کنول اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی ۔ہاتھ میں پکڑے موبائل سے ویڈیو بنا رہی تھی۔
” ڈیئر فینز ہوسکتا ہے آپ کے لیے یہ خبر بہت اہم ہو۔کسی کو دُکھ ہو کسی کو خوشی اور کوئی جل بھی گیا ہوگا،لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں۔میں نے وہی کیا جو میں نے چاہا اور اب بھی وہی کروں گی جو میں چاہوں گی۔ soکہتے رہیے،بولتے رہیے، مجھے پروا نہیں۔ زندگی بھر دوسروں کی خوشیاں میرے لیے اہم رہیں،اب ان پر میرا بھی حق ہے۔بے شک میں آپ کو انٹرٹین کرتی ہوں مگر خود بھی خوش رہنا چاہتی ہوں۔میں ایک گھر بناؤں گی۔ دبئی جا کر رہوں گی اور میرا لائف پارٹنر ایسا ہے جس کے لیے سب کچھ چھوڑا جاسکتا ہے۔ وہ میرے لیے سب کچھ چھوڑ سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔ یہ جو آپ میرے بارے میں گھٹیا باتیں پوسٹ کررہے ہیں، مجھے ان کی کوئی پروا نہیں۔ میں بہت جلد اس پیج کو بند کردوں گی۔ تو پھر بہتر یہی ہوگا کہ آپ سب نیک خواہشات کا اظہار کریں۔ خیرمزید باتیں پھر کسی وقت ہوں گی۔ابھی تو مجھے بہت نیند آرہی ہے اور ہاں میرا بوائے فرینڈ بھی آنے والا ہے میرے خوابوں میں،گڈ نائیٹ۔”
٭…٭…٭
شہریار اپنے کمرے میں بیٹھا اس کی ویڈیو دیکھ رہا تھااور ساتھ ساتھ اس کی باتوں پرمسکرا بھی رہا تھا۔۔”تم بھی نا کنول بلوچ بس،اپنے نام کی ایک ہو۔”شہریار نے کہا اورلیپ ٹاپ بند کرکے راکنگ چیئر پر جھولنے لگا۔اس وقت اس کے خیالوں پر بھی کنول قابض تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کنول ماں باپ کے گھر جانے جانے کی تیاری کررہی تھی۔جب ریحان اس سے ملنے آیا تووہ بہت خوشی خوشی اپنا بیگ پیک کررہی تھی۔
” کہیں جارہی ہو؟”ریحان نے اس کی تیاری سے اندازہ لگایا۔
”ہاں اس بار سوچ رہی ہوں عید اماں ابا کے گھر مناؤں جاکر۔پھر تو پتا نہیں اگلی عید شادی کے بعد کس کے ساتھ گزرے۔”کنول نے کہا۔
”گڈ!تو شادی کا فیصلہ کرلیا؟”ریحان نے پوچھا۔
” ہاں تمہیں بتایا تو تھا۔شہریار ابھی آنے والا ہے مجھے لینے کے لیے، تم سے ملواتی ہوں، اور ہاں واپس آؤں گی تو اپنی شادی کی تیاری بھی کروانی ہے تم نے۔”کنول نے بہت اطمینان سے کہا۔
” ضرور ضرور، میںحاضر ہوں۔”ریحان نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا پھر پوچھا۔”ویسے کیسا برائیڈل جوڑا چاہیے؟تم واپس آؤ تو میں دوچار لوگوں سے بات کرکے رکھتا ہوں۔”
” بس شہریار کی پسند کا لینا چاہتی ہوں۔”کنول نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”افف! میری طرف دیکھ۔اس کے نام کے ساتھ ہی تیری آنکھوں میں کتنے دیپ چل اٹھے یار۔” ریحان نے شرارتی لہجے میں کہا۔
