فوزیہ گھر میں داخل ہوئی تو ساس اس کے روتے ہوئے بچے کو لے کر چُپ کرا رہی تھی۔ وہ فوزیہ کو دیکھ کر فوراًغصے میں بولی۔
”ذرا شرم و حیا نہیں ہے تجھ میں، تیرا بچہ رو رو کے ہلکان ہورہا ہے اور تو باہر عیاشیاں کرتی پھر رہی ہے۔”
فوزیہ نے چھیننے کے انداز میں ساس کے ہاتھ سے اپنا بچہ پکڑا اور اُسے چُپ کرانے لگی،پھر ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
” عیاشیاں میں نہیں تیرا بیٹا کررہا ہے۔ اس سے پوچھ وہ کہاں اور کس کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے۔” ساس ایک دم ہونق ہوگئی۔
”کیا بکواس کررہی ہے تو؟زبان سنبھال کر بات کر۔”اپنے بیٹے کی باتیں اس کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھیں۔
” میں بکواس نہیں کررہی،سچ کہہ رہی ہوں۔ آئے تو پوچھ لینا۔” فوزیہ نے غصے سے جواب دیا۔
”وہ تو میں پوچھ لوں گی لیکن تو بتا تو کہاں تھی اتنی دیر سے؟” ساس نے اس سے سوال کیا۔
فوزیہ نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں اور کمرے میں چلی گئی۔
”بڑی بے غیرت ہے، اپنے گناہوں کا الزام میرے بیٹے پر تھوپ رہی ہے، آنے دو آج عابد کو نہ پٹوایا تو یاد رکھے گی تو۔”سا س اس کے پیچھے بُڑبُڑائی۔
٭…٭…٭
فوزیہ نے اپنے بچے کو سلا کر بستر پر لٹایا ہی تھا کہ عابد کمرے میں تیزی سے داخل ہوا اور فوزیہ کو کندھے سے پکڑ کر اپنی جانب گھماکر ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔وہ گال پر ہاتھ رکھے سنّاٹے میں رہ گئی اور حیرانی سے عابد کو دیکھ رہی تھی کہ اس نے دوسرا تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا اور اس کے بال پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔
”بتاتو نے روبی کو کیوں مارا؟”
وہ اپنے بال چھڑاتے ہوئے بلبلائی اور خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی ،ساتھ ہی چلاتے ہوئے بولی۔
”ماروں گی،ایک بار نہیں ہزار بار ماروں گی، اگر وہ اب تیرے پاس نظر بھی آئی۔”
”اب تو اسے ہاتھ بھی لگا کر دیکھ تیرے ہاتھ توڑ دوں گا۔” وہ حیرانی اور تکلیف میں اسے دیکھتی رہی،اس کی آنکھوں میں بہت دُکھ تھا۔اسی دکھ کے ساتھ وہ عابد سے بولی۔
”تو… عابد تو یہ کہہ رہا ہے… یہ بات کیسے؟”
”ہاں میں کہہ رہا ہوں اور سن اب اگر تو نے اسے کچھ کہا تو میں تجھے جان سے مار دوں گا، سمجھی تو۔” عابدنے اس کی باٹ کاٹتے ہوئے انگلی اُٹھا کر وارننگ دی۔
”تو میرا شوہر ہے، اُس کمینی کے لیے تو مجھے مار رہا ہے؟ وہ کیسے آتی ہے تیرے پاس؟”فوزیہ نے اپنے بال چھڑاتے ہوئے کہا۔
عابد نے غصّے سے طنزیہ انداز میں اُسے دیکھا اور بولا۔
”میں بلاتا ہوں اسے، وہ خود نہیں آتی، سُن لیا؟ اور تیرے جیسی نہیں ہے وہ، تو نے اس گھر میں رہنا ہے تو خاموشی سے ایک طرف پڑی رہ۔ زیادہ بکواس کی توتین بول دے کر تجھے گھر سے نکال دوں گا۔ میں تجھے لایا ہوں تو میں نکال بھی سکتا ہوں۔”
فوزیہ نے آگے بڑھ کر اس کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
” ہاں ہاں نکال دے، دے طلاق۔مجھے بھی کوئی شوق نہیں تیرے ساتھ رہنے کا، تیرے سارے وعدے جھوٹے تھے۔”
”سُن تو اکڑتی کس بات پر ہے؟ تو بھی ایک عام سی عورت ہے۔ میرے تین بولوں کی محتاج، آج نکال باہر کردوں گا تجھے۔”عابدنے اس کی دیدہ دلیری پر خفگی سے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
” یہی تیری بھول ہے عابد کہ میں ایک عام سی عورت ہوں۔ عام سی عورت ہوتی تو تیرے قدموں میں پڑی ہوتی اس وقت،لیکن میں جانتی ہوں مرد ایسی دھمکیاں بہت لگاتے ہیں۔طلاق دینے کا حوصلہ کسی کسی میں ہوتا ہے۔” فوزیہ نے طنز سے کہا ۔
عابد نے نفرت سے زمین پر تھوکا اور اُسے زور سے دھکا دیا۔
” اچھا !یہ بات ہے تو جا میں نے تجھے طلاق دی…طلاق دی… طلاق دی۔”
فوزیہ ہکا بکا سی اس کی بات پر آنکھیں پھاڑے کھڑی تھی جیسے اسے توقع نہیں تھی کہ وہ طلاق دے دے گا۔عابدغصّے سے باہر نکل گیا اور وہ چند لمحے وہیں مٹی کے ڈھیر کی طرح بیٹھ گئی۔
کتنا آسان ہوتا ہے ایک مرد کے لیے کسی عورت کو تین بول کہہ دینااور کتنا مشکل ہوتا ہے اسی عورت کا یہ تین بول سہنا،لیکن شاید فوزیہ بتول کی مٹی میں سہنے کی طاقت زیادہ تھی۔ عام عورت سے کہیں زیادہ اسی لیے تو اس نے عابد کے پاؤں پر گرنے کے بجائے اس سے طلاق مانگی اور جب اس نے دے دی تو وہ بنا وقت ضائع کیے اپنا سامان سمیٹنے لگی۔جلدی جلدی بیگ میں اپنے چند جوڑے ڈالے اور بچے کو اٹھا کر دروازے کی جانب بڑھی تو عابد جو اس وقت صحن میں کھڑا تھا اسے بیگ اور بچے سمیت نکلتے دیکھ کر ٹھٹکا اور جیسے ساری بات سمجھ گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر بڑی بے دردی سے بچہ چھین لیا۔
”ادھر دے، یہ میرا بیٹا ہے، یہ کہیں نہیں جائے گا۔ تجھے جانا ہے تو جا۔”
”لیکن میں ماں ہوں اس کی۔” فوزیہ نے بڑے استحقاق سے کہا۔
عابد نے کمرے میں داخل ہوتی اپنی ماں کے ہاتھ میں بچہ تھما یااور بولا۔
” او جا دفع ہو یہاں سے،بڑی ماں بنتی ہے۔اب اس کا خیال بھول جا۔اماں اندر لے جا اسے۔”
” دیکھ عابد تو ٹھیک نہیں کررہا،دے میرا بچہ۔”فوزیہ دوبارہ بچے کی طرف لپکی۔
” مجھے پتا ہے کہ میں کیا کررہا ہوں، تجھے جانا ہے جا لیکن یہ میرا بیٹا ہے اس کا خیال نکال دل سے۔ تیری جیسی عورت کا سایہ بھی اس پر نہیں پڑنا چاہیے اس پر۔” عابد نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
فوزیہ نے حیرانی اور تکلیف سے اسے دیکھا اور بولی۔
”میرے جیسی عورت؟”
” ہاں شادی سے پہلے گھر سے بھاگی ہوئی عورت اچھی عورت نہیں کہلاتی، فوزیہ بتول تو بھول گئی شاید۔” عابد نے بہت طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
” لیکن عابد وہ گناہ صرف میرے کھاتے میں کیوں؟وہ تومیں نے تیری خاطر کیا تھا۔” فوزیہ بہت ٹوٹی ہوئی آواز میں بولی۔
