باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تم ایسی ویڈیو دیکھ کر chillکیا کرو۔پریشان کیوںہوتے ہو؟”
”ہر بات chillکرنے والی نہیں ہوتی ۔تمہیں پتا ہے نا کہ ایسی سب چیزوں نے مجھے ہمیشہ تکلیف دی ہے۔”شہریار نے تکلیف دہ لہجے میں کہا۔
”کیوں پریشان ہوتے ہو،خود کو انٹرٹین کرو۔”کنول نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”مجھ میں اور تماش بینوں میں بہت فرق ہے، تم اتنے برسوں کے بعد بھی نہیں سمجھیں۔”شہریار نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں سمجھتی ہوں مگر… ”کنول نے اس کی طر ف غور سے دیکھتی ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی تو شہریار چونک گیا۔
” مگر کیا؟”
”اعتبار نہیں کرتی۔”کنول نے رسان سے کہا۔
”اعتبار کر لو تو میرا بھلا ہو جائے۔”شہریار نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
”مرد اعتبار کے لائق نہیں ہوتے۔”کنول کو غصہ آ گیا اور وہ تلخی سے بولی۔
”میں ایک عام مرد نہیں ہوں۔”شہریار نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔”کنول انگلی اُٹھا کر اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے بولی۔
”خیر چھوڑو میں چاہتا ہوں تم یہ سب چھوڑ کر اپنا بزنس شروع کرو۔”شہریار نے اس کے آگے ہار مانتے ہوئے بات بدل دی۔ایسا ہمیشہ ہوتا تھا۔وہ ہار مارن کر بات بدل دیتا تھا۔
”بزنس اور میں؟ میں کیا کرسکتی ہوں؟”کنول نے حیرانی سے کہا۔
”کچھ بھی کر لو، بوتیک کھول لو۔اس کے پیسے مجھ سے لے لو۔”شہریار نے پیش کش کی۔
”تم سے لے لوں،مگرتمہارا احسان کیوں لوں؟تم اپنا احسان اپنے پاس رکھو۔جو میں کررہی ہوں کرنے دو۔” کنول نے ناراضی سے کہا۔
” توتم نہیں مانو گی۔یار اُدھار لے لو۔”شہریار پیچھے نہیں ہٹا۔
”جب جانتے ہو اُدھار محبت کی قینچی ہے تو ہر بار کوشش کیوں کرتے ہو۔ ہمارے بے نام رشتے میں اتنے برسوں سے یہی تو ہوتا آرہا ہے۔ہم دونوں کے ستارے کبھی مل نہیں سکتے۔مہینوں بعد شدید خواہش پرایک دوسرے سے ملتے ہیں پھر بچھڑ جاتے ہیں اور وجہ اسی قسم کی تکرار بنتی ہے۔”کنول نے اداس لہجے میں کہا۔
”تونہ کیا کرو مجھ سے تکرار۔مان لیا کرو میری بات مگر بہت ضدی ہوتم۔”شہریار نے تاسف سے کہا۔
”کیسے مان لوں؟کبھی کسی مرد پر اعتبار ہی نہیں کیا،بلکہ یوں کہو کہ مجھ سے وابستہ ہر مرد نے میرا اعتبار توڑا ہے۔تم تو ابھی تک ایک بے نام سا رشتہ ہو میرے لیے توتمہارا اعتبار کیسے کروں۔”کنول کے لہجہ شکست خوردہ ساتھا۔
”اپنے اس بے نام رشتے کا اعتبارکر کے تو دیکھو ،ایک بارنام تو دو اس رشتے کو ، اگر دامن محبت سے نہ بھر دیا تو پھر کہنا۔” شہریار نے اس کی بات سن کر بہت تحمل سے کہا تو۔
”لگتاہے آج کل رومانٹک فلمیں دیکھ رہے ہو۔”وہ ہنس پڑی۔
”نہیں اصلی والی رومانٹک فلم میں کام کر رہا ہوں۔ایک سخت دل،پتھر دل حسینہ کے آگے اپنا سر پھوڑ رہا ہوں۔”شہریار نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔
”تو پھوڑتے رہو، حسینہ کا کچھ نہیں بگڑنا۔”وہ پھر ہنسی تو شہریار نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔”تم اتنی پتھر دل کیوں ہو؟”شہریار نے پوچھا۔
”وہ تو مجھے سب نے بنا دیا ،میں ایسی نہ تھا۔”وہ مزے سے مسکرائی۔
”ٹھیک ہے اگر اس پتھر کو موم نہ بنایا تو میرا نام بھی شہریار نہیں۔”شہریار نے دل ہی دل میں مصمم ارادہ باندھا لیکن منہ سے چپ رہا۔خاموشی سے اس اداس آنکھوں والی لڑکی کو دیکھتا رہا جو خود کو پتھر ظاہر کر کے دوسروں کی خوشی کے لیے اپنا آپ اور اپنی خوشیاں برباد کر رہی تھی،لیکن اندر سے موم کی طرح پگھلنے کے لیے بے تاب تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مُنا ایک کھوکھے نما دکان میں پتے کھیلنے کے ساتھ ساتھ چرس بھرے سگریٹ بھی پی رہا تھا۔ اس کے پاس بہت کم پیسے بچے تھے۔اس نے آخری ہزار کا نوٹ لڑکے کے آگے پھینکا اور بولا۔
”چل یار آج تو میرا جیتنا بہت ضروری ہے۔سب پیسے ختم ہوگئے اب تو۔”
”دیکھ یار یہاں خالی جیب والوں کا کوئی کام نہیں، اپنی باجی کو بتا ۔لمبی رقم اینٹھ اس سے۔” لڑکے نے بڑھاوا دیتے ہوئے کہا۔
”جو لیے تھے وہ لگا دیئے اب باجی نہیں دینے والی۔”منے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”دکان پر بھی مال موجود ہے اس میں سے کچھ لے آ۔”منے کے دوست نے مشورہ دیا۔
”یار وہ بھی ختم ہونے کو ہے،دکان بھی خالی ہوگئی ہے اب تو۔”منا منہ بناتے ہوئے بولا۔
”چل مُنے پتے پھینک۔”دوست نے کہا۔
”یہ لے!”مُنے نے پتے پھینکے لیکن دوست کوپتے پھینکنے کے بعد اپنے پتے بدلتے دیکھ کر چونکا۔ اس کی یہ حرکت منے کی نظروں سے چھپی نہ رہی اور وہ زور سے چلایا۔”تو نے بے ایمانی کی ہے۔”
منے کا دوست گڑ بڑا کر کھڑا ہوگیااورپتے پاؤں کے نیچے دبا لیے۔
”کیسی بے ایمانی؟”دوست نے ہکلا کر پوچھا۔
”میں نے خود دیکھا ہے تو نے پتے بدلے ہیں۔”منا غصے میں کھڑا ہو گیا تھا۔
”تیرا دماغ خراب ہوا ہے میں کیوں بدلوں گا۔” دوست نے جھوٹ بولا، حالاں کہ پتے ابھی بھی اس کے پاؤں کے نیچے دبے ہوئے تھے۔
”پاؤں ہٹا اپنا۔”منے نے اسے گریبان سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔
”نہیں ہٹاؤں گا۔جا جا بے ایمان،ہارنے لگا تو بے ایمانی کا الزام لگا دیا۔”دوست نے غصے سے کہا۔
”دیکھ میں جیت رہا تھا،اس نے بے ایمانی کی ہے۔ اس سے کہہ میرے پیسے واپس دے۔” منے نے دوسرے دوست سے کہا،پھر دوبارہ پلٹ کر پہلے دوست سے بولا۔”تو نے بے ایمانی سے مجھے ہرایا ہے۔ میں نہیں چھوڑوں گا تجھے۔” یہ کہہ کروہ اُس پر پَل پڑا۔
منے کے دوست نے فوراً جیب سے چاقو نکال لیا۔ منااسے چاقو نکالتے دیکھ کر وہیں رُک گیااور بولا۔”دیکھ چاقو کا کھیل نہیں ہو رہا۔”
”اچھا چاقو دیکھ کر جان نکل گئی تیری۔چل نکل یہاں سے،ورنہ جان سے مار دوں گا۔” دوست نے چاقو لہراتے ہوئے کہا۔
منا بھی ضد میں آیا ہوا تھا،فوراً بولا۔”نہیں جاؤں گا،اپنے پیسے لے کر جاؤں گا جو تو نے اب تک دھوکے سے بٹورے ہیں۔”
مُنے نے اُسے آگے بڑھ کر ایک دھکا دیا اور چاقو والا ہاتھ موڑ دیا۔ دونوں میں جھگڑا بڑھا اور چاقو دوست کی کمر میں گھس گیا۔ وہ زمین پر گر گیا،دوستوں میں شور مچ گیا۔
”اوئے بھاگو پولیس آگئی ہے۔”اتنے میں کوئی چلایا اورچاروں طرف سے پولیس کی سیٹیاں بجنے لگیں۔ مُنا نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھاکہ کوئی جائے فرار مل جائے لیکن اتنے میں پولیس اس کے سر پرپہنچ گئی اور وہ وہیں دھر لیا گیا۔
٭…٭…٭
پولیس نے مُنے کو حوالات میں ڈال دیا۔فوزیہ کو اطلاع ملی تو وہ گھبرائی ہوئی حوالات پہنچی۔
” کہاں ہے میرا بھائی؟”اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”باجی!اللہ کے واسطے مجھے لے جا یہاں سے بہت مارا ہے انہوں نے۔”مُنے نے بہن کو دیکھ کر ہاتھ جوڑ کر فریاد کی۔
”مُنے… مُنے… کیا کیا ہے تو نے؟”فوزیہ فوراً منے کے پاس چلی آئی۔
منے کے بجائے ایس ایچ او نے آگے بڑھ کر جواب دیا۔”تیرے بھائی پر اقدام قتل کا مقدمہ بنتا ہے بی بی۔”
فوزیہ ایس ایچ او کی بات سن کر حیران رہ گئی۔”کیا؟یہ کسی کو نہیں مار سکتا اور نہ ہی یہ… ”
ایس ایچ او نے بہت بے دردی سے اس کی بات کاٹی۔”یہ جتنا معصوم نظر آتا ہے اس سے تیری جیسی عورتیں ہی متاثر ہوتی ہیں۔ہم نے تو اس کے پاس سے چرس بھی پکڑی ہے ۔پتے کھیل رہے تھے یار دوست، ہارنے لگا تو چاقو سے وار کردیا۔”
”باجی اللہ کی قسم میں نے پہلے وار نہیں کیا، اس نے چاقو نکالا تھا۔”منے نے روتے ہوئے جواب دیا۔
”ایس ایچ اوصاحب اللہ کے واسطے اسے چھوڑ دیں،جتنا پیسا چاہو گے میں دوں گی۔” فوزیہ نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
”کیسے چھوڑ دیں بی بی۔ اس پر اقدام قتل کا الزام ہے۔زخمی کے گھر والوں سے بات کرنا پڑے گی۔” ایس ایچ او نے نفی میں سر ہلایا۔
”مرا تو نہیں نا وہ، بولیں کتنا پیسہ چاہیے،کوئی مُک مُکا ہو سکتا ہے۔”فوزیہ نے جلدی سے کہا۔
”مرا تو نہیں لیکن پارٹی بہت تگڑی ہے۔کسی صورت کم پر راضی نہیں ہوں گے۔”ایس ایچ او نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”آپ ان سے ان کی ڈیمانڈ پوچھیں،میں کچھ نہ کچھ انتظام کرتی ہوں۔”فوزیہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے آپ کہتی ہیں تومیں کوشش کرلیتا ہوں۔”ایس ایچ او بے پروائی سے بولا۔
”میں اپنے بھائی کو لے جاسکتی ہوں؟”فوزیہ نے التجائیہ انداز میں کہا۔
”لے کر تو جاسکتی ہیں لیکن کچھ نہ کچھ گارنٹی دینی پڑے گی، پھر میں زخمی کے گھر والوں سے بھی بات کرتا ہوں۔” ایس ایچ او نے کان کھجاتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے میں ابھی آئی جی صاحب سے آپ کی بات بھی کروا دیتی ہوں… اور کتنے پیسے دوں؟” فوزیہ نے پوچھا۔
”نہ جی وہ رہنے دیں بس آپ گارنٹی دے دیں کچھ۔اورفیق١ باجی کو سارا کھاتہ بتا۔”ایس ایچ او نے کہا تو رفیق نے فوزیہ کے پاس آکر سرگوشی میں اس کے کان میں کچھ کہا۔فوزیہ نے چونک کر ایس ایچ او کو دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔
٭…٭…٭
مُنے کو لے کر فوزیہ گھر پہنچی اور گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے صحن میں کھڑا کیا اور ایک زور دار تھپڑ لگایا۔
”منحوس!کمینے!تیری وجہ سے کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی مجھے۔”فوزیہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔ اس نے منے کوجھٹکا دے کر کالر سے پکڑااور ماں کے سامنے لے جا کر کھڑا کردیا۔” یہ مجھ سے جھوٹ بول بول کر پیسہ لیتا رہا۔ اس جوئے میں اور نشے میں اُڑانے کے لیے اور جب میں نے پوچھا تو میری جھوٹی قسم بھی کھائی۔دیکھ ماں یہ ہے میرا بھائی جس کی وجہ سے آج میں سب کے سامنے ذلیل ہوئی۔”
”باجی ابا نے تو تجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ پتے کھیلتا ہے۔”مُنی نے نفرت سے کہا۔