” محبت انسان کو ایسے ہی بدل دیتی ہے تم بھی اس سے ملو گے تو خوش ہو گے۔میری شادی کا سارا انتظام تم کرو گے۔ میں بہت دھوم دھام سے شادی کرنا چاہتی ہوں، ایک دم نمبر ون۔ لوگوں کو لگے کہ کنول بلوچ کی شادی ہے۔”کنول شادی کو لے کر بہت پرجوش تھی۔
”تم فکر مت کرو۔”ریحان نے اسے تسلی دی۔
اتنے میں شہریاربھی آگیا۔کنول نے اسے ریحان سے ملوایا۔
”اوہ شہریار آؤ آؤ۔ ان سے ملو یہ ہیں ریحان! میرے دوست، میرے بھائی،میری سہیلی، میرے غم خوار…”
”ارے بس بس بس زیادہ مت چڑھاؤ۔ویسے یہ مجھ سے پہلے بھی مل چکے ہیں۔اس وقت یہ تمہارا پوچھنے آئے تھے لیکن اپنا نام بتائے بغیر چلے گئے تھے،شکر ہے آج تم نے ان سے ملوا دیا۔”ریحان نے کنول کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”جو تم ڈیزرو کرتے ہو وہی تو بولوں گی۔”کنول نے کندھے اچکا کر کہا۔
”کنول آپ کی بڑی تعریف کرتی ہیں۔”شہریار نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”کنول تو سب کی تعریف کرتی ہیں۔”ریحان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
” چلو کنول چلیں، بس نہ نکل جائے تمہاری۔”شہریار نے کہااوردوبارہ ریحان سے ہاتھ ملایا۔ ”اور مسٹر ریحان آپ سے ملاقات ادھار رہی۔ انشاء اللہ جلد مل کر بیٹھیں گے۔”
”ضرور مجھے بھی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔”ریحان نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا پھر کنول کا بیگ اُٹھا لیا اور وہ لوگ گھر سے نکل پڑے۔
شہریار اور کنول گاڑی میں بیٹھ گئے جبکہ ریحان دروازے پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔
”دیکھو جلدی لوٹنا،میں جب تک شادی کے انتظامات کرکے رکھتا ہوں۔”ریحان نے وہیں سے آواز لگائی۔
” ضرور اور خاص طور پر گیسٹ لسٹ ضرور بنا لینا۔”کنول نے یاددہانی کروائی۔
”تم واپس آؤ گی تو سارا انتظام مکمل ملے گا۔”ریحان نے اسے یقین دلایا۔
” تھینک یو ریحان۔”کنول نے مسکرا کر کہا۔
”کس بات کا؟”ریحان نے حیرانی سے پوچھا۔
”تم نے میری زندگی کے ہر برے اور ہر اچھے دور میں میرا بہت ساتھ دیا۔بس کچھ رشتے خود بہ خود grow کر جاتے ہیں۔تم میری زندگی کے ان رشتوں میں سے ایک ہو۔”کنول نے ممنویت سے کہا۔ریحان نے ہاتھ ہلایا اور شہریار نے گاڑی آگے بڑھادی۔
٭…٭…٭
” اُف کتنی جلدی تم نے مجھے یہاں پہنچا دیا ابھی تو بہت ٹائم ہے بس جانے میں۔”بس اڈے پر پہنچ کر کنول نے کہا۔”کیا بہت جلدی ہے اپنی زندگی سے نکالنے کی؟”
”جلدی صرف تمہیں اپنی زندگی میں لانے کی ہے۔ تم جاؤ گی تو آؤ گی نا۔”شہریار نے بڑے مزے سے کہا۔
”اور اگر میں نہ واپس آئی؟”کنول نے شرارت کی۔
” ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔”شہریار نے قطعیت سے کہا۔” اب تم اقرار کر بیٹھی ہو ، اب کہیں نہیں جانے دینا میں نے۔بہت دیر انتظار کروایا اب اور نہیں۔”
