باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

وہ مزار سے نکل کر سیدھی باہر کھڑی شہریار کی گاڑی میں آبیٹھی اور شہریار نے کار سٹارٹ کردی۔
”کر لی دعا؟”شہریارنے پوچھا۔
”ہاں۔”کنول نے گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے مختصر جواب دیا۔
”کیا مانگا؟”شہریار نے ایک اور سوال کیا۔
”کچھ دعائیں اللہ اور بندے کے درمیان ہوتی ہیں،بتائی نہیں جاتیں۔”کنول نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاہا ہا،good oneیہ بتاؤ کہاں جانا ہے؟”شہریار بھی ہنس دیا۔
”راوی کنارے۔”کنول نے اطمینان سے کہا۔
” راوی کنارے؟وہ بھی اس وقت ڈھائی بجے ؟”شہریار نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو مجھے چلّہ کاٹنا ہے نا۔”کنول نے بے تابی سے کہا۔
” چلّہ؟ وہ کس لیے؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”بھئی کالا جادو سیکھنا ہے۔میری زندگی میں کچھ سیدھا نہیں ہوتا۔کالا جادو سیکھوں تاکہ لوگوں کو تو اپنا بنا سکوں۔” کنول نے مذاقیہ انداز میں کہا۔
”جو لوگ جادو کے بغیر تمہارے ہیں انہیں تم گھاس نہیں ڈالتیں۔”شہریار نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میرے پیچھے اپنی زندگی ضائع مت کرو۔”کنول نے شہریار کے چہرے پر نظریں جما لیں۔
” ساری چیزیں چھوڑو میں ایک بزنس کروا دیتا ہوں۔”شہریار نے اسے سمجھایا۔
”یہ بات تم نے پہلے بھی کی تھی اور میں نے وہیں کہہ دیا تھا کہ میرے پیچھے لگ کر اپنی زندگی برباد مت کرو۔” کنول غصے میں آگئی۔
”میں تمہارے پیچھے اپنی زندگی برباد نہیں کررہا۔”شہریار نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”ہاں شاید،تم تو ابھی ابھی پرانے والے غموں سے ہی نہیں نکلے۔”کنول نے طنز کیا۔
”تم سے کس نے کہا کہ غم اتنی آسانی سے جان چھوڑ دیتے ہیں؟تمہارے غموں نے ساتھ چھوڑا تمہارا؟”شہریار نے اس سے سوال کیا تو وہ لاجواب ہو گئی اور تھوڑی دیر بعد بولی۔”میرے ساتھ رہ کر بکواس کرنا خوب سیکھ لی ہے تم نے۔”
”ہاہاہا!ہاں تمہاری ویڈیوز دیکھ دیکھ کر ہی سیکھا۔”شہریار نے ہنستے ہوئے کہا۔
”کار تیز چلاؤ تاکہ جلدی راوی کنارے تک پہنچ سکیں۔”کنول نے شہریار کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو اس نے ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھا دیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تھوڑی دیر بعد وہ لوگ راوی کنارے پہنچ گئے۔کنول کار سے باہر نکل آئی شہریار بھی اس کے پیچھے پیچھے آکر پاس ہی کھڑا ہوگیا۔کنول نے ہاتھ باندھ کر آنکھیں بند کیں اور آسمان کی طرف سر اُٹھا کر کھڑی ہوگئی۔بند آنکھوں کے ساتھ ہی اس نے شہریار سے باتیں کرنا شروع کیں۔
”شہریار بند آنکھوں سے کبھی کبھی آسمان کتنا صاف نظر آتا ہے۔”
”ہاں اس وقت دل کی آنکھ کھلی ہوتی ہے۔”شہریار نے جوا ب دیا۔
”لیکن اندر بہت بے سکونی ہوتی ہے۔”کنول نے کہا۔
”یہ بے سکونی کیوں ہے تمہیں؟”شہریار نے پوچھا تو کنول آنکھیں کھول کر اس کی طرف مُڑگئی۔