”او جاجا! اپنے گناہ میرے اوپر مت ڈال چل نکل یہاں سے،کیوں کہ میں نے تجھے نہیں بھگایا تھا تو خود گھر سے بھاگی تھی۔چل اب نکل میرے گھر سے۔” وہ روتی ہوئی وہاں سے نکل آئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ سیدھی ماں کے گھر آئی اور انہیں ساری بات بتائی۔امام بخش اسے اس بات پر راضی کرنے لگ گیا کہ وہ اپنے شوہر کے پاس واپس چلی جائے۔
”ابا سُن!اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اور طلاق کا مطلب سمجھتا ہے تو؟میں اب واپس نہیں جاؤں گی۔ ”
”او! زبان سے دی ہے طلاق،کون سا کاغذ تھمایا ہے۔ مردکی زبان سے اکثر ایسی باتیں بھول چوک میں نکل جاتی ہیں۔ اس کے لیے گھر چھوڑ کر تھوڑی آجاتے ہیں۔ چل تو اپنے گھر جا ۔”باپ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ابا تو کیسی بات کررہا ہے۔ اب میں اس پر حرام ہوں، میں واپس نہیں جاؤں گی، تو چودھری صاحب سے کہہ کر میرا بچہ مجھے واپس دلوا میں اسے خود پالوں گی۔”فوزیہ زچ ہوتے ہوئے باپ پر چلائی۔
”او!بس کر دے حلال اور حرام نہ سکھا مجھے، بڑی آئی مولوی کی اولاد۔دیکھ فوزیہ یہ شادی تو نے اپنی مرضی سے کی تھی، اب تواسے نبھائے گی بھی، اس گھر میں کوئی تیرا ساتھ نہیں دے گا۔ مرد کو غصہ دلائے گی تو وہ ایسی بات ہی کرے گا۔ ”باپ نے غصے سے کہا۔
” لیکن ابا اس نے مجھے طلاق دی ہے،میں اُس کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔”فوزیہ نے دوبارہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”او! کوئی گواہ تو نہیں اس بات کا کہ اس نے تجھے طلاق دی ہے، تو اپنے منہ سے کہہ رہی ہے۔ کل تیرا میاں مُکر جائے کہ یہ ہی غلط ہے میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس لیے طلاق کی بات کررہی ہے تو پھر تو کیا کرے گی؟ چل پتر تو گھر جا اور نبھانے کی کوشش کر،ایسی باتیں میاں بیوی کی زندگی میں ہو جاتی ہیں، ان کو دل پر نہیں لیتے۔”باپ نے اس کے سرپر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میں نہیں جاؤں گی ابا۔” فوزیہ ہٹ دھرمی سے اپنے سر سے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔
فوزیہ کا باپ یہ سن کر طیش میں آ گیا اور قطعیت اور غصے سے بولا۔
” بس اب کوئی دوسری بات مت کرنا،تجھے جانا پڑے گا فوزیہ۔میری اتنی گنجائش نہیں کہ تجھے اپنے درپر بٹھا لوں۔ فوزیہ کی ماں تو صبح خود اس کو چھوڑ کر آ،میں واپس آؤں تو یہ مجھے گھر نظر نہ آئے۔”یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور فوزیہ نے روتی آنکھوں سے باپ کی پشت کو دیکھا۔واقعی کسی نے صحیح کہا تھا مرد ہی مرد کا ساتھ دیتا ہے اورباپ بھی مرد ہی ہوتا ہے کبھی کبھی اسے اپنی بیٹی ہی غلط لگتی ہے۔
٭…٭…٭
دوسری صُبح فوزیہ ابھی پوری طرح اُٹھی بھی نہ تھی کہ اُس کے کمرے کا دروازہ دھڑاک سے کھلااور اسما اندرگھس آئی اور بڑے طنزیہ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔ وہ اسما کو دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔
”رات بڑا شور ڈالا ہوا تھا بھئی۔ تیری کہانی تو بڑی جلدی ختم ہوگئی۔” اسما نے کمر پر ہاتھ رکھ کر روکھے انداز میں کہا۔
”تجھے کیا تو اپنے کام سے کام رکھ۔”فوزیہ نے بے پروائی سے جواب دیا۔
‘ ‘مجھے کیوں نہیں ؟یہ میرا گھر ہے جہاں تو ڈیرہ ڈال کر بیٹھی ہے، تو جا کر اپنا گھر سنبھال۔” اسما نے طنزیہ انداز میں لڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں چلی جاؤں گی،تو فکر نہ کر جلدی چلی جاؤں گی۔”فوزیہ نے اسی انداز میں جواب دیا۔
” ویسے بڑی جلدی تیری اکڑ نکل گئی۔ میرے بھائی کو تو پورے گاؤں میں بدنام کردیا تھا کہ وہ آوارہ ہے، اپنا میاں نظر نہیں آیا۔” اسماہاتھ چلا چلا کر لڑ تے ہوئے بولی۔
” دیکھ بھابی خاموش ہو جا،میرے منہ نہ لگ۔”فوزیہ غصے سے بستر سے کھڑی ہو گئی اور انگلی اُٹھا کر بولی۔
”تیرے منہ لگنا کون چاہتا ہے، تو اس قابل ہی نہیں کہ تیرے ساتھ بات بھی کی جائے۔” اسما نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
” جا جا! میں کون سا مرے جارہی ہوں تجھ سے بات کرنے کو۔کمینوں کے تو میں ویسے ہی منہ نہیں لگتی۔” فوزیہ نے ہاتھ چلا کر غصے سے کہا۔
اسما کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی۔ ”دیکھ فوزیہ زبان سنبھال کر بات کر، تیری یہ زبان ایک دن تجھے برباد کردے گی۔”
یہ سن کر فوزیہ منہ بھر بھر کر کوسنے دینے لگی۔
” برباد ہوں میرے دشمن، برباد ہوں میرے جلنے والے، کالے منہ والے۔”
اسمانے طنزیہ انداز میں اسے دیکھا اور بولی۔” واہ جی رسّی جل گئی پر بل نہ گئے۔ خیر مجھے کیا میں تو صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اب یہ تیرا گھر نہیں رہا، تو اپنے گھر جا اور سنبھال اپنے میاں کو۔”
اسی دوران فوزیہ کی ماں اندر داخل ہوئی اور ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر پوچھا۔
”کیاشور ڈالا ہوا ہے تم دونوں نے صبح صبح؟”
”اپنی چہیتی سے پوچھ، کل سے اس نے گھر کا سکون برباد کیا ہوا ہے۔”اسما نے طنز کیا۔
” فوزیہ تو تیار ہو جا میں تجھے تیرے گھر چھوڑ کر آؤں۔”ماں نے فوزیہ سے کہا۔
فوزیہ نے روتے ہوئے سامان سمیٹا اورماں سے بولی۔
” رہنے دے اماں،آتا ہے مجھے اپنے گھر کا راستہ ۔چلی جاؤں گی جیسے آئی تھی۔تو فکر نہ کر، اب کچھ بھی ہو جائے واپس نہیں آؤں گی کبھی اس گھر میں۔”
” دیکھ پتر تیرا باپ صحیح کہہ رہا تھا…”ماں نے نرم پڑتے ہوئے اسے سمجھایا۔
”چھوڑ اماں عورت کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ عورت خود کمزور ہوتی ہے اسی لیے اس کے ساتھ بندھا ہر رشتہ بھی کمزور ہوتا ہے۔”فوزیہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
” دیکھ جھلّی شوہر جیسا بھی ہو شوہر ہوتا ہے۔ اس نے تیرے سر پر چھت تو دی ہے، عورت اتنی اتنی سی بات پر اپنی چھت چھوڑتی اچھی نہیں لگتی۔”
” اماں بد قسمت عورتوں کو مضبوط چھت نہیں بلکہ مٹی کی ڈھیری ملتی ہے جسے مرد جب چاہے پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا دیتا ہے لیکن تو فکر نہ کر اب اگر کوئی بات ہوئی تو میں واپس نہیں آؤں گی اس گھر میں۔” فوزیہ نے روہانسی ہوکر کہا۔
”دیکھ فوزیہ میری بات سُن…”ماں نے اسے دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی۔
فوزیہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے بات کرنے سے روک دیا۔” نہ رہن دے اماں، بہلاوے مت دے مجھے چلتی ہوں،رب راکھا۔”
ماں روہانسی آواز میں اسے پکارتی ہوئی بولی۔”سن ذرا!رب راکھا۔”
فوزیہ نے پلٹ کر ماں کو نم آنکھوں سے دیکھااور کمرے سے نکل آئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ لٹے پٹے انداز میں گھر میں داخل ہوئی۔ساس اس کے روتے ہوئے بیٹے کو سنبھال سنبھال کر ہلکان تھی۔اس نے ساس کی گود سے بچہ لیا اور خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔اس نے ساس سے کوئی بات نہ کی اور ساس نے اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیا کیوں کہ وہ بچہ سنبھال سنبھال کر ایک ہی دن میں تھک گئی تھی۔اس نے شکر کیا کہ بہو دوسرے دن ہی آگئی ورنہ نہ جانے اور کتنے دن اسے بچہ سنبھالنا پڑا اور پھر عابد سے کہنا پڑتا کہ جاکر اسے لے آ،اس سے بچہ نہیں سنبھالا جارہا۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے کمرے میں بیٹھی پراندے بنا رہی تھی کہ اچانک اُس کا فون بجنے لگا ۔اس نے فون اُٹھایا اور اجنبی نمبر دیکھ کر حیرت سے سوچتے ہوئے کال ریسیو کر لی۔فون کان سے لگاتے ہوئے اس نے ہیلو کہا۔
” ہیلو فوزیہ عظیم بات کررہی ہیں؟” دوسری طرف سے کسی نے پوچھا۔
” جی آپ کون!”فوزیہ اس نئی آواز پر،جس کو جانتی بھی نہ تھی حیران ہو گئی اورپوچھا۔
کال کرنے والا میڈیا ٹیک کمپنی کا مالک گوہر تھا۔اس نے بتایا کہ فوزیہ نے جو تصاویر اُسے ایک سال پہلے بھیجی تھیں وہ اس کی ایجنسی کو پسند آگئی ہیں اور اب وہ اسے ایک اشتہار میں لینا چاہتے ہیں۔یہ سن کر فوزیہ کے چہرے پر خوش گوار حیرت ابھری لیکن اس نے فوراً کوئی جواب نہ دیا بلکہ گوہر کو یہ کہہ دیا کہ میں اپنے شوہر سے اجازت لینے کے بعد آپ سے رابطہ کروں گی۔
کال بند ہونے کے بعد فوزیہ کے چہرے پر خوشی چھلک رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر کچھ سوچتی رہی پھر آئینے کے سامنے جاکر کھڑی ہوگئی۔
”او تیرا بیڑہ تر جائے فوزیہ! تو نے ایک سال میں اپنا کیاسے کیا حال کرلیا ہے۔ وہ دیکھیں گے تو تجھے پہچان ہی نا پائیں کہ وہ تیری تصویریں ہیں۔” اس نے اپنے بالوں اور چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود سے کہا اور پھرایک عزم کے ساتھ بولی۔
” لیکن میں اس موقع کو کبھی نہیں گنواؤں گی، عابد سے بات ضرور کروں گی، اسے اجازت دینا پڑے گی۔یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے اور میں اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہوں۔”
٭…٭…٭
فوزیہ نے عابد کے آنے سے پہلے اپنا سب سے اچھا جوڑا نہا دھو کر پہنا اور لپ اسٹک لگا کر تیار ہوگئی۔اتنے میں عابد کمرے میں داخل ہوااور اس پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”واہ آج تو بڑی خوش نظر آرہی ہے تو۔”
”بات ہی خوشی کی ہے۔”فوزیہ نے اِتراتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا ایسا کیا خزانہ مل گیا تجھے۔” عابد نے حیرانی سے پوچھا۔
”بس تو بتا مجھے کیا بات خوش کرسکتی ہے؟” فوزیہ اس کا امتحان لے رہی تھی۔
”تو ان عورتوں میں سے ہے جسے کوئی بات خوش نہیں کرسکتی۔” عابد نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”دیکھ عابد میں اس وقت لڑنے کے موڈ میں بالکل نہیں۔ ”فوزیہ برا مانتے ہوئے بولی۔
” ہاں وہ تو نظر آ ہی رہا ہے۔ چل بتا تو کیوں خوش ہے؟” عابد نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
”آج مجھے ایک ایڈ ایجنسی سے فون آیا تھا۔”وہ یک دم خوش ہوتے ہوئے بولی۔
” ایجنسی؟ کیسی ایجنسی؟”عابد نے حیران ہو کر پوچھا۔
”وہ مجھ سے ایک اشتہار کروانا چاہتے ہیں۔ شادی سے پہلے تو نے جو میگزین مجھے دیے تھے میں نے ان میں سے ایک پر اپنی تصویریں بھیجی تھیں۔ ایک سال کے بعد آج مجھے جواب آیا۔ انہوں نے مجھے بلایا ہے۔” فوزیہ نے بہت اشتیاق سے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
” کیا مطلب؟” عابد نے غصے اور پریشانی سے کہا۔
فوزیہ نے بہت پیار سے اسے اس کا وعدہ یاد دلایا۔
” مطلب کیا،تجھے یاد نہیں کہ تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو اس معاملے میں ساتھ دے گا میرا۔”
”دیکھ فوزیہ یہ وعدے شادے سب شادی سے پہلے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اب تو میری بیوی ہے، گھر سنبھال، آرام سے بیٹھ گھر میں۔”عابد نے بے پروائی سے کہا۔
” لیکن عابد تو جانتا ہے یہ سب میری بہت بڑی خواہش تھی۔ مجھے آگے بڑھنا ہے،نام کمانا ہے اوریہ موقع میں ضائع نہیں کرسکتی۔”فوزیہ نے ضد کی۔
” تجھے پتا ہے یہ سب بُری عورتوں والے کام ہیں۔” عابدنے اسے سمجھایا۔
عابد کی یہ بات سن کر فوزیہ تپ گئی اور اس نے غصے سے پوچھا۔”کیوں؟اس میں کیا برائی ہے۔ ”
” اچھے گھروں کی عورتیں ایسے کام نہیں کرتیں۔” عابد نے جواب دیا۔
‘ تو جانتا تھا شادی سے پہلے میں نے تجھے بتادیا تھا کہ مجھے ایسے ہی کام کرنا ہے، مجھے مشہور ہونا ہے۔” فوزیہ نے عابد سے اصرار کیا۔
”دیکھ میں آخری بار کہہ رہا ہوں اب اس کے بارے میں کوئی بات مت کرنا میں بالکل نہیں چاہتا کہ تو گھر سے نکلے۔ بس گھر بیٹھ اور بچے کو سنبھال۔” عابد فوزیہ کو انگلی اٹھا کر وارننگ دیتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔وہ دھم سے دکھی انداز میں وہیں بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ، فاطمہ کے ساتھ باتیں کرتی کھیتوں کی پگ ڈنڈی پر جا رہی تھی کہ فوزیہ نے فاطمہ سے پوچھا۔
”تو بتا فاطمہ کہ میں کیا کروں ،میں اتنا اچھا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی۔”
