اگلے دن وہ شہریار کے گھر پہنچی۔سارا کھانا اسی نے تیار کیا تھا۔اب سب کھانا کھانے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے۔کنول نے شہریار کی ماں کے آگے کارن سوپ رکھا ۔ماں اسے دیکھ کر مُسکرائی اور پیالہ آگے کھسکا لیا۔
” آج تو میری بیٹی نے اتنا ٹائم کچن میں گزارا، تھک گئی ہوگی۔”
”ارے نہیں ماما۔”کنول کو احساس ہوا کہ وہ ماما کہہ بیٹھی ہے۔اس نے فوراً اپنی تصحیح کی۔ ”سوری آنٹی۔”
شہریار کی ماں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی۔”تم مجھے ماما کہہ سکتی ہو۔”کنول نے اُن کے ہاتھ پر پیار سے بوسہ دیا۔
”تھینک یو ماما آپ نے مجھے اس قابل سمجھا۔”
”تم میرے اور شہریار کی نظر سے دیکھو تو جانو کہ تم کس قابل ہو؟”ماں نے کہا۔
کنول نے شکر گزار نظروں سے ماں بیٹے کو دیکھا پھر شہریارکی ماں کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”چلیں خواتین اب جذباتی سین بعد میں create کیجئے گا،کھانا کھائیں مجھے بہت زوروں کی بھوک لگی ہے۔”شہریار نے اپنے آگے پلیٹ سجاتے ہوئے کہا۔
ماں کنول کی طرف دیکھ کر مُسکرائی۔”تم ہم دونوں ماں بیٹیوں کے پیارسے کیوں جل رہے ہو؟”
شہریار نے سوپ کا ایک چمچ منہ میں بھر کر رکھا اور منہ جلا لیا۔”میں نہیں جل رہا بلکہ میری زبان چل چکی ہے۔اُف کتنا گرم سوپ بنایا ہے۔”
”سوپ ہمیشہ گرم ہی ہوتا ہے مسٹر! تعریف نہیں کرسکتے تو تنقید بھی مت کریں۔”کنول نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”کیا تعریف کروں،پہلے چمچ پر ہی زبان جل گئی۔”شہریار نے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے کہا۔
” شہریار مت تنگ کرو میری بیٹی کو۔”ماں نے شہریار کو ڈانٹا پھر کنول سے مخاطب ہوئی۔” یقین کرو کنول سوپ بہت مزے کا بنا ہے،میں تو اب کوکنگ کرتی نہیں۔شہریار کے فادر کھانے کے بہت شوقین تھے۔اصرار کرکرکے چیزیں بنوایا کرتے تھے۔ ان کے بعد تو جیسے کچن میں جانے کی ہمت ہی نہیں رہی،لیکن کھلاؤں گی تمہیں کسی دن اپنے ہاتھ کا کھانا۔”
”ابھی تو آپ یہ رائس لیں۔”کنول نے ڈش آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
ماں نے ایک لقمہ منہ میں ڈالااور پھر اپنے ہاتھ ہاتھ میں پہنا ہوا کنگن اس کے ہاتھ میں پہنا دیا۔”بہت مزے کے ہیں چاول،یہ لویہ تمہارا انعام۔”
”یہ کیا؟”کنول نے حیرانی سے انہیں دیکھااور پھر ایک نظر کنگن پر ڈالی۔
