باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

”مردوں کی طرف سے کتنا سپورٹ ملی؟” سمیع نے پوچھا۔
”میں کہہ سکتی ہوں میرے ماں باپ نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔ دوستوں نے خاصی طور پر ایک دوست ریحان جو پروگرام دیکھ رہا ہو گا اس کی بہت سپورٹ رہی اور بھی بہت سے دوست مرد ہیں جنہوں نے سپورٹ کی میری،میں سب کی شکرگزار ہوں۔”کنول نے کیمرے میں دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔
”یہ بتائیں آپ کبھی گانا گاتی، کبھی ڈرامہ کبھی اینکر،دراصل آپ بننا کیا چاہتی ہیں؟”
”میں کسی ایک کام کی چھاپ نہیں ڈالنا چاہتی خود پر۔بس انٹرٹین کرنا چاہتی ہوں لوگوں کو۔” کنول نے ہنستے ہوئے کہا۔
” آپ کی شادی میں لوگوں کو بہت دل چسپی ہے اس لیے یہ بتائیں کہ شادی کس سے کریں گی؟” سمیع نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
” کوئی ملا ہی نہیں آج تک۔”کنول نے منہ بنا کر کہا پھر بولی۔”ساتھ دینے والے دعویٰ تو بہت کرتے ہیں مگر اب سوچ رہی ہوں کسی نہ کسی پر اعتبار کر ہی لیا جائے۔”
”کبھی کسی مرد پر crush ہوا؟”سمیع نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
”بہت سے لوگ جن سے crush ہوا لیکن بعد میں اپنی پسند پر دکھ ہوا کہ کیا پاگل پن کیا ہے میں نے۔ جب شادی تک بات آئی تو وہ بھاگ گئے مگر اب سوچتی ہوں اعتبار کر کے دیکھا جائے۔” کنول نے مفصل جواب دیتے ہوئے کہا۔
اسی طرح کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے چار گھنٹے میں انٹرویو مکمل ہوا۔وہ بہت خوش تھی کہ اس نے ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس کو اپنا انٹرویو دیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جس وقت کنول بلوچ کی پہلی شادی کے متعلق بریکنگ نیوز آئی اس وقت وہ ایک بزنس مین خضر حیات کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھی ہوئی تھی۔ریسٹورنٹ میں لگی ہوئی LCD پر ٹی وی پروگرامز چل رہے تھے۔ دونوں ہنسی مذاق کررہے تھے۔
”کنول تم نے خود کوبہت maintainکرکے رکھا ہے۔”خضر حیات نے توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”خضر صاحب میں صرف بیس سال کی ہوں،آپ کیا مجھے چالیس سال کا سمجھتے ہیں۔ ”کنول نے برا مانتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں نہیں میں تو بس ایسے ہی تمہاری تعریف کررہا تھا۔”خضر حیات نے فوراً گھبراتے ہوئے وضاحت پیش کی۔
”اگر ہم اپنا خیال نہ رکھیں تو لوگ ہمیں دو بچوں کی ماں سمجھیں،یہ سب ہمیں کرنا پڑتا ہے۔”کنول نے ‘کرنا پڑتا ہے’ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”خیر یہ باتیں چھوڑیں،کھانا کھائیں اب۔”خضر نے کہا۔
وہ چاول کا چمچ منہ میں ڈالنے ہی لگی تھی کہ ریسٹورنٹ کی دیوار پر لگی LCDپر اس کی شادی رپورٹ چلنے لگی۔ اسکرین پر بار بار بریکنگ نیوز کے انداز میں فلیش ہوتی ہوئی اس کی خبر چل رہی تھی۔ اس کی نظریں ہکا بکا سی ٹی وی سکرین پر جیسے جم سی گئیں۔ ساتھ بیٹھے ہوئے خضر حیات نے بھی وہ پوری رپورٹ سنی اور بڑی عجیب سی نظروں سے اسے تکنے لگا۔ دیگر لوگ اُسے مُڑ مُڑ کر دیکھنے لگے،لیکن وہ صرف اپنے بچے کی تصویر دیکھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
٭…٭…٭
ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی جوفوزیہ کے گھر والے بھی حیران پریشان سے دیکھ رہے تھے۔
”سوشل میڈیا پر خود کوکنول بلوچ کہلوانے والی اصل میں فوزیہ بتول ہے اور جو شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں بھی ہے۔ یہ نکاح نامہ جو آپ کو سکرین پر نظر آرہا ہے یہ کوٹ ادو کے رہائشی عابد کا ہے جس سے فوزیہ بتول کی 2008ء میں شادی ہوئی اور اس سے ایک بیٹا بھی ہے۔ عابد کے مطابق فوزیہ کی بے جا فرمائشوں اور میڈیا میں کام کرنے کی ضد سے یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔”
تمام گھر والے یہ خبر سُن کر ہکّا بکّارہ گئے۔
”د یکھ لے ابا میں غلط نہیں کہتا تھا،یہ گُل کھلایا ہے تیری بیٹی نے۔ تو بیٹی بیٹی کرتا تھا نا،تھوک رہی ہے آج دنیا۔” رحیم نے نفرت سے کہا۔
امام بخش سر جھکائے بیٹھا رہااور بہت مشکل سے بولا۔”او! آنے تو دے اس کو، بات کرتا ہوں میں۔”
”او! تو کیا بات کرے گا اب؟ جب میں کہتا تھا تو کان بند تھے تیرے۔” رحیم باپ سے شدید بدتمیزی کر رہا تھا۔
”تو بھائی تھا پیسے لیتے وقت تو بہت آگے آگے ہوتا تھا،تو ہی کبھی دیکھتا جاکر۔”ماں نے آگے بڑھ کر فوزیہ کا دفاع کیا۔
” تو نے دیکھا نہیں ماں کیسے بات کرتی تھی مجھ سے؟ میں کون ہوتا ہوں اس سے پوچھنے والا۔” رحیم نے پلٹ کر ماں کی بات کا جواب بہت غصے سے دیا۔
”تو پیسے بھی کیوں لیتا تھا؟”ماں نے بھی اسی انداز میں سوال پوچھا۔
”تیری بیٹی بڑی چالاک ہے،اس گھر میں تم دونوں کی خدمت کے لیے رکھا تھا مجھے،مگر سُن لے! اور نہیں رہنا اس بے غیرتی کے جنجال میں۔”رحیم نے غصے سے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بات ختم کی پھرباپ کی طرف مُڑ کر انگلی اُٹھا کربولا۔” ابا سُن لے!میں جارہا ہوں یہاں سے۔”
باپ بھی غصے میں آگیااور ناراضی سے بولا۔”جا جا دھمکی کس کو دے رہا ہے؟ویسے بھی تیرے ہونے نہ ہونے سے کیا فائدہ؟”
”وہ تو وقت بتائے گاکیا فائدہ ہے۔”رحیم غصے میں اس کو گھورتا ہوابولا۔
” ہاں ہاں دیکھ لیں گے تیرے بغیر کوئی نہیں مرتا۔ تم سب بہن بھائی اپنا اپنا سامان اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے۔ہم دونوں کے لیے گاؤں والا مکان ہی کافی ہے۔کرلوں گا کچھ نہ کچھ۔”امام بخش غصے میں چیخ رہا تھا۔اسے ایک دم کھانسی کا دورہ پڑا۔
”تو اس حالت میں کیا کرے گابول؟” رحیم نے اس کی ٹانگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنز کیا۔
