”مُنے تو بتا تو نشہ کرتا ہے؟پتے بھی کھیلتا ہے؟”فوزیہ منے کے سامنے بیٹھی اس سے پوچھ رہی تھی۔اس کا لہجہ بہت تلخ تھا۔
” باجی تجھ سے ابا نے میری شکایت کی ہے نا۔اُسے تو کسی نے جھوٹ کہا اوراس نے مان لیا۔”منے نے ناراضی سے جواب دیا۔
”دیکھ مُنے جھوٹ مت بول۔ بھائی سے کوئی توقع نہیں ہمیں ۔تو بھی اگر ایسی چیزوں میں پھنس جائے گا تو کیا ہوگا؟”فوزیہ نے اسے پیار سے سمجھایا۔
”باجی ایسا کچھ نہیں ہے۔میری جھوٹی شکایت کی ہے باجی ،تیری قسم ایسی کوئی بات نہیں۔” منے نے آنکھیں آنکھوں میں ڈال کر دھڑلے سے جھوٹ بولا۔
”میری قسم تو سچ کہہ رہا ہے نا؟دیکھ اگر ایسا کبھی ہوا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا تو سن لے۔” فوزیہ نے بھی انگلی اُٹھا کر اُسے وارننگ دی۔
”ہاں ہاں سُن لیا یہ بتا تو پیسے لائی ہے؟”منے نے بدتمیزی سے پوچھا۔
”ہاں یہ لے، لیکن منا دیکھ دل لگا کر کام کرنا اس بار۔”فوزیہ نے اسے پرس سے نکال کر پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔
مناپیسے گنتے ہوئے وہاں سے پلٹا اور بے پروائی سے بولا۔”ہاں ہاں ٹھیک ہے،چلتا ہوں۔”
فوزیہ نے اسے آواز دی۔اس کے لہجے میں بڑا مان تھا۔” سُن رک ذرا،تھوڑی دیر اپنی باجی کے پاس نہیں بیٹھے گا؟”
”او بڑے کام ہیں ابھی۔اس وقت جانے دے اب تو آئے گی تو دل بھر کر باتیں کریں گے ہم بہن بھائی۔”یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رحیم کمرے میں بیٹھا فوزیہ اور اپنے گھر والوں کو برا بھلا کہہ رہا تھاکہ ذرا سی بات پر بے عزتی کردیتے ہیں۔میری تو کوئی عزت ہی نہیں۔اسما اسے سمجھا رہی تھی کہ فوزیہ بوتیک سے اتنا کماتی ہے تو ہمارا بھی اس پر حق بنتا ہے،تو خواہ مخوا اس سے جھگڑا کرتا ہے۔خاموشی سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو۔
”سن اسما!ہمیں اپنا ٹھکانہ الگ کرنا ہی ہوگا۔میں نہیں رہ سکتا اتنی بے عزتی کے ساتھ۔”
”لے اس میں بے عزتی کی کیا بات۔ تو سمجھ نہیں رہا رحیم اس وقت یہاں سے جانا ہمیں بہت مہنگا پڑے گا،میں تو نہیں جاتی۔”اسما نے فیصلہ سنایا۔
”تو رہ اور بے عزتی بھی سہہ۔”رحیم نے نفرت سے اسما کو دیکھا۔
اسما نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بٹھادیا۔”بے عزتی کی کیا بات ہے۔پہلے بھی کون سی عزت ہے۔ تھوڑا خود غرض بن کر سوچ یہاں رہنے میں ہمارا کتنا فائدہ ہے۔بچوں کی فیس وہ دے رہی ہے،گھر کا کرایہ بچتا ہے، بجلی کا،گیس کا،سارے بل وہ دیتی ہے۔سوچ ذراباہر کرایا ہی مار ڈالے گا تجھے۔”
”ہاں کہہ تو تو ٹھیک رہی ہے،لیکن اب کیا کروں،اب تو غصے میں کہہ آیا ہوں۔”رحیم نے تشویش ناک انداز میں کہا۔
”تو کچھ نہ کر،اب جو کرنا ہے میں نے کرنا ہے۔بس تو دیکھتا رہ جو میں کروں ہاں میں ہاں ملاتے جانا۔”اسما چہرے پر ایک مکّارانہ مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی۔
”چل ٹھیک ہے۔”رحیم نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
