فوزیہ اُسی روزمُنے کے ساتھ ایک گھر دیکھنے پہنچی جو انہوں نے کرائے پر لینا تھا۔ اس نے ایک بڑا سا سن گلاسز لگائے ہوئے تھے اور سیاہ چادر سے خود کو ڈھانپا ہوا تھا۔مُنے کو یہ درمیانے درجے کا مکان بہت پسند آیا۔
” مکان میں تو کافی کام ہونے والا ہے۔”کنول نے مالک مکان سے کہا۔
”جی باجی یہ مکان کافی دنوں سے بند پڑا ہے اس لیے مرمت کی ضرورت ہے میں جلدی کروا دوں گا۔”مالک مکان بے پروائی سے بولا۔
اتنے میں فوزیہ کے آدھے چہرے پرموجود چادر بھی اتر گئی تو مالک مکان نے اسے بڑے غور سے دیکھا جیسے پہچاننے کی کوشش کررہا ہو۔
” مجھے لگ رہا ہے میں نے آپ کو پہلے کہیں دیکھا ہے،آپ ٹی وی پر تو نہیں آتیں؟”مالک مکان نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
فوزیہ نے جلدی جلدی اپنا منہ دوبارہ چادر میں لپیٹ لیااور بولی۔”جی نہیں۔”
”معاف کرنا میں ایسے ہی کہہ گیا آپ تو ماشاء اللہ بہت حیا والی لگ رہی ہیں۔ٹی وی پر آنے والی عورتوں کی طرح نہیں۔”مالک مکان نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
پاس کھڑا مُنا غور سے ان کی باتیں سُن رہا تھا۔
” میری باجی کی شکل کسی سے ملتی ہوئی لگ رہی ہے؟”
فوزیہ نے اُسے ڈانٹا ۔”مُنا خاموش رہو۔”
”بھائی میری باجی کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں، وہ ٹی وی پر نہیں آتی۔”منے نے کہا۔
”ہاں ہاں وہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں آپ کی باجی تو ماشاء اللہ بہت حیا والی ہیں، چلیں اگر پسند ہے تو پھر پکڑیں یہ چابی۔جب چاہیں شفٹ ہو جائیں۔”مالک مکان نے چابی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فوزیہ کی ماں اور مُنی گاؤں میں گھرسے اپنا سامان اٹھانے پہنچے تو اتنے میں فوزیہ کا بھائی اور بھابی بھی آگئے۔
”اماں کیسا ہے ابا؟”رحیم نے ماں سے پوچھا۔
”ٹھیک ہے تیرا باپ،مگر تجھے کیا؟”ماں نے روکھے انداز میں جواب دیا۔
”اماں میں خود بہت پریشان رہا، پیسوں کے انتظام میں ہی لگا رہا،مگر مجھ سے کوئی انتظام ہو ہی نہیں سکا۔”رحیم نے ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے خوشامد کی۔
”تجھے مُنی نے بتا دیا تھا کہ پیسوں کا انتظام ہوگیا ہے پھر بھی تو باپ سے ملنے بھی نہ آیا، کیسا بیٹا ہے تو؟”ماں نے اسے شرم دلائی۔
”بیٹی آگئی تھی تو تجھے بیٹے کی کیا ضرورت تھی؟”رحیم نروٹھے انداز میں بولا۔
”اچھا تو یہ درد ہے تیرے پیٹ میں،لیکن دیکھ اس وقت بھی بیٹی کام آئی۔باپ ہسپتال میں اور تو پلٹ کر بھی نہ پوچھے۔”ماں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
اب اسما نے آگے بڑھ کر شوہر کی سائیڈ لی۔
”اماں یہ بہت پریشان تھا،تو اس کا بھی تو سوچ۔”
بہو کی بات سن کرماں بھڑک کر بولی۔” تو تو چپ رہ،اس کو بھڑکانے والی بھی تو ہے۔”
”لے میں نے ایسا کیا کہا تو بھی ہر الزام میرے سر ڈال دیا کر۔”اسما نے بھی غصے سے ساس کو جواب دیا۔
