باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

شہریار نے گھر کے سامنے گاڑی روکی اور نیچے اتر کر بیل بجائی۔دروازہ اس کی ماں نے کھولا۔ شہریار نے اپنے پیچھے کھڑی کنول کوماں کے آگے کیا۔وہ بہت کنفیوز ہو رہی تھی۔ پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
”اماں ملیں کنول بلوچ سے۔”شہریار نے کنول کو ماں کے سامنے کھڑا کر دیا۔
”اوہ کنول!کیسی ہو؟”ماں نے گرم جوشی سے کنول سے پوچھا۔
”السلام علیکم!”کنول نے سلام کیا۔وہ بہت گھبرا رہی تھی۔
شہریار کی ماں نے اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے محبت سے اسے دیکھا۔
” وعلیکم السلام جیتی رہو۔”پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر محبت سے اندر کی طرف لے گئیں۔” اندر آؤ دروازے پر کیوں کھڑی ہو۔”
کنول بہت نروس تھی اور بار بار ہاتھ مسل رہی تھی ۔اتنے میں شہریار کا فون آگیا۔وہ ایکس کیوزمی کہہ کراندر کی طرف چلا گیا۔
”ہاں ہاں تم جاؤ، میں بیٹھی ہوں اپنی بیٹی کے پاس۔ ”شہریار کی ماں کے منہ سے لفظ بیٹی سن کر کنول نے چونک کر اسے دیکھا۔
” آپ نے مجھے بیٹی کہا؟”کنول نے جھجکتے ہوئے پوچھا،پھر ہاتھ مسلتے ہوئے بولی۔”پتا نہیں میں اس قابل بھی ہوں یا نہیں۔آپ کے دل میں میرے لیے کیا ہے مجھے نہیں معلوم،لیکن میں واقعی شرمندہ ہوں ۔آپ کا بیٹا خود ہی مجھ سے…”
شہریار کی ماں نے حیرانی سے اس کی بات کاٹ دی۔”تم ایسا کیوں سوچتی ہو؟”
”آپ نے میری ساری ویڈیوز دیکھیں۔”کنول نے تعجب سے دریافت کیا۔
”ہاں!”شہریار کی ماں نے کندھے اُچکاتے ہوئے بے پروائی سے جواب دیا۔
”آپ کو ذرا بُرا نہیں لگا؟”کنول نے ایک اور سوال کیا۔
”بالکل نہیں۔”شہریار کی ماں نے پھر بے پروائی سے جواب دیا۔
”مگر…”کنول کو کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی۔
”تمہیں یقین کیو ں نہیں آرہا؟اچھا آؤ میرے ساتھ۔”شہریار کی ماں نے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں کے پاس بنی ایک گیلری میں لے گئیں۔
دیوار پر ان کی شہریار کے باپ کے ساتھ کئی پرانی تصاویر لگی ہوئی تھیں اور حلیے سے ایسالگ رہا تھا کہ وہ شوبز سے تعلق رکھتی ہیں۔ شہریار کی ماں نے ایک تصویر کی جانب اشارہ کیا۔
”یہ دیکھو کنول۔”
”آپ ایکٹرس تھیں کیا؟” کنول نے حیرانی سے پوچھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ایکٹرس نہیں ایکسٹرا تھی جس کی عمر بھی بڑھ چکی تھی۔بہت پریشان رہتی تھی۔ ہمیشہ چاہتی تھی کہ اللہ مجھے اس گڑھے سے نکال دے۔ میں گڑھے میں پوری طرح گر چکی تھی پھر مجھے شہریار کا باپ ملا۔ ایک دن شوٹنگ دیکھنے آیا تھا انجینئرنگ کا طالب علم دل ہار بیٹھا مجھ پر۔”شہریار کی ماں نے اداسی سے ماضی کے جھروکے کھولے۔”پھر بار بار ملنے لگا کہتا تھا شادی کر لو سب ٹھیک ہو جائے گا،لیکن ایک ناچنے گانے والی ایکسٹرا کیسے یقین کرتی اس پر۔ اس نے ایسا اعتبار دیا کہ میں نے سوچا چانس لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ گھر میں سے کوئی تیار نہ تھا۔ سب کہتے تھے چھوڑ دے گا لیکن میں نے چانس لیا۔ افسوس بہت کم عمر کا ساتھ رہا ہمارا۔میرے بیٹے نے سنبھالا مجھے۔اس کو سب پتا ہے،سب جانتا ہے اپنی ماں کے ماضی کے بارے میں، لیکن کبھی نہیں دُہرایا۔”
