اماں تو نے راجدہ کو بھی تو فون کرکے بلایا ہے تو دوسرے کمرے میں بیٹھی بہو کو نہیں بلا سکتی؟”عابد نے شکایتی انداز میں کہا۔
”راجدہ میری بیٹی ہے۔ سو بار اس کو بلاؤں گی اور یہ آئے گی۔ تیری بیوی کو ایک واری آواز دی تو وہ کہہ دے گی کہ تیری ماں سارا دن آواز ہی مارتی رہتی ہے۔”ماں نے کہا۔
”او نہیں ماں وہ ایسی نہیں ہے۔”عابد نے فوزیہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔
”وہ کیسی ہے میں جانتی ہوں،خیر تو بول دکان پر کب سے جارہا ہے؟اتنے دنوں سے دکان بند پڑی ہے۔”ماں نے غصے سے کہا۔
” اماں میں ابھی دکان پر نہیں جارہا،دراصل دکان کے لیے ایک لڑکا رکھا ہے۔ دوچار دن کے لیے میں اور فوزیہ مری جارہے ہیں۔”عابد نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔
”ہیں!اچھا تو نے بالا ہی بالا فیصلے کرلیے واہ اورماں کو جاتے ہوئے بتا رہا ہے۔”ماں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”اماں بتا تو رہا ہوں،بغیر بتائے تو نہیں چلا گیا۔”عابد کے لہجے میں ناراضی تھی۔
ماں نے طنزیہ انداز میں بیٹی کی طرف دیکھا۔”تیرا احسان ہے پتر کہ تو نے ماں کو جاتے ہوئے بتا دیا،نہ بتاتا تو بھی بوڑھی بیمار ماں نے کیا کرلینا تھا؟جا تو مری جا کر عیش کر، مرنے دے ماں کو۔”یہ کہہ کر اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ راجدہ نے اٹھ کر اسے گلاس بھر کر پانی دیا۔عابد بھی اٹھ کر پریشان سا ماں کی کمر سہلانے کی کوشش کرنے لگا تو ماں نے ہاتھ جھٹک دیا جیسے بہت ناراض ہو۔وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
دو دن انہوں نے مری میں بہت مزے سے گذارے فوزیہ نے کافی چیزوں کی شاپنگ کی،جس میں عابد کی ناراضی کے باوجود جینز اور شرٹ بھی شامل تھی۔میگزین میں ماڈلز کو وہ یہ کپڑے پہنے دیکھتی تو سوچتی کہ اگر موقع ملا تو میں بھی ضرور ایسا لباس پہنوں گی۔ وہ دونوں مری کی مال روڈ کی سڑکوں پر چہل قدمی کرتے آئس کریم کھا رہے تھے۔فوزیہ نے جینزاور شرٹ پہن رکھی تھی اور وہ اپنی اور عابد کی سیلفی لینے لگی۔ پھر دونوں چلتے چلتے ایک درخت کے نیچے رک گئے اور بینچ پر بیٹھ گئے ۔ دونوں کے ہاتھوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھا۔
”تجھے اپنی پسند کا ایک گانا سناؤں؟”فوزیہ نے عابد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
عابد نے دفعتاًاِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی آس پاس تو نہیں پھر بولا۔”ہاں سنا۔”
فوزیہ نے آنکھیں بند کیں اور تان اٹھائی۔
”ہماری سانسوں میں آج تک حنا کی خوشبو مہک رہی ہے!”
اور پھر پورا گانا ختم کر کے عابد کی طرف دیکھا جو اسے ہی تک رہا تھا۔
” تو کتنا اچھا گاتی ہے۔”عابد نے اس کی تعریف کی۔
”عابد تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے ٹی وی پر بھی کام دلائے گا۔”فوزیہ نے اسے جیسے کچھ یاد دلایا۔
” ہاں کیا تو تھا۔”عابد نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”پھرسوچ کیا رہا ہے؟ بتا کب لے کر چلے گا؟”فوزیہ نے بے تابی سے پوچھا۔
”ارے ابھی چھوڑ سب باتیں،چل کہیں جا کرکھانا کھاتے ہیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔” عابد نے اسے ٹالتے ہوئے کہا۔
” لیکن تو پہلے میری بات کا جواب تو دے۔”فوزیہ نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”کرتے ہیں کچھ ،ابھی تو اُٹھ، کھانا کھائیں۔” عابد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا اور ہوٹل کی طرف بڑھنے لگا۔
٭…٭…٭
عابد اور فوزیہ مال روڈ پر موجود ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھا کر ہوٹل چلے گئے ۔ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ راجدہ کا فون آیا۔اس نے عابد کو بتایا کہ اماں کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے اس لیے فوراً واپس آ جاؤ تا کہ اماں کو شہر لے کر جا سکیں۔عابد یہ سنتے ہی پریشان ہوگیا اور واپس گاؤں جانے کی تیاری کرنے لگا اور پہلی بس سے گاؤں روانہ ہوگیا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ دونوں سیدھا ماں کے کمرے میں گئے جو ان سے سخت ناراض تھی۔اس نے نظر اٹھا کر بھی بہو اور بیٹے کو نہ دیکھا۔ راجدہ بھی ادھر ہی موجود تھی۔عابد اور فوزیہ نے ایک ساتھ سلام کیا۔
ماں نے مارے باندھے سلام کا جواب دے کر منہ پھیر لیا۔عابد نے ماں کی ناراضی محسوس کی اور بہن سے پوچھا۔” کیسی ہے توراجدہ؟”
”ٹھیک ہوں بھائی، تو تو جا کر ہی بھول گیا۔کوئی فون تو کرلیتا۔فون بھی میں نے ہی کیا تجھے۔”راجدہ نے شکایتی انداز میں کہا۔
”راجدہ میں نے تجھے اور اماں کو بہت بار ملایا مگر وہاں سگنل کا مسئلہ تھا۔ لائن مل کر ہی نہیں دے رہی تھی۔”عابد نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں بھئی جانتا بھی تھا کہ ماں بیمار ہے لیکن لمبی سیر کو گیا تیرا بھائی۔”ماں نے طنز کرتے ہوئے کہا۔
”بھائی تھوڑا تو ماں کا خیال کرو،تجھے کیا پتا کتنی بیمار رہی ہے تیرے پیچھے۔میں اور ظفر مل کر شہر لے گئے تھے۔ظفر طعنہ دے رہا تھا کہ تیرے بھائی کو ذرا خیال نہیں بیمار ماں کو چھوڑ کر سیر سپاٹا کرنے نکل گیا، آج پھر لے جانا ہے شہر۔”راجدہ کی بات میں غصہ اور سرزنش تھی۔
فوزیہ یہ سب باتیں سُن کر غصہ ہورہی تھی لیکن خاموشی سے سب کی سنتی رہی تھی۔
”او اب آگیا ہوں نا میں،لے جاؤں گا اپنی اماں کو۔تو منع کردے اپنے شوہر کو۔”عابد نے بھی برا مانتے ہوئے کہا۔اُسے محسوس ہورہا تھا کہ راجدہ اُسے جتارہی ہے۔
”دیکھ لے کہیں آج تجھے اپنی بیوی کو اس کے میکے نہ لے جانا ہو۔اب تو تو بیوی کے پلو سے ہی بندھا رہے گا۔”راجدہ نے اس پر جوابی طنز کیا۔
یہ سن کر فوزیہ نے بہت غصے سے راجدہ کو دیکھااور کمرے سے باہر نکل گئی۔
” بھئی میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ تمہاری بیوی کو آگ لگ گئی، دیکھ کیسے گھورتی ہوئی گئی ہے۔”راجدہ نے کہا۔
”تو نے بات ہی ایسی کی ہے۔”عابد بھی اس پر بگڑتے ہوئے بولا۔
”سچ بات تو سب کو بری لگتی ہے۔”راجدہ نے بے پروائی سے کہا۔
”سچ بات بُری نہیں کوڑی ہوتی ہے پتر!جا سمجھا اپنی بیوی کو ،کوڑی بات برداشت کرنا سیکھے۔” فاخرہ بی بی نے عابد کو کہا،وہ ماں کی بات سُن کر خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
عابد اپنے کمرے سے تیار ہو کر باہر نکلا تو دروازے پر ہی فاخرہ بی بی کو کھڑا دیکھا جس نے اس کی کلاس لینا شروع کر دی۔
”ذرا بتا تو آج کتنے دن کے بعد دکان کھول رہا ہے تو؟”
”ہاں اماں کافی دن ہو گئے لیکن آج سے انشااللہ روز کھولوں گا،تو فکر نہ کر۔”عابدماں کو غصے میں دیکھ کر تھوڑا سا ہکلایا۔
”تجھے پتا ہے تیرے بھائی کی خون پسینے کی کمائی ہے جو تو مٹی میں رول رہا ہے۔کاروبار ایسے نہیں ہوتے۔کتنا مال ڈلوا کر گیا تھا دکان میں جو تو بیچ بیچ کر کھا گیا۔اب جو بچا کھچا ہے اسے تو سنبھال لے۔کتنے دن ہو گئے تیری شادی کواور تو ابھی تک دلہا بنا پھر رہا ہے۔”ماں نے غصے سے کہا۔
” نہیں اماں تجھے آئندہ کوئی شکایت نہیں ہو گی میں اب روز دکان پر جاؤں گا،ناراض نہ ہو۔”عابد نے ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے کہا۔
”اور ہاں میں اب روز روز صُبح تیرا دروازہ نہیں کھٹکھٹاؤں گی۔تو سمجھا دے اپنی مہارانی کو کہ اٹھے اور تیرے لیے ناشتہ بنا کر دیا کرے وہ، ابھی تک پڑی سو رہی ہے۔ بوڑھی ساس تو ایک طرف اپنے میاں کو بھی اٹھ کر ناشتہ نہیں دے سکتی۔” ماں کے لہجے میں فوزیہ کے لیے حقارت تھی۔
”او چھوڑ اماں!میں کہہ دوں گا اس سے۔ کل سے اٹھے گی وہ اور ناشتہ بھی دے گی۔ ابھی تو میں باہر سے ہی کچھ لے کر کھا لوں گا تو فکر نہ کر۔ دوائی کھا رہی ہے نا تو؟بس اپنا خیال رکھ،میں چلتا ہوں۔” عابد نے بات کو سنبھالتے ہوئے کہا اور خداحافظ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔
”لعنت ہو ایسی بیوی پر جو صُبح اُٹھ کر شوہر کو ناشتہ تک نہ دے سکے اور پڑی سوتی رہے۔” فاخرہ بی بی نے نفرت سے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا اور بُڑبڑائی۔
فوزیہ اپنی نیند پوری کر کے دس بجے تک کمرے سے باہر آ ئی جہاں اس کی ساس صحن میں تخت پر بیٹھی سبزی بنا رہی تھی۔فوزیہ ساس کو سلام کرتی ہوئی پاس ہی بیٹھ گئی۔
”السلام علیکم اماں۔ ”
”وعلیکم السلام،اُٹھ گئی تو۔ یہ تیرے اُٹھنے کا ٹائم ہے؟ دیکھ لڑکی اب تیری شادی ہو گئی ہے ایسے لچھن چھوڑ دے۔ گھر بسانے والی بات کر۔”فاخرہ بی بی نے برا سا منہ بنا کر طنز کیا۔
”کیا ہوا اماں؟”فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”آج پندرہ دن بعد تیرے میاں نے دکان کھولی اور وہ ناشتے کے بغیر گیااور تو پڑی سوتی رہی۔ہر وقت شوہر کو پلو سے باندھ کر رکھنے والی عورتیں ٹھیک نہیں ہوتیں۔”فاخرہ بی بی نے ترچھی نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
فوزیہ نے پریشان ہوکر ساس کا چہرہ دیکھا اور بولی۔’اماں میں نے ایسا کیا کر دیا؟”
”لے ایک تو وہ ویسے ہی کام چور ہے،کام سے جی چراتا ہے۔دوسری تجھ جیسی بیوی جو اسے کام سے جانے سے روکتی ہے۔”فاخرہ بی بی نے تنک کر جواب دیا۔
”میں نے اسے کب روکا اماں؟”فوزیہ کے لہجے میں اب بھی حیرانی تھی۔
”روکا نہیں تو جانے کو بھی نہیں کہا،آج کتنے دن کے بعد میں نے اسے دروازہ بجا کر اٹھایا ورنہ وہ آج بھی نہ جاتا۔ ویسے ہی ہڈحرام ہے،ہڈحرام نہ ہوتا تو دبئی سے واپس آتا۔یہاں بھی دکان پر میں ہی دھکا دے کر بھیجتی تھی اب تک۔” فاخرہ بی بی نے اس کی طرف دیکھا اور اپنا لہجہ تھوڑا دھیما کیا،مگر لہجے میں بڑی کاٹ تھی جو فوزیہ کو بُری طرح محسوس ہوئی۔وہ کچھ بولی، نہیں کیا بولتی وہ غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی۔
”اب تو بھیج اسے دھکا دے کر،پلو سے باندھ کر مت رکھ، سمجھی۔”ساس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”سمجھ گئی اماں، اب تو کہے تو ناشتہ کر لوں۔”فوزیہ نے بے زاری سے کہا۔
”ہاں کر ناشتہ بلکہ یہ سبزی بنا دی ہے، اب تو ناشتے کے بعد کھانا بھی بنا لے۔عابد دوپہر کا کھانا گھر پر ہی آکر کھاتا ہے۔” فاخرہ بی بی نے ہدایات دیتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے اماں،تو چائے پیئے گی لاؤں تیرے واسطے؟”فوزیہ نے مصالحت آمیز لہجے میں پوچھا۔
”چل لے آ،پی لوں گی لیکن دیکھ چینی ٹھیک ٹھاک ڈالنا۔پھکّی چائے حلق سے نہیں اترتی میرے۔” فاخرہ بی بی نے بھی مصالحانہ انداز میں جواب دیا۔
” ٹھیک ہے اماں ابھی لائی۔”فوزیہ نے مُسکرا کر ساس کی طرف دیکھا اور کہتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ آج بڑے دن کے بعد چودھرانی سے ملنے اس کے گھر چلی آئی۔خوب صورت جوڑے میں ملبوس فوزیہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ چودھرانی نے اسے دیکھا تو کہا۔
”فوزیہ ماشاء اللہ،بڑی خوش نظر آ رہی ہے۔ لگتا ہے شادی تجھے راس آگئی۔ ”
اس نے مٹھائی کا ڈبہ چودھرانی کو پکڑایا اوربولی۔” چودھرانی جی یہ لیں،یہ آپ کے واسطے۔”
”یہ بتا تو خوش تو ہے شادی کے بعد؟” چودھرانی نے ڈبہ پکڑتے ہوئے پوچھا۔
”آپ بتائیں جی کیسی لگ رہی ہوں۔”فوزیہ نے اُلٹا سوال کر دیا۔
چودھرانی نے بڑے غور سے اسے دیکھا اور بولی۔
” وہی تو کہہ رہی ہوں لگ رہا ہے شادی راس آگئی ہے۔ مجھے تو تو پہلے سے زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔ لگتا ہے عابد تیرا بہت خیال رکھتا ہے۔”
”جی بہت اچھا ہے وہ۔”فوزیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔”میں تو جی آپ کا اور چودھری صاحب کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی،اگر آپ لوگ ساتھ نہ دیتے تو میں آج اس لفنگے کے پلے بندھی ہوتی۔”اس کے انداز میں بہت شکر گزاری تھی۔