”ویسے اماں تو ایک بات بتا اب بیٹی کی کمائی کھانے سے تیری اور ابا کی عزت نہیں گھٹ رہی؟”رحیم نے ماں کو شرمندہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”جب بیٹے خیال نہ کریں تو بیٹیاں ہی ساتھ دیتی ہیں،ایسی بیٹیاں بیٹوں سے بہتر ہوتی ہیں۔ ہمیں وہ اپنے ساتھ شہرلے جارہی ہے تاکہ اس کے باپ کابہتر علاج ہو سکے۔”ماں نے بیٹے کو غصے سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”تم سب شہر چلے جاؤ گے؟”رحیم نے گھر پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں،مگر ہمیشہ کے لیے نہیں،کچھ دنوں کے لیے بس، تیرے باپ کا علاج ہو لے پھر واپس ہی آنا ہے۔” ماں نے جواب دیا۔
” تو ا س گھر کا کیا ہوگا؟”رحیم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
”یہا ں نازیہ اپنے میاں کے ساتھ رہے گی۔”ماں نے حتمی انداز میں جواب دیا۔
” لیکن…”رحیم نے حیرانی سے کہا مگر ماں نے اس کی بات کاٹی اور قطعیت سے بولی۔”لیکن ویکن کچھ نہیں،یہ تیرے باپ کا فیصلہ ہے۔” رحیم اور اسما نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے کیے اور منہ بنانے لگے۔
٭…٭…٭
کتنے ہی دنوں کے بعدکنول ریحان کے پاس بیٹھی اور اپنے گھر والوں کی باتیں کررہی تھی۔
”جو کچھ کمایا تھا سب لٹا کر آگئی بلکہ اُلٹا قرضہ لے لیا۔”ریحان نے تاسف سے سر ہلایا۔
”ماں باپ ایسی حالت میں ہوں تو کون چھوڑ سکتا ہے؟تو بتا تو چھوڑ دے گا اپنے ماں باپ کو ایسی حالت میں؟”کنول نے جواب دیتا ہوئے اس سے سوال کیا۔
”نہیں کبھی نہیں۔”ریحان نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”پھر مجھے کیوں کہہ رہا ہے؟ابھی مجھے بہت کام کرنے ہیں ،ان کے لیے گھر بنانا ہے،ابا کی ٹانگ لگوانی ہے،منی کی شادی، بھائی کو بزنس کروانا ہے۔”کنول نے اسی انداز میں جواب دیا۔
ریحان نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکااور سوال کیا۔” بس بس!ان سب میں تجھے اپنے لیے کیا کرنا ہے؟ کنول توخود کہاں ہے اس ساری پلاننگ میں؟”
ریحان کا سوال سن کر کنول بہت دُکھ سے ہنسی جیسے اپنا مذاق اڑا رہی ہو۔” میں تو کہیں نہیں،کہیں بھی نہیں شاید کسی کو میری ضرورت نہیں۔ میں ہی سب کی ضرورت ہوں۔”
”کیوں کہ تم نے خود کو سب کی ضرورت بنالیا۔سب اپنا کام نکال کر تمہیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں۔”ریحان نے ناراضی سے کہا۔
”میری قسمت ریحان!انہیں مت کہو کچھ میری قسمت ہی ایسی ہے۔”کنول نے دکھی لہجے میں جواب دیا۔
”تم اپنے بارے میں بھی سوچو،کسی نے بھی تمہارے بارے میں نہیں سوچنا۔”ریحان نے کہا۔
”کیا سوچوں؟”کنول نے پوچھا۔
”کہ تم نے کچھ پیسے اپنے لیے بھی جوڑنے ہیں۔”ریحان نے اسے سمجھایا تو وہ بے پروائی سے بولی۔” دیکھا جائے گا،ابھی تو صرف یہی فکر ہے کہ اماں ابا کو یہاں شفٹ کروا دوں، تھوڑا اور پیسا کما لوں۔”
”تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا کنول بلوچ!”ریحان نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
شہریار نے اس کا سونگ دیکھا اور لیپ ٹاپ آف کردیا۔اس کے چہرے پر دُکھ کے آثار تھے کیوں کہ کنول نے بہت نامناسب کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ اس کی حرکات بھی بہت نامناسب تھیں۔اس نے غصے سے فون اُٹھایا اور کنول کو ملا دیا۔کنول نے فون پک کیا۔
” ہیلو!”
لیکن اس کی آواز سنتے ہی شہریار نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے بہت آرام سے پوچھا۔”کیسی ہو؟”
”ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟”کنول نے پوچھا۔
”ٹھیک ہوں بھی اور نہیں بھی۔”شہریار نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”ایک سوال پوچھوں؟”شہریار نے جواب دینے کے بجائے کہا۔
”پوچھیں۔”کنول جلدی سے بولی۔
”تم ایسے کام کیوں کررہی ہو؟”شہریار نے ٹھہر ٹھہر کر سوال کیا۔
کنول اس کی بات سُن کر جیسے پھٹ ہی پڑی۔” کیسے کام؟آپ سونگ کی بات کررہے ہیں،آپ کو اس سے کیا؟ میں آپ کی بیوی تو نہیں جو آپ اپنا حق جتا رہے ہیں۔آپ بھی دیکھیں اور انجوائے کریں۔کمنٹ کریں وہاں۔”
شہریارکو اس کے ایسے ردعمل کا اندازہ نہیں تھا۔اس نے فوراً اپنا دفاع کیا۔”میں تماش بین نہیں ہوں جو تمہاری ایسی حرکتوں پر لائیک یا کمنٹ کروں۔سنو!میں تمہارے پیج پر کنول بلوچ کے لیے نہیں فوزیہ بتول کے لیے جاتا ہوں۔”
کنول نے اس کی بات کاٹ دی۔” بس بس!پلیز آپ مجھے لیکچر نہ دیں۔”
” لیکچر نہیں دے رہا، فون کا مقصد صرف تمہارا حال چال پوچھنا تھا۔”شہریار نے تحمل سے کہا۔
”پوچھ لیا حال؟”کنول نے قطعیت سے کہا جیسے فون بند کر دے گی۔
”جی!ویسے مجھے ڈر لگنے لگا ہے تم سے کیوں کہ تمہیں اب دوست اور دشمن کی پہچان ہی نہیں رہی۔” شہریار نے اداس لہجے میں کہا۔
”جب کوئی دوست ہی نہ ہو اور دشمن ہی دشمن ہوں تو پہچان ہونا بہت مشکل ہے۔”کنول دکھی انداز میں بولی،اس کے لہجے میں اب بھی روکھا پن تھا۔
شہریار ایک لمحے کے لیے چپ ہوگیا،پھر اس نے گویا بات کا موضوع بدلنا چاہا۔” کہیں چلیں؟”
” کہاں؟”کنول نے بھی اُسی انداز میں پوچھا۔
”کہیں بھی،اُسی ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں۔”شہریار نے کہا۔
کنول نے گھڑی پر نظر ڈالی،رات کے بارہ بج چکے تھے۔”مگر اس وقت آدھی رات ہوچکی ہے۔”
”تو کیا فرق پڑتا ہے؟میں لینے آرہا ہوں، تیار رہنا۔”شہریار نے اسے حکم دیتے ہوئے کہا۔
تھوڑی ہی دیر بعد شہریار اس کے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا تھا۔ وہ نیچے اتری اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔شہریار اس کے ساتھ سے محظوظ ہوتے ہوئے ڈرائیو کر رہا تھا۔کچھ لمحوں بعد وہ دونوںریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے گاہ بہ گاہ ایک دوسرے پر نظر ڈال لیتے لیکن بات کرنے میں کوئی پہل نہیں کر رہا تھا۔ میز پر دو کافی کے کپ رکھے ہوئے تھے۔
آخر کنول نے ہی ہمت کی اور ہنستے ہوئے بولی۔
” آج آپ نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ بارہ بج گئے ہیں، بہت لیٹ ہوگیا ہوں۔”
” تمہیں لے کر میں کسی وقت کہیں بھی جا سکتا ہوں۔اس وقت دل چاہا کہ تم کو میرے پاس ہونا چاہیے تاکہ میں تمہارا دکھ ختم کرسکوں۔”شہریار نے بہت پیار سے کہا۔
”مجھے ایسی باتوں پر بہت ہنسی آتی ہے۔”کنول نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”شاید کتابی باتیں کرتا ہوں جس پر تمہیں یقین نہیں۔”شہریار نے اطمینان سے کہا۔
” ایک سچ بات کہوں،یہ کتابی باتیں نہ جانے کیوں بار بار سننے کو دل چاہتا ہے۔”کنول نے جواب دیا۔
”یہ بے مطلب باتیں نہیں شاید اس لیے۔”شہریار اسے محبت پاش نظروں سے دیکھ رہا تھا، کنول نے نظریں پھیر لیں۔
”ہاں جانتی ہوں ان باتوں کا کوئی نہ کوئی مطلب ہے۔”
”ایک بات کہوں؟”شہریار نے سوالیہ انداز میں کہا۔
”کہیں۔”کنول نے اسی انداز میں جواب دیا۔
” کیا یہ سب کام چھوڑ سکتی ہو؟”شہریار نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
”کس کے لیے چھوڑوں؟”کنول کے لہجے میں سوال کے ساتھ ساتھ طنز بھی تھا۔
” چھوڑنے کا فیصلہ کر لو تو بتانا۔”شہریار نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”چھوڑیں یہ سب کتابی باتیں ہیں۔”کنول نے اپنا طنزیہ لہجہ برقرار رکھا۔
”اور تم بھی کتابوں کا ایک کردار ہی ہو۔”شہریار نے بہت پیار سے کہا۔
”ہاں مجھے پتا ہے ایک دن مجھ پر بھی ڈرامے لکھے جائیں گے، کتابیں لکھی جائیں گی اور میں لوگوں کے ذہن میں ایک یاد بن کررہ جاوؑں گی۔”کنول تمسخرانہ انداز میں بولی۔
”کیاتم یہی چاہتی ہو؟”شہریار نے بے تابی سے پوچھا۔وہ بڑے غور سے اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔کنول نے کوئی جواب دینے کے بجائے کافی کا گھونٹ بھرا۔
” چلو چھوڑو یہ باتیں،یہ بتاؤ اتنے دن کہاں غائب رہی۔”شہریار نے ایک اور سوال کیا۔
کنول نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کچھ سوچا اور پھر اپنی کہانی سنانا مناسب سمجھا جیسے اُس پر اعتبار کرنا چاہ رہی ہو۔میرے ابا کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا،ان کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔ان کو یہاں رکھنے کے لیے گھر ڈھونڈنا پڑا۔ جو پیسے جمع کیے تھے چاہ رہی تھی کہ گاڑی مل جائے لیکن سارے پیسے ابا کے اوپر اور گھر پر لگ گئے۔ یہ سونگ کیا تو گھر کا ایڈوانس دیا۔”کنول نے ٹھہر ٹھہر کر بات مکمل کی۔
”ایک بار مجھے تو بتاتیں،مجھ سے لے لیتیں لیکن ایسا سونگ تو نہ کرتیں۔”شہریار کے لہجے میں شدید دکھ تھا۔
کنول نے بہت حتمی انداز میں سخت سے تاثرات کے ساتھ اُسے دیکھا۔”کسی سے بھیک مانگنے سے بہتر تھا کہ یہ سونگ کرلوں۔”
”ہم اس پرکافیdebateکرسکتے ہیں،بہتر تھا یا نہیں یہ تمہیں پتا ہے لیکن ایک بات ہے۔” شہریار نے کندھے اچکاتے ہو ئے کہا تو کنول نے فوراً سوال کیا۔
” وہ کیا؟”
”کبھی کبھی تمہا ری عزت کرنے کو دل کرتا ہے،جانتی ہو کیوں؟” شہریار نے پوچھا۔
”ہاں جانتی ہوں،آپ کو میں عظیم لگتی ہوں مگر میں کوئی عظیم نہیں اور نہ کوئی قربانی دے رہی ہوں بلکہ اپنے پیدا ہونے کا خراج دے رہی ہوں۔بیٹی ہوں نا اور ہر بیٹی کو ایساخراج دینا پڑتا ہے۔ عورت کو دو رورٹیوں کا خراج تمام عمر دینا پڑتا ہے۔بیٹی ہے تو باپ کا مان بڑھاکر،بیوی ہے تو شوہر کی ہر جائز ناجائزمان کر،ماں ہے تو بیٹے کی ضد مان کر۔ہر دور میں جو اُسے دو روٹی کھلائے اسے خرید لے۔” کنول نے تمسخرانہ انداز میں رُک رُک کر جواب دیا۔
” بس کردو اس سے زیادہ تلخ باتیں میرے لیے سہنا مشکل ہے۔”شہریار نے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”آپ بھی مرد ہیں نا،آپ کو تو تلخ لگیں گی۔”کنول طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے بولی پھر ایک ڈبہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے مسکرائی ۔”چلیں چھوڑیں یہ دیکھیں میں آپ کے لیے دبئی کیا لائی ہوں۔” اس نے ایک چھوٹا سا ڈبہ شہریار کی طرف بڑھایا جسے اس نے تھام لیا۔
”یہ کیا ہے؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”کھول کر دیکھیں،کچھ خریدا تھا دبئی سے آپ کے لیے۔”کنول نے جواب دیا۔
شہریار نے ڈبہ کھولا،اندربہت نفیس سے کف لنکس تھے۔اس نے باہر نکالے اور ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولا۔” مگر میں تو یہ نہیں پہنتا۔”
”اچھا!مجھے لگا تھا کہ آپ اتنے سوٹڈ بوٹڈ رہتے ہیں کف لنکس ضرور لگاتے ہوں گے۔” کنول اس کی بات سن کر مایوس ہوگئی۔
شہریار اس کی مایوسی دیکھتے ہوئے بولا۔” لگاتا تو نہیں ہوں لیکن…”
” لیکن کیا؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”اب پہن لوں گا۔”شہریار نے اس کا دل بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔
”کوئی زبردستی نہیں،آپ واپس بھی کرسکتے ہیں۔”کنول نے ڈبہ اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا توشہریار نے ڈبہ اس سے دور کر لیا اور بولا۔”میں تحفے واپس نہیں کرتااور اگر تحفہ تم جیسی لڑکی کی جانب سے ہوتو قطعاً نہیں۔”
”فلرٹ کرنے میں ماہر ہیں آپ۔”کنول نے ہنستے ہوئے کہا۔
”تم بھی بات کو اُڑانے میں… خیر چھوڑو، رات بہت ہوگئی ہے چلتے ہیں۔”شہریار نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور دونوں ہوٹل سے باہر نکل گئے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});