اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

امی بہت خفا تھیں ابو تو خیر کبھی کسی معاملے میں بولتے ہی نہیں تھے۔
پھر بھی حیران ہوئے۔
’’جنت بیٹی۔ مجھے ایسا لگتا ہے تم پریشان ہو۔‘‘
رحمن صاحب اس وقت اپنی سٹڈی میں تھے جب انہوں نے بہت محبت سے جنت کو دیکھا۔
ایک بار تو جنت کا جی چاہا سب کچھ بتا دے۔ سب کچھ۔ نجیب کا تعارف بھی کرا دے اور اپنی محبت کی التجا بھی کہہ دے، لیکن پاپا کی فکر کے سامنے اس کی محبت کپکپا گئی۔ چھوٹی پڑ گئی۔ اسے لگا جیسے ابھی وقت نہیں آیا۔ ایسا نہ ہو اس کی محبت پاپا کی سرد روّی سے گہنا جائے۔ زرد پڑ جائے۔
’’سوری پاپا۔‘‘ جنت نے بہت معذرتانہ انداز میں کہا۔
’’آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔‘‘
پاپا نے اس کو اپنے پاس بلایا اور بہت پیار سے جنت کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے ساتھ لگا لیا۔
’’میں جانتا ہوں اب ایسا نہیں ہو گا اور مجھے دکھ بھی نہیں۔ اب تم سمجھ دار ہو۔ سب جانتی ہو کہ کہاں غلط ہو رہا ہے اور کہاں صحیح، لیکن بیٹی ایک بات کہنی ہے۔‘‘
جنت نے سراٹھا کر دیکھا۔
’’جب ہم چھوٹے تھے یعنی تمہاری عمر میں تو ہمارے پاس یہ سہولتیں نہیں تھیں جو آپ لوگوں کے پاس ہیں آج کے بچوں کے پاس راستہ بھلانے کے بہت راستے ہیں۔ بس ڈر لگتا ہے۔‘‘
جنت کو لگا ابو سب جان گئے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں چاہت نے جتنے رنگ بھرے ابو نے سب دیکھ لیے ہیں۔ جنت نے آنکھیں جھکا لیں۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے ابو۔‘‘ جنت کو صاف محسوس ہو رہا تھا جھوٹ نے اس کی آواز میں کپکپی بھر دی ہے۔
’’اچھا ایک وعدہ کرو۔‘‘ ابو نے مسکرا کے کہا۔
’’کیسا وعدہ؟‘‘ جنت پیار سے پوچھ رہی تھی۔
’’اگر تمہیں کوئی ایسا شخص ملے جو تمہیں تمہارے راستوں سