سب گھر والے زمین پر لگے دستر خوان پر کھانا کھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں کسی چینل سے کنول بلوچ کے بارے میں رپورٹ چلنے لگی جس میں کنول بلوچ کے گاؤں والے مقابلے، میوزک شواورفیس بک اسٹیٹس کے بارے میں ڈسکس ہورہا تھا۔کنول کے سب بہن بھائی اس کا مذاق اُڑا رہے تھے۔
اتنے میں ماں نے سویوں کا پیالااس کے آگے کیا اور بولی۔”لے فوزیہ یہ سویاں کھا تجھے بہت پسند تھیں میرے ہاتھ کی سویاں۔”
فوزیہ نے پیالا تھام کر عجیب سی نظروں سے ماں کو دیکھا۔”ہاں اماں،تجھے یاد ہے ابھی تک؟”
”لے جھلی یہ بھی کوئی بھولنے کی بات ہے؟”ماں نے پیار سے کہا۔
”ہاں اماں بھولنے والی تو اور بھی ساری باتیں نہیں تھیں خیر۔” فوزیہ نے ہنس کر تھوڑا تلخی سے جواب دیا۔
”باجی دیکھ یہ لڑکی کیسی حرکتیں کررہی ہے۔”مُنی نے ٹی وی پر ڈانس کرتی کنول بلوچ کا مذاق اُڑایا۔
”باجی یہ ہے وہ لڑکی جسے مالک مکان تیرے جیسی کہہ رہا تھا،یہ بے حیا تیرے جیسے کیسے ہوسکتی ہے بھلا۔”مُنا نے بھی طنز کرنا اپنا فرض سمجھا۔
”اس بے حیا کو دیکھو،ذرا شرم نہیں کس طرح کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اس نے۔”اماں نے بھی ان کی باتوں میں اپنا حصہ ڈالا۔
”اور ناچ کیسے رہی ہے۔”مُنا قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے بولا۔
فوزیہ کی برداشت ختم ہوگئی،وہ زور سے چلائی۔” مُنا ٹی وی بند کردے،کوئی اور کام نہیں تجھے؟”
”ارے باجی دیکھنے دے بڑا مزہ آرہا ہے۔”مُنا ڈھٹائی سے بولا۔
” مُنا میں کہہ رہی ہوں ٹی وی بند کر۔”فوزیہ نے دوبارہ اونچی آوازمیں کہا۔
” نہیں بند کروں گا،جا جو کرنا ہے کرلے۔”مُنا نے بدتمیزی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہاتو وہ صرف اسے گھور کر رہ گئی اور بڑی عجیب نظروں سے ان سب کو دیکھنے لگی۔کتنا سب کچھ کیا تھا اُس نے اِن لوگوں کے لیے اور آج سب کتنے بے دید ہوگئے ہیں۔اس کی کسی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ وہ خاموشی سے ان سب کے درمیان سے اُٹھ گئی اور اس کے اٹھنے کو کسی نے محسوس ہی نہیں کیا۔ سب اپنی باتوں میں مصروف رہے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
گاؤں میں اسما،اس کی ماں اوراس کا بھائی ساجدفوزیہ کو ڈسکس کررہے تھے۔ساجدطنز اور نفرت سے اسما سے بولا۔
”سنا ہے تیری بھگوڑی نند واپس آگئی ہے۔”
”ہاں بھائی کیا بتاؤں وہ تو بالکل بدل گئی شہر میں خوب پیسا کمایا ہے۔ یہ کھلے ہاتھ سے پیسہ خرچ کررہی ہے۔”اسما نے رشک و حسد سے جواب دیا۔
”سمجھ نہیں آتا کہ اتنا پیسہ اس نے کمایا کہاں سے؟”اماں نے حیرانی سے ناک پر انگلی رکھ کر کہا۔
”سنا ہے شہرمیں کسی کپڑوں کی دکان پر کام کرتی ہے۔ ابا کا سارا علاج کروایا،کہتی ہے کہ نقلی ٹانگ بھی لگوا دوں گی۔”اسما نے ماں کو بے پروائی سے جواب دیا۔
