باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

رحیم کو کرایا ادا نہ کرنے پر مالک مکان نے نوٹس دے دیا تھا۔وہ بہت پریشان تھا۔اسما نے سمجھایا کہ تو فوزیہ سے مانگ کر دیکھ،آج کل بہت کما رہی ہے لیکن وہ مانگنا نہیں چاہتا تھا۔اسما اس کے پیچھے پڑی رہی کہ اس وقت اپنی بہن سے بنا کر رکھ ،اس کے ساتھ اچھا سلوک رکھے گا تو ہمارے کام آئے گی۔یہ بات رحیم کی سمجھ میں بھی آگئی ۔وہ نازیہ ،اس کے میاں اور اسما کو لے کر اماں اور ابا کے پاس پہنچ گیا۔
اسی وقت فوزیہ گھر میں داخل ہوئی ۔اس نے آدھا چہرہ چادر سے ڈھکاہوا تھا اور ہاتھ میں کچھ شاپرز تھے۔گھر میں بہن بھائی، بھائی بھابی اور بہنوئی سب موجود تھے۔ وہ اُسے دیکھ کر حیران رہ گئے کیوں کہ فوزیہ کافی بدل گئی تھی۔ بہن نازیہ اور اسمااُٹھ کر اس کے گلے لگ گئیں۔
”کیسی ہے نازیہ تو؟”فوزیہ نے پوچھا۔
” میں بالکل ٹھیک تو بتاتو کیسی ہے؟”نازیہ نے اس کے گال پر پیار کرتے ہوئے جواب دیا۔
فوزیہ بھائی کی طرف بڑھ گئی۔ ”بھائی تو کیسا ہے؟”
” فوزیہ میں بھی ٹھیک ہوں تو بتا تو کیسی ہے؟”رحیم نے پیار سے کہا۔
”تجھے دوبارہ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے فوزیہ۔”اسما نے بہت محبت اور لگاوٹ سے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا۔
”بھابی بچے کیسے ہیں؟ساتھ نہیں لائیں؟”فوزیہ نے روکھے پن سے پوچھا۔
” آئیں گے،بچے بھی آئیں گے ۔وہ تو ابھی ہم ابا کو دیکھنے اور تجھ سے ملنے آئے ہیں۔”اسما مسکراتے ہوئے بولی۔
” تو نے ابا کی بہت خدمت کی ہے فوزیہ،بیٹی ہو تو تیرے جیسی۔”نازیہ کا شوہر کیوں پیچھے رہتا، وہ بھی مصنوعی محبت جتاتے ہوئے بولا۔
”بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے،بُرے وقت میں کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔”ماں نے رحیم کی طرف دیکھتے ہوئے اس پر طنز کیا۔
” ہاں اماں تو ٹھیک کہہ رہی ہے اس وقت فوزیہ نے کتنا ساتھ دیا ہے۔”نازیہ نے ماں سے کہا پھر فوزیہ کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔”فوزیہ تو پہلے بھی سب کے لیے بہت کرتی تھی۔اس کی طبیعت ہی ایسی ہے،کسی کو تکلیف میں دیکھ ہی نہیں سکتی۔”پھر وہ رحیم کی طرف دیکھ کر بولی جو اُسے پٹی پڑھا کر لایا تھا۔”اب دیکھ نا فوزیہ رحیم کے کتنے مسائل ہیں،گھر کا کرایہ دیے دو مہینے ہوگئے ہیں۔ اس بار مالک مکان نے سامان باہر پھینک دینا ہے۔”
”بھائی کتنے پیسے ہیں کرائے کے؟”فوزیہ نے پریشانی سے دریافت کیا۔
”یہی کوئی10ہزار۔” رحیم نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے مسکین سا منہ بنایا۔
”جاتے ہوئے لے جانا۔”فوزیہ نے کچھ سوچ کر کہا۔
اسماآگے بڑھ کر دعائیں دینے لگی۔”اللہ تجھے بہت دے فوزیہ!تو نے بچوں کے سر سے چھت نہیں چھیننے دی۔”
”اماں میں ابا کے پاس جارہی ہوں، دواپلا دوں ذرا۔”فوزیہ اُٹھتے ہوئے بولی۔
” ہاں جادیکھ ،تیرا باپ بھی تیرا پوچھ رہا تھا۔”ماں نے فوراً جواب دیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

آج وہ شہریار کے ساتھ باہر نکلی تھی۔اس نے لپ اسٹک بھی نہیں لگائی ہوئی تھی،بالکل سادہ سی بلکہ میک اپ کرنا تو ایک طرف ، آج توسر پر چادر لی ہوئی تھی۔ ایک فقیر اور چند راہ گیر گاڑی کے پاس آئے تو اس نے بقیہ چہرہ بھی چادر میں چھپا لیا۔ شہریار نے اس کی یہ حرکت دیکھ کر پوچھا۔
” آج تم نے اپنا حلیہ کیسا بنایا ہوا ہے؟ور چہرہ کیوں چھپا رہی ہو؟”
”میں آپ کے لیے شرمندگی کا باعث نہیں بننا چاہتی۔”کنول نے مسکرا کر جواب دیا۔
تمہیں کس نے کہا کہ میرے لیے تم شرمندگی کا باعث ہو؟”شہریار حیران رہ گیا۔
” آپ!آپ خاندانی شخص ہیں آپ کو میرے ساتھ دیکھ کر لوگ باتیں بنائیں گے،آپ کی ذلت ہوگی۔” کنول طنزیہ انداز میں بولی۔
”نہیں ہوگی ذلت،کیوں کہ میں فوزیہ بتول کو پسند کرتا ہوں، کنول بلوچ کو نہیں۔”شہریار نے قطعیت سے حتمی لہجے میں جواب دیا۔
”اچھا آپ مجھے پسند کرتے ہیں؟”کنول نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا۔
”یقین کرو فوزیہ غلط نہیں کہہ رہا۔نہ جانے تمہارے ساتھ کیسا سکون ملتا ہے،اگر اسی کا نام پسندیدگی ہے تو ہاں میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔”شہریار نے اطمینان سے جواب دیا۔
اسی وقت کنول کی نظر اُن کف لنکس پر پڑی ہے جو وہ دبئی سے لائی تھی اورشہریار نے کہا تھا کہ وہ کف لنکس پہنتا ہی نہیں۔آج وہ کف لنکس اس نے شرٹ میں لگائے ہوئے تھے وہ مسکرا دی اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولی۔”مجھے ہمیشہ سے ایسے مرد پسند تھے جو سوٹڈ بوٹڈ ہوں،پڑھے لکھے ہوں،اچھے طریقے سے بات کریں مگر… ”
” مگر کیا؟ کیا تمہاری شادی ہوچکی ہے؟”شہریار نے حیرانی سے سوال کیا۔فوزیہ خاموش رہی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔شہریار نے ہار مانتے ہوئے کہا۔” اچھا چلو کچھ نہ بتاؤ،یہ لو میری طرف سے ایک گفٹ ہے۔”
فوزیہ نے شہریار کے بڑھائے ہوئے گفٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔”یہ کیسا گفٹ ہے؟”
”اس دن میں لانا بھول گیا تھا،تمہارے لیے لے کررکھا تھا۔”شہریار نے جواب دیا۔
”میں کھول کر دیکھوں؟”کنول نے بے تابی سے ڈبیا کھولنے کی کوشش کی۔
”نہ نہ ابھی نہیں، گھر جا کر کھولنا۔’شہریار نے اسے روک دیا تو کنول منہ بناتے ہوئے بولی۔ ”یہ کیسی شرط ہے، مجھے تو بہت بے چینی ہورہی ہے۔ پھرآپ جلدی سے گھر ڈراپ کردیں۔”
”کافی تو پی لیں۔”شہریار نے اصرار کیا۔
”چھوڑیں کافی کو،مجھے گھر ڈراپ کریں فوراً۔”کنول نے ضد کی۔
”چلو!” شہریار نے گاڑی واپس موڑ لی۔
تھوڑی دیر بعد وہ گھر پہنچ گئے۔شہریار نے اسے ڈراپ کیا۔کنول بھاگم بھاگ اپنے کمرے میں گئی اور بستر پر بیٹھ کر بے تابی سے ڈبیا کھولی تو نگاہیں خیرہ ہو گئیں۔اس میں ایک ڈائمنڈ رنگ تھی۔
٭…٭…٭
ریحان کی آنکھ کھلی تو اسے لگا کہ اس کے دروازے پہ دستک ہو رہی ہے۔اس نے اٹھ کر دروازہ کھولااور آنکھیں ملتے ہوئے بڑبڑا کر کنول کی طرف دیکھا۔
”خداکا خوف کرو رات کے ڈھائی بج رہے ہیں،تم اب تک سوئی نہیں؟”
”میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں۔”کنول بہت جذباتی ہوتے ہوئے بولی۔
وہ کچھ کہے بغیردروازے سے واپس پلٹا اور اندر جا کر بیڈ پر دھم سے بیٹھ گیا۔
”یار ایسی کیا ایمرجنسی ہوگئی۔ایسی کیا چیز ہے جو رات کے ڈھائی بجے تم مجھے اُٹھا کر دکھانا چاہتی ہو۔”
”ہے نا کچھ۔”کنول نے بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”اچھا دکھاؤ کیاہے؟”ریحان نے بہ مشکل آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔
کنول نے ہولے سے مٹھی کھول دی تو ریحان نے پوچھا۔”یہ کیا ہے؟”
”یہ انگوٹھی ہے اور وہ بھی ہیرے کی۔”کنول نے بہت مزے سے جواب دیا۔
”ہاں وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے، آگے بول۔”ریحان نے بے پروائی سے کہا۔
”یہ مجھے شہریار نے دی ہے۔”کنول آنکھیں ٹپٹپا کر بولی۔
”اچھا پھر؟”ریحان کے لہجے میں رتی برابر بھی حیرانی نہ تھی۔
”تجھے حیرانی نہیں ہوئی؟”کنول نے تعجب سے پوچھا۔
”حیرانی کیسی،ایسے گفٹ تو ملتے رہتے ہیں۔تمہیں شاید پہلی بار ملا ہے۔”ریحان نے بے پروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
” مگر…”کنول اس کی بات کے جواب میں کچھ کہتے کہتے رُک گئی۔
”اگر مگر چھوڑو اور سو جاؤ جا کر۔”ریحان اس کی بات کاٹتے ہوئے بے زاری سے بولا۔یہ کہہ کر وہ دوبارہ بسترپر ڈھیر ہوگیا۔”ایسے تحفوں کے کوئی معنی نہیں ہوتے خواہ مخوا جذباتی ہورہی ہواور مجھے بھی کررہی ہو۔”
”ریحان سنو!”کنول نے اسے ہلایا۔
”یار پلیز جاؤ صبح مجھے ایک شوٹ پر جانا ہے، سونا بہت ضروری ہے۔”ریحان نے لیٹے لیٹے ہی ہاتھ جوڑے اوربے زاری سے جواب دیا۔
کنول بہت غصے سے دیر تک اُسے گھورتی رہی اور پھر بولی۔”اچھا! ٹھیک ہے،مرو تم میں جارہی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل آئی اور دروازہ زور دار آواز سے بند کیا جس نے ریحان کو اچھلنے پر مجبور کردیا۔
”اُف لڑکی تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔” ریحان سر پر ہاتھ رکھ کر بولااور دوبارہ تکیے پر سر رکھ دیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
٭…٭…٭
وہ برا سا منہ بنا کر اپنے کمرے میں آ گئی اور انگوٹھی ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی کہ اسے کبھی عابد سے کی گئی فرمائش یاد آگئی جب اس نے عابد سے کہا تھا کہ اس کی بہت خواہش ہے کہ عابد اسے سونے کی ایک انگوٹھی دے جیسے فلموں اور ڈراموں میں ہیرو، ہیروئن کو خود پہناتا ہے۔تب عابد نے اسے بہت ڈانٹا تھا کہ تم کیسے فضول اور بے ہودہ خیالات میں زندہ ہو،ہوش کی دوا کرو،فلموں اور ڈراموں سے باہر نکلو۔ شادی کے خرچے کی وجہ سے میرا ہاتھ تنگ ہے،کھلے گا تو دے دوں گا۔
وہ کھلے ہاتھ والا دن کبھی نہیں آیالیکن قسمت سے آج ایک کھلے ہاتھ والاپورا کا پورا شخص اس کی زندگی میں آگیاتھا۔کبھی کبھی قدرت آپ کو چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی ہار دے کر بڑے بڑے انعامات کی صورت میں نوازتی ہے۔اُسے بس ہمارے صبر اور اپنے وقت کا انتظار ہوتا ہے۔بس ہمارے پہچاننے کی دیر ہے اور وقت آنے کی دیر ہوتی ہے۔وہ چھوٹی سی خواہش بڑی نوازش کے طور پر ہمیں لوٹا دی جاتی ہے۔ ایسا ہی آج کنول کے ساتھ ہوا تھا،وہ بہت خوش تھی۔
وہ خوش تھی اور اس خوشی کو کسی کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی تھی۔کس کو،شاید اسی کو جس نے اسے یہ خوشی دی،دل کی خواہش کو رستہ دے ڈالا اور فون ملا دیا۔شہریاربھی جیسے اس کی کال کا انتظار ہی کررہا تھا۔ اس نے کال ریسیو کر کے ہیلو کہا۔
”دیکھ لیا تحفہ؟”سلام دعا کے بعد شہریار نے پوچھا۔
”جی!”کنول نے مختصر سا جواب دیا۔
”کیسا لگا؟”شہریار نے اشتیاق سے پوچھا۔
”کیا کہوں؟”کنول جیسے تذبذب کا شکار تھی۔
”اچھا لگایا بُرا؟کچھ تو بتاؤ۔”شہریار نے اصرار کیا۔
”بہت خوب صورت بہت ہی حسین،لیکن آپ کو پتا ہے میں انگوٹھیاں نہیں پہنتی۔”کنول نے اپنے خالی ہاتھو ں کو دیکھ کر رُک رُک کر جواب دیا۔