”ٹانگیں گئی ہیں بیساکھیاں ہیں ابھی،کر لوں گا کچھ نہ کچھ۔ تو جا مر جا کہیں جا کر۔ نہیں ضرورت تیری یا کسی کی بھی۔”امام بخش نے غصے سے جواب دیا۔ فوزیہ کی ماں نے شوہر کے منہ سے پانی کا گلاس لگایا اور بولی۔
”پانی پی لے،اور رحیمے! تو جا اس وقت۔”
”یہ تو وقت بتائے گا کہ تم سب کو میری کتنی ضرورت ہے اور اماں اپنی بیٹی کو بھی سمجھا دینا۔” رحیم نے ماں باپ پر نظر ڈالی کندھے پر رومال ڈال کر باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
شہریار نے بھی حلیمہ کے ساتھ ٹی وی پر یہ خبر سن لی تھی اور وہ سخت دکھی تھا۔اس نے اُٹھ کر ٹی وی بند کر دیا۔ حلیمہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔انہوں نے اُسے دُکھی دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ دونوں کے چہروں سے ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں اس خبر سے بہت صدمہ پہنچا ہے۔دونوں کے درمیان تھوڑی دیر خاموشی رہی۔
”یہ سب کیا تھا شہریار؟”حلیمہ نے بہت مشکل سے پوچھا۔
”میں بھی یہی سوچ رہا ہوں ماما! یہ سب کیا تھا،وہ جو اس نے بتایا تھا یا یہ سب؟اس میں سچ کیا ہے؟” شہریاربہت دُکھی انداز میں بولا،اس کا لہجہ تلخی بھرا تھا۔
”کیا کبھی اس نے تم سے اپنی شادی یا بچے کا ذکر نہیں کیا؟”حلیمہ نے سوال کیا۔
”کبھی نہیں ماما،افسوس تو یہی ہے کہ اس نے اتنی بڑی بات مجھ سے کیوں چھپائی؟” ٹھنڈی سی سانس بھر کر کہا اور ماں کے پاس سے اُٹھااوربہت اُداسی سے کمرے سے چلا گیا۔حلیمہ اس کی پشت تکتی رہ گئیں۔
٭…٭…٭
کنول ریحان کے لیے کافی بنا کر لائی۔ٹی وی پر ابھی بھی وہی رپورٹ چل رہی تھی۔رپورٹر اس کے بچے سے بات کر رہا تھا۔ریحان یہ سب دیکھ کر شدید غصے میں آیا ہوا تھا۔
”کنول میں اسی لیے تم کو منع کرتا تھا کہ ان سے دور رہو۔ یہ تمہیں الجھا کر تمہاری پرانی زندگی کو کھود نکالیں گے،اب دیکھ لیا؟”ریحان نے شکوہ کیا۔
” ریحان میں ان سے نہیں الجھی بلکہ اب تو لگتا ہے میری قسمت ہی اُلجھ چکی ہے مجھ سے۔” کنول تلخی سے مسکرائی اور طنزیہ انداز میں بولی۔
” قسمت کو الزام نہیں دے سکتیں تم،سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔”ریحان نے اسے ڈانٹا۔
”تمہیں معلوم ہے ریحان ہم سب پُتلی تماشا کا کردار ہیں۔”کنول نے خلاؤں میں گھورتے ہوئے جواب دیا۔
ریحان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اُسے ڈانٹا۔” بس بس رہنے دو اپنا یہ فلسفہ ،تم اپنے کیریئر کے جس سٹارٹ پر تھیں ،کیا ضرورت تھی اتنا کھلا ڈُلاانٹرویو دینے کی۔”
”دیکھو ریحان میرا بیٹا کتنا بڑا ہوگیا اور کتنا پیارا بھی۔” کنول ٹی وی پر چلتے ہوئے پروگرام کی طرف دیکھ کر اُداسی سے مُسکرائی۔
اتنے میں کنول کے فون کی بیل بھی بج اُٹھی،اس نے فون اُٹھایااور ہیلو کہا۔