”بے سکونی کے لیے کوئی ایک مسئلہ تو نہیں ہے، بہن کی شادی،بھائی کا کاروبار،گھر میں نے اب تک نہیں بنایا،اباکی نقلی ٹانگ لگوانی ہے، کیا کیا گنواؤں؟جب ان میں سے ایک بات بھی یاد آتی ہے توسارا سکون اُڑ جاتا ہے۔”کنول نے سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”مجھ سے شادی کرلو، ساری بے سکونی ختم ہو جائے گی۔”شہریار نے ہلکے پھلکے انداز میں اسے پروپوز کیا۔
”ہاہاہا یہ میرے مسئلوں کا حل ہے؟”کنول زور سے ہنسی۔
”ہاں ہوسکتا ہے کہ میں ہی تمہارے مسائل حل کردوں۔”شہریار نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”کوئی کسی کے مسئلے حل نہیں کرسکتا،اپنے مسئلوں کی پوٹلی خود اٹھانی پڑتی ہے سب کو۔”کنول نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا اور کار کی جانب بڑھنے لگی۔شہریار بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چلتا ہوا آیا۔
”تمہیں اب تک مجھ پہ اعتبار نہیں آیا؟”شہریار نے دکھ بھرے لہجے میں پوچھا۔
”اعتبار نہ ہوتا تو رات کے تین بجے یہاں اتنی ویرانی میں تمہارے ساتھ اکیلی کیسے آتی؟”کنول نے جواب دیا۔
”پھر میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتیں؟”شہریار زچ ہو گیا تھا۔
”اس بات کا کبھی اعتبار نہیں کرسکتی کہ کوئی مرد میرا بوجھ اٹھائے گا۔اللہ کے سوا کوئی کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔”کنول نے بہت بے دردی سے کہا۔
”کبھی کبھی جب تم اللہ پر اتنا ایمان دکھاتی ہو تو بہت اوپر نظر آتی ہو۔ہوسکتا ہے اللہ نے مجھے تمہارا بوجھ اٹھانے کے لیے تم سے ملوایا ہو۔”شہریار نے اسے یقین دلانے کے لیے کہا۔
”ایسی باتیں صرف شاہ رخ خان،کا جل سے کرتا ہے اور لوگ یقین کرلیتے ہیں۔”کنول نے قہقہہ لگا کر کہا۔
”ایسی باتیں شہریار کنول بلوچ سے کرتا ہے اور کنول بلوچ کو اب یقین کرلینا چاہیے۔” شہریار نے اس کے کندھوں کو پکڑ کر جھنجھوڑا۔
”کنول بلوچ دراصل کاجل سے زیادہ حسین ہے، اسٹائلش ہے۔اس لیے شہریار اس سے ایسی باتیں کرتا ہے۔”کنول نے ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا پھر بولی۔”مگراس وقت تو اس حلیے میں ایک چڑیل لگ رہی ہوں کوئی دیکھے تو پہچان ہی نہ سکے۔”
” لگ کیا رہی ہو، چڑیل تو تم ہو۔ نہ جانے کب کس کو چمٹ جاؤ۔”شہریار نے مذاق کیا۔
” تمہیں چمٹی ہوئی ہوں کیا؟”کنول نے غصے سے پوچھا۔
” نہیں میرے تو سر پر سوار ہو۔”شہریار نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔
”جب چاہو اتر جاؤں گی،تمہیں خود شوق ہے مجھے اپنے سر پر سوار کرنے کا۔”کنول نے کہا۔
” چلیں اب بہت دیر ہوگئی ہے۔”شہریار نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا اور دونوں نے کار کی طرف دونوں قدم بڑھا دیے۔
٭…٭…٭
مُنا گھر داخل ہوا تو اس کا بہت برا حال تھا۔ ماں نے اس کے پھٹے ہوئے کپڑے اور گرد میں اٹے بال دیکھے تو دوڑ کر اسے سینے سے لگا لیا۔
”دیکھ اس کی حالت۔پتا ہے کہاں سے اُٹھا کر لایا ہوں اس کو؟”رحیم نے منے کی طرف غصہ بھری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
”کہاں سے؟”ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
”کچرا کنڈی میں بے ہوش پڑا تھا۔”رحیم نے حقارت سے کہا۔
”دو دن سے کچھ نہیں کھایا تھا اماں،چکر آگیا۔”مُنے نے کمزور لہجے میں وضاحت پیش کی۔
