اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

وہ دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔ نجیب نے کہا۔
’’کیا کھاؤ گی؟‘‘
جنت کو سنائی نہیں دیا۔
’’کافی پیو گی؟‘‘
نجیب جانے کہاں سے بول رہا تھا۔ جنت کے کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی۔
نجیب نے شرارت سے کہا۔
’’ابھی تو صرف ہاتھ ہاتھ میں لیا ہے اور تم خود میں نہیں رہیں۔‘‘
جنت کی آنکھیں جھک گئیں۔
بیرا کافی لے آیا۔ کافی کی خوشبو نے جنت کو چونکایا۔ کافی کے ساتھ سینڈوچز تھے۔ جنت نے نجیب کے اصرار پر ایک بائٹ لی اور سینڈوچ پلیٹ میں رکھ دیا۔
نجیب نے وہی سینڈوچ اٹھا لیا اور بہت محبت سے جنت کی طرف جھک کے سرگوشی میں کہا۔
’’کہتے ہیں جھوٹا کھانے سے محبت بڑھتی ہے۔ میں چاہتا ہوں میری محبت تمہارے دل سے کبھی نہ جائے۔‘‘
جنت مسکرا دی۔ محبت چھپاتی ہوئی ہنسی میں اتنی دل کشی تھی کہ نجیب ششدر رہ گیا۔
جنت نے نروس سے انداز میں کہا۔
’’لیکن سینڈوچ تم کھا رہے ہو۔‘‘
نجیب کے پاس لفظوں کی ایک لغت تھی۔ باتوں کی ایک فائل تھی۔ اسے ہر بات کا جواب آتا تھا۔ کہنے لگا۔
’’میں بھی یہی چاہتا ہو۔ تمہیں کبھی نہ بھولوں۔‘‘
جنت کی خوشی دگنی ہو گئی۔ نجیب نے میز پر رکھے اس کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔
’’ہاتھ چھوڑو۔‘‘ جنت کی طرف سے کمزور سی التجا تھی۔
مسکرا کے نجیب نے گہرے انداز میں جنت کو دیکھا۔ اس کی مخصوص دبی دبی مسکراہٹ جنت کو دیکھنے کا یارا بھی نہ تھا۔
’’کس دل سے چھوڑوں؟‘‘
جنت کا حلق خشک ہو گیا۔ اس نے گھبرا کے پانی کے گلاس کی طرف دیکھا۔ نجیب نے ایک ہاتھ چھوڑ دیا۔ جنت نے گلاس منہ سے لگا لیا۔
’’محبت میں کتنی پیاس ہے نا محسوس کرو، تو حلق تک بس کانٹے پڑ جاتے ہیں؟‘‘
جنت کی نظریں نہ اٹھیں۔
’’جنت…!‘‘ نجیب نے جانے کیا کہنا تھا، مگر جنت کا دل بری طرح دھڑکا۔
’’مجھے مل جاؤ۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جنت نے حیران ہو کر نجیب کو دیکھا۔
’’ہمیشہ کے لیے۔‘‘
تمہیں اتنا قریب پاکر اب خود پر اختیار نہیں ہو پا رہا۔
جنت نے ایک لمحے میں کچھ سوچا اور تدبر سے بولی۔
’’ابھی چلیں؟‘‘
نجیب ہکابکا رہ گیا۔
’’کہاں؟‘‘
’’واپس۔ گھر ڈراپ کر دو۔‘‘
نجیب نے ویٹر کو آواز دے دی۔
واپسی کا سفر بہت خوش گوار نہیں تھا۔ نجیب کی خاموشی اس کی ناراضی کا پتا دے رہی تھی، لیکن جنت کیا کرے کیسے اتنی ارزاں ہو جاتی۔ اسے اپنا آپ سنبھالنا تھا۔
گھر سے کچھ فاصلے پر گاڑی رکی، تو نجیب نے سنجیدگی سے معذرت کی۔
’’سوری مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، لیکن اِسے میری مجبوری سمجھو میں جانتا ہوں۔ میری تم سے پہلے بہت لڑکیوں سے دوستی رہی ہے، لیکن تم، تم ہو سب سے مختلف۔‘‘ اس نے کئی بار کا کہا جملہ دہرایا۔