”لیکن جب تیرا میاں راضی نہیں تو کیسے ہوگا یہ سب۔ دیکھ فوزیہ یہ بچوں والی باتیں چھوڑ دے اب گھر سنبھال۔”فاطمہ نے تھوڑا تذبذب سے جواب دیا۔
”وہ راضی نہیں مگر میں کروں گی اُسے راضی اور تو بھی کیا گھر سنبھالنے کی بات کررہی ہے کیا گھر کے ساتھ ایسے کام نہیں کیے جاسکتے؟” فوزیہ کے لہجے میں یقین تھا۔
”وہ نہیں مانے گا کبھی بھی پھر تو کیا کرے گی؟اس کے خلاف جائے گی۔”فاطمہ نے پریشانی سے پوچھا۔
”کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا فاطمہ! میں نے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔تجھے پتا ہے یہ میری کتنی بڑی خواہش ہے۔” فوزیہ اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔
”دیکھ فوزیہ میرے خیال میں جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دے ،گزارا کر اسی طرح۔” فاطمہ نے اسے سمجھایا۔
” گزارا ہی تو نہیں کرنا،میں ان عورتوں جیسی نہیں گزارا کرکے اس بے وفا کے ساتھ وقت گزاروں۔ اسی بات نے میرے سینے پر گھاؤ ڈال رکھے ہیں۔ ذرا ذرا سی خواہش پر مجھے ترسنا پڑتا ہے۔ میں ایسے زندگی نہیں گزار سکتی۔”فوزیہ نے اپنے پورے عزم سے کہا۔
” تو پھر کیا کرے گی؟” فاطمہ کے لہجے میں حیرانی تھی۔
” آخری بار اُس سے بات کروں گی کہ سیدھی سیدھی میری خواہش پوری کرو۔”فوزیہ نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”اور اگر وہ نہ مانا تو؟”فاطمہ نے پوچھا۔
” تب کی تب دیکھی جائے گی۔” فوزیہ نے بے پروائی سے جواب دیا اوردونوں باتیں کرتے کرتے پگ ڈنڈی سے آگے نکل گئیں۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے بیٹے کو سُلاتے ہوئے بہت کچھ سوچ رہی تھی۔بچے کو آہستہ آہستہ تھپکتے ہوئے اس کے ذہن میں عابد کی باتیں گونج رہی تھیں جس کی وجہ سے وہ بہت اُداس تھی۔
”یہ میرا بیٹا ہے،جیسا میں کہوں گا وہی کرے گا۔”عابد کی بات اس کے ذہن میں گونجی۔
” عورت کی زندگی میں آنے والا کوئی مرد اس کا نہیں ہوتا۔یہ اُس کی بھول ہے ہمیں باپ کے گھر سے زبردستی نکلنا پڑتا ہے،شوہر کے گھر ہمیشہ یہی طعنہ ملتا ہے کہ یہ کب تیرا گھر ہے اور بیٹا،کیا اس نے بھی میرا ہونا ہے؟”
عابد گھر داخل ہوتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں آیا جہاں فوزیہ بچے کو سُلا کر اُسے چادر سے ڈھک رہی تھی۔عابد کو دیکھ کر فوزیہ نے پلٹ کر پوچھا۔
”کھانا لاؤں؟ ”
” نہیں رہنے دے کھا کر آیا ہوں۔”
عابد نے واسکٹ اتار کر کھونٹی پہ ٹانگی اورچارپائی پر ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا۔
” چائے پیئے گا؟”فوزیہ نے دوبارہ پوچھا۔
عابد نے ایک گہری سانس لے کر آنکھیں بند کیں تو وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
” نہیں رہنے دے، آج بہت تھک گیا ہوں تھوڑا آرام کروں گا۔” عابد نے جواب دیا۔
فوزیہ پاس بیٹھ کر عابد کے پاؤں دبانے لگی۔ ”عابد سُن! کیا سو گیاہے؟”
”ہاں بول۔”عابد نے مُندی مُندی آنکھیں کھولتے ہوئے پوچھا۔