”اس حرام زادے کی زبان پر اعتبار کیا تھامیں نے کہ میرا بھائی یہ سب نہیں کر سکتا۔”فوزیہ نے انگلی اُٹھا کر کہا۔
”میری قسمت ہی خراب ہے کہ ایسی اولاد ملی مجھے۔”ماں نے روتے ہوئے دوپٹے سے آنکھیں پونچھیں اورکہا۔
”اواماں تو تو بس کر رونا۔تجھے بھی نا بس رونے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ اب پتا نہیں اس لڑکے کے گھر والے کتنے پیسے مانگیں۔” فوزیہ سر پکڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔
”مر جا مردود کہیں جا کر۔” ماں نے منے کو دھکا دیا تو و ہ فوزیہ کے سامنے آکر اس کے پاؤں میں گر پڑا۔
”باجی ایک بار معاف کردے، اب نہیں کروں گا۔”
”اس وقت تو تو اندر جا۔مجھے اپنا یہ منحوس چہرہ مت دکھا،بہت غصہ ہے مجھے۔”فوزیہ نے غصے سے کہا۔
”جا اندرجا کر مر جا کر،کیوں بے غیرتوں کی طرح سب کے سامنے کھڑا ہے۔”ماں نے اسے اندر کی طرف دھکا دیا۔
”اماں تو ان کے لیے دعا کرتی تھی ،ان بیٹوں کے لیے؟ اگر مائیں ایسے بیٹوں کے لیے دعائیں کرتی ہیں تو اللہ کرے ساری مائیں بانجھ ہو جائیں۔”فوزیہ نے منے کو اندر جاتے دیکھا تو نفرت سے زمین پر تھوک کر کہا۔
”او بس کردے فوزیہ!اللہ نہ کرے ایسا ہو،تو بھی ایک بیٹے کی ماں ہے۔”ماں اس کی بات سن کر دہل کر رہ گئی تھی۔
”ہاں اسی لیے تو یہ دعا کر رہی ہوں۔ اس بھائی کو میں نے ماں بن کر پالا تھا۔تجھے یاد ہے کیسے اپنے خرچے میںسے پیسے بچا بچا کر میں اس کے اسکول کی فیس دیتی تھی۔” فوزیہ کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔
”ہاں میں یہی تو سوچتی ہوں کتنا حلال کا کھلایا ہے تیرے باپ نے اور تو نے بھی کتنی محنت کا پیسا لگایا ان پر،پھریہ حرام لتیں ان کو کیسے لگ گئیں۔” ماں نے پریشانی سے کہا تو فوزیہ نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا۔ اسے اچانک خیال آیا کہ اس وقت جو پیسا وہ کما رہی تھی وہ کتنا حلال تھا ،اگر یہ پیسا حلال ہوتا تو اس کا بھائی جوئے اور چرس کی عیاشی میں نہ اُڑاتا۔ وہ ایک دم اپنی جگہ چور سی بن گئی۔
٭…٭…٭
مُنی ایک درمیانے درجے کے پارلر میں بیٹھی فیشل کروا رہی تھی۔ اس کے بعد اس نے بالوں کی کٹنگ بھی کروائی۔ ان سب کے بعد اس نے شیشے میں اپنے جائزہ لیا۔ وہ بالکل بدل گئی تھی۔”دیکھ باجی میں بالکل تیرے جیسے لگنے لگی ہوں۔”مُنی نے خود پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اس نے سر پر دوپٹہ رکھا اور پھر آئینے میں دیکھا تو بُرا سا منہ بنایا۔
”اتنے خوب صورت بالوں کو دوپٹے میں نہیں چھپنا چاہیے۔”بڑے اسٹائل سے اس نے دوپٹہ سر سے اتار کر ایک طرف کندھے پر ڈال لیا اور پیسے دے کر باہر نکل آئی۔ وہ گھر جانے کے لیے ایک گلی سے گزر رہی تھی جہاں چار پانچ لڑکے گلی کے نکڑ پر بیٹھے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ہنس رہے تھے۔ لڑکوں نے مُنی کو دیکھا اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔
”یار یہ تو مُنے کی بہن ہے۔”پہلے لڑکے نے حیرت سے کہا۔” ہاں یار،ہے تو وہی۔”دوسرا لڑکا بولا۔
” لیکن اس کا حلیہ…اس نے تو سر پر دوپٹہ بھی نہیں لیا۔”پہلے لڑکے کے انداز میں حیرانی تھی۔
”شکر ہے مُنا یہاں نہیں،وہ تو قتل کردیتا اسے۔”ایک اور لڑکے نے کہا۔