’’تمہیں چھو کر عجیب احساس ہوا، لیکن وعدہ کرتا ہوں آئندہ تمہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔‘‘
اس نے کہا اور چلا گیا، مگر اپنے لفظوں کی تاثیر وہیں چھوڑ گیا۔
گھر آئی تو نہ کھانے کو دل کیا۔ نہ کسی سے بات کرنے کو اور نہ ہی پڑھنے کو۔
’’جنت۔‘‘ گڑیا نے آواز دی، مگر جنت نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس پر نجیب کی قربت کا نشہ تھا، اس کی باتوں کا، اس کے ہاتھ کے لمس کا۔ جنت ڈر گئی تھی کوئی دیکھ نہ لے کوئی جان نہ لے۔
’’سو گئی ہو؟‘‘
’’ہوں۔‘‘ ایک ہلکی سی آواز کے ساتھ جنت نے گڑیا کو یقین دلانا چاہا۔
’’مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم جھوٹ بول رہی ہو۔‘‘
جنت کے کانوں میں نجیب کے لفظ گونجے۔
’’تم، تم ہو سب سے مختلف۔ تمہیں چھو کر عجیب احساس ہوا ہے، لیکن وعدہ کرتا ہوں آئندہ تمہیں شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔‘‘
جنت تڑپ کے رہ گئی۔ گڑیا کی آواز پر بے ساختہ چیخی۔
’’سونے بھی نہیں دے رہی ہو۔ کیا مسئلہ ہے؟‘‘
گڑیا حیران رہ گئی۔ ’’جنت تم تو اس طرح بات نہیں کرتی۔ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے۔‘‘
’’جنت نے واپس لیٹ کر جواب دیے بغیر سر تک لحاف لے لیا اور بغیر آواز موبائل آن کیا۔ نہ واٹس ایپ اور نہ ہی میسنجر پر کوئی میسج تھا۔‘‘
’’کاش میں نے نجیب کا دل نہ توڑا ہوتا۔‘‘
’’کاش نجیب اس طرح سے کہہ کے نہ جاتا۔‘‘
’’وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں۔ میں تو مر رہی ہوں اس کے لیے۔‘‘ جنت نے سوچا۔
’’اگر آج اسے کہہ دیتی مجھے اپنا لو ہمیشہ کے لیے تو۔ تو اچھا ہوتا۔ بہت اچھا وقت تھا۔ وہ مان جاتا، لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔‘‘
اسی وقت امی کمرے میں آئیں اور جنت کو سویا ہوا دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
’’کیا ہو گیا ہے جنت کو۔ بہت چپ چپ رہنے لگی ہے۔ خاموش خاموش۔ کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھاتی اور نہ ہی پہلے کی طرح ہنستی بولتی ہے۔‘‘
اب وہ امی کو کیا بتاتی۔ ان کی بیٹی کے دل کو خواہشوں کے پر لگ گئے ہیں۔ وہ اڑنا چاہتی ہے محبت کے آسمان پر بہت اوپر جانا چاہتی ہے، لیکن کیسے جائے پیر رسم و رواج کی زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں۔ وہ کیا چاہتی ہے، لیکن رواجوں کی کششِ ثقل پیر آزاد ہی نہیں ہونے دیتی۔
صبح تک نجیب کا میسج نہ آیا۔ وہ خود سے لڑتی رہی اور صبح اٹھ کر اس نے مارننگ کا میسج کر دیا۔
میسنجر کی ٹون نے نجیب کی توجہ کھینچی اور جو ندا کے ساتھ ناشتا کر رہا تھا۔ مسکرا دیا۔
ندا نے آنکھیں نچائیں۔