”اے اسمایہ نقلی ٹانگ کتنے کی لگتی ہے؟”ماں نے حیرانی سے اسما سے پوچھا۔
”مجھے پتا نہیں اماں لیکن کافی پیسہ لگ جاتا ہے۔”اسما نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”میرے خیال میں کوئی غلط کام ہی کرتی ہے سالی۔”ساجد نے نفرت سے زمین پر تھوکا۔
”مجھے بھی یہی لگتا ہے،ورنہ کوئی اس طرح پیسہ لٹاتا ہے۔ٹی وی بھی لے لیا، فریج بھی خرید لیا۔ کہہ رہی تھی اماں گھر بھر دوں گی تیرا۔”اسما نے اس کے شک کو یقین دیتے ہوئے کہا۔اس کے لہجے میں فوزیہ کے لیے بہت نفرت تھی۔ ”اس کے لچھن تو پہلے ہی ٹھیک نہ تھے،جیسے کما رہی ہے سالی پکڑی جائے گی دیکھنا۔”
”پورے گاؤں میں بدنامی کرواکر گئی تھی ہماری بے غیرت۔”ساجد بولا۔
”چل چھوڑ اب اگر غلط کررہی ہے توخود ہی بھگتے گی۔”اسما نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
مُنا اپنے موبائل پر ویڈیو دیکھ رہا تھاکہ اس کا دوست آگیااور اس کے موبائل کو ہاتھ میں لے کر اُلٹ پُلٹ کر دیکھنے لگااور پھر موبائل کی تعریف کی۔
”یار تیرا موبائل تو بہت زبردست ہے،باہر کا لگتا ہے۔”دوست نے رشک سے کہا۔
” میری باجی نے تحفہ دیا ہے،دبئی سے لائی تھی۔”مُنا نے خوش ہو کر اترا کر جواب دیا۔
”بیچے گا؟”دوست نے موبائل دیکھ کر پوچھا جیسے بہت پسند آیا ہو۔
”ارے نہیں تحفہ ہے،باجی ناراض ہوں گی۔”مُنا نے فوراً انکار کر کے موبائل جھپٹ لیا۔
دوست نے للچائی نظروں سے موبائل کی طرف دیکھا اور اُسے پٹی پڑھائی۔”انہیں کیا پتا چلے گا تو کہہ دینا کسی نے چھین لیا،تم ایک اور منگوا لینا۔”
”نہیں یار۔” مُنانے نفی میں سر ہلایا۔
”دیکھ منہ مانگی قیمت دوں گا،دل آگیا ہے اس پر بول۔کیا کہتا ہے۔”دو ست نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سرگوشی کی اور جیب سے چند نوٹ دکھا کر لالچ دیا۔
” اچھا،چل بتا کیا دے گا۔”پیسے دیکھ کر مُنا کے منہ میں پانی بھر آیا۔
٭…٭…٭
شام تک منے نے فوزیہ باجی کو فون کر کے بتا دیا کہ کسی نے اس کا موبائل چھین لیا ہے،وہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔فوزیہ نے اس کو چپ کرواتے ہوئے یقین دلایا کہ میں ایسا ہی ایک اور موبائل تجھے لادوں گی۔یہ سن کر منے نے ایک اور فرمائش کر دی کہ مجھے موبائل کا کام سکھا کر موبائل کی دکان کھلوا دے،دیکھنا پھر میں اماں اور ابا کو کتنا کما کر دوں گا۔فوزیہ سوچ میں پڑ گئی،وہ جانتی تھی کہ منے نے پڑھ کر نہیںدینا تو کسی اور کام دھندے میں لگایا جائے۔یہی سوچ کر اسے تسلی دیتے ہوئے فون بند کردیا۔ابھی وہ انہی خیالوں میں گم تھی کہ ریحان آگیا۔
”یار کیا میں بہت بری ہوں؟”کنول نے ریحان سے بہت اداسی سے پوچھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔
ریحان نے حیرانی سے اُسے دیکھا۔”کیا مطلب؟یہ خیال کیوں آیا تمہارے ذہن میں؟”