”توخود ہی سوچ کہ تیری بہن اتنا کماتی ہے تو کیا سب کچھ چھوڑ کر چل دے گا تیرا بھی حق ہے۔ دیکھ رحیمے!تیری بہن کی کمائی میں اس کے بھتیجیوں، بھتیجوں کا بھی تو حق ہے۔بول غلط کہہ رہی ہوں میں؟”
”نہ کہہ تو تو ٹھیک رہی ہے،پھر کیا کروں میں؟”رحیم نے بات سمجھنے والے انداز میں کہا۔
”کچھ نہیں تو دیکھتا رہ اب میں کیا کرتی ہوں۔”س کی آنکھوں میں عیارانہ سی چمک تھی،یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہرنکل گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ صبح اُٹھ کر اماں سے ناشتہ بنانے کا کہہ رہی تھی کہ دونوں بھتیجا بھتیجی کہیں سے نکل کرآ گئے اور پھوپھو کہہ کر اس سے لپٹ گئے۔
”پھوپھو ہمیں کہیں نہیں جانا،ہم نے یہیں رہنا ہے۔”بچوں نے پیار سے کہا۔
”دیکھ نا فوزیہ!تیرے بھائی نے رات سے ان کو بتایا ہے کہ اب ہم یہاں سے دوسرے گھر میں چلے جائیں گے تو پریشان کرکے رکھا ہے کہ ہم نے کہیں نہیں جانا،بابا کے پاس رہنا ہے۔بابا سے محبت بھی تو بہت کرتے ہیں۔”اسما بھی بچوں کے پیچھے پیچھے نکل کر آگئی۔
”پھوپھو ہمیں روک لو۔”دونوں بچے ضد کر نے لگے۔
فوزیہ کی آنکھ میں آنسو آگئے اس نے پیار سے کہا۔”او کہیں نہیں جا رہے تم لوگ۔”یہ کہہ کر اس نے دونوں بچوں کو لپٹا لیا۔
”رات سے ایسے ہی ضد کررہے ہیں۔”اسما نے بناوٹ سے کہا۔
”اماں تو بھائی کو سمجھا، وہ کہیں نہیں جارہا۔”فوزیہ نے پلٹ کر ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ماں بھی جیسے یہی چاہتی ہو،فوراً بولی۔”ہاں ہاں میں سمجھاتی ہوں اُسے ،تو فکر مت کر۔”
”جاؤ بچوں باہر جا کر کھیلو،کوئی کہیں نہیں جارہا۔”فوزیہ نے بچوں کو دور ہٹاتے ہوئے کہا۔
”بھابی تو بھی بھائی کو سمجھا ابا سے ناحق نہ لڑا کرے۔”فوزیہ نے اسما سے کہا۔
”میں تو بہت سمجھاتی ہوں پھر کہوں گی تو فکر نہ کر۔”اسما نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بڑے پیار سے کہا۔”میں ذرا بندھا ہوا سامان کھول لوں،رحیم نے تو رات کو ہی باندھنا شروع کردیا تھا۔”
”ہاںہاں توجا،کوئی کہیں نہیں جا رہا۔”فوزیہ نے کہا۔
”بڑی چالاک ہے۔”اماں نے اسما کی طرف دیکھتے ہوئے منہ بنایا اور نفرت سے بولی۔
”چھوڑ اماں یہاں کون چالاک نہیں ،سب اپنے مطلب کے ہیں۔خیر تورات مُنی کے رشتے کا بتا رہی تھی،کہاں سے آیا ہے؟”فوزیہ نے طنزیہ انداز میں کہا اور بات بدل دی۔
”گاؤں سے ایک رشتہ آیا ہے۔”ماں نے بات شروع کی۔
”میں نے مُنی کے لیے گاؤں کا کوئی رشتہ قبول نہیں کرنا۔”فوزیہ نے قطعیت سے کہا۔اتنے میں منی بھی کمرے میں داخل ہوئی اس نے فوزیہ کی بات سن کر ہنستے ہوئے ماں سے کہا۔
”سن لیا اماں تو نے،باجی بھی یہی کہہ رہی ہے۔میں نے کوئی نہیں کرنی شادی وادی گاؤں میں۔”