’’کس کا میسج ہے؟‘‘
مسکرا کے نجیب نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا۔
’’دوست کا۔‘‘
ندا ہنس دی کھوجی لڑکی نے بے نیازی سے پوچھا۔ ’’دوست کا یا سہیلی کا؟‘‘ نجیب نے اٹھنے میں ہی عافیت جانی۔
وہ خوش تھا۔ بہت خوش وہ جیت گیا تھا۔ ایک ایسی لڑکی کی محبت جس نے اس سے پہلے کبھی کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ ایسی لڑکیاں تو نعمت ہیں آج کل کی دنیا میں اور اس کو یہ نعمت مل گئی تھی۔ اس نے جنت کو جیت لیا تھا۔ یہ قانون تو وہ ہمیشہ ہی استعمال کرتا۔ اس کے شکنجے میں محبت کرنے والی کے لیے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔ جیسے عورت کا ہتھیار اس کے آنسو اسی طرح مرد کا ہتھیار اس کی خفگی ہے۔ محبت کرنے والی عورت سے محبوب کی ناراضی برداشت نہیں ہوتی۔ اس قانون کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ جنت اپنی پوری محبت اور چاہت اور خلوص کے ساتھ ہار گئی۔ اس کی ہار نجیب کی جیت تھی۔
وہ عجیب واقعہ تھا۔ جنت خود کو معاف نہیں کر پا رہی تھی۔ سال کے آخری دن تھے۔ یونی ختم ہونے والی تھی۔ نجیب اس کا بہت خیال رکھتا اس کے ساتھ ہر وقت میسج پر رہتا اور تو اور دونوں نے اپنا فیس بک سٹیٹس تک بدل لیا تھا۔ ’’سنگل‘‘ سے ’’ریلیشن‘‘ شپ کر دیا تھا۔ جس پر دوستوں نے نجیب کا مذاق اڑایا تھا، لیکن نجیب نے ہنس کے بات کو ختم کر دیا کہنے لگا۔
’’ہر انسان کسی نہ کسی ریلیشن شپ میں بندھا ہوا تو ہے نا۔‘‘
بات یہیں تک رہ جاتی تو اچھا ہوتا، لیکن ایک صبح جنت اٹھی تو اس کی طبیعت بہت بوجھل تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یونہی بوجھل بوجھل کئی اور دن گزر گئے اور اس پر جو انکشاف ہوا وہ اس کے لیے موت کے برابر تھا۔ وہ اُمید سے تھی۔ جنت کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ کس سے بات کرے۔ کس سے فریاد کرے۔ اس نے تڑپ کر نجیب سے کہا۔ وہ دونوں ملے اور جنت نے جس نجیب کو اس روز دیکھا، اس کا تو کبھی شائبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
جنت کی سنہری رنگت زردی مائل ہو چکی تھی۔ بالوں کی روشنی ملگجی، آنکھوں کے جگنو مانند پڑ چکے تھے اور دل زرد پتے کی طرح بردباری کھو چکا تھا۔ اس نے جو کچھ سنا اُسے سن کر واپس گھر آنا ہی حیرت کی بات تھی، لیکن وہ آگئی۔ واپسی کا سفر کٹھن تھا۔ وہ گھر آنا تو نہیں چاہتی تھی، مگر آگئی۔ وہ رات قیامت کی رات تھی محبت کی موت کی رات تھی۔ اس کو بین کرنا تھا کسی کے گلے لگنا تھا۔ اس لیے ساکت آنکھوں والی جنت نے کانپتے لہجے میں آواز دے کر کہا۔
’’گڑیا۔‘‘
گڑیا گھبرا گئی۔ وہ میڈیکل کی اسٹوڈنٹ رات گئے تک پڑھنے کی عادی تھی۔ گڑیا کی میز پر ٹیبل لیمپ روشن تھا۔ جنت اندھیرے میں تھی۔ گڑیا اٹھ کر جنت کے پاس آگئی۔
