باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

منے کے دوستوں نے اسے اس کی بہن کے بارے میں بتایا تو وہ غصے میں لال پیلا گھر کی طرف دوڑا۔گھر میں گھس کر کچن میں کھڑی منی کو باہر لاکر زمین پرپھینکا اور ایک زوردار ٹھوکر لگائی۔پھر کھڑا کرکے ایک زور دار تھپڑ منہ پر دے مارا۔
” کمینی ذرا غیرت نہیں میرے دوستوں کے سامنے مجھے ذلیل کروا دیا۔”مُنے نے غصے سے کہا اور ایک اور زوردار تھپڑ منہ پر مارا۔مُنی بلبلائی اور زوردار آواز میں چیخی۔
” باجی!اماں!بچاؤمجھے، بھائی مار ڈالے گا۔”
دونوں گھبرا کر باہر صحن میں نکل آئیں اور مُنی کو بچانے لگیں۔ مُنی فوزیہ کے پیچھے چھپ گئی۔
” ارے رُک مُنے کیوں مار رہا ہے اسے،ہٹ چھوڑ دے۔”فوزیہ منے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
”باجی اس سے پوچھ یہ بے غیرت ایک تو بال کٹوا کر آئی اوردوسرا سر پر دوپٹہ لیے بغیر باہر گھوم رہی تھی۔”مُنا غصے میں بپھرا ہوا تھا۔
”تو اتنی سی بات کے لیے تو اسے مار ڈالے گاکیا؟”فوزیہ نے اسے ڈانٹا۔
”تو کیا ہارڈالوں اس بے غیرت کے گلے میں؟سارے دوستوں کے سامنے شرمندہ کر دیا۔” مُنے نے زمین پر تھوکتے ہوئے کہا۔
”اتنی سی بات پر تو شرمندہ ہو گیا؟بہن کی کمائی کھاتے تجھے شرم نہیں آتی۔تجھے پتے کھیلتے شرم نہیں آتی۔نشہ کرتے شرم نہیں آتی۔بہن کے ننگے سر پھرنے پر شرم آتی ہے،واہ!”فوزیہ نے اسے شرمندہ کیا۔
”باجی تو ہمیشہ غلط بات پر اس کا ساتھ دیتی ہے۔” وہ غصے میں بے نتھے بیل کی طرح صحن کے چکر لگا رہا تھا۔
”میں نے تیری بھی غلط باتوں پر تجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔آج جیل میں سڑ رہا ہوتا اگر اس دن میں میں تجھے چھڑا کر نہ لاتی۔”فوزیہ نے غصے سے ناراضی کا اظہار کیا۔
”تو بس مجھے اور بھائی کو ایسے ہی طعنے دیتی رہنا،ہمیں کیا پتا تو شہر میں کیا کرتی پھرتی ہے۔ہم نے تجھ سے کبھی پوچھا۔ہم توپوچھ ہی نہیں سکتے،لعنت ہے ہم پر۔”مُنے نے غصے سے کہا ۔
”تجھے کیا لگا کیسی کمائی ہے میری؟ بول کس چیز کی کمائی ہے؟”فوزیہ نے تنک کر پوچھا۔
”تو ہی بتا سکتی ہے کہ تو نوٹ کہاں سے لا رہی ہے۔”منے نے بدتمیزی سے جواب دیا۔
”تو کیوں لیتا ہے ؟چھوڑتا کیوں نہیں مانگنا؟ کتنی بار دیئے تجھے تب خیال نہیں آیا؟”فوزیہ نے منے کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑا۔
”اگر حلال کی ہوتی تو دکان چل نہ جاتی۔”مُنے نے گریبان چھڑاتے ہوئے نفرت سے کہا۔
”اگر حلال نہ تھی تو کیوں لی تھی؟ اجاڑنے کے لیے؟”فوزیہ نے ہاتھ اٹھایاتو منے نے اس کا ہاتھ تھام لیااور جھٹکے سے نیچے گرادیا۔
”باجی تو نے جیسی کمائی لگائی ویسے ہی ختم ہو گئی،اب نہ پوچھنا۔”منے نے نفرت سے کہااور باہر نکل گیا۔
فوزیہ باری باری سب گھر والوں کو دیکھ رہی تھی کہ شاید کوئی اس سے ہمدردی کرے۔
”بکواس کر رہا ہے تو کیوں دل پر لے رہی ہے۔”ماں نے آگے بڑھ کر اسے تسلی دی۔مُنی بھی رو رہی تھی،وہ بھاگ کر فوزیہ کے گلے لگ گئی۔