”کل کنول بلوچ کی ایک ویڈیو دیکھ کر میرے بہن بھائی کنول بلوچ کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔” کنول دکھی انداز میں بولی۔
”ہاں تو کیا ہوا،کہنے دو۔وہ کنول بلوچ کو کہہ رہے تھے تمہیں تو نہیں ۔” ریحان نے کندھے اُچکاتے ہوئے بے پروائی سے کہا پھر اسے سمجھانے لگا ۔”تم تو ان کے لیے فوزیہ عظیم ہو،تم کیوں پروا کرتی ہو۔”
”پروانہیں کرتی بس دُکھ ہوتا ہے۔”کنول نے افسردگی سے کہا۔
”دیکھو اس وقت صرف یہ سوچو کے تم اپنے گھر والوں کے کتنے کام آرہی ہو۔تم یہ سب نہ کرتیں تو تمہارے باپ کا کیا ہوتا۔”ریحان نے اسے دلاسا دیا۔
اس وقت ٹی وی پرفیضان خان کی کپتانی کے دنوں کاکرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل میچ آرہا تھا جو پاکستان نے جیتا تھا۔ریحان نے اُسے اُداس دیکھ کر بات بدلی۔
”چلو چھوڑو سب،یہ دیکھو فیضان خان کا کوئی پرانا میچ دکھا رہے ہیں،آؤ یہ دیکھتے ہیں۔”
کنول اشتیاق سے سب بھول کرمیچ دیکھنے لگی۔” تمہیں پتا ہے مجھے فیضان خان بہت پسند ہے۔”
” ویسے آپس کی بات ہے فیضان میرا بھی موسٹ فیورٹ ہے،بہت ظالم ہے۔”ریحان نے اس کے کان کے پاس منہ لا کر سرگوشی کی۔
”میرا اس سے ملنے کا بہت دل چاہتا ہے۔”کنول بہت دل سے کہتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”تو مل لو اس میں مسئلہ کیا ہے۔”ریحان نے بے پروائی سے کہا۔
”ہاں ملوں گی کسی نہ کسی دن۔”کنول کچھ سوچتے ہوئے بولی۔وہ کہیں دور سوچوں میں پہنچی ہوئی تھی اور ریحان اس کے چہرے کی جانب دیکھتا ہوا سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کی خواہشیں کتنی انوکھی سی ہیں۔
٭…٭…٭
وہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی اور ریموٹ سے چینل بھی سرچ کررہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔اس نے چونک کر فون اٹھا لیا۔دوسری طرف جو کوئی بھی تھا وہ بہت ادب سے بات کررہا تھا۔
”مس کنول بلوچ ”جذبہ نیوز” سے عمر بات کررہا ہوں۔”
”بات کررہی ہوں بولیں۔”اس نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا۔
”کل خواتین کا عالمی دن ہے، ہم نے ایک پروگرام تیار کیا ہے خواتین کے حقوق کے حوالے سے، کیا آپ اس پروگرام میں آسکتی ہیں؟”عمر نے کہا۔
”میں تو آسکتی ہوں مگر جو بولوں گی وہ آپ ٹی وی پر چلا نہیں سکتے۔”کنول نے ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
”اسی لیے تو آپ کو بلا رہے ہیں۔آپ جیسے لوگ کم ہی ہیں اس دنیا میں۔”عمر نے بھی اسی کے انداز میں ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے گاڑی بھیج دیجئے گا، آجاؤں گی۔”کنول نے کہا تو عمر نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور فون بند کردیا۔