دوسری طرف سے کوئی رپورٹر تھا۔” مس کنول ہم احساس نیوز سے بات کررہے ہیں۔ابھی جو خبر چل رہی ہے اس کے بارے میں آپ کا مؤقف جاننا چاہتے تھے۔”
”میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی شکریہ۔”وہ بہت تلخی سے بولی اور فون بند کردیا۔
ابھی اس نے فون رکھا ہی تھا کہ دوبارہ فون بج اُٹھا اس بار بھی کوئی رپورٹر تھا۔
” مس کنول میں آج کی نیوز کے بارے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں پلیز آپ بتائیں گی آپ نے اپنے بارے میں جھوٹ کیوں بولا؟”
”سوری! مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا۔”کنول نے یہ کہہ کر فوراً کال کاٹ دی۔
” بھگتو اب بتاؤ کس کس کو جواب دو گی؟یہ ساری خبریں گاؤں تک بھی پہنچ چکی ہوں گی،بلکہ سوچو ذراشہریار اور اس کی ماں نے خبر دیکھی ہوگی ۔”ریحان نے غور سے یہ سب دیکھتے ہوئے بہت تاسف سے سر ہلایا۔
”تو… تو کیافرق پڑتا ہے؟”کنول تلخی سے ہنسی اور کندھے اُچکائے اور بولی۔”اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتاریحان۔کسی کے زندگی میں رہنے یا چلے جانے،برا سمجھنے یا اچھا سمجھنے سے کوئی فرق نہیں پرتا۔”
٭…٭…٭
مُنا اپنے دوستوں کے ساتھ گلی کے نکڑ پر بیٹھا تھا۔ ایک دوست کے ہاتھ میں موبائل تھاجس پر وہ کنول کے انٹرویو والی فوٹیج دیکھ رہا تھا۔دوست نے حیرانی سے فون مناکی طرف بڑھایااور چٹخارہ لے کر بولا۔
”دیکھ منا یہ تو تیری باجی کی خبر ہے۔ تو نے بتایا ہی نہیں تیری باجی تو بڑی کمال کی چیز ہے۔”
” دیکھ زبان سنبھال کر بات کر ورنہ…”مُنے نے زور سے موبائل پر ہاتھ مارا۔
”کیوں تیری بہن کی بات کی تو تجھے غصہ آگیا؟ دوسروں کی ماں بہن کوراہ چلتے چھیڑتا ہے تو غصہ نہیں آتا؟”دوست نے اس کا مذاق اُڑایا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو مُنے نے کندھے سے ہاتھ جھڑ ک دیا۔
”ویسے یار کہہ تو یہ ٹھیک رہا ہے ،تواپنی بہن کو سمجھاتا کیوں نہیں؟”دوسرا دوست بولا۔
”تم لوگ اپنی بکواس بند رکھو۔”منے نے دوستوں کو ڈانٹا۔
”کیوں اپنی بہن کی بات آئی تو بکواس بند رکھو۔”پہلے دوست کو منے کے اس انداز پر غصہ آگیا تھا۔
”میں تیرا منہ توڑ دوں گا، اب اگر تو نے کچھ کہا۔”منے نے آگے بڑھ کر اس کے منہ کو دبوچنے کی کوشش کی۔ دوست نے جھکائی دے کر خود کو بچایا۔
”ہاتھ لگا کر دیکھ ہاتھ توڑ دوں گا سالے۔” یہ کہہ کر وہ مُنے کے اوپر پل پڑا اور دونوں دوستوں نے مل کر اُسے خوب مارا۔
٭…٭…٭
”دیکھ رحیم ہوش کے ناخن لے۔جذباتی ہوکر کھیل مت خراب کر،ایک بار پھر سوچ لے۔” اسما رحیم کو چائے کا کپ پکڑاتے ہوئے بولی۔
”او تو رہن دے اپنی بات۔شرم آرہی ہے مجھے لوگوں کا سوچ سوچ کر۔کس منہ سے میں صبح لوگوں کے درمیان جاؤں گا۔”رحیم نے غصے میں بلبلاتے ہوئے اسما کو جھڑکا۔
”اسی منہ سے اور کس منہ سے۔اپنا اور اپنے بچوں کا سوچ۔آج اس گھر سے چلے جانے کا مطلب ہے کہ پھر ہمارے نصیبوں میں یہ عیش کہاں ہوں گے؟” اسما نے رحیم کو سمجھایا۔
