اوپرا ونفرے

کانگریس میں “غربت کے خلاف جنگ” کے طور پر پاس ہونے والے ایک بل کی بدولت اوپرا کا کچھ ذہین اور غریب طلبا کے ساتھ ایک مہنگے اور اچھے تعلیمی ادارے میں تبادلہ کیا گیا۔ پسماندہ غریب طبقے کے سکول سے ایک دم امیرانہ اور استحقاق رکھنے والے سکول کے سفر نے اوپرا کو جہاں مزید نمایاں اور پرُاعتماد ہونے کا موقع دیا وہیں اپنی بدصورتیوں کے بارے میں بھی اسے حوصلہ شکن ادراک دیا۔ بہت سے گورے اور امیر بچوں کے بیچ کالی غریب برادری سے آنے والی وہ تنہا تھی۔ کلاس کے امیر گورے بچے روزانہ نیا سویٹر پہن کر اور ہاتھوں میں چھٹی کے بعد پیزا اور ملک شیک پر خرچ کرنے کے لیے رقم لاتے تو اوپرا کو اپنی غربت کی انتہاﺅں کا اندازہ ہوتا اوپرا کی بڑھتی ہوئی خواہشوں کو پورا کرنا دو نوکریاں کرنے والی ورنیٹا کے بس کی بات نہ تھی چناں چہ گھر سے بڑی بڑی رقمیں چرانا اوپرا کی عادت بننے لگا.. جسمانی آوارگی نے پیسہ حاصل کرنے کے لئے نت نئے راستے کھولے اور وہ ماں کی غیر موجودگی میں بڑے لڑکوں کو گھر لانے لگی۔ تنہا رہنے والی ماں کے طریقے اور اس کے بوائے فرینڈز کا آنا جانا بھی اوپرا کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ بنا “بچہ جو سمجھتا ہے وہ اس سے قطعاً مختلف ہوتا ہے جو ماں سمجھاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا! جب میں بچی تھی۔ ‘جیسا میں نے کہا ویسا کرو نہ کہ جیسا میں کرتی ہوں۔”
رشتہ دار اور دوست احباب کے جنسی استحصال کا شکار ہو کر اوپرا کا مزاج اور عادتیں تباہ کن حد تک گراوٹ کا شکار ہو چکی تھیں۔ یہاں تک کہ گلی میں لڑکوں کے ساتھ پھرنااور شامیں گزارنا، جنس کا تماشا اور سودا کرنا، جھوٹ بولنا، چوری کرنا اوپرا کی ہستی کا اک واضح عنصر بن گیا۔ معاشی مشکلات کی شکار ورنیٹا اوپرا کی حرکتوں کوسنبھال نہ پائی۔ جس کا گمراہ کن نتیجہ ایک دن اوپرا کے گھر سے بھاگ جانے کی صورت نکلا۔ چودہ سالہ اوپرا گھر سے کس طرح اور کیوں بھاگی اور کس طرح سے واپس آئی یہ ایک طویل کہانی ہے مگر برُی طرح شخصی بگاڑ کی شکار اوپرا کو سنبھالنا اب ورنیٹا کے اختیار سے باہر ہو چکا تھا۔ منہ بولے باپ ونفرے جو ایک معمولی حجام تھا، کی منت سماجت کرکے ورنیٹا نے اسے باپ کے پاس نیش ولا روانہ کر دیا۔
ماں کے گھر گزرے دس سالوں نے اوپرا کی شخصیت کو توڑ پھوڑ کر بدنام زمانہ اور تباہ کن بنا دیا تھا۔ ایسی صورتِ حال میں ونفرے یہ جاننے کے باوجود کہ اوپرا اس کی اپنی اولاد نہیں ایک ذمہ دار باپ ثابت ہوا، جس نے اوپرا جیسے اڑیل گھوڑے کو لگام ڈالنے کی ہمت باندھی۔ نظم و ضبط کی سختی ،کڑے پہروں اور مکمل توجہ کے ساتھ اس معرکہ کو نہ صرف جیتنے کی کوشش کی بلکہ اوپرا میں اچھائی اور برائی کا احساس بھی بے دار کیا۔ گلی میں لڑکوں کے ساتھ نکلنے کی مکمل ممانعت، مکمل اور مہذب لباس پہننے کی پابندی اور پڑھائی پر مکمل توجہ ونفرے کی شرائط تھیں۔
میں اس شرط پر تمہیں اپنے پاس رکھوں گا کہ تمھاری وجہ سے مجھے کسی ذلت کا سامنانہ کرنا پڑے۔
باپ کی ان تھک کوششیں بھی بگاڑ کوسنبھالنا آسان نہ کر سکیں اور سنبھلتے سنبھلتے اوپرا جب چودہ سال کی عمر میں ایک دم اوورکوٹ اور کھلے گرم کپڑے اوڑھنے لگی اور اس کے ہاتھ پاوں سوجنے لگے تو ونفرے پر اوپرا کے بن بیاہی ماں بننے کا راز آشکار ہوا۔ اخلاقی اسباق پڑھتی اوپرا باپ سے نظر ملانے کے قابل نہ رہی تھی اور دریا میں ڈوب کر مر جانے کی خواہش کرنے لگی۔ ونفرے نے بیٹی کو دوسرا موقع دیا اور مشکل وقت میں بیٹی کے ساتھ کھڑا ہوا۔ تقدیر کے ہاتھوں یہ بچہ پیچیدگی کا شکار ہو کر دم توڑ گیا۔

Loading

Read Previous

المیزان

Read Next

رفیع خآور: ننھا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!