”ہائے میرا پتر تو دو دن سے بھوکا ہے۔”ماں کو بیٹے پر پیار آگیا۔”ماںصدقے جائے،جا مُنی بھائی کے لیے کچھ بنا کر لا۔جا میرا پتر تو اندر جا کر نہا لے۔”
” ہاں تو کرتی رہ اس کی خدمتیں ،میں تو نہیں بناتی کچھ۔”مُنی بُڑ بُڑاتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
”کیا ضرورت تھی اس کو اُٹھا کر لانے کی ؟مرجانے دیتا۔”رحیم کمرے میں آیا تو اسما نے غصے سے کہا۔
”لوگوں نے پکڑ کر بتایا کہ رحیم تیرا بھائی کچرا کنڈی میں پڑا ہے میں کیسے چھوڑ دیتا۔سب مجھے بُرا بھلا کہتے۔ تو بھی نا کبھی کبھی دماغ سے نہیں سوچتی۔”رحیم کا مُنے پر غصہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
”یہ کمینہ پھر بہن کو نوچے گا۔”اسما نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔
”نہ اب نہیں دیتی وہ اس کو بھول جا۔”رحیم نے جواب دیا۔
”نہ نہ!اس بھول میں نہ رہنا۔فوزیہ مُنے سے بہت پیار کرتی ہے، وہ جان دیتی ہے اس پر۔ابھی اس حالت میں دیکھ لے تو بس سب کچھ لٹا دے۔”اسما نے رحیم کی غلط فہمی دور کی۔
”پھر کیا کریں؟”رحیم پریشان ہو گیا تھا۔
”مُنے کو فوزیہ کے دل سے آہستہ آہستہ اتارتاکہ تیرے دوسرے بچوں کی جگہ بنے۔یہ کمینہ فوزیہ سے کتنے پیسے لوٹ کر کھا چکا ہے۔پچاس پچاس ہزار میں نے خود دیکھے ہیں اس کو دیتے۔”اسما نے مکارانہ لہجے میں کہا۔
”پھر کیا کرنا ہے؟”رحیم نے تشویش ناک انداز میں پوچھا۔
” کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا،کچھ ایسا کریں گے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔” اسما نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
کنول گوہر کے پاس پہنچی تو وہ اس وقت لیپ ٹاپ پر تصاویر دیکھ رہا تھا۔گوہر کے آفس میں ایک اور ینگ ماڈل بیٹھی ہوئی تھی۔اسے دیکھ کر کنول جل سی جاتی گئی۔کنول نے دروازے پر دستک دی اوراندرداخل ہوئی۔
” ہیلو!کیسے ہو گوہر؟”
”میں ٹھیک ہوں،تم کیسی ہو۔”گوہر نے بے زاری سے جواب دیا۔
” تم تو اب فون ہی نہیں کرتے۔”کنول نے شکایتی انداز میں کہا۔
” مصروفیت ہی اتنی تھی اور اب تم بھی تو بہت مصروف ہوگئی ہو۔”گوہر نے سر اُٹھائے بغیر جواب دیا۔
”ظاہر سی بات ہے زندہ رہنے کے لیے کمانا تو پڑتا ہے،ویسے ان کی تعریف؟”کنول نے ماڈل کی طرف اشارہ کیا۔
”یہ انعم خان ہیں،ہمارے اگلے پراڈکٹ کی ماڈل…اور انعم یہ ہیں ہماری پرانی ماڈل مس کنول بلوچ۔”گوہر نے دونوں کا آپس میں تعارف کروایا۔
”مجھے خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔”انعم نے کہا۔
”کس پراڈکٹ کا ایڈہے؟”کنول نے پوچھا۔
” لان کا ایڈ ہے۔”گوہر کے لہجے میں بے زاری تھی۔
”مجھے بھی کوئی لان کا ایڈ دلوا دو۔”کنول نے فرمائش کی۔
”تمہیں؟ہاہاہا!کوئی بڑا برانڈ تمہاری طرح کی بوڑھی ماڈل نہیں مانگتا۔”گوہر زور سے ہنسا اور طنزیہ انداز میں کہا۔
کنول کا چہرہ غصے میں ایک دم سرخ ہوگیا،وہ زور سے چیخی۔”کیا مطلب میں کون سا بوڑھی ہوگئی ہوں، میں ابھی بھی ینگ ہوں۔”
”کنول بلوچ لوگ تمہیں پچھلے چھے سال سے دیکھ رہے ہیں۔یہاں تو چھے مہینے کے بعد ہی کوئی فریش فیس دیکھنا چاہتے ہیں تو تمہیں اب کون دیکھے گا۔”گوہر نے اسے آئینہ دکھاتے ہوئے کہا۔