”لیکن مان لے فوزیہ!اس میں تیری اپنی ہمت بڑی تھی۔کون لڑکی اپنی شادی والے دن بھاگ سکتی ہے۔”چودھرانی کے لہجے میں ایک دبا دباسا طنز تھا جسے فوزیہ نے محسوس کر لیا۔
” لیکن جی میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ روز روز مرنے اور زہر پینے سے بہتر ہے ایک بار ہی زہر پیا جائے۔بس جی آپ کے اور چودھری صاحب کے بھروسے کیا تھا وہ سب۔” فوزیہ نے جواب دیا۔
”ہاں لیکن تو خوش ہے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔اب تو زیادہ سے زیادہ اپنا گھر دیکھ اور میاں کا خیال رکھ اِدھر اُدھر مت پھرا کر۔”چودھرانی نے اسے سمجھایا۔
”اونہ جی!اب تومیں تواماں کے گھربھی کم ہی جاتی ہوں۔بس آج سوچاکہ آپ کوسلام کرتی چلوں،چودھری صاحب ٹھیک ہیں؟”
”ہاں اللہ کا شکر ہے،پریہ بتاکیا پراندے بنانے کا کام چھوڑ دیاتو نے؟”چودھرانی نے فوزیہ سے پوچھا۔
”عابد پسند نہیں کرتاکہ میں اب کوئی کام کروں۔”فوزیہ نے بہت محبت سے عابد کا ذکر کرتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں ٹھیک ہے جب میاں خرچہ اُٹھا رہا ہو تو بیوی کوکیا ضرورت ہے کام کرنے کی۔پھر بھی اگر کبھی دل چاہے تو کام تو تیرے لیے بہت ہے۔تیرے ہاتھ چلتے بھی بہت تیزی سے تھے۔بڑی اچھی چٹیا گوندھتی تھی تو۔”چودھرانی نے اس کے پراندوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”بس جی دعا کریں اب تو کچھ نہ کروں،میاں کے ہی خرچے کرواؤں۔”فوزیہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے،اس لیے کہہ رہی ہوں کہ کبھی تیرا دل چاہے تو کر لینا۔”چودھرانی نے کہا۔
”جی اچھا،اب میں چلتی ہوں ذرا اماں کی طرف بھی ہولوں۔”فوزیہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے،آتی جاتی رہا کر کبھی کبھار۔” چودھرانی نے پلو سے بندھے پانچ سو کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دباتے ہوئے کہا۔
”جی ٹھیک!چودھری صاحب کو سلام کہنا میرا ۔”وہ خدا حافظ کہتی ہوئی نکل گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ چودھرانی کے گھر سے اُٹھ کر سیدھی اپنی ماں کے گھر گئی ۔ماں نے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیالیکن وہ آگے بڑھ کر ماں کے گلے لگی تو ماں نے بھی تھوڑی پس و پیش کے بعد اس کے گال پر پیار کیا،ماں تھی بھلا کیسے ناراض رہ سکتی تھی۔
فوزیہ نے فرداً فرداً سب گھر والوں کے تحفے نکال کر ماں کو دیے ۔اتنے میں امام بخش بھی آگیا اور اسے گلے لگا کر پیار کیا۔منی اور منا اپنے تحفے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔اس دن فوزیہ نے دو گھنٹے اماں ابا اور گھر والوں کے ساتھ گذارے کھانا بھی ماں نے اس کی پسند کا بنایا تھا جسے اس نے خوش ہوکر کھایا لیکن شام ڈھلنے سے پہلے وہ لوٹ آئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ اپنے کمرے میں بیٹھی گنگنا رہی تھی۔اس کے چہرے پر ایک خوشی تھی کہ اسی وقت عابد کمرے میں داخل ہوا۔وہ ایک دم اس کی جانب بڑھی،عابد نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پوچھا۔
”خیر ہے بڑی خوش نظر آرہی ہے تو؟”
” بات ہی اتنی بڑی ہے۔ بس تو اندازہ لگا کیا بات ہو سکتی ہے بھلا؟”وہ شرمائی سی کھڑی تھی۔
”تیرا پرائز بانڈ نکل آیا ہے یا تیری ماں آئی تھی؟”عابد سوچتے ہوئے بولا۔
فوزیہ نے نفی میں سر ہلایا۔
”تیرا بانڈ بھی نہیں نکلا،تیری اماں بھی نہیں آئی تو پھر کیا ہو سکتا ہے؟ تو خود بتا دے پہیلیاں نہ بجھوا۔”تنگ آکر اس نے ہار مان لی۔
”بتا دوں؟”فوزیہ نے آنکھیں نچاتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں ہاں بتا کیا پہیلیاں بجھا رہی ہے۔”اس بار عابد نے اشتیاق سے کہا۔فوزیہ نے دوپٹے کاپلو منہ میں دبایا، اس کے چہرے پر شرماہٹ تھی ۔
”عابد! عابد تو باپ بننے والا ہے۔”وہ دھیرے دھیرے اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔
”او تو کیا کہہ رہی ہے؟میں باپ بننے والا ہوں۔ ارے واہ فوزیہ یہ تو بہت بڑی خبر ہے۔” عابد کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔اس نے جذبات سے معمور ہوکر اسے کندھوں سے پکڑ لیا،پھر ایک ہاتھ تھاما اور بولا۔
”فوزیہ خدا کی قسم! تو نے واقعی مجھے بڑی خبر سنائی ہے۔”
”اچھا یہ بتا تو کیا چاہتا ہے؟بیٹا ہو کہ بیٹی؟” فوزیہ نے اِٹھلا کر عابد سے پوچھا۔
”میں تو چاہتا ہوں میرا بیٹا ہو۔ میرا بازو،میرا سہارا بنے۔”عابد نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
” کیوں کیا بیٹیاں سہارا نہیں ہو سکتیں کیا؟ تو یہ کیسی بات کر رہا ہے؟ عابد میں تو چاہتی ہوں میری پہلی اولاد بیٹی ہو۔”فوزیہ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
” او نا کر بیٹیوں کی وجہ سے اکثر باپوں کے شملے جھک جاتے ہیں۔”عابد نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”یہ کیا بات کی تو نے؟ تو مجھ پر طنز کر رہا ہے؟”فوزیہ اس کی بات کو خود پر طنز محسوس کرتے ہوئے دھاڑی۔
”لے تو کہاں سے آگئی اس بات میں؟” عابد نے نرم لہجے میں پوچھا۔
”تو یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ میں نے تیری وجہ سے گھر سے بھاگ کر بہت غلط کیا۔” فوزیہ تنک کر بولی۔
عابد کو ایک دم احساس ہوا کہ اس سے غلط بات ہوگئی ہے۔وہ وضاحت کرنے لگا۔
”اوہ نہیں فوزیہ تو غلط سمجھی ہے،میرا یہ مطلب نہیں۔”
”تیرا کیا مطلب ہے فوزیہ بتول اچھی طرح جانتی ہے۔”فوزیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”اچھا جا تجھے تو بس لڑنے کا بہانہ چاہیے۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑتی ہے،ہر وقت لڑتی جھگڑتی رہتی ہے۔” عابد کو بھی غصہ آگیا ۔فوزیہ روٹھ کر ایک طرف بیٹھ گئی۔
” اتنی بڑی خوشی کی خبر سُنائی اور تو طنز کر رہا ہے مجھ پر۔”کچھ دیر بعد فوزیہ نے کہا۔وہ بات ختم کرنا چاہتی تھی،لیکن یہ بھی چاہتی تھی کہ عابداُسے منائے۔
”او کون طنز کر رہا ہے۔ میں تو ایک سچی بات کر رہا ہوں تو خواہ مخوا ناراض ہوتی ہے۔” عابد نے کہا اوراُس کی بات سمجھ کر اُسے منانے لگا۔” چل چھوڑ سب باتیں ،تو نے اتنی اچھی خبر سنائی رات کا کھانا باہر چل کے کھاتے ہیں۔”
”میں نے کہیں نہیں جانا۔” فوزیہ نے روٹھے روٹھے انداز میں جواب دیا۔
وہ پاس آکر اس کا ہاتھ پکڑ کر منانے کی کوشش کرنے لگا اورچہرہ اوپر کرکے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
” او اب چھوڑ بھی غصہ،تیار ہو جا ؤ تم۔واپسی پر اماں کے لیے مٹھائی بھی لانی ہے۔اتنی بڑی خبر سوکھے منہ تو نہیں بتائی جا سکتی۔ ”وہ مسکرا کر بولا۔
” چل ٹھیک ہے میں تیار ہوتی ہوں۔”وہ اس کی بات پر مسکرادی۔
٭…٭…٭
عابد اور فوزیہ ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔ٹی وی پر ایک میوزک مقابلہ چل رہا تھا۔
”مجھے بھی اس پروگرام میں جانا ہے۔”فوزیہ نے عابد سے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
عابد نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی تو فوزیہ نے دوبارہ غصے سے کہا۔
”عابد تجھے یاد ہے تو نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا؟”
”کیسا وعدہ؟”عابد نے بے دھیانی میں پوچھا۔
”یہی کہ تو میری ہر خواہش پوری کرے گا۔” فوزیہ نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں توکرتورہاہوں،کیا نہیں ہے آج تیرے پاس۔تیری کون سی خوشی ہے جومیں نے پوری نہیں کی؟”وہ مسلسل موبائل میں مشغول تھا،فوزیہ تپ گئی ۔
”تجھے یاد ہے نا تو نے کہا تھا تو مجھے گانا گانے دے گا؟” فوزیہ نے اس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا۔عابد نے غصے سے اس کی جانب دیکھا۔
”لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟”عابد نے اس کی طرف دیکھ کر تحمل سے پوچھا۔
فوزیہ کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے تو عابد نے کہا۔”دیکھ اس وقت تو ساری باتیں چھوڑ کر اپنے آنے والے بچے کے بارے میں سوچ،اس پر دھیان دے۔ باقی سب کچھ بھول جا کہ میں نے تجھ سے کون سا وعدہ کیا تھا۔” عابد نے اسے سمجھایا۔
” ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن تو نے وعدہ کیا تھا۔ میں فارغ ہو جاؤں تو تو ایسے کسی پروگرام میں مجھے جانے دے گا۔عابد میں بھی مشہور ہونا چاہتی ہوں۔”فوزیہ نے ٹی وی پر چلتے پروگرام کی طرف اشارہ کیا۔
”دیکھ فوزیہ سیدھی بات کرتا ہوں،اب تو ایک شادی شدہ عورت ہے۔شادی کے لیے مرد بہت سی باتیں کرتا ہے اب ہر بات تو پوری نہیں کی جا سکتی۔” عابد نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب؟”فوزیہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”مطلب یہ کہ ابھی تو فی الحال اپنے بارے میں اور اپنے بچے کے بارے میں سوچ ۔وہی تیرا مستقبل ہے۔دوسری کوئی سوچ تیرے دماغ میں نہیں ہونی چاہیے۔”عابد نے دستر خوان سے ہاتھ پونچھتے ہوئے برتن ایک طرف کھسکاتے ہوئے کہا۔اس کے انداز میں خفگی تھی جس کو فوزیہ نے محسوس کرتے ہوئے بھی نظر انداز کیا۔
”لیکن عابد تو نے تووعدہ کیا تھا۔” فوزیہ کے لہجے میں دکھ اور اداسی تھی۔
”میں نے توبہت کچھ کہا تھا اب دیکھوں گا کہ آگے کیا ہو سکتا ہے۔ بس تو ابھی صرف اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں سوچ، گھر کے بارے میں سوچ اور میرے بارے میں سوچ، باقی باتیں بعد میں۔”عابد نے قطعی انداز میں کہا۔
”لیکن…” فوزیہ نے بات کرنا چاہی۔
”لیکن ویکن کچھ نہیں بس اب خاموش ہو جا،میں سونے لگا ہوں۔ صبح دکان سے دیر ہو گئی تو اماں کی ڈانٹ پڑے گی۔” عابداس کی بات کاٹ کر کروٹ لے کر لیٹ گیا اوروہ دکھ سے اس کی کمر کو تکتی رہی۔ اسے سمجھ آگیا تھا کہ عابد وہ نہیں رہا جو شادی سے پہلے تھا۔اس کے وعدے،اس کی محبت سب کہیں اڑن چھو ہوچکی تھی۔وہ بہت بدل گیا تھا اور آہستہ آہستہ مزید بدل رہا تھا۔ عورت تو شادی کے بعد مرد کو پل پل بدلتا دیکھتی ہے اور اسی گمان میں رہتی ہے کہ شاید اس کی نظر کا دھوکا یا کم فہمی ہے اور اصل بات تو تب کھلتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ فوزیہ کے لیے بھی خوش گمانی کے دن بہت تکلیف کے تھے۔
حمل کے دنوں میں فوزیہ کا برا حال تھا۔وہ برتن بھی دھوتی،صفائی بھی کرتی،گائے کا چارہ بھی کاٹتی اور رات کو پنڈلیوں میں شدید درد کی وجہ سے اس کی آہیں بھی نکل جاتیں لیکن عابد تو جیسے اس حال میں دیکھ کر دن بہ دن بے زار سا ہورہا تھا۔اسے تو جیسے کوئی پروا ہی نہیں تھی کہ وہ ان دنوں میں کتنی تکلیف میں تھی۔وہ اکیلی ہی ساری تکالیف اٹھا رہی تھی اور خاموشی سے برداشت کررہی تھی کہ بچہ ہوجائے تو شاید سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
٭…٭…٭
عابد اپنی دکان پر شیلف صاف کر رہا تھاکہ ایک نوجوان قبول صورت سی لڑکی اندر آئی۔
”تیرے پاس سرخ رنگ کی چوڑیاں ہیں۔” لڑکی نے اِٹھلا کر عابد سے پوچھا۔
عابد نے چوڑیوں کا ڈبہ اس کے آگے رکھا اور بولا۔”ہاں ہاں ہیں یہ لے دیکھ۔”
” اس میں 2نمبر کا سائز دکھاؤ۔” لڑکی نے ایک سرخ رنگ کی چوڑی اٹھائی اور کہا۔
عابد نے دو نمبر کے سائز والی چوڑیوں کا ڈبہ بڑھا دیا۔لڑکی نے چوڑیاں عابد کی طرف بڑھا دیں اور اِٹھلا کر بولی۔”پہنا بھی دے۔”
عابد نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور پوچھا۔” کیا نام ہے تیرا؟”
”روبی۔”لڑکی بہت ناز سے بولی۔
” بہت پیارا نام ہے۔”عابد نے مسکرا کر کہا۔ چوڑیاں پہنانے کے بعد بھی عابد نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تو روبی نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔” میرا ہاتھ تو چھوڑ دے۔”
عابد نے فوراً ہاتھ چھوڑدیا۔”اوہ معاف کرنا۔”وہ خجل ہوگیا۔
”کتنے پیسے ہوئے؟”روبی نے چوڑیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