”اماں بکواس وہ نہیں، بکواس میں نے کی اب تک۔مان لے اماں کہ میرا نمک ہی میٹھا ہے جس سے محبت کرتی ہوںوہی منہ پر جوتا مارتا ہے۔”فوزیہ نے دکھی لہجے میں کہا۔
”چھوڑ دے سب بھول جا۔ دیکھنا کل باجی کہتا ہواخود آکر گلے لگ جائے گا ۔تجھ سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتاوہ۔”ماں نے اسے سمجھایا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ہاں ٹھیک کہہ رہی ہے تُومجھ سے کوئی زیادہ دیر ناراض رہ ہی نہیں سکتا،سب کی ضرورتیں ہی اتنی ہیں۔” فوزیہ نے ماں کو دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
”چل منی لے کر جا باجی کو اندر آرام کر جا کر۔ میں تیرے ابا کو دیکھ لوں ذرا۔”ماں نے فوزیہ سے نظریں ملائے بغیر کہا ۔فوزیہ اُٹھ کر امام بخش کے پاس چلی گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے باپ کے کمرے میں آئی جو آنکھیں بند کیے لیٹا ہوا تھا۔وہ امام بخش کے پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر اس کے پاؤں پر ہاتھ رکھ دیا۔ امام بخش ایک دم پاؤں چھونے کی وجہ سے اُٹھ گیا۔فوزیہ ہولے سے مسکرائی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔
”ابا جاگ رہا ہے تو؟ جا رہی ہوں سوچا تجھ سے بھی مل لوں۔”فوزیہ نے آہستہ آواز میں کہا۔
”کل ساری آوازیں آرہی تھیں مجھے۔مجبور تھا اٹھ کر نہ آسکا۔دل چاہ رہا تھا کہ اس کا گلا دبا دوں۔”امام بخش نفرت سے اپنے بیٹے کا ذکرکر رہا تھا۔
”تو اپنا دل خراب مت کر ابا،ایسا ہی ہوتا ہے۔”فوزیہ زبردستی مسکرائی۔
”پیسے دے دے کر اسے تو نے ہی خراب کیا ہے۔”امام بخش نے ناراضی سے کہا۔
”ابا کیا کروں محبت کرتی ہوں،بھائی ہے میرا۔”فوزیہ نے زچ ہو کر کہا۔
” بہت دُکھ ہوا مجھے،محبت صرف تو کرتی ہے وہ بھی کرتا تو کبھی ایسی بات نہ کہتا۔”امام بخش کے لہجے میں اداسی در آئی تھی۔
”چل چھوڑ ساری بات ابا میری ایک ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے بہت جلد میں تیری ٹانگ لگوا دوں گی پھر تو بھی آرام سے چل پھر سکے گا۔”فوزیہ نے بات بدلی۔
”میری دھی تو سدا خوش رہے۔ ”امام بخش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”بس ابا میرے لیے دُعا کر کہ کچھ سکون مل جائے۔”فوزیہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”ملے گا… ضرور ملے گا…میری دعا تیرے ساتھ ہے۔”امام بخش نے بہت یقین سے کہا اور اس کے سر پر پیار کیا تو وہ تلخی سے مسکرا دی۔
٭…٭…٭
وہ اپنے کمرے میں پریشان سی بیٹھی تھی۔اس کے ذہن میں مُنے کی باتیں گونج رہی تھیں۔ باہر صحن میں بھابی اپنے بھائی کے رشتے کی بات اس کی ماں سے کر رہی تھی۔
”اماں سُن ایک بات کرنی ہے تجھ سے۔”اسما نے کہا۔
”بول کیا کہنا ہے؟”ماں نے روکھے انداز میں کہا۔
”اماں ساجد کا رشتہ دوبارہ فوزیہ کے لیے لانا چاہتی ہیں۔”اسما نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”لیکن اس کی بیوی تو موجود ہے بلکہ تین بیٹیاں بھی ہیں۔”ماں نے حیرانی سے کہا۔
”تو کیا ہوا مرد تو دوسری شادی کر سکتا ہے،فوزیہ کی بھی تو دوسری شادی ہے۔”اسما نے بے پروائی سے کہا۔