”لیکن ویسے تو وہ بڑی غیرت والی بات کرتا ہے۔ بہن کو نہیں سمجھاتا،کیسے بال کٹوائے ہوئے ہیں اس نے۔”پہلے لڑکے نے کہا۔
”جو بہن کی کمائی کھاتا ہو اس کی اپنی غیرت مر جاتی ہے۔”دوسرا لڑکا بولا۔
”پتا نہیں بڑی بہن بھی شہر میں کیا کرتی ہے جو ہر وقت اس کی جیب بھری رہتی ہے۔”تیسرے لڑکے نے تشویش ظاہر کی۔”او چھوڑو یار ہمیں کیا،مُنا جانے اور اس کی بہنیں۔”پہلے لڑکے نے کہا۔
” لیکن یار ہمیں مُنے کوبتانا تو چاہیے، کہیں کوئی بڑی بات نہ ہو جائے۔بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔”دوسرے لڑکے نے کہا تو سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
٭…٭…٭
ماں فوزیہ کے آگے کھانا رکھتی ہوئی کچھ سوچ رہی تھی۔اس کے چہرے پر پریشانی بھی تھی۔”فوزیہ اس بار تو جلدی نہیں آ گئی۔”ماں نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔
” ہاں اماں دل چاہ رہا تھا تم سب سے ملنے کو۔کیوں تجھے اچھا نہیں لگا؟”فوزیہ نے بڑے طنزیہ انداز میں ماں سے پوچھا۔
” نہیں نہیں میں تو اس لیے پوچھ رہی ہوں تیرے وہاں نہ ہونے سے تیرے کام میں تو کوئی حرج نہ ہو گا۔”ماں نے فکرمندی سے کہا۔
”اماں تجھے تیرے پیسے پورے ملیں گے۔تو فکر نہ کر،اس میں کمی نہ ہو گی۔”فوزیہ سر کو جھٹکتے ہوئے ہنس پڑی۔
”لے میں اس لیے تو نہیں کہہ رہی تھی،کیسی بات کرتی ہے تُو۔”ماں نے شرمندگی سے کہا۔
”رہن دے اماںصفائیاں دینا،یہ بتا مُنی کہاں ہے؟”فوزیہ کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ مُنی کمرے میں داخل ہوئی۔
”باجی میں یہاں ہوں اور دیکھ میں کیسی لگ رہی ہوں۔”مُنی ا س کے پاس آ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔
مُنی کواس حالت میں دیکھ کر فوزیہ خوش ہوئی اوراس کی کٹنگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔ ”ارے واہ!تو پارلر سے آرہی ہے؟”
”میں کچھ کچھ تیرے جیسے لگ رہی ہوں نا۔”مُنی نے اشتیاق سے پوچھا۔
”مُنی تو میرے جیسا کیوں لگنا چاہتی ہے؟”فوزیہ نے حیرانی سے سوال کیا۔
”باجی اس گھر میں تو مجھے سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے،اماں تو بس ڈانٹتی رہتی ہے۔”مُنی نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں ہاں بہت اچھی ہیں تیری حرکتیں۔تیری حرکتوں پر اب ڈانٹوں نہیں تو کیا کروں؟اماں، یہ جو تو بال کٹوا کر آئی ہے تیرا بھائی دیکھے گا تو جان سے مار دے گا۔”ماں نے ناراضی سے کہا۔
”او کچھ نہیں ہوتا خواہ مخواڈراتی رہنا باجی کو تو کچھ نہیں کہا اس نے کبھی،اس کے بھی تو بال کٹے ہوئے ہیں۔”مُنی نے فوزیہ کے بالوں کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا۔
”اس کا تو لحاظ کرتا ہے لیکن تجھے نہیں چھوڑے گا اس کے سامنے سر ڈھانک کر آنا۔”ماں نے اسے ڈانٹا پھر بولی۔”جا اندر جا کر ہانڈی دیکھ میں نے ابھی چڑھائی ہے اور ہاں فوزیہ کے لیے تھوڑی سی سویاں بھی بنا لے۔”
”باجی تو کھائے گی سویاں؟”مُنی نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں دل تو بہت چاہ رہا ہے۔”فوزیہ نے مسکرا کر جواب دیا تو مُنی کچن میں چلی گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۱۰

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!