”ہمارے ہاں روایت ہے کہ جب کوئی بیٹی اچھا کھانا کھلاتی ہے تو اُسے کوئی نہ کوئی انعام دیتے ہیں۔”ماں نے وضاحت کی۔وہ بہت حیرانی سے کلائی میں کنگن پہنے ہوئے بیٹھی تھی اور بہت حیران سی ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔اتنی محبتوں کا تو اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ہمیشہ اپنوں کو دیتی آئی تھی کسی سے تحفے کا تصور اس کے لیے بالکل نیا تھا۔وہ تشکر آمیز نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کھانے سے فراغت اور کچھ دیر مزید شہریار اور اس کی ماں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعداس نے ماں سے اجازت چاہی۔شہریار اُسے گھر چھوڑنے جارہاتھا۔ دونوں بہت خوش تھے اور ایک دوسرے سے خوش گپیاں کررہے تھے۔
”تم انگلش سونگ سنتے ہو؟”کنول نے پوچھا۔
” ہاں لیکن کبھی کبھار جب سٹریس میں ہوتا ہوں،اورجب خوش ہوتا ہوں تب غزلیں سنتا ہوں۔”شہریار نے کندھے اُچکاتے ہوئے بڑے مزے سے جواب دیا۔
”غزلیں کس قسم کی؟”کنول نے پوچھا۔
”مجھے ہر قسم کی غزل پسند ہے۔”شہریار نے جواب دیا۔
کنول نے ڈیش بورڈ میں اس کی کلیکشن چیک کی پھر ایک سی ڈی لگا دی۔گاڑی میں میڈم نور جہاں کی آواز گونجنے لگی۔
میں تیرے سنگ کیسے چلوں ساجنا
تو سمندر ہے میں بادلوں کی ہوا
”یہ بہت خوب صورت غزل ہے،میں اکثر سنتا ہوں۔”شہریار نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔
”ہاں ایک وقت میں بھی یہ بہت گنگناتی تھی۔”کنول نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”تم اب بھی گنگنا سکتی ہو۔”شہریار نے سی ڈی پلیئر کی آواز آہستہ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔”کنول نے قطعیت سے کہا۔
”کیوں ؟”شہریار اس کے ایسے انداز پر حیران رہ گیا۔
”کبھی کبھی صرف سُننا اچھالگتا ہے۔”کنول نے مسکرا کر کہا۔
”میری خاطر بھی نہیں؟”شہریار نے بہت مان سے پوچھا۔
”تمہاری خاطر تو سب قربان یار۔”کنول نے بڑے مزے سے اس کی طرف دیکھ کر کہا،پھر وہ خوب صورت آواز میں اس کی طرف دیکھ کر گنگنانا شروع ہوگئی۔
شہریار مدہوش ہوکر اسے دیکھنے لگا۔وہ اتنا مگن تھا کہ سامنے سے آتی گاڑی سے ٹکر ہوتے ہوتے رہ گئی۔کنول پریشان ہوکر چیخی۔
”اُف سامنے دیکھو شہریار،ابھی ہم دونوں ختم ہوگئے تھے۔”
”یہ تو اور اچھا ہوتا پھر کوئی جدائی نہ ہوتی درمیان ۔”شہریار اس پریشانی میں بھی ہنسا۔
”جی نہیں ابھی میں نے بہت سے کام کرنا ہیں۔”کنول نے ناراض ہو کر کہا۔
”کیسے کام؟”شہریار مسکرایا۔
” شادی نہیں کرنی؟ اس سے پہلے شادی کی شاپنگ۔”کنول نے بات بدلی،پھر بولی۔”یہ بتاؤ شادی کی شاپنگ نہیں کرواؤ گے؟”
”جب کہو۔”وہ فوراً تیار ہو گیا۔
”ابھی!”کنول نے کہا۔
” ابھی؟اس وقت؟”شہریار نے گھڑی کی طرف دیکھا۔
”کیا ہوا ؟ساری مارکیٹ ہی کھلی ہے۔”کنول نے گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
”چلو تم بھی کیا یاد کرو گی،ابھی چلو۔”شہریار بھی مان گیا۔
”ایک بات بتاؤ،کیا تم شادی کے بعد بھی میری ساری باتیں یونہی مانو گے؟”کنول نے کچھ سوچ کر پوچھا، اُسے کچھ پرانی باتیں یاد آگئیں تھیں۔