”اماں یہ اب گاؤں میں نہیں رہ پائے گی۔”فوزیہ نے ماں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”میں تو وہاں شادی کروں گی جہاں باجی کہے گی اور گاؤں میں تو بالکل نہیں کروں گی۔”مُنی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”چل تو اندر جا لڑکیاں اپنے ویاہ کی بات میں دخل نہیں دیتیں۔”ماں نے مُنی کو ڈانٹا۔
”کیوں نہیں دیتیں۔باجی تو ہی تو کہتی تھی ہم بھیڑ بکریاں نہیں کہ جدھر چاہو ہانک دو۔میں نے بھی باجی کی طرح اپنی مرضی سے ویاہ کرنا ہے۔”مُنی ماں سے لڑنے لگی۔
”دیکھ فوزیہ کتنی زبان چلتی ہے اس کی۔”
”ہاں ہاں مُنی تو فکر مت کر میں ہوں نا، تیری مرضی کے خلاف کچھ نہ ہوگا۔”فوزیہ نے مُنی کو تسلی دی۔
” میری اچھی باجی!تم کتنی اچھی ہو۔”مُنی فوزیہ کے گلے لگ گئی۔
٭…٭…٭
ریحان کا گھر چھوڑنے کے بعد کنول نے شہر میں اپنے لیے ایک الگ فلیٹ لے لیا تھا۔عرصہ گزر گیا تھا وہ ریحان سے نہیں ملی تھی۔اسے پتا تھا وہ جب بھی ملے گا بہت ناراض ہو گا اور آج ایسا ہی ہو۔
بیل ہونے پرکنول نے دروازہ کھولا۔سامنے ریحان کھڑا تھا۔وہ اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور گلے لگ گئی ۔
”ریحان تمہیں نہیں پتا تمہیںدیکھ کر کتنی خوشی ہورہی ہے۔”
”بس رہنے دو بہت سے بے وفا دیکھے ہیں لیکن تم سا نہیں دیکھا۔مشہور ہوگئی ہو اس لیے ہم جیسے چھوٹے موٹے نظر نہیں آتے۔”ریحان نے منہ بناکر ناراضی کا اظہار کیا۔
”مشہور کے ساتھ بدنام بھی ہوگئی ہوں۔”کنول نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔ ”تو کہتا تھا نا کہ بدنام ہوگی تو کیا ہوا،نام تو ہوگا۔”
”دیکھو بدنام ہوکر کتنا کچھ مل گیا۔بڑی ترقی کرلی تو نے اتنے سے عرصے میں۔”ریحان نے ایک نظر گھر پر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ہاں نیک نامی نے تو صرف فاقے ہی کروائے تھے۔”کنول نے طنزیہ اندا زمیں کہا۔
”لگتا ہے اپنے گھر سے ہوکر آرہی ہے۔”ریحان نے کنول کو بہت غور سے دیکھا۔
”تجھے کیسے پتا؟”کنول کو حیرانی ہوئی۔
”تو جب وہاں سے واپس آتی ہے تو پھٹکار پڑ جاتی ہے تیرے چہرے پر،تیرا چہرہ اور طرح کا ہو جاتا ہے۔” ریحان نے اطمینان سے کہا۔
”ہاہاہا، تو بیٹھ یہاں تجھ سے زیادہ میرے چہرے کو پہچاننے والا اور کوئی نہیں۔”کنول نے اسے صوفے پہ بٹھاتے ہوئے کہا۔
”اب بتا کیا مسئلہ ہے؟”ریحان نے پوچھا۔
”کچھ نہیں یار اس بار اماں مُنی کی شادی کی بات کررہی ہیں۔ گاؤں کا رشتہ ہے ،میں وہاں نہیں کرناچاہ رہی۔” کنول نے کچھ سوچتے ہوئے ریحان کو بتایا۔
”اب رہنے دے سب کے لیے سوچنا،اپنے لیے بھی کچھ سوچ۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”کیا کروں ریحان کیسے اپنے بارے میں سوچوں؟بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ماں باپ کے لیے مجھے ہی سوچنا پڑتا ہے۔ مجبور ہوں، ان کے لیے سب کرنا پڑتا ہے۔”کنول زچ ہو گئی تھی۔
”تیرے بھائیوں کو تیری کمائی کی عادت پڑ چکی ہے،اب کچھ نہیں ہوسکتا۔وہ تجھ سے مانگتے ہیں تو دیتی رہتی ہے۔اپنے لیے کبھی کچھ نہیں سوچا تو نے۔”ریحان دکھی لہجے میں بولا۔
