چونک کر پوچھا۔” آپ نے کچھ کھا لیا؟”
”نہیں میں بھی لیتی ہوں ابھی لیکن تم کچھ ضرور لے لو،اور اگر زیادہ طبیعت خراب ہو تو گھر آجانا۔”حلیمہ نے اسے بہلایا۔
”ماما!آپ تو بس آج تک چھوٹے بچے کی طرح ٹریٹ کرتی ہیں مجھے۔”شہریار نے کہا۔
”بس لے آؤ ”اُسے” پھر تمہاری فکر چھوڑ دوں گی۔”حلیمہ نے جواب دیا۔
”ہا ہا ہا!آپ پھر بھی میری جان نہیں چھوڑیں گی،بلکہ” اُس” کی فکر سے بھی اپنی جان ہلکان کریں گی۔”شہریار نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”جب پتا ہے تو پوچھتے کیوں ہو؟”حلیمہ بھی اسی انداز میں بولی۔
”بس خوش ہونے کے لیےyou are such a wonderful mom.”
”اچھا اچھا زیادہ مسکا بازی مت کرو، میں سب جانتی ہوں۔چلو اب اچھے بچوں کی طرح کچھ منگواؤ اور کھاؤ۔”حلیمہ نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔
”اوکے بائے،خداحافظ۔”شہریار نے کہا تو حلیمہ نے بھی خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔
اتنے میں ملازمہ ایک ٹرالی میں جوس اور چائے کے ساتھ سلائس وغیرہ بھی لے آئی۔انہوں نے ہاتھ میں صرف کپ اُٹھایااور ملازمہ سے ٹی وی چلانے کا کہا۔
ملازمی نے ٹی وی آن کر دیا۔سامنے کنول کی مسکراتی سی تصویر تھی اور بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ان کے ہاتھ سے چائے کا کپ گر گیا اور وہ ہکابکا سی ٹی وی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
٭…٭…٭
امام بخش پولیس اسٹیشن میں بیٹھا رو رہا تھا۔پاس ہی مختلف چینلز کے رپورٹر ز اور کیمرہ مین کھڑے تھے۔وہ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر بہت پریشان ہوگیا۔
”مینوں معاف کر دیو صاب،میرے سے کچھ نہیں بولا جا رہا۔”امام بخش نے کہا۔
”باباجی تہاڈی بیٹی مر گئی ہے تم کو کس پر شک ہے؟”ایک رپورٹر نے مائیک امام بخش نے منہ کے پاس کرتے ہوئے سوال پوچھا۔
”شک نہیں ،مجھے یقین ہے یہ سارا کام میرے چھوٹے بیٹے مُنے نے کیا ہے۔”امام بخش نے کہا۔
”باباجی تمہارے بیٹے مُنے کو کیا دشمنی تھی اپنی بہن سے؟”دوسرے رپورٹر نے سوال پوچھا۔
”وہ تو بہت اچھی بیٹی تھی،کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔”امام بخش اتناکہہ کر سر پر ہاتھ مار مار کر رونے لگا”بس معلوم نہیں دونوں میں کیا ہوا کہ اس نے اپنی بہن کو مار ڈالا،ہائے فوزیہ تو کیوں چلی گئی۔اب میری دوائی کون لائے گا ،میری ٹانگ کون لگوائے گا،میرا بیٹا تھا جی وہ۔ دونوں بیٹوں نے میری کبھی کوئی خدمت نہ کی۔بیٹی نے بیٹا بن کر میری بہت خدمت کی۔بس وہ شادی کرنے جا رہی تھی اسی بات کا اعتراض تھا دونوں بھائیوں کو۔”
”یہ تو کوئی اعترا ض کی بات نہ ہوئی۔”ایک اور رپورٹر نے کہا۔
”ہاں جی میں بھی یہی کہتا تھا لیکن میری سنتا کون ۔ہائے میری بیٹی کو ظالموں نے مار ڈالا۔ہائے منے تو نے کیا کیا ،تیری باجی نے کتنا پیار کیا تھا تجھ سے۔”امام بخش نے آنسو رک نہیں رہے تھے۔
”بابا جی اس وقت آپ کا بیٹا کہاں ہے؟”رپورٹر نے پوچھا۔
”مجھے پتا ہوتا تو جان نکال دیتا ۔آپ سب ڈھونڈو اسے میں خود اپنے ہاتھ سے پھانسی دوں گا اسے۔چھوڑوں گا نہیں میری اتنی پیاری بیٹی کو مار ڈالا۔۔ہائے ظالم تو نے کیا کیا۔”امام بخش اب پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگا۔
٭…٭…٭