”یار اب تمہیں کیسا خوف ہے؟”شہریار نے پریشانی سے پوچھا۔
”یار ڈرتی ہوں، مرد بہت جلد بدلنے والی مخلوق ہے۔پتا ہی نہیں چلتا کب خود کو بدل کر آپ کو حیران کردے۔”کنول نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
شہریار یک دم غصے میں آگیا،اس نے گاڑی کو بریک لگا دی۔”میں تم سے شادی نہیں کروں گا۔”
”ارے واہ اتنی جلدی بدل گئے؟”کنول نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
”جب تک تم خود کو نہیں بدلو گی میں شادی نہیں کروں گا۔”شہریار نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔
”میں خود کو کیسے بدلوں؟”کنول نے نفی میں سر ہلایا۔
”تم کو میرا اعتبار کرنا پڑے گاورنہ کیسے گاڑی چلے گی یار۔”شہریار نے زچ ہو کر کہا۔
”اعتبار ہے،بہت اعتبار ہے لیکن پچھلے اعتبار کی ٹوٹی کرچیاں کبھی کبھی بہت چبھتی ہیں۔” کنول کے لہجے میں بہت دکھ تھا۔
”انہیں پھینک دو اُٹھا کر،ماضی کو یاد رکھنے کا مطلب حال کو خراب کرنا اور مستقبل کو برباد کرنا ہے۔” شہریار نے اس کا چہرہ پنی طرف کیا۔”میری طرف دیکھو،دیکھو میری طرف،کیا اتنے برسوں میں میں ابھی تک تم پر اپنے اعتبار کا رنگ نہیں چڑھا پایا؟یہ بے نام رشتہ جو برسوں سے ہمارے درمیان ہے،کچھ تو ہے اس بے نام رشتے میںجس کو اب نام ملنے جارہا ہے۔”شہریار نے اسے سمجھایا۔ اس کے لہجے میں کنول کے لیے بہت محبت تھی۔
”اچھا بس کردو اور چلو شاپنگ کرواؤ مجھے۔”کنول بہ مشکل بولی۔
شہریار اس کی حالت دیکھ کر دل کھول کر ہنس دیا۔”ہا ہاہا!اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتیں۔”
”کیا مطلب؟”کنول اس کی بات پر حیران رہ گئی۔
”کچھ نہیں، اتنی گاڑھی اردو تمہیں سمجھ نہیں آنی۔”شہریار نے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔کنول بھی اس کی بات پر ہنس پڑی۔
تھوڑی دیر بعد شہریار نے گاڑی ایک بڑے سے شاپنگ مال کے آگے روک دی اور وہ دونوں گاڑی سے باہر نکل آئے۔
٭…٭…٭
فوزیہ کے سب بہن بھائی ایک کمرے میں باپ کے پاس بیٹھے لڑ رہے تھے۔بڑا بھائی رحیم بھی آچکا تھا۔اس کی بیوی نے ایک نیافساد اُٹھایا ہوا تھا۔
” ابا میں تو حیران رہ گیا اس کی دولت دیکھ کر۔کیا گھر تھا،کیا گاڑی تھی۔”رحیم نے باپ سے کہا۔
”ہاں میں نے بھی دیکھا کل وہ پروگرام بھائی۔ہمیں تو مانگنے کے بعد ذلیل کرکے دیتی ہے اور خود کیسے مہارانیوں کی طرح زندگی گزار رہی ہے ۔”مُنا بھی نفرت کے مظاہرے میں پیچھے نہ رہا۔
ماں نے مُنے کو ڈانٹا۔”نہ تم لوگ ہمیشہ ناشکرے رہنا،کتنا کیا ہے تم لوگوں کے لیے اس نے مگر تم کبھی خوش نہ ہونا۔”
” کیا کیا ہے اس نے؟جب مانگا جتا کر دیا،بغیر مانگے کبھی نہ دیا۔”رحیم ماں سے لڑنے لگا۔