”اوہ رہن دے پیسے کوئی بات نہیں۔”عابد نے ہاتھ کے اشارے سے منع کرتے ہوئے جواب دیا۔ایسا کیسے ممکن تھا کوئی خوب صورت لڑکی پہلی بار کچھ لینے آئے اور عابد اُسے فری میں کچھ نہ دے۔
”اچھا تو مجھے تحفہ دے رہا ہے۔” روبی نے آنکھیں نچا کر پوچھا۔
”ہاں یہی سمجھ لے۔”عابد نے مسکرا کر جواب دیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ لڑکی آسانی سے پھنس جائے گی۔
”لیکن میں ہر ایرے غیرے سے تحفہ نہیں لیتی۔”روبی نے اترا کر کہا۔
عابد نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اداکاری کی اور بولا۔”ایرا غیرا کون ہے؟”
”تو اور کون۔”روبی نے ہنس کر کہا۔
”واہ جی ! ہر ایرے غیرے کے ہاتھوں میں ایسے ہی ہاتھ بھی تو نہیں دیتے نا۔”عابد نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
” تو بہت تیز ہے،بلکہ باتیں خوب بناتا ہے۔ بتا ناکتنے پیسے دوں؟”روبی نے ایک ادا سے پوچھا۔
”چل توآج میری طرف پہلی بار آئی ہے ،اس لیے تحفہ سمجھ کر رکھ لے۔” عابد نے کہا۔
”اچھا دوسری بار آؤں گی تو کچھ نہیں دے گا؟”روبی نے مزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
”جب دوبارہ آئے گی تو پھر دیکھا جائے گا۔ ”عابد نے مسکرا کرجواب دیا۔
”اچھاپھر چلتی ہوں۔”روبی نے کہا اورشاپر اٹھا کر مسکراتی ہوئی دروازے سے نکل گئی، عابد اسے دور تک جاتا دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
فوزیہ نے ساس اور شوہر کے آگے کھانے کی ٹرے رکھی۔ دونوں نے تھوڑا تھوڑا سالن پلیٹ میں ڈالااور پہلانوالہ لیتے ہی تھوک دیا۔فوزیہ کی حالت آخری مہینے کی وجہ سے بہت خراب تھی۔عابد نے نوالہ تھوکتے ہوئے بُرا منہ بنایا۔
”اوہ خدا! کیا نمک کی پوری برنی الٹ دی ہانڈی میں؟”عابد نے اسے ڈانٹا۔
”او دھیان کدھر رہتا ہے تیرا؟”ساس نے بھی روٹی پلیٹ میں پٹخ د ی۔” کون کھائے گا اتنا زہریلا کھانا،کوئی درد نہیں تجھے اپنے میاں کا ،اس کے پیسوں کا۔بے دھیانی سے کھانامت پکایا کر۔”ساس غصّے میں تلملائی۔
” اماں آج میری طبیعت بالکل ٹھیک نہیں تھی ،بہت بے دلی سے کھانا پکایا ہے۔”فوزیہ نے پیٹ میں اٹھتے درد پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔
”تیری طبیعت تو روز ٹھیک نہیں ہوتی، تو تو روز ایسا زہر بھرا کھانا بناتی ہے۔میرے بیٹے کو تو ایسا کھانا کھانے کی بالکل عادت نہیں۔ قسمت پھوٹ گئی میرے بیٹے کی جو تجھ سے شادی ہو گئی۔ تو ٹھہر عابد میں تیرے لیے کچھ بنادیتی ہوں۔”ساس نے اس پر طنز کے وار کرتے ہوئے کہا۔
”اماں بس رہنے دو،میں باہر کھا لیتا ہوں جا کر۔”عابد فوزیہ کو گھورتے ہوئے باہر نکل گیا۔
”دیکھ وہ خالی پیٹ باہر نکل گیا۔”ساس نے کہا۔
”اماں کہہ تو رہی ہوں جان بوجھ کر نہیں ڈالا، غلطی سے ڈل گیا۔معاف کر دے۔ بات کیوں بڑھا رہی ہے۔”فوزیہ نے بے بسی سے کہا۔
”معافی تو تو اپنے شوہر سے مانگنا مجھ سے کیوں مانگ رہی ہے۔لے جا یہ زہر مارا کھانا، جیسے زبان زہر ہے ایسے ہی کھانا بھی زہر۔میں جا رہی ہوں راجدہ کی طرف،دروازہ بند کر لینا۔” ساس نے طنز بھرے لہجے میں کہا۔
فوزیہ کھیتوں کی پگ ڈنڈی سے گھر کی طرف جارہی تھی کہ اچانک ساجد اس کے سامنے آ گیا جسے دیکھ کر وہ چونک گئی۔
”واہ جی بڑی خوش نظر آرہی ہے تو۔”ساجد نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
” تو یہاں؟” فوزیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں میں،میں تجھے یاد ہوں؟”ساجد نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”او! تجھے کون بھول سکتا ہے اور نہ تو مجھے بھول سکتا ہے۔یاد ہے نا تھپڑ؟”فوزیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
” تھپڑ بھی یاد ہے اور اپنی بے عزتی بھی۔میں تیری بات کا ایسا جواب دوں گا فوزیہ بتول تو بھی یاد رکھے گی، تیرے ہونٹوں سے یہ مسکراہٹ ساری زندگی کے لیے ختم ہو جائے گی۔ ”ساجد نے غصے سے کہا۔
”او جا جا!بہت دیکھے ہیں دھمکیاں لگانے والے تیرے جیسے۔جب کوئی بس نہیں چلتا تو صرف دھمکیاں لگاتے ہیں۔ ” فوزیہ نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