”دیکھو بکواس مت کرو۔تم نے مجھے باؤنڈ کرکے میرا مستقبل تباہ کیاکمینے اور اب کہہ رہے ہو کہ فریش لُک ماڈل چاہیے۔”کنول بہت غصے میں آچکی تھی۔
”گالی مت دو کنول۔”گوہر نے بھی اسی سخت لہجے میں جواب دیا۔
”گالی… میں تو تمہارا سر پھاڑ دوں گی۔”کنول نے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے مارنے کے لیے کوئی چیز ڈھونڈ رہی ہو پھرہاتھ میں آیا فلاور واز اُٹھا کر اس کی طرف پھینک دیا۔گوہر نے بچنے کی کوشش کی اورنیچے جھک گیالیکن اس کے باوجود کنول کاوار زور دار آواز سے اس پر آکر لگا۔وہ بوکھلا گیالیکن کنول اس کی طرف ایک ایک کے بعد ایک چیز اچھالتی رہی۔ملازمین نے آکر اسے قابو کیا تو وہ گوہر کو بکتی جھکتی وہاں سے نکل آئی۔
٭…٭…٭
کنول نے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ریحان کو کافی کا کپ پکڑایا اور پاس ہی بیٹھ گئی۔ریحا ن نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھااور بولا۔
”بہت اداس اور تھکی تھکی لگ رہی ہو۔”
”کیسی اداسی اور کیا تھکن؟ ہم جیسے لوگوں کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔ ریحان لوگ ہمیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔”کنول نے تلخی سے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”اب کیا ہوا؟”ریحان نے پوچھا۔
” کیا ہونا ہے؟میرا بھائی کہتا ہے کہ میری کمائی ٹھیک نہیں ہے اُسے اب خیال آ رہا ہے میری کمائی کا جب میں نے اُسے دینے سے انکار کر دیا،دیتی رہوں تو کبھی نہ کچھ کہتا۔”کنول نے تلخی سے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا۔
”میں تو تجھے پہلے دن سے ہی منع کرتا تھا کہ مت کر ان کی عادتیں خراب، مگر تیرے ذہن پر اپنی فیملی سوار تھی۔”ریحان نے غصے سے کہا ۔
”کتنا کیا میں نے ان سب کے لیے اور انہوں نے یہ صلہ دیا مجھے۔”کنول کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
”یہ تو ہونا ہی تھا ایک نہ ایک دن اسی لیے کہتا تھااپنا ایک گھر بنا،اپنا شوہر، اپنے بچے۔”ریحان نے دکھی آواز میں کہا۔
”بنایا تھا کیا ملا اس کا بھی؟”کنول نے ٹشو سے گال پر آئے نمکین پانی کو صاف کرتے ہوئے کہا۔
”دیکھ ضروری نہیں ایک بار بُرا ہوا ہو تو ہر بار ہو گا۔شہریار تجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے؟ سالوں سے وہ اسی بات پر اصرار کر رہا ہے۔ بس تو بھی ہاں کر دے چھوڑ دے ان لوگوں کو اس کی بات مان کر شادی کر گھر بسا۔”ریحان نے کنول کو سمجھایا۔
”لیکن اگر باپ اور بھائی مرد نہیں نکلے تو شوہر کیسے مرد ہو سکتا ہے؟”کنول نے پوچھا۔
”لیکن ویکن یہ سب مت سوچ،بس اس سے کہہ کہ جتنی جلدی ہو تجھ سے شادی کرے اور ان لوگوں کو اپنے لیے خود کرنے دے۔ ارے سوچ مت، کر ڈال۔دیکھ لیا کتنے خود غرض لوگ ہیں تیرے گھر والے۔ وہ تیرے بارے میں کبھی نہیں سوچیں گے، تو اپنی فیملی خود بنا۔”ریحان نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
”سوچتی ہوں کچھ اس بارے میں،تو کافی پی ٹھنڈی ہو رہی ہے۔”کنول نے کہااور خود بھی خلا میں گھورنے لگی۔