”تو تو بول ہی مت، تیرے بچوں کا پورا خرچہ اس نے اُٹھایا ہوا تھا۔پڑھائی سے لے کر کھانے پینے سب کا خرچہ وہ کررہی تھی۔”ماں نے رحیم کو آئینہ دکھایا۔
”نہ پھوپھو تھی بچوں کی کردیا تو کیا ہوا۔”رحیم نے ڈھٹائی کا مظاہر ہ کیا۔
”تجھے تو کبھی توفیق نہ ہوئی۔بھائی ہونے کے ناطے توکبھی بہن سے پیار سے ہی بات کر لے۔”ماں نے طنز کیا۔
”اپنی شاپنگ دیکھی تو نے کیسے کررہی تھی۔ کیا کمرہ تھا؟کیا ٹی وی تھا؟اور ہماراگھر دیکھ۔ کیسا ٹوٹا پھوٹا ہے۔”رحیم کو فوزیہ کا سارا انٹرویو زبانی یاد تھا۔
” بس شکر گزار نہ ہونا اللہ کا کہ گاؤں سے اُٹھا کر تمہیں یہاں لا بسایا، رہنے کو چھت دے دی۔ بس ہمیشہ روتے رہنا۔”باپ نے بھی کھانستے ہوئے لڑائی میں حصہ ڈالا۔
”او ابا بس کر دے تو بھی نا کبھی ایک بات نہ کرنا۔”رحیم نے بدتمیزی سے کہا۔
” نہ میں نے بالکل صحیح بات کی ہے۔ تم سب مل کر اس کے پیچھے پڑے رہتے ہو۔”امام بخش اپنی بات پر قائم رہا۔
”اماں لگتا ہے وہ اس بار ابا کو لمبا نوٹ دے کر گئی ہے۔”رحیم نے طنز کیا۔
”او بکواس مت کر رحیم ایسی باتیں کرکے تو کیا ثابت کرنا چاہتا ہے کہ میں اس کی کمائی کا بوجھ اتارتا ہوں؟میری بیٹی ہے، معافی مانگ لی ہے اس نے۔”امام بخش نے غصے سے کہا۔
” اور تو نے معاف کردیا، واہ ابا واہ۔”رحیم غصے میں کھڑا ہو گیا۔اسما نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا تو پھر بیٹھ گیااور بولا۔” چل ٹھیک ہی کیا لیکن اس سے پوچھ تو صحیح اتنی جائیداد تو اس نے بنائی ہے اس کا حساب کتاب کس کے پاس ہے۔”
” جس کے پاس بھی ہو،تجھے کیا۔”امام بخش نے نروٹھے انداز میں کہا۔
”دیکھ ابا تو نہیں پوچھے گا تو میں خود پوچھ لوں گا۔میں اسے اپنے پیسے برباد نہیں کرنے دوں گا۔” رحیم نے بڑے ٹھسے سے کہا۔
”او جا جو کرنا ہے کر لے، میرے متھے مت لگ۔”امام بخش نے یہ کہہ کر کروٹ لی اور منہ دوسری طرف کر لیا۔ دونوں بھائی اس کمرے سے منہ بناکر باہر نکل آئے۔
٭…٭…٭
شہریار اور کنول اسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔وہ دونوں بہت خوش نظر آرہے تھے۔کنول نے سکون کا ٹھنڈاسانس لیتے ہوئے کہا۔
”میں بہت خوش نصیب ہوں۔”
”وہ کیسے؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”مجھے تم جیسا ساتھی ملا۔”کنول اس کی طرف دیکھ کر مُسکرائی۔
”جب مکمل ملے گا تو تب کہنا۔”شہریار بھی ہولے سے مُسکرایا اور اسے چھیڑا۔
”کیا اس وقت آسمان سے تارے توڑ کر لاؤ گے؟”کنول نے ہنس کر اس کا مذاق اُڑایا۔
شہریار اس طرح مذاق اُڑانے پر ناراض ہوگیا۔”لو! تارے کیا معنی رکھتے ۔جب میں آفس سے آؤں گا تو تم تیار رہنا،چائے وغیرہ پی کر باہر نکل جایا کریں گے لیکن شرط ہے کہ چائے پر کوئی اچھی سی چیز بنانا اور بہت اچھا سا تیار رہنا۔”