”کون سے عیش؟کیسے عیش؟ باتیں سنتا ہوں میںروز اماں کی،ابا کی اور جب وہ چڑیل آتی ہے تو وہ سناتی ہے۔ میرا بس نہیں چلتا کہ چھوڑ جاؤں سب کو۔” رحیم بدک کر چارپائی سے کھڑا ہو گیا اوراسما کو ایسے گھورنے لگا جیسے کچا چبا جائے گا۔
”دیکھ تو ٹھنڈا ہوکر سوچ ،یہ سب وقتی ہے۔”اسما نے رحیم کاہاتھ پکڑ کر اسے دوبارہ چارپائی پر بٹھایا۔
”اوہ بس بہت بے غیرت بن گیا میں۔اب اور باتیں نہیں سہہ سکتا۔پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ شہر میں کیا کرتی پھر رہی ہے اور رہی سہی کسر اُس عابد بے غیرت نے پوری کردی۔کیا ضرورت تھی کمینے کو وہ انٹرویو دینے کی۔”رحیم کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔
”وہ جانتا ہے تیری بہن اس وقت خوب کما رہی ہے۔بیٹے کے ذریعے وہ اس کی کمائی کھانا چاہتا ہے۔ایک بار وہ بیٹے کو دینے لگی تو بس تو اور تیرے بچے منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔”اسما نے منہ بناتے ہوئے اسے بھڑکایا۔
”اوہ! نہیں چاہیے اس کی گندی کمائی۔ اب اوربے غیرت نہیں کہلانا چاہتا میں۔تو بھی خاموش رہ،زیادہ بُڑبُڑمت کر۔دماغ خراب کرکے رکھ دیا ہے میرا۔”رحیم نے ناراضی سے کہا۔
”لے میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو تو بھڑک رہا ہے،تیرے فائدے کی بات ہے۔”اسما نے حیرانی سے کہا۔
”رہن دے فائدہ،بے غیرت نہیں ہوں میں۔”رحیم نے جواب دیا۔
”تو کیاابھی تک میرے کہنے پراپنی بہن کے ٹکڑوں پر پل رہا تھا ؟واہ جی واہ بڑی غیرت کا بخار چڑھ گیا۔”اسما نے بھڑک کر طنز کیا۔
”چل جا جا اپنا کام کر۔”رحیم نے ناراضی سے کہا تو اسما پاؤں میں چپل ڈال کر بڑ بڑاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
٭…٭…٭
مُنی فون پر اس لڑکے سے بات کررہی تھی جس کے ساتھ اس کا افیئرچل رہا تھا۔لڑکا بھی فوزیہ کی ٹی وی پر چلنے والی خبر کے متعلق ہی بات کر رہا تھا۔
” تم تو کہہ رہی تھیں کہ تمہاری باجی شہر میں بوتیک کا کام کرتی ہیں لیکن وہ تو…مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم اتنا جھوٹ بھی بول سکتی ہو۔”
”میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔”مُنی نے اپنا دفاع کرنے کی کمزور سی کوشش کی۔
”تو پھر یہ سب کیا ہے؟وہ کون ہے جس کی ویڈیو ٹی وی پر بار بار چل رہی ہے؟کیا وہ تمہاری بہن فوزیہ نہیں؟”لڑکے نے سخت لہجے میں سوال کیے۔
” نہیں… وہ… میں…”مُنی ہکلا رہی تھی۔اس سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔
”تمہاری ہکلاہٹ ہی تمہارے جھوٹ کا ثبوت ہے۔”لڑکے نے کہا،وسری طرف مُنی اسے کوئی جواب نہ دے سکی اور فون بند کردیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۰

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!