کال ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ ٹی وی پر چینل سرچ کرنے لگی اور کافی دیر تک اسی مشغلہ میں مشغول رہی۔پھر دل بھر گیا تو ٹی وی بند کرکے ریموٹ ایک طرف اچھال دیا۔
٭…٭…٭
اگلے دن اس ٹی وی پروگرام میں کنول بلوچ عورتوں کی آزادی کے لیے دھواں دھار انداز میں تقریر کر رہی تھی۔
”بی بی آپ کے فیس بک اسٹیٹس اور ویڈیوز جتنی اوپن ہوتی ہیں ان کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ آپ ایک پاکستانی خاتون ہیں۔”اینکر نے اس پر طنز کیا۔
”واہ!ہمارے منافق معاشرے میں مرد کو ہر بات کی اجازت اور عورت کے ہنسنے پر بھی پابندی ہے۔میں تو وہ کرتی ہوں جو میرا دل چاہتا ہے۔اب اگر کسی کو میرے اسٹیٹس اوپن لگتے ہیں تو نہ پڑھے ،ویڈیوز نہ دیکھے۔”کنول نے کندھے اچکا کر مزے سے کہا۔
”بی بی دیکھیں مشہور ہونے کے اور بھی طریقے ہیں۔”اینکر نے اسے سمجھایا۔
”میں یہ سب مشہوری کے لیے نہیں کرتی۔”کنول نے اس کی بات کاٹی۔
”پھر؟”اینکر نے حیرانی سے کندھے اچکائے۔
”پھر یہ کہ میں ایسی ہی ہوں،اتنی ہی بولڈ اور اتنی ہی سچی۔”کنول نے بے پروائی سے کہا۔
”لیکن آپ بڑے بڑے لوگوں کے نام لے کر اپنی ویڈیوز بناتی ہیں۔ یہ مشہور ہونے کا انداز ہی ہے۔”اینکر نے اس پر طنز کیا۔
”توکیا ہوا؟ یہ کون سا جرم ہے؟آپ کے پروگرام میں بڑے بڑے سیاستدان آکر بیٹھتے ہیں۔ایک دوسرے پر گند اچھالتے ہیں تب تو کوئی اعتراض نہیں اٹھتا۔”کنول نے تلخی سے جواب دیا۔
”لیکن وہ مرد ہیں اور آپ…”اینکر نے پھر طنزیہ انداز میں کہا۔
کنول نے زچ ہوتے ہوئے میز پر مکا مارا۔”میں عورت ہوں ایک کمزور عورت یہی کہنا چاہتے ہیں نا آپ؟”
”وقت بدل چکا ہے،لیکن اب بھی جو عورت ایسی باتیں کرتی ہے لوگ اسے…”اینکر نے برا سا منہ بنا کر کہا مگر کنول نے اس کی بات مکمل نہ ہونے دی اور بولی۔
”ہاں جانتی ہوں لوگ اُسے گالیاں دیتے ہیں۔ تو کیا ہوا روز اپنیwallپر گالیاں سنتی ہوں،دیتے رہیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
”یعنی آپ خود کو باغی سمجھتی ہیں؟”اینکر نے ایک اور طنز کیا۔
”سمجھتی نہیں،میں ہوں باغی۔”کنول نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”لیکن باغیوں کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوتا مس کنول۔”اینکر نے پراسرارلہجے میں کہا۔
”آئی ڈونٹ کئیر!” کنول نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
٭…٭…٭
رات کو سارے کاموں سے فارغ ہو کر شہریار اور اس کی ماں ٹی وی کے آگے بیٹھے تھے کہ کنول کاپروگرام چلنا شروع ہوگیا۔وہ دھواں دھار اندا ز میں کھل کر باتیں کررہی تھی اور حلیمہ حیران اور ہکّا بکّا سی تھی۔اسی حیرانی میں اس نے شہریار سے پوچھا۔
”شہریار یہ وہی لڑکی نہیں فیس بک والی؟”
”جی ماما،یہ وہی ہے۔”شہریار بھی کچھ حیران اور پریشان سا کنول کا پروگرام دیکھ رہا تھا۔