٭…٭…٭
کنول ذہنی طور پر بہت الجھی ہوئی تھی۔وہ اپنی شادی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لے پارہی تھی۔ اس نے شہریار کو فون کیا اور اس کے ہیلو کہنے سے قبل ہی بولی۔
”شہریار میں تم سے فوراً ملنا چاہتی ہوں۔”
”کیا ہوا پریشان ہو؟”شہریار اس کے ایسے انداز پر حیران رہ گیا تھا۔
”بس ملو تو بتاتی ہوں۔”کنول نے کہا۔
”ہاں بولو کہاں ملیں، کسی پارک یا ریسٹورنٹ؟”شہریار نے فوراً پوچھا۔
”نہیں میرے گھر کے پاس جو پارک ہے وہاں آجاؤ۔ میں بھی دس منٹ میں پہنچ رہی ہوں۔” کنول نے عجلت سے جواب دیا۔شہریار نے اوکے کہہ کر فون بند کر دیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں پارک میں ایک بینچ پر بیٹھے تھے۔ کنول کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں جیسے روتی رہی ہو۔
”مجھ سے شادی کر لو۔”کنول نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بہت سکون سے کہا۔
شہریار یوں چونکا جیسے اس کے آس پاس کوئی دھماکا ہوا ہو۔
”مجھے یقین نہیں آرہا اتنے سال جس بات کے لیے میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا رہا تم اس وقت اتنی آسانی سے…” مارے خوشی کے اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ ”Oh I can’t believe it.”
”مجھے بھی یقین نہیں آرہا لیکن بس مجھے یہ یقین دلا دو کہ نبھا سکو گے؟”کنول نے متذبذب انداز میں کہا۔
”کیا مطلب؟اتنے سالوں سے ایک بے نام رشتہ نبھاتا آ رہا ہوں،جب رشتے کو نام مل جائے گا تو کیوں نہیں نبھاؤں گا؟” شہریار نے جواب دیا۔
”بے نام رشتے تکلیف نہیں دیتے اور نام والے کوئی سُکھ۔” کنول نے تلخی سے کہا۔
”جب اعتبار کیا ہے تو پوری طرح کرو،آدھا ادھورا اعتبار کس کام کا۔”شہریار نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
” سنو! مجھے عزت دو گے؟ میری ذمہ داری اٹھا سکو گے ؟جو کچھ میں چاہتی ہوں دے سکو گے؟ سب سے بڑھ کر کیا تمہارے گھر والے مجھے قبول کر لیں گے؟”کنول نے بہت اداسی سے اسے دیکھا اور سوال کیے۔شہریار جواب دینے کے بہ جائے خاموش کھڑا اسے تکتا رہا۔
کنول اس کی خاموشی پر دُکھی ہوگئی اور تلخی سے بولی۔”بولو نا!خاموش کیوں ہو ؟بس اتنی ہی محبت تھی؟”
شہریار بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا اس نے جواب دینے کے بجائے اس کا ہاتھ پکڑا اور گاڑی میں بٹھا دیا۔کنول نے سٹیئرنگ پر دھرے شہریار کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور پوچھا۔
”تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟”
”اپنی ماں سے ملوانے۔”شہریار نے جواب دیا۔
”کیوں؟ کیا تمہارا دماغ خراب ہے۔ میں ان کے سامنے کیسے جاؤں گی؟”کنول یک دم ہی پریشان ہو گئی۔
”وہ تمہاری بہت بڑی فین ہیں۔تمہاری کوئی ویڈیو نہیں چھوڑتیں۔”شہریار نے بہت آرام سے کہا تو کنول کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
”I can’t believe it.” کنول نے حیرانی کے عالم میں کہا۔
”You should believe it.” شہریار نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۰

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!