شہریار کی ماں نے تھوڑی دیر توقف کیا پھر ہنستے ہوئے بولیں۔
”میں اگر شریف خاندان کی ماں ہوتی تو اس کو ڈرا سکتی تھی تم سے بدگمان کر سکتی تھی،لیکن میرے بیٹے کے خون میں وفا ہے ۔اس کے باپ نے بھی مجھ سے وفا کی تھی۔ ایک عورت اسی وفا پر ہار جاتی ہے۔”شوہر کے ذکر پر شہریار کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں عورت صرف وفا کے نام پر ہارتی ہے۔”کنول نے تلخی سے کہا۔
” تم اب اسے انکار مت کرو۔میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں اس گھر کو خوشیوں سے بھر دو۔ وہ تمہارے پیچھے پاگل ہے اور میں بس اسے خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔تم اس کی خوشی ہو۔”شہریار کی ماں نے کنول کی منت کرتے ہوئے کہا۔
” آپ نے مجھے یک دم اتنا بڑا کر دیا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی…”کنول حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساسات سے بول رہی تھی کہ اتنے میں شہریار آوازیں دیتا ہوا ادھر ہی آگیا۔اس نے پہلے تصویروں کو دیکھا پھر کنول اور ماں کو، دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔وہ سمجھ گیا کہ ماں نے اس کے جانے کے بعد کنول سے کیا باتیں کی ہوں گی۔
٭…٭…٭
شہریار اسے گھر چھوڑنے جا رہا تھا اور کنول باہر دیکھ رہی تھی۔ اس نے دوتین بار کنول کی جانب دیکھا تووہ اسے دیکھ کر مسکرا دی۔ان کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔تھوڑی دیر بعد شہریار نے اس سے پوچھا۔
” خوش ہو؟”
”بہت خوش۔”اس کی آنکھوں میں خوشی لہرا رہی تھی،پھرمُسکرا کر بولی” تمہاری ماما بہت اچھی ہیں۔”
”میں جانتا ہوں، اسی لیے تو اُن کے پاس لایا تھا۔مجھے معلوم تھا وہ تمہارے سارے شکوک و شبہات ختم کر دیں گی۔”شہریار نے ہنستے ہوئے کہا پھراحتیاطاً پوچھا۔ ”اب رہا کوئی ڈر؟کوئی وہم؟”
”وہ کیا ہوتا ہے؟”کنول بہت پُرسکون انداز میں ہنس پڑی اور سیٹ سے سرلگا لیا۔
” آج بہت اچھی لگ رہی ہو۔”شہریار نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”صرف آج؟”کنول نے شوخی سے پوچھا۔
”ہاں!کیوں کہ ہمیشہ روتی صورتیں اگر کبھی بھی ہنس دیں تو گرم دھوپ کے بعد جیسے بادل آجاتے ہیں نا،ویسے ہی اس وقت تمہارے چہرے پر بادل ہی بادل ہیں۔ ”شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اوہو!شاعری۔”کنول نے متاثر ہونے کی ایکٹنگ کی۔
”مجھے آج پتا چلا محبت میں شعروشاعری کیوں اچھی لگتی ہے۔”شہریار نے شوخ انداز میں کہا اورایک مخملی ڈبیہ اس کی طرف بڑھائی۔
”یہ لو۔”