”میری بیٹی کے لیے وہی نکھٹو رہ گیاہے۔”ماں غصے میں کھڑی ہوگئی۔
”بات نکھٹو کی نہیں ہے اماں ۔سچ کہوں تم اس کی کمائی کھا رہی ہو اور ڈر یہ ہے کہ اس کی کمائی کوئی اور نہ کھائے۔”اسما حسب معمول ساس سے لڑنے لگی۔
”جاجا تو کون ہوتی ہے ایسی باتیں کرنے والی۔نہیں دیتی میں اپنی بیٹی کا رشتہ تیرے بھائی کو۔” ماں نے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”میرے بھائی سے تو کیا تو کسی سے اس کی شادی نہیں کرنا چاہتی اتنا کمانے والی کوکون ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔”اسما نفرت سے بولی۔
فوزیہ کھڑکی کے بالکل پاس آکر ان دونوں کی باتیں سُن رہی تھی۔اس نے دیکھا کہ ماں نے ہاتھ اُٹھا کر اسما کومنع کیا۔”جاجا۔اس نے تیرے بھائی کو پہلے بھی خود انکار کیا تھا اب میں کرتی ہوں۔میں خود اس کے لیے ڈھونڈوں گی رشتہ۔”
”تم ساری عمر نہیںڈھونڈو گی اماں۔ دودھ دینے والی گائے کون قربان کرتا ہے؟”اسماطنزیہ انداز میں ہنسی۔
”دیکھ اپنی زبان کو سنبھال کر بات کر۔”ماں نے شدید غصے میں کہا۔
”زبان سنبھالی ہوئی ہے اب تک،کبھی پوچھا کہ وہ شہر میں کرتی کیا ہے؟بس تم سب کو تو اس نے پیسہ دے کر منہ بند کر رکھا ہے۔حلال لارہی ہے یا حرام تم میں سے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔”اسما نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”پوچھتا تو تُواور تیرا میاں بھی نہیںجب وہ تیرے اور تیرے بچوں کے خرچے پورے کرتی ہے۔”ماں نے طنزیہ انداز میں کہا پھر بولی۔”میں سب سمجھتی ہوں،تجھے فوزیہ سے زیادہ اس کے نوٹ نظر آرہے ہیں۔تب ہی تو اسے اپنے بھائی کے ساتھ بیاہنا چاہتی ہے۔”
فوزیہ کھڑکی کے پاس کھڑی ساری باتیں بہت غور سے سن رہی تھی۔یہ ساری باتیں سن کر اس کے چہرے کو دکھ کے گہرے سائے نے گھیر لیا۔وہ خلامیں دیکھنے لگی۔
٭…٭…٭
اگلی صبح فوزیہ جانے کے لیے بیگ ہاتھ میں لیے تیار کھڑی تھی کہ اس کی ماں اس کے پاس آئی۔ وہ آنکھیں نہیں ملا پارہی تھی۔
”اتنی جلدی جا رہی ہے فوزیہ؟”زمین پر دیکھتے ہوئے اس نے فوزیہ سے پوچھا۔
فوزیہ نے کچھ پیسے اُسے پکڑائے اور ہچکچاتے ہوئے بولی۔” ہاں اماں اب تو سفر میں ہی رہنا ہے۔ یہ پیسے پکڑ مُنی کے لیے کچھ سامان لے لینا۔اماں تجھ سے ایک اور بات بھی کرنی تھی۔”
”ہاں بول۔”ماں نے فوراً کہا۔
”اماں اگر کوئی ملتا ہے تو میرے لیے بھی سوچ۔”فوزیہ نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے کہہ ہی دیا۔
ماں نے حیرانی سے اس کی بات سنی۔”ہیں مگر… ابھی تو منی کی شادی کرنی ہے۔منے کا کاروبار سیٹ نہیں ہوا،گھر بھی نہیں بنا،تیری شادی…”ماں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
” لیکن اماں پھر عمر گزر جائے گی۔”فوزیہ آہستہ سے بولی۔
”ہاں ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں، لیکن مناسب رشتہ بھی تو ملے۔”ماں نے گڑبڑا کر کہا۔