”اپنے لیے کیا سوچوں؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہی کہ تیرا بھی اپنا ایک گھر ہو، تو بھی اپنا گھر بسائے۔ کیاتیرا دل نہیں چاہتا؟”ریحان نے کہا۔
”ہاہاہا!میرا دل تو صرف ایک آدمی سے شادی کرنے کو چاہتا ہے۔”کنول نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”کس سے؟”ریحان نے فوراً پوچھا۔
”فیضان خان۔”کنول نے مذاقیہ انداز میں جواب دیا۔
”وہ تو میرا بھی فیورٹ ہے۔”ریحان نے کہا پھر بولا۔”توبس پھر وہ بھی تیرے ہاتھوں سے گیا۔”
”کیا مطلب؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”تو نے خبر نہیں سنی؟”ریحان نے کہا۔
”کیا؟”کنول نے لا علمی سے کہا۔
”اس کی توشادی ہورہی ہے۔میں نے کل رات ہی نیوز سنی تھیں۔”ریحان نے مزے سے کہا۔
”جھوٹ مت کہہ۔”کنول فوراً بولی تو ریحان نے ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی آن کر دیا۔
وہ دونوں ٹی وی کے آگے بیٹھ گئے جہاںفیضان خان کی شادی کی فوٹیج چل رہی تھی۔کنول منہ پر ہاتھ رکھے شدید غم کی حالت میں بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭
اگلے دن وہ فیضان خان کے دروازے پر کھڑی تھی اور ساتھ سارا میڈیا کھڑاتھا۔اس نے فیضان کے نام کا ایک پلے کارڈ اٹھایاہوا تھا جس پر”فیضان خانI love you” لکھاہوا تھا۔چوکیدار اندر سے باہر آیااوراسے ڈانٹتے ہوئے بولا۔
”بی بی کیا تماشا لگا رکھا ہے، آگے بڑھو۔”
”تماشا نہیں محبت ہے یہ۔فیضان خان I love you.ُُ” کنو ل نے ڈرامائی انداز میں بولی پھرمنت بھرے انداز میں اسے کہا۔”میں فیضان خان سے بہت محبت کرتی ہوں۔ایک بار صرف ایک بار ان سے ملنا چاہتی ہوں۔پلیزان سے کہو ایک فین ان سے ملنے آئی ہے۔”
”صاحب گھر پر نہیں ہیں، آپ جاؤ پھر آنا۔”چوکیدار نے سخت لہجے میں کہا۔
”میں نہیں جاؤں گی یہاں سے ملے بغیر،جان دے دوں گی۔بتا دو ان کو جا کر۔”کنول نے فوٹوگرافرز کو دیکھتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا۔
”ہونہہ بڑی دیکھی ہیں تمہارے جیسی فینز روز دروازے پر آکر کھڑی ہوجاتی ہیں۔”چوکیدار اندر کی طرف جاتے ہوئے بڑبرایا۔
چوکیدار کے اندر جاتے ہی میڈیاکنول کے آس پاس آکر کھڑا ہوگیا اور اس سے بات چیت کرنے لگا۔کنول بھی بڑے مزے سے انٹرویو دینے لگی۔
فیضان سے بہت محبت کرتی ہوں۔ ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں،لیکن اس نے میرا دل توڑ دیاکسی اور سے شادی کر کے۔”
٭…٭…٭
کنول نے فیضان خان کو مخاطب کرکے ایک ویڈیو فیس بک پر چڑھائی۔ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہوئے اس نے اسٹیٹس لکھا۔
”فیضان خان!you can’t do this, I love you،میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔ذرا خیال نہیں کیا تم نے میرا۔میں ایک دن تم سے ضرور ملوں گی۔اس کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑا میں کروں گی، یاد رکھنا!”
فوزیہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے اسکرین پر”شہریار کالنگ” دیکھا اور مسکرا کر کال ریسیو کر لی۔
” کیسی ہو؟”شہریار نے بے تابی سے پوچھا۔
”مجھے پتا تھا تمہارا فون ضرور آئے گا۔”کنول نے ہنستے ہوئے کہا۔
”کیسے؟تمہیں الہام ہوا تھا کیا؟”شہریار نے تعجب سے پوچھا۔
”جب بھی میں کوئی ایسی ویسی ویڈیو لگاتی ہوں تم ضرور فون کرتے ہو۔”کنول نے اطمینان سے کہا۔
”اس کا مطلب ہے تمہارا جب مجھ سے بات کرنے کو دل چاہتا ہے تم ایسا کام کرتی ہو۔” شہریار نے بھی مزے سے جواب دیا۔
”ہاہاہا خوش فہمی ہے تمہاری۔”کنول نے قہقہہ لگایا۔
”ایک بات تو بتاؤ، تم یہ سب کیوں کررہی ہو؟”شہریار نے پوچھا۔
”میرا روزگار ہے۔یہ نہ کروں تو بھوکی مروں گی۔”کنول نے اپنی ہنسی کو بریک لگاتے ہوئے کہا۔
”کوئی نہیں مرتا بھوکا،میں تمہارے لیے بہت کچھ سوچ رہا ہوں۔”شہریار نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”کیا؟”کنول نے فوراً پوچھا۔
”ملو گی تو بتاؤں گا۔”شہریار نے چالاکی سے کہا۔
”ہر بار ملنے کے لیے ایسا ہی بہانہ کیوں ڈھونڈتے ہو؟”کنول نے شرارتی لہجے میں پوچھا۔
”اور تم ہر بار آجاتی ہو۔”شہریار نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”اچھا بتاؤ کہاں آنا ہے؟”کنول نے ہار مانتے ہوئے پوچھا۔
”تمہیں پتا تو ہے،اپنی اسی پرانی جگہ پر۔”شہریار نے جواب دیا۔
”چلو پھر ملتے ہیں ۔”کنول نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔اب وہ گنگنا رہی تھی۔موڈ اچانک ہی اچھا ہو گیا تھا، کیوں؟ اسے بھی نہیں پتا تھا۔ بس گنگنانے کو دل کرنے لگا ۔اسے معلوم تھا دل خوشی سے بھر جائے تو دل کے ہر تار پر موسیقی طاری ہوجاتی ہے، ہر دھڑکن پر بربط بج اُٹھتی ہے اور اب اِس وقت یہی حال فوزیہ کا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں اپنے مخصوص ریسٹورنٹ میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ کافی کا ایک سِپ لینے کے بعد کنول نے بے پروائی سے کہا۔