فوزیہ بہت پیار سے بولی جیسے اُسے کسی بات پر منا رہی ہو۔” عابد مجھے ایڈ میں کام کرنا ہے، مجھے شہر لے کر چل۔”
اس بات پر عابد نے آنکھیں پوری طرح کھول لیں۔” کس چیزمیں کام کرنا ہے؟”
”اشتہار میں، وہ ایجنسی والے کا فون نہیں آیا تھا میں نے تجھے بتایا تھا کہ…”فوزیہ اسے بہت چاؤ سے بتا رہی تھی۔
”بس کردے فوزیہ! تیرے دماغ سے ابھی تک یہ خناس نہیں گیا۔ تو اب شادی شدہ عورت ہے۔ یہ خرافات دماغ سے نکال دے۔ ویسے یہ آوارہ عورتوں والے خیالات تیرے ذہن میں ڈالتا کون ہے؟” عابد نے اس کی بات کاٹ دی۔
” آوارہ عورتوں والے؟ یہ کیا کہہ رہا ہے تو؟”فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں اور کیا۔ چھت دی ہے،عزت والا گھر دیا ہے،اس گھر میں بیٹھ کر تجھے عزت راس نہیں آرہی؟” عابد غصے سے چلایا۔
”اس میں کیا برائی ہے، ہزاروں عورتیں کماتی ہیں اس طرح۔” فوزیہ نے جواب دیا۔
” لیکن میں تجھے نہیںجانے دوں گا؟ بس میں نے کہہ دیا۔”عابد نے اونچی آواز میں کہا۔
”مگر میں بھی کہہ رہی ہوں کہ میں جاؤں گی اور ضرور جاؤں گی، کام بھی کروں گی۔”فوزیہ اس سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولی۔
” تو میری مرضی کے خلاف کام کرے گی؟” عابد نے حیرانی سے آنکھیں نکالتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں کروں گی، دیکھتی ہوں تو کیا کرتا ہے۔” فوزیہ نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔
عابد نے آگے بڑھ کر غصّے سے اس کی چٹیا پکڑ لی اور بولا۔ ”میں بتاؤں تجھے کہ میں کیا کرسکتا ہوں۔”
”ہاں بتا، تو کیا کرسکتا ہے۔ ” فوزیہ تھوڑی تکلیف کے باوجود زور لگا کر بولی۔
”تو بس پھر دفع ہو جا میرے گھر سے۔” عابد نے دھکا دے کر اُسے چارپائی پر گرا دیا۔
”ہاں ہاں چلی جاؤں گی، مجھے بھی کوئی ارمان نہیں تیرے ساتھ رہنے کا۔”فوزیہ بھی شیرنی کی طرح دھاڑی۔
” حرّافہ!زبان چلاتی ہے۔” عابد نے غصے میں آکر آگے بڑھ کر اسے ایک جھانپڑ مارا۔
”دیکھ عابد ہاتھ نہ اُٹھا ورنہ…”فوزیہ نے فوراً کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”ورنہ کیا؟ بول ورنہ کیا؟آنکھیں دکھاتی ہے مجھے؟” عابدنے دوبارہ بال پکڑتے ہوئے پوچھا۔
” عابد توکچھ بھی کرلے میں نے شہر جا کر کام ضرور کرنا ہے۔”فوزیہ چلّاکر بولی۔
”ٹھیک ہے پھر تو کر کام لیکن میری بیوی کی حیثیت سے تو نہیں کرے گی، میں تجھے طلاق دے دوں تو تو اپنی خوشی سے کر لے جا کر۔” عابد ایک دفعہ پھر غصے میں چنگھاڑا۔
” ہاں دے طلاق میں تیار ہوں… طلاق کی دھمکی تو تیرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔” فوزیہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا،تو وہ بھی تنک کر بولا۔
”سن فوزیہ بتول تجھے میں نے طلاق دی… طلاق دی… طلاق دی۔”
٭…٭…٭
رَتھ دھیمیں دھیمیں ٹور
میڈا دستہ نرم کرور دا مَتاں وَنگیں لِگم ٹکور
رتھ تے بہندی ڈرگ سہدی ہم طبع کم زور
روز ازل دی پاتُم گل وچ بِرہوں تیڈے دی ڈور
شالہ مولھ سلامت نیواں راہ وچ لڑدِن چور