”ہاں لیکن تو لوگوں سے کہہ کر دیکھ۔۔”فوزیہ نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے تو فکر نہ کر۔”ماں نے اسے تسلی دی پھر بولی۔”اور ہاں ایک اور بات میں اور تیرے ابا سوچ رہے ہیں کہ تیرے بھائی کو گھر سے جانے کا کہہ دیں۔تو کیا کہتی ہے؟”
”میں نے کیا کہنا ہے اماں،گزاراتم لوگوں نے کرنا ہے جیسا چاہو کرو،چلتی ہوں۔”فوزیہ نے کندھے اُچکاتے ہوئے بے پروائی سے جواب دیا۔وہ جاتے جاتے پلٹی ہے اور ماں سے پوچھا۔”اماں تو نے کبھی پوچھا نہیں کہ میں شہر میں کیا کرتی ہوں۔”
”ہاں مجھے پتا ہے،ماں ہوں تیری۔”ماں نے بے پروائی سے کہا۔
” کیا پتا ہے؟”فوزیہ نے چونک کر ماں کو دیکھا اور اس کے پاس آگئی۔
”یہی کہ تو وہاں…”ماں نے کچھ سوچ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔
” میں وہاں…؟”فوزیہ بے تابی سے بولی۔
” تو وہاں کپڑوں کا کام کرتی ہے،بڑی سی دکان ہے تیری اور تیرا کام بہت اچھا چل رہا ہے۔”ماں نے ایک دم کہا۔
فوزیہ کے سینے میں اٹکا سانس باہر آگیا ۔”ہاں اماں میرا کام بہت اچھا چل رہا ہے،چلتی ہوں۔”یہ کہہ کر اس نے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیئے۔
٭…٭…٭
واپسی پر وہ بہت تیز ڈرائیونگ کر رہی تھی۔ گاڑی میں بہت اونچی آواز میں کوئی انگلش گیت چل رہا تھا۔تب ہی موبائل پر شہریار کی کال آئی۔اس نے کال ریسیو کی۔
”کہاں ہو؟”کنول نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”’کہیں ملنا ہے؟”شہریار نے پوچھا۔
”میں اس وقت گھر پر نہیں ہوں،آج ملنا مشکل ہے۔کل گھر سے لے لینا مجھے ،میں داتا صاحب جانا چاہتی ہوں پھر راوی کنارے تھوڑا ٹائم گزاریں گے، آسکو گے؟”کنول نے پوچھا۔
” My Pleasureکہ آج تم نے کہیں اور کی فرمائش بھی کی۔کل شام میں تمہیں کال کر کے آتا ہوں۔”شہریار نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
کنول نے او کے کہہ کر فون آف کردیا اور ایکسیلیٹر پر دباؤ ڈال کر کار کی رفتار تیز کردی۔
٭…٭…٭
منا اپنے دوستوں میں بیٹھا چرس کے بھرے سگریٹ پی رہاتھا۔اس کے دوست نے آخری سگریٹ اسے دیتے ہوئے کہا۔
”یار یہ آخری بھری ہوئی سگریٹ تھی،اب کوئی نہیں ہے میرے پاس۔”
”یار بس ایک اور دے دے۔جسم میں بہت درد ہے۔”منا گھگھیایا۔
”پہلے پچھلی والی کے پیسے دو،ورنہ اور نہیں۔”دوست نے منے کو بلیک میل کیا۔
”دیکھ اس وقت دماغ بہت خراب ہو رہا ہے۔تو ابھی تو دے دے میں تیری ایک ایک پائی لوٹا دوں گا، قسم کھاتا ہوں اپنی باجی کی۔”مُنے نے ایک اور پینترا آزمایا۔
”ہاہاہا تو چاہتا ہے تیری باجی مر جائے۔”دوست نے ہنستے ہوئے طنز کیا۔
” کیوں ؟وہ کیسے مر جائے گی؟”منا متعجب تھا۔
”جب ہی تو اس کی قسم کھا رہا ہے۔”دوست نے پھر طنز کیا اورقطعیت سے بولا۔”نہ تیرے پاس پیسے ہوں گے نہ تو دے گا۔”
” دیکھ میرا وعدہ، کہیں سے بھی لا کر دوں گا۔ تو فکر مت کر، بس ایک دے دے۔”منے نے پھر منت کی اور آخر اس کی منت کام کر گئی اور اس کے دوست نے ایک اور سگریٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی اور بولا۔”دل تو نہیں چاہ رہا لیکن تیری حالت ایسی نہیں،لے تو بھی کیا یاد کرے گا، لیکن یہ لے کر پہلے واپس جا اپنے گھر۔”