’’میرا ایک راز رکھ سکو گی اپنے پاس؟‘‘ عجیب سوال تھا۔ جنت کسی کو دیکھ نہیں رہی تھی۔ بس سانس لے رہی تھی۔ آہستہ آہستہ سرگوشی میں کچھ کہہ رہی تھی۔
’’کیسا راز؟‘‘ گڑیا ڈر گئی۔
’’گڑیا… میں حاملہ ہو گئی ہوں۔‘‘
گڑیا چیخ مار کے ایک قدم یوں پیچھے ہٹی جیسے اس نے ننگے تاروں کو ہاتھ لگا لیا ہے۔
’’یہ بات کیسے راز رہ سکتی ہے جنت؟‘‘
’’رہ جائے گی۔‘‘مردہ یقین جنت کی آواز میں کراہ رہا تھا۔
’’تم نے اچھا نہیں کیا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس کے آنکھوں سے آنسو نکلے۔
’’محبت جو کی ہے بھروسا کیا ایک غیر مرد کا۔ اچھا کہاں کیا ہے میں نے؟‘‘
گڑیا کے ماتھے پر بل آئے۔
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
گڑیا پریشانی کے مارے بولے گئی۔
’’تم نے نجیب کو بتایا ہوتا۔‘‘
’’بتا دیا۔‘‘ حسرت نے سر پٹکا۔
’’کیا کہتا ہے وہ؟‘‘ گڑیا کا رواں رواں سماعت بن گیا۔
’’مجھے سنائی نہیں دیا۔پتا نہیں اس نے کیا کہا۔‘‘ جنت نے یوں کہا جیسے وہ ابنارمل ہو چکی ہے۔
گڑیا کو غصہ آگیا۔
’’پاگل ہو گئی ہو کیا تم۔ یہ کیسے ممکن ہے تم نے کچھ سنا نہ ہو؟‘‘
جنت نے خاموشی سے اپنا سر گڑیا کی گود میں رکھا اور بے بسی سے بولی۔
’’کوئی بہت بڑی بات تو نہیں کہی۔ صرف ایک بات کو راز رکھنے کو ہی تو کہا ہے تم سے۔‘‘
گڑیا مچل گئی۔
’’پھر بھی مجھے پتا تو چلے۔ تم نے نجیب سے کہا، تو اس نے کیا کہا؟‘‘
’’وہ کہنے لگا۔ مجھ پر الزام کیوں لگا رہی ہو؟‘‘
’’اس نے کہا مجھ جیسی لڑکیاں کسی کے ساتھ بھی وقت گزار سکتی ہیں۔
مجھ جیسی لڑکیاں اپنے گناہ اسی طرح چھپاتی ہیں۔
مجھ جیسی۔
مجھ جیسی…‘‘
وہ روتے روتے خاموش ہو گئی۔ گڑیا نے جھک کر جنت کا ماتھا چوم لیا۔ کہنے لگی۔
’’تم فکر مت کرو۔ ہم کل ہی کسی کلینک چلیں گے۔ تم کسی کو نہیں بتاؤ گی کہ کیا ہوا کسی کو بھی پتا نہیں چلے گا۔ صبح سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم فکر مت کرو۔ بالکل فکر مت کرو۔‘‘
اور واقعی جنت کی ساری فکریں دور ہو گئیں۔ اس رات کی صبح نہ ہوئی۔
نجیب نے روزمرہ کاموں سے فارغ ہو کرموبائل آن کیا۔ اس کو یاد آرہا تھا کل جنت آئی تھی۔ اسے جُھرجُھری سے آنے لگی۔ وہ سوچ رہا تھا۔ کاش جنت کا کوئی میسج نہ آیا ہو کوئی کال نہ ہو۔ کوئی سٹیٹس نہ ہو اور واقعی ایسا ہی تھا۔
جنت کا کوئی میسج کوئی کال نہیں آئی تھی اور اس کے بعد سے کوئی میسج کوئی کال آنے والی بھی نہیں تھی کیوں کہ موبائل آن کرتے ہی ایک سٹیٹس نے اس کو پتھر کر دیا تھا۔
’’جنت مر گئی۔‘‘
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

رعنا کی چھتری — روبینہ شاہین

Read Next

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!