مُنا اپنے دوستوں کے ساتھ فرار ہو گیا تھا۔وہ لوگ سڑک کنارے کے ایک ڈھابے پر بیٹھے تھے۔مُنا خیالوں میں گم سگریٹ پی رہا تھا۔
”اوئے کیا سوچ رہا ہے؟”ایک دوست نے پوچھا۔
”نا،کچھ نہیں۔”مُنے نے نفی میں سر ہلایا۔
”دیکھ تو نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا۔” دوست نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”مت سوچ کچھ۔ تو نے جو کیا ایک غیرت مند بھائی کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔”دوسرے دوست نے بھی ہمت بندھائی۔
”لیکن…”مُنے نے کچھ کہنے کی کوشش کی ،پہلے دوست نے اس کی بات کاٹ دی۔
”لیکن ویکن کچھ نہیں۔تو اپنے دل سے ہر بات نکال دے۔”
”جو کچھ وہ کر رہی تھی تو نہ مارتا تو کوئی اور مار دیتا ۔ایسی بے حیا عورتوں کو تو زندہ رہنے ہی نہیں چاہیے۔”دوسرے دوست نے نفرت سے کنول کا ذکر کیا۔
”ہاں شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔”مُنے نے کچھ سوچ کر کہا۔
اتنے میں چائے آ گئی۔وہ سب چائے پینے لگے۔ چائے پینے کے دوران ہی اس کا دوست بولا۔”او فکر نہ کر،ہم بہت جلد اس علاقے سے نکل جائیں گے۔ پھر پولیس ہمیں ساری عمر نہیں ڈھونڈ سکے گی۔”
”ہاں صحیح کہہ رہا ہے تو بالکل فکر مت کر۔ ”دوسرے دوست نے بھی کہا۔مُنا ان کی باتیں سنتا رہا۔
٭…٭…٭
شہریار کی ماں شہریار کو فون کر رہی تھی۔ وہ اس وقت گھر آنے کے لیے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس نے کال ریسیو کی۔
”شہریار بیٹا کہاں ہو؟”ماں نے پریشانی سے پوچھا۔
”ماما گھر ہی آرہا ہوں۔ طبیعت ابھی تک سیٹ نہیں ہوئی۔”اس نے تھکے تھکے انداز میں جواب دیا۔
”کیا تم نے ٹی وی دیکھا؟”ماں کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔
”کیوں کیا ہوا؟ خیر تو ہے نا سب؟”شہریار نے فوراً پوچھا۔
”کچھ نہیں بس تم گھر آجاؤ تو میں دوائی وغیرہ دیتی ہوں۔”ماں نے کچھ سوچا اور پھر بات بنائی۔
” آپ کچھ پریشان سی لگ رہی ہیں بتائیں کیا ہوا؟”شہریار نے اصرار کیا۔
”ارے کچھ نہیں بس تم گھر آجاؤ بات کرتے ہیں ۔”ماں نے فون پر یہ بات بتانا مناسب نہ سمجھا۔
”اوکے ماما،میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔ ” شہریار نے کہا اور بُڑبُڑانے لگا۔”لگتا ہے کنول نے پھر کوئی ویڈیو چڑھا دی ہے جس کی وجہ سے ماما اتنی پریشان ہیں۔کنول تم اپنی حرکتوں سے باز آنے والی نہیں ہو ،یار کیا کروں تمہارا۔فون بھی صبح سے اسی لیے بند کیا ہوا ہے،خیر دیکھتے ہیں۔”اس نے تھکے تھکے انداز میں اہ بھری اور گاڑی کو ریس دی ۔
شہریار ٹائی ڈھیلی کرتا ہوا ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوا۔سامنے ہی ٹی وی پر بریکنگ نیوز میں کنول کی خبر چل رہی تھی۔ اس کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ والا بیگ اور ٹائی فرش پر گر گئی۔وہ ہکابکا سا کھڑا ساری خبر سُن رہا تھا۔ حلیمہاس سے روتے ہوئے آکر لپٹ گئیں اور وہ پاس پڑے صوفے پر بے جان جسم کے ساتھدراز ہو گیا۔
٭…٭…٭
رحیم اپنے گھر میں بیٹھا یہ خبر دیکھ رہا تھا۔اس کی بیوی اسما بھی بہت حیران تھی۔
”رحیم یہ خبر دیکھ۔”اسما نے سرگوشی والے انداز میں کہا۔رحیم نے خالی خالی نظروں سے اُسے دیکھا اور پھرچارپائی سے چھلانگ لگا کر اُٹھ بیٹھا۔کچھ دیر کے بعد ہی وہ بچوں کو ساتھ لے کر وہ دونوں شہر کے لیے نکل گئے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!