”ہاں ہاں چلا جاؤں گا لادے بھر کر۔”منے نے تڑپ کر کہا۔دوست نے اسے سادی سگریٹ میں چرس بھر کر دی ا ورمنے نے ایک زور دار کش لگایا اور جنت کے مزے لوٹنے لگا۔دنیاوی دوزخ میں رہ کر جنت کی سیر کرنا کتنے مزے کی بات ہے اور منا اس وقت وہی مزے اُٹھا رہا تھا۔
٭…٭…٭
کنول شہریار کے ساتھ داتا صاحب کے مزار پر کھڑی تھی۔شہریار نے اسے خواتین والے حصے میں جانے کا اشارہ کیا۔ وہ آگے بڑھ گئی اور اب ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھ رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ کنول نے فاتحہ پڑھ کر کر منہ پر ہاتھ پھیرا۔ایک عورت نے آگے بڑھ کر پھولوں کا ایک ہار اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ عورت بھانپ گئی کہ کوئی بڑی مراد والی اسامی ہے۔دل دکھا ہوا ہے،دکھی دل کے سکون کے لیے سب کچھ کر سکتی ہے۔ایسی دکھی عورتیں تو یہاں کی بڑی اسامی ہوتی ہیں،دعاؤں کے مول کچھ بھی دے سکتی ہیں،بس ان کی مراد پوری ہوجائے۔
” اللہ تیری مراد پورے کرے۔”اس نے کنول کو دعا دی۔
”مراد؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں باجی دل سے دعا کر ،تیری مراد پوری ضرور ہو گی۔” عورت نے اسی انداز میں جواب دیا۔
” کون سی مراد ؟اب تو مراد بھی یاد نہیں کہ میرے دل کی مراد کیا ہے۔” کنول نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
”ہاتھ اُٹھاؤ دل سے مانگو دعا۔”عورت نے اسے شہ دی۔
”کوئی دعا نہیں،اپنے لیے تو کوئی دعا یادنہیں۔”کنول نے نفی سے سر ہلایا جیسے بے یقینی کی کیفیت میں ہو۔
”نہ نہ ایسے نہیں کہتے،اللہ اپنے بندے کی ہر دلی مراد پوری کرتا ہے۔”عورت نے اسے تسلی دی۔
”اللہ بندے کی ہر مراد پوری کرتا ہے؟”کنول نے بے یقینی سے پوچھا۔
”ہاں ہر دعا، لیکن مانگو اس یقین سے کہ وہ دے گا۔”عورت نے اسے یقین دلایا۔
کنول نے آنکھیں بند کر کے دعا مانگی اور آنکھیں کھول کر منہ پر ہاتھ پھیرا۔ پرس سے ہزار کا ایک نوٹ نکال کر اس عورت کو دیا اور بولی۔”تم اللہ سے دعا کرنا کہ جو دعا میں نے مانگی ہے وہ ضرورپوری کر دے۔”
”ارے بی بی کیسی بات کر رہی ہے وہ تیرا اللہ بھی تو ہے،تواس سے دل سے مانگ۔”عورت نے جلدی سے نوٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔
”نہیں میں بہت گناہ گار ہوں،بہت گندی ہوں۔بس ایک بار وہ مجھے معاف کردے۔ اس نے میری طرف دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔تم نیک عورت ہو وہ تمہاری سنے گا تم کہنا کہ وہ مجھے معاف کر دے۔”کنول کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اس کے گال تر کر رہے تھے۔
”اللہ خیر کرے گاباجی۔ تو سداسکھی رہے،کبھی کوئی غم نہ دیکھے۔”عورت نے اس کی طرف دیکھ کر دعا کی۔ کنول نے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے اور مزار کے احاطے سے باہر نکل گئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۰

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!