”مجھے یاد ہے ابھی تک،جب میرے پیسے گم ہوگئے تھے اور تم نے مجھے منی آرڈر کے پیسے دیے تھے۔یاد ہے میں ہمیشہ سوچتی رہی کہ کیا تم ہمیشہ لوگوں کو یوں ہی پیسے بانٹتے رہے ہو۔”کنول نے پوچھا۔
”ارے نہیں یار سچ سچ بتاؤں؟”شہریار کو بھی وہ لمحہ یاد آگیا تھا۔
”ہاں بتاؤ۔”کنول نے فوراً جواب دیا۔
”تم اس وقت بہت پریشان تھیں جیسے ہی تم نے اپنی نظریں اٹھائیں اور ایک نظر میری طرف دیکھاتو اس نظرمیں نہ جانے کیا تھا مجھے لگا بس سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔”شہریار نے اس دن کی یاد دہرائی۔
”ہاہاہا! اچھا، کیا ختم ہوگیا ؟”کنول نے مزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
”وہ ضبط جو میں عرصے سے خود پرکیے بیٹھا تھا کہ دوسری شادی نہیں کروں گا۔اسی وقت سوچا کہ یار یہ وہ آنکھیں ہیں جن میں وہ سب کچھ ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔”شہریار نے بہت جذب سے کہا۔
”کس چیز کی تلاش تھی جناب کو؟”کنول کو اس گفت گو میں مزہ آرہا تھا۔
”کوئی ایسی تلاش بہ ظاہر اپنے اندر کوئی معنی نہیں رکھتی، لیکن بس دل میں تلاش رہتی ہے اور جس دن وہ تلاش مکمل ہو ہم مکمل ہو جاتے ہیں۔بس تمہاری آنکھوں نے مجھے مکمل کردیا۔مجھے یوں لگا کہ اس سے پہلے بھی کچھ نہ تھا اور اس کے بعد بھی اور وہ تمہاری نظر آج بھی میرے اکیلے پن کو مکمل کرتی ہے۔آنکھیں بند کرتا ہوں تو تم انہیں نظروں سے مجھے ڈھونڈ لیتی ہو۔پتا نہیں محبت کیا ہوتی ہے لیکن اگر یہی محبت ہے تو کنول مجھے کہنے دو کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ ”شہریار نے سارے جہان کی محبت آنکھوں میں سمیٹ کر جواب دیا۔
”یہ سب کہنے میں اتنا عرصہ کیوں لگایا ؟”کنول نے کچھ شرما کرشکوہ کیا۔
”تم نے کبھی اعتبار ہی نہ کیا۔ وہ کرتی رہیں جو تمہارا دل چاہا۔ اب جب تم خود چاہتی ہو تو بس کہہ دیا۔ویسے اب برا تو نہیں مانا؟”شہریار نے مزے سے پوچھا۔
اس سے پہلے کہ کنول کوئی جواب دیتی، اتنے میں بس کا سائرن بج اُٹھا، دونوں نے چونک کر بس کی طرف دیکھا اور کنول کے دل کی بات پھر ادھوری رہ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ گھر پہنچ کر سب میں بیٹھی ہوئی تھی۔گھر والے اس کی شادی کے متعلق پوچھنے لگے۔
” باجی یہ بتا جو ویڈیو چل رہی ہے تیرے بارے میں وہ صحیح ہے؟”مُنی نے پوچھا۔
”نہ میں جانتی ہوں یہ سب جھوٹ ہے۔تیری بہن نے ضرور ان سے جھگڑا کیا ہوگا۔”ماں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”باجی کیا گھر ہے تیرا،میں نے کتنی بار کہا مجھے لے کر چل وہاں میں دیکھنا چاہتی ہوں اور تو نہیں لے کر گئی۔”مُنی نے رشک آمیز حسرت سے کہا۔
”کتنے کا ہوگا باجی؟”مُنے کے سوال میں لالچ چھپی ہوئی تھی۔
”جتنے کا بھی ہو تجھے کیا؟”امام بخش نے مُنے کو ڈانٹا۔
” ہمیں کیوں نہیں ابا،ہماری بہن کا گھر ہے؟”مُنے نے منہ بنایا۔
”فوزیہ تو مجھے سچ سچ بتا کیا تو واقعی شادی کررہی ہے؟”امام بخش نے براہ راست سوال پوچھا۔
فوزیہ تھوڑی دیر ہاتھ مسلتی رہی پھر بولی۔”ہاں ابا میں شادی کررہی ہوں اور اس کے بعد دبئی چلی جاؤں گی۔”
”باجی تو نے اتنا بڑا فیصلہ خود کرلیا اور ہمارے بارے میں سوچا تک نہیں۔”مُنا ناراضی سے بولا۔
”ساری عمر تمہارے بارے میں ہی سوچا ہے مُنا،اب پہلی بار اپنے بارے میں سوچ رہی ہوں تو کیا اعتراض ہے۔”فوزیہ نے غصے سے جواب دیا۔
”تجھے ابا اور اماں کا قطعاًخیال نہیں آیا؟ باقی گھر والوں کا خیال نہیں آیاکہ ان کا کیا ہوگا؟”مُنے نے تنک کر پوچھا۔
”تو ہے نا اُن کا سوچنے کے لیے، تو بھی سوچ۔ وہ تیرے بھی ماں باپ ہیں۔”فوزیہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”دیکھا ابا تو نے دیکھا،کیسی بے دید ہورہی ہے۔کسی کا کوئی خیال ہی نہیں، تیرا یا اماں کا تو کچھ سوچ ہی نہیں رہی۔”مُنے نے ماں باپ کو بہکایا۔
” اب تو سوچ نا ان کے بارے میں، تو بھی تو بیٹا ہے۔ اُٹھا ان کی ذمہ داریاں۔”فوزیہ غصے میں کھڑی ہوگئی۔
”ہاں ہاں میں نے کب انکار کیا ہے،لیکن تو نے اتنی جلدی فیصلہ کیسے کرلیا۔ابا سے پوچھا نہ اماں سے، اور جب دبئی چلی جائے گی تو تیرے گھر کا اور باقی جائیداد کا کیا ہوگا؟”مُنے نے ڈھیٹ بن کر پوچھا۔
”تجھے کیا کہ اس کا کیا ہوگا۔وہ کوئی اتنا زیادہ بھی نہیں ہے۔جو کچھ بھی ہے میں سارا بیچ کر اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی۔”فوزیہ نے بے پروائی سے جواب دیا۔
” نہ جانے کون ہے وہ لفنگا۔ اس لفنگے کے پیچھے تو ہم سب کو یونہی چھوڑ کر چلی جائے گی؟”مُنے سے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ سونے کی چڑیا اُ ڑ جائے گی۔
”دیکھ مُنے زبان سنبھال کر بات کر ،وہ لفنگا نہیں ہے میرا ہونے والا شوہر ہے۔”فوزیہ نے اُسے ڈانٹا۔
”واہ جی واہ، باجی اس کے لیے تو اپنے خون کے رشتے سے لڑ رہی ہے؟”مُنا روکھے انداز میں بولا۔
”میں لڑ نہیں رہی تم سب کو ایک بات سمجھا رہی ہوں۔ میری بھی زندگی ہے،مجھے اس کو گزارنے کا حق ہے اور اب تم اس قابل ہوگئے ہو کہ اماں ابا کو سنبھال سکو، تو سنبھالو۔”فوزیہ نے بھی اُسی روکھے انداز میں کہااور بڑ بڑاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔باپ اور ماں خاموشی سے اس کی بات سن رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ شاید یہ سب سچ نہیں! لیکن زندگی میں بعض سچ اپنی سچائیوں سمیت ہمارے سامنے ہوتے ہیں اور ہم انہیں اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی ماننے پر تیار نہیں ہوتے،یہیں مار کھا جاتے ہیں۔
٭…٭…٭
فوزیہ نے گھر میں ہونے والی ساری گفت گو شہریار کو بتائی اور رونے لگی۔
”شہریار تمہیں کیا پتا کس طرح جھگڑا کیا ہے میرے ساتھ ان لوگوں نے۔بس اس لیے کہ میں شادی کیوں کررہی ہوں۔ میری اپنی کوئی زندگی نہیں؟میرا خوش رہنے پر کوئی حق نہیں؟”کنول سسکیاں لے رہی تھی۔
”بالکل حق ہے اور جو فیصلہ تم کرچکی ہو اس پر قائم رہنا۔”شہریار نے اس کی ہمت بڑھائی۔
”میں وہی کرتی ہوں جو میں چاہتی ہوں اور ایک بار جو فیصلہ کرلوں تو بس کوئی مجھے ہلا نہیں سکتا۔”کنول نے قطعیت اور ہٹ دھرمی سے کہا۔
” بس تم کل ہی واپس آجاؤاور اب کسی سے کوئی بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔”شہریار نے اسے سمجھایا۔
” نہیں لیکن بہت دُکھ ہوتا ہے۔یہ میرے اپنے ہیں جنہوں نے خوشی میں میرا کوئی خیال نہ کیا۔”کنول نے دکھی لہجے میں کہا۔
”سب ایسے ہی ہوتے ہیں،میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔تم بالکل فکر مت کرو۔”شہریار نے پیار سے کہا۔
”بس مجھے یہی سکون تو ہے کہ تم میرے ساتھ ہو۔”کنول نے سکون کا سانس لیا۔
”چلو اب سو جاؤ سکون سے،کل ملاقات ہوگی۔”شہریار نے کہا تو کنول نے بھی مُسکرا کر فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے کمرے میں بیٹھی سامان سمیٹ رہی تھی کہ مُنی وہاں آگئی۔اس نے فوزیہ کوسامان سمیٹتے دیکھا تو چونک کر پوچھا۔
” باجی کیا تم تیاری کررہی ہو جانے کی؟”
”ہاں صُبح میں چلی جاؤں گی،یہاں رہ کر اب کیا کرنا ہے۔کوئی میری خوشی میں خوش نہیں۔ تو میں کیا کروں؟ کل ہی چلی جاؤں گی۔”فوزیہ نے بے دلی سے جواب دیا۔
” عید بھی نہیں کرے گی؟”مُنی اس کے پاس بیٹھ گئی۔” لیکن باجی تو ہم سب کا سوچے بغیر ہی جارہی ہے۔”
”دیکھ مُنی اللہ سب کا ہے،اس نے ضرور سوچا ہوگا سب کے بارے میں۔ میرا کام جہاں تک تھا میں نے کرلیا، اب مُنا سنبھالے۔”فوزیہ نے اسے سمجھایا۔
” باجی تو اتنی بے دید تو کبھی نہ تھی۔”مُنی نے شکوہ کیا۔
”مُنی بعض اوقات انسان کو بے دید ہونا پڑتا ہے، اپنی خاطر نہیں سب کی خاطر۔اگر میں اس وقت مُنے پر یہ ذمہ داریاں نہیں ڈالوں گی تو وہ کبھی بھی کام کرنے کے قابل نہ ہوگا،لیکن میں آتی جاتی رہوں گی۔”فوزیہ نے رسان سے کہا۔
”تو پھر سوچ لے باجی۔”مُنی نے اصرار کیا۔
”سوچ لیا مُنی،پہلی دفعہ اپنے بارے میں سوچا ہے۔بس تو اپنی باجی کے لیے دعا کر۔”فوزیہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی کہ اچانک اس نے ایک خواب دیکھا۔خواب میں وہ شہریار کے ساتھ دبئی کے ایک شاپنگ مال میں گھوم رہی تھی۔بڑی اچھی زندگی گزارتے ہوئے پریشان سی ہوئی اور اچانک اسے محسوس ہواجیسے کسی نے اس کی گردن دبائی ہے،اور اسی لمحے مُنا کمرے میں داخل ہوکر اس کی گردن دبا رہا تھا۔فوزیہ نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔اس کے خواب میں شہریار کا چہرہ آیا، ادھر مُناآگیا اور آخر کار سب کچھ سیاہ ہو گیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});