”اسی لیے مجھے لگا تھا کہ تمہاری خالی انگلی میں یہ انگوٹھی بہت خوب صورت لگے گی۔”شہریار نے مسکرا کر کہا۔
”آپ میرے ہاتھ اتنے غور سے دیکھتے ہیں؟”کنول کے لہجے میں حیرانی تھی۔
”غور سے نہیں،بس ایک نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ اتنے خوب صورت ہاتھوں کو سجنا چاہیے، اچھا یہ بتاؤ انگوٹھی پہن لی؟”شہریار نے پوچھا۔
”ابھی نہیں،ابھی بہت وقت پڑا ہے۔”کنول نے کچھ سوچ کر ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔
”ٹھیک ہے میرے پاس بھی بہت وقت ہے۔”شہریار بھی بے پروائی سے بولا۔
” کس بات کا؟”کنول نے فوراً سوال کیا۔
”انتظار کروں گا کہ کب تم وہ انگوٹھی پہنوگی۔”شہریار نے اسی انداز میں جواب دیا۔
وہ خاموش ہو گئی اورتھوڑی دیر بعد کچھ سوچتے ہوئے بولی۔”اچھا بہت رات ہوگئی ہے، اب فون بند کرتی ہوں۔”
” اوکے بائے۔”شہریار نے مسکراتے ہوئے کال ختم کر دی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن وہ ریحان کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی کہ رحیم کا فون آگیا۔وہ کچھ پریشان سا تھا اور بات کرتے ہوئے جھجک سا رہا تھا۔فوزیہ نے اس سے پوچھا۔”بھائی تو ٹھیک تو ہے؟پریشان کیوں لگ رہا ہے؟”
”فوزیہ تو مجھ سے وعدہ کر کسی کو بتائے گی نہیں۔”رحیم نے کچھ بتانے سے پہلے فوزیہ سے وعدہ لیا۔
”ارے نہیں بتاؤں گی بھائی تیری قسم،تو بتا کیوں پریشان ہے۔”فوزیہ نے اسے یقین دلایا۔
”دیکھ فوزیہ کرائے کی دکان تو تونے دلوا دی لیکن اب اس میں سامان ڈلوانے کے لیے بھی تھوڑے پیسے مل جاتے تو…” وہ کہتے کہتے رکا اور فوزیہ کی خاموشی کو جانچا۔ ”لیکن کوئی بات نہیں اگر تیرے لیے ممکن نہیں تو میں کسی اور سے کہہ دیتا ہوں۔”
” تو فکر نہ کر،میں کرتی ہوں کچھ،لیکن بتا تجھے کتنے پیسے چاہئیں؟”فوزیہ نے پوچھا۔
”یہی کوئی دو لاکھ تک کر دے۔”رحیم نے اطمینان سے کہا۔
”دولاکھ!” وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”تو فکر نہ کر، میں جلد لوٹا دوں گا۔”رحیم نے اسے خاموش دیکھ کر تیزی سے کہا۔
”ٹھیک ہے بھائی میں کرتی ہوں کچھ،تو بے فکر ہو جا۔”یہ کہہ اس نے فون بند کر دیا۔ریحان جو بہت غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا،منہ بنا کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
٭…٭…٭
اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے دبئی کا ایک اور ٹرپ کسی ”بڑے” کے ساتھ لگانا پڑے گا،اس کے بعد ہی اتنے پیسوں کا انتظام ہوسکتا ہے ۔گوہر نے اس معاملے میں اس کی مدد کی اور وہ دو دن کے لیے ایک ”بڑے” کے ساتھ دبئی کے ٹرپ پر چلی گئی۔واپسی پر بہت ساری شاپنگ کے ساتھ پانچ لاکھ اس کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوگئے۔وہ وہاں سے واپسی پر سیدھی گھر آئی تو اماں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔رحیم کو اس نے خاموشی سے دو لاکھ پکڑا دیے جس پر اس نے بہن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ”فوزیہ میں بہت جلد تیرا ادھار واپس کر دوں گا۔”فوزیہ جانتی تھی کہ پچھلے بہت سارے ادھار کی طرح یہ بھی ہمیشہ ایک ادھار ہی رہے گاجو ایک بھائی اپنی بہن سے حق سمجھ کر لے رہا ہے،اس لیے وہ بھائی کی بات پر صرف مسکرا دی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۸

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!