”یہ کیا ہے؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ وہی ہے جو ایک بار تم نے لوٹا دی تھی۔”شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہ انگوٹھی تم نے اب تک سنبھال کر رکھی ہوئی ہے؟”کنول نے مارے حیرت کے چیخ اُٹھی۔
” تمہاری محبت کی طرح یقین تھا کہ یہ بھی ایک نہ ایک دن تمہاری انگلی میں ضرور سجے گی۔” شہریار نے یقین سے کہا۔
” افف تم پاگل ہو۔”کنول نے انگوٹھی تھامتے ہوئے کہا۔
” پاگل نہ ہوتا تو تمہارے پیچھے ہوتا۔رکھ لو اسے پہن لینا۔”شہریار نے ہنستے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
مُنی کاآج کل ایک لڑکے کے ساتھ افیئر چل رہا تھا اور اس وقت وہ اُس لڑکے سے بات کر رہی تھی۔ بہت دنوں تک یہ لڑکا مُنی کے فون پرمیسجزبھیجتا رہا لیکن اُس نے ان میسجز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ آخر کار ایک دن اس نے فون پر بات کر ہی لی اور اس کی آوا ز کے سحر میں گم ہوگئی۔واقعی کسی نے صحیح کہا ہے عورت دید سے نہیں شنید سے محبت کرتی ہے۔بنا دیکھے،بنا سوچے وہ کسی آواز کے سحر میں گم ہوجاتی ہے،اور آواز بھی ایسی جو اسے بنا دیکھے خوب صورت ہونے کا احساس دلائے۔ بے وقوف عورت! ہر دور میں ابن ِ آدم کے جھانسے کا شکار ہونے والی ،اس کے سب سے بڑے جھانسے’محبت’ میں پھنسنے والی بے وقوف عورت۔ شیطان دور کھڑا ہنس رہا تھا اور وہ اس کی ہنسی سے بے خبر اپنی تعریف کرنے والے کے خوب صورت الفاظ میں گم تھی۔
” سنو کچھ تو بتاؤ میں اب تک تمہارے بارے میں زیادہ نہیں جانتا۔”لڑکے نے کہا۔
”کیا بتاؤں،تھوڑا بہت تو تمہیں معلوم ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق ہے۔ میری باجی شہر میں اپنا ایک بوتیک چلا رہی ہیں۔ بھائی باہر گیا ہوا ہے پڑھنے۔”مُنی نے رٹو طوطے کی طرح یہ سب سبق دہرایا۔
”ہاں یہ سب تو جانتا ہوں مگر یہ بتاؤ باجی سے کب ملواؤ گی؟”لڑکے نے اشتیاق سے کہا۔
”ملواتی ہوں، اس بار آئیں تو تمہارا ذکر ضرور کروں گی۔”مُنی نے کہا۔
”کیا اب تک تم نے انہیں میرے بارے میں نہیں بتایا؟”لڑکے نے حیرانی سے کہا اور پھر ناراضی کا اظہار کیا۔کتنے مہینے ہو گئے ہیںہماری بات چیت کو۔”
”ایسی باتوں کے لیے ہمت چاہیے ہوتی ہے۔ ”مُنی نے بے پروائی سے کہا۔
”یار بتانے کی ہمت نہیں تو ملوانے کی ہمت کیسے آئے گی؟”لڑکا بے چین ہو رہا تھا۔
”آجائے گی تم فکر مت کرو۔” مُنی حسب معمول بے پروا انداز میں جواب دے رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا کرنا ہے۔
٭…٭…٭
کنول نے گھر کا دروازہ کھولا،اندر آکر لائٹ جلائی اور بہت خوشی خوشی جوتے ایک طرف اچھال دیے۔ دھیمے دھیمے قدموں سے اندر آکر میوزک آن کردیا۔
اب وہ ٹی وی لاؤنج میں آکر بیٹھ گئی تھی۔اس نے انگوٹھی نکال کر پہنی اور پھر لیپ ٹاپ آن کرنے کے لیے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا ،اس کا موبائل بجنے لگا۔نمبر دیکھ کر اس کے چہرے پر پتھر سے تاثرات ابھر آئے۔
”ہیلو!”کنول نے روکھے پن سے کہا۔
”باجی!” مُنا ڈرتے ڈرتے بولا۔
”ہاں بول منے اب کیا ہوا؟”کنول نے بے رخی دکھائی۔
”باجی وہ دُکان کے مالک نے دکان میں تالا لگا دیا۔”مُنے نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”کیوں؟”کنول نے چونک کر پوچھا۔
” وہ چار مہینے سے میں نے پیسے نہیں دیئے تھے۔ باجی میں خود بھی وہ دکان چھوڑنا چاہتا تھا ایک اور دکان دیکھی ہے مگر پگڑی دینا پڑے گی۔”مُنا نے رک رک کر بات کی۔
” بول کتنی پگڑی دینی ہے؟” کنول نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
”باجی تو مجھ سے ناراض تو نہیں ہے۔ دیکھ مجھے معاف کر دے۔”مُنا سمجھ گیا کہ اس کی بہن اس سے نارا ض ہے۔
”تو بول کتنے پیسے چاہئیں؟”کنول نے اس کی بات پر کان دھرے بغیر پھر وہی سوال کیا۔
”باجی تو ناراض ہے،مجھے معاف کر دے۔دیکھ میں نے نشہ اور جوا چھوڑ دیا ہے۔ قسم لے لے تو اپنی۔”مُنے نے پھر معافی مانگی۔
”منا میں پوچھ رہی ہوں پیسہ کتنا چاہیے۔”کنول نے اسے ڈانٹا۔
”یہی کوئی دو لاکھ۔”مُنا ڈرتے ڈرتے بولا۔
یہ سن کر کنو ل نے ٹھنڈی سانس بھری اور فون بند کر دیا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی اتار کر مخملی ڈبیا میں رکھ دی اور فیس بک پیج کھول کر اس پر مختلف تبصرے پڑھنے لگی۔اس کی نظر پیج پر آئے ہوئے لائیکس پر گئی ۔سات لاکھ افراد نے اس کے پیج کو لائیک کیا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر کنول اپنے حواسوں میں نہ رہی۔
٭…٭…٭
ریحان کنول سے ملنے آیاتھا اوروہ بہت اداس تھی۔کنول نے ریحان کواپنی اور شہریار کی ماں کی بات چیت کے بارے میں بتا یا۔
” شہریار کی ماما بہت اچھی عورت ہیں۔تمہیں پتا ہے انہوں نے مجھے بیٹی کہہ کر پکارا۔ اتنے پیار سے تو کبھی میری سگی ماں نے مجھے بیٹی نہیں کہا۔”
”اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ بس اب کر لے شادی ۔”ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”کیا صرف اپنے لیے سوچوں؟ صرف اپنی خوشی کے لیے؟”کنول نے خالی الذہنی کے عالم میں سوال کیا۔
”ہاں صرف اپنے لیے اپنی خوشی کے لیے، تیرے لیے کبھی کسی نے سوچا۔”ریحان نے محبت بھری نظر اس پر ڈالتے ہوئے کہا۔
”نہ سوچے کوئی،سوچنے کے لیے ہر گھر میں صرف ایک ہوتا ہے،میں ہوں ناں۔”کنو ل نے قطعیت سے کہا پھر ریحان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا۔”شادی کیسے کر لوں؟ شہریار کی کمائی تو نہیں کھلانی سب کو؟”
”دیکھ سب ہو جاتا ہے۔تیرے بعد تیرے بہن بھائی کچھ نہ کچھ کریں گے،اگر تو بھرتی رہی تیری ساری عمر اسی میں ختم ہو جائے گی۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”ہاں سوچ تو یہی رہی ہوں،لیکن مجھے ابھی آگے بڑھنا ہے،سٹار بننا ہے۔”کنول نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”تجھ میں اب سٹار والی کوئی بات نہیں،عمر دیکھ اپنی۔” ریحان نے اس کا مذاق اُڑایا تو کنول اسے ڈانٹنے لگ گئی۔
”چل چل زیادہ بکواس مت کر۔”
”میں بکواس نہیں کر رہا، آئینہ دیکھ۔”ریحان نے اسے شیشے کے سامنے کھڑا کر دیا۔
”روز دیکھتی ہوں۔”کنول ڈھیٹ انداز میں بولی۔
” آج غور سے دیکھ شہریار کی محبت تیری پور پور سے ٹپک رہی ہے۔”ریحان نے اس کے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”مجھے ملوا دے اس سے،میں تیرے گھر والوں کی طرف سے مل لیتا ہوں کنول۔”
”اچھا میرے باپ ملواتی ہوں کسی دن، ابھی میری جان چھوڑ۔”کنول نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
٭…٭…٭
”ہیلو کون؟”موبائل بجنے پر کال ریسیو کرتے ہی کنول نے پوچھا۔
”مِس کنول بلوچ میں سمیع احمد بات کر رہا ہوں۔”
”سمیع احمد؟”کنول نے نام دہرایا۔
”شاید آپ نے میرا پروگرام دیکھا ہو ”ستاروں کے درمیان” نگار نیوز پر۔”سمیع نے اپنا تعارف کروایا تو کنول حیرانی سے چلائی۔
”اوہ مائی گاڈ! آپ وہ والے سمیع احمد بات کر رہے ہیں۔”
”اس کا مطلب ہے کہ آپ نے میرا پروگرام دیکھا ہے۔”سمیع نے ہنستے ہوئے کہا۔
”جی میں تو بہت بڑی فین ہوں آپ کی۔”کنول نے اشتیاق سے کہا۔
”چلیں پھر تیار ہو جائیں انٹرویو دینے کے لیے،بڑی فرمائشیں ہیں آپ کے لیے۔”سمیع مسکرایا۔
”ضرورIt’s honour for me.” کنول خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
”پھر کب اور کہاں؟”سمیع نے دریافت کیا۔
”یہ میں آپ کو ایک دو دن میں بتاتی ہوں۔میرے ایک دوست کا فارم ہاؤس ہے اس سے پوچھ کر آپ کو وہیں لے جاتی ہوں۔”کنول نے کہا ،سمیع نے ‘اوکے’ کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
سمیع احمد اور کنول بلوچ ایک فارم ہاؤس میں آمنے سامنے بیٹھے تھے اور بڑے خوش باش نظر آرہے تھے۔
”یہ بتائیں آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
”میں دنیا کی سب سے بہترین یونی ورسٹی سے پڑھی ہوئی ہوں۔”کنول نے سنبھلتے ہوئے بات شروع کی۔ ”ہم کتابوں سے زیادہ دنیا سے سیکھتے ہیں ویسے آپس کی بات ہےBA پرائیویٹ کیا ہے۔ اسکولنگ ملتان کی ہے۔”
”مستقبل میں خود کو کہاں دیکھ رہی ہیں؟”سمیع نے اگلاسوال کیا۔
”میری آخری منزل بالی وڈ یا ہالی وڈ ہے۔ میں وہاں کام کرنا چاہتی ہوں ،آفرز بھی ہیں۔”کنول نے خلا میں تکتے ہوئے جواب دیا۔
”مشہور ہونے کے لیے سوشل میڈیا کو ہی کیوں چُنا؟”سمیع نے وہ سوال کیا جس کے جواب کا سب کو انتظار تھا۔
”میں بہت تخلیقی ہوں اور ساتھ شرارتی بھی۔کچھ الگ کرنا چاہتی تھی سو کر ڈالا۔ زیرو سے سٹارٹ کیا تھا، میں نے بہت محنت کی ،آج جس مقام پر ہوں یہ پلیٹ پر رکھ کر نہیں ملا مجھے ۔”کنول نے جواب دیا۔
”کبھی انڈیا کے کسی کھلاڑی کو پیغام محبت دیتی ہیں کبھی پاکستان کے اور کبھی فیضان خان کو you I Love، یہ بتائیں اصل محبت کس سے ہے؟”سمیع نے سوال کیا۔
” صحیح بتاؤں… فیضان خان سے سچی محبت کرتی ہوں،مگر وہ ملتے ہی نہیں۔”کنول نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۰

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!