”ہاہاہاپھر؟”کنول نے پھر شرارتی لہجے میں پوچھا۔
” پھر جب بچے ہوں گے تو ان کے ساتھ خوب گھومیں گے لیکن بچوں میں پڑ کر مجھ سے غافل مت ہو جانا۔”شہریار مستقبل پلان کیے بیٹھا تھا۔
” ہاہاہا، کبھی نہیں۔ پھر؟”کنول نے پوچھا۔
جیسے کوئی بات کہتے کہتے رُک گیا،پھر تھوڑی دیر بعد بولا۔”پھر یہ کہ کبھی کبھی مجھے اپنی بیٹی بہت یاد آتی ہے۔”
یہ بات سن کر کنول کو بھی اپنا بیٹا یاد آگیا اور وہ بھی خاموش ہو گئی،تھوڑی دیر بعد آہستہ آواز میں بولی۔” مجھے بھی اپنا بیٹا یاد آتا ہے،اکثرمیں سو جاتی ہوں تو وہ رو کر مجھے اٹھا دیتا ہے۔”
”میں ایک بات کہوں؟”شہریار نے کچھ سوچ کر کہا۔
”ہاں کہو۔”کنول نے فوراً کہا۔
” میں اپنی بیٹی کو تو نہیں لا سکتا مگر شادی کے بعد ہم اپنے بیٹے کو بھی عدالت کے ذریعے اپنے پاس لے آئیں گے۔”شہریار نے اپنا پلان اسے بتایا۔
” شہریار… تم…”کنول اتنی حیران ہوئی کہ ہکلانے لگی۔
”ہاں میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔”شہریارنے قطعیت سے کہا۔” جس بات سے تمہیں خوشی ہوتی ہو، اس سے میں خوش۔”
”ماما بالکل ٹھیک کہتی ہیں۔”کنول پر سکون انداز میں مسکرائی۔
”کیا؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہی کہ تم بالکل اپنے بابا جیسے ہو،بڑے دل والے ۔”کنول نے مسکرا کر جواب دیا۔
”دل بڑا ہے جب ہی تو تم اس میں ہو۔”شہریار نے اسے یقین دلایا۔
”اللہ کرے میں تمہارے دل میں ساری عمر رہ سکوں۔”کنول نے آسمان کی طرف دیکھ کر دعا مانگی۔
”کوئی شک ہے؟”شہریار نے پوچھا۔
”نہیں اب تو اعتبار آیا ہے تو شک کی گنجائش نہیں رہی۔”کنول نے مسکرا کر کہا تو شہریار بھی مسکرانے لگا۔
٭…٭…٭
ٹی وی پر بار بار نیوز چل رہی تھی کہ کنول بلوچ شادی کرنے والی ہے اور شادی کے بعد وہ انڈسٹری چھوڑ دے گی۔تمام گھر والے یہ فوٹیج بار بار دیکھ رہے تھے اور حیران تھے۔
” دیکھ لے ابا یہ اپنا ہر فیصلہ خود کرلیتی ہے،کسی سے پوچھتی بھی نہیں۔”مُنا بہت نفرت اور غصے سے بولا۔
” ارے جا سب جھوٹ ہوگا یہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔میری بیٹی بڑے سے بڑے کام کرے لیکن شادی مجھے بتائے بغیر نہیں کرے گی۔”امام بخش کو یقین نہیں آرہا تھا۔
” تو پوچھ تو صحیح اس سے فون کرکے۔”مُنے نے باپ کوبڑھاوا دینے کی کوشش کی اورکنول کا فون ملانے لگا۔امام بخش نے اسے فون ملانے سے روک دیا۔
”فون نہ کر، وہ آئے گی تو خود بتا دے گی کہ یہ سب جھوٹ ہے۔”
”اور اگر سچ نکلا تو تو کیا کرے گا؟”مُنا پھنکارا۔
”ہر بات پر پہلے سے نہ شرط لگایا کرو۔ اس سے بات کرنے دو مجھے ،پھر دیکھتے ہیں اور چل چل جا کام کر اپنا۔”امام بخش نے یہ کہہ کر بات ختم کردی۔مُنا منہ بنانے لگا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});