”لیکن مجھے دکھ ہورہا ہے کہ یہ اس طرح مردوں کے خلاف بول رہی ہے،مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا۔”حلیمہ کے لہجے میں ناراضی تھی۔
”جی ماما۔”شہریار نے سر جھکا کر جواب دیا۔
”اینکر ٹھیک کہہ رہا ہے،یہ باغی ہے اور باغیوں کا انجام ٹھیک نہیں ہوتا۔”حلیمہ نے تبصرہ کیا۔اس کی ماں بہت کچھ کہہ رہی تھی لیکن شہریار دل ہی دل میں کنول کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔
٭…٭…٭
پروگرام سے فارغ ہو کر وہ گھر واپس آئی ہے تو ریحان نے دروازہ کھولا۔وہ تھکی تھکی سے اندر داخل ہوکر بالکل گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھ گئی۔اس کے چہرے سے شدید تھکن ظاہر ہو رہی تھی۔
”آج تو میں بہت تھک گئی،کافی تو پلا دو اچھی سی۔”اس نے ٹانگیں پسار کرریحان سے فرمائش کی۔
”ہاں لاتا ہوں کافی،پہلے یہ موبائل سنبھالو۔ تم یہیں بھول کر چلی گئیں تھیں ،بار بار بج رہا تھا۔”ریحان نے اس کا موبائل اسے دیتے ہوئے جواب دیا۔
”اوہ ہاں،لاؤ ادھر۔”اس نے موبائل پکڑا اور پریشان ہوگئی۔بھائی کے نمبر سے پچیس مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں۔اس نے پریشانی کے عالم میں فوراً فون کیا۔اسما نے کال ریسیو کی۔کنول نے بے تابی سے دوسری طرف سے کوئی آواز سنے بغیر پوچھا۔
”بھائی خیر توہے؟”
”فوزیہ تیرے بھائی کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔اللہ کے واسطے کچھ کر فوزیہ،ہم برباد ہوجائیں گے،بچے بہت پریشان ہیں۔”اسما نے روتے ہوئے جواب دیا۔
”بھابی کیا ہوا؟پولیس کیوں پکڑ کر لے گئی؟”کنول نے فوراً پوچھا۔
اسما نے اسے ساری بات بتائی۔کال ختم ہوئی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی،اتنے میں ریحان کافی لے کر آگیا،اس نے باتیں سن لی تھیں اور ساتھ ہی منہ بناتے ہوئے ٹی وی آن کرلیا۔
” اس سے تو وہی دن بہت بہتر تھے جب تم یہاں بالکل اکیلی تھیں۔جب سے تمہارا خاندان تمہاری زندگی میں واپس آیا ہے تمہاری زندگی عذاب بن گئی ہے۔”ریحان نے ٹی وی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔کنول کچھ نہ بولی تو ریحان نے پھر کہا۔”کسی کو پیسے چاہئیں،کسی کو موبائل اور کوئی جیل چلا جاتا ہے،اب بھگتو۔”
”لیکن میں ان کو اس حال میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں،تم بتاؤ تمہارا کوئی اپنا اس حال میں ہوتا تو تم کیا کرتے؟”کنول زچ ہو گئی تھی۔
”وہ تمہیں چھوڑ سکتے ہیں لیکن تم انہیں نہیں چھوڑ سکتی،واہ۔”ریحان نے غصے میں اس پر طنز کیا۔”کب تک مدر ٹریسا بنو گی یار؟”
”پلیز!کچھ کرو ریحان، میں بہت پریشان ہوں۔”کنول نے اس کی منت کی۔
”اچھا پریشان نہ ہو سوچتے ہیں اورکچھ کرتے ہیں۔”ریحان اس کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے پگھل سا گیا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});