”یہ تو وقت بتائے گا کہ کون دھمکیاں لگاتا ہے اور کون کر کے دکھاتا ہے۔ تو نے مجھے دنیا میں بدنام کر دیا۔تو دیکھ کہ میں اب تیرے ساتھ کرتا کیا ہوں۔” ساجد نے اسے دھمکی لگاتے ہوئے کہا۔
” او جا جا، لگتا ہے تیرا دوسرا گال میرے تھپڑ کے لیے تڑپ رہا ہے۔” فوزیہ نے ایک ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لے کر سہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”بس کر دے فوزیہ بتول اتنا غرور اچھا نہیں،جب تیرا بھرم توڑ دوں گا تجھے تب پتا چلے گا۔”ساجد نے ایک بار پھر غصے سے کہا۔
اتنے میں سامنے سے چند راہ گیر آتے ہوئے نظرآئے تو ساجد انہیں دیکھ کر آگے بڑھ گیا۔فوزیہ نے پیچھے سے آواز دی۔
” او! بہت سے دیکھے ہیں تیرے جیسے دھمکی دینے والے کاغذ کے شیر جووقت آنے پر گیدڑ بن جاتے ہیں۔” یہ کہہ کر وہ سرجھٹکتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
فوزیہ کمرے سے اُٹھ کر باہر آئی ہے تو فاطمہ اسی وقت اس کے گھر میں داخل ہوئی۔اس کے چہرے سے پریشانی ٹپک رہی تھی۔فوزیہ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے بولی۔
”ارے فاطمہ توکیسے اس وقت؟آجا میں تجھے ہی یاد کر رہی تھی۔”وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے کی طرف لے گئی۔
” آتجھے دکھاؤں میں نے اپنے منے کے لیے کتنے پیارے پیارے کپڑے لیے ہیں۔” فوزیہ نے فاطمہ سے کہا۔
فاطمہ نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی۔”توچھوڑ کپڑے ،میرے پاس بیٹھ۔”
فوزیہ اُسے پریشان دیکھ کر پریشان ہوگئی۔”کیا ہوا تجھے؟اتنی پریشان کیوں ہے؟”
فاطمہ نے کھوجتی ہوئی نظروں سے کہا۔” تجھے پتا ہے عابد کا دوسری عورت کے ساتھ چکر چل رہا ہے؟”
فوزیہ اس کی بات سن کر ہکا بکا رہ گئی۔ایک لمحے کے لیے تو اس کو سمجھ ہی نہ آیا کہ فاطمہ نے یہ بات عابد کے بارے میں کی ہے یا کسی اور مرد کے لیے لیکن جب اسے بات سمجھ آئی تو اس نے انگلی اٹھا کر فاطمہ کو وارننگ دی۔
”فاطمہ یاد رکھ اگر تیری بات ٹھیک ہوئی تو میں عابد کو چھوڑوں گی نہیں،لیکن اگر یہ تیرا کوئی مذاق ہے تو آج سے تیری میری دوستی ختم۔”
”اللہ کی قسم فوزیہ میں خود اپنی آنکھوں سے ان دونوں کو نہر کنارے بیٹھا دیکھ کر آئی ہوں اور بہت دنوں سے لوگوں کی زبانی ان کی باتیں بھی سن رہی تھی۔”فاطمہ نے گھبرا کر اپنی بات دہرائی۔
”تو تو نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا۔ ” فوزیہ نے شکایتی انداز میں کہا۔
”پہلے مجھے لگا کہ لوگ تجھ سے جل کر یہ بات کررہے ہیں، لیکن آج میں نے دونوں کوخودایک ساتھ دیکھا۔تو کر بھی کیا سکتی ہے فوزیہ، سارے مرد ہی ایسے ہوتے ہیں۔ روز کسی نہ کسی کی کہانی نکلتی ہے اور وہ روبی تو زمانے بھر کی بدنام ہے مردوں کو پھنسانے میں۔ ”فاطمہ نے اسے اداس دیکھ کر اس کا دل رکھا۔
” اس روبی کو تو میں دیکھ لوں گی،لیکن اس سے پہلے عابد کو حساب دینا ہوگا۔چھوڑوں گی نہیں۔” اس کے چہرے پر اتناغصہ تھا جیسے وہ عابد کو کچا کھا جائے گی۔
ابھی فاطمہ اور فوزیہ بیٹھی باتیں کررہی تھیں کہ اچانک فوزیہ کے پیٹ میں شدیددرداٹھا اور وہ بیٹھے بیٹھے تڑپنے لگی۔ اس کی آوازیں سن کر ساس بھی اندر آگئی اور اسے بستر پر لٹا دیا۔ فوزیہ کی ساس نے اونچی آواز میں فاطمہ کو دائی بلا لانے کا کہا۔ فاطمہ بھی فوزیہ کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔اس نے فاخرہ سے پوچھا۔
”خالا! بھا عابد کو بھی خبر دے دوں؟”
”دیکھ اپنی دکان پر ہوگا ورنہ شہر گیا ہوگا، مگر تو پہلے دائی کو تو خبر دے جا کر۔” فاخرہ بی بی کے چہرے سے پریشانی اُمڈ رہی تھی۔ فاطمہ نے دروازے کی طرف دوڑ لگائی اور بولی۔
” ابھی گئی چاچی۔ تو فکر نہ کر فوزیہ کا خیال رکھ ،میں ابھی آئی۔”یہ کہہ کر وہ فوزیہ کو پریشانی سے دیکھتی کمرے سے نکل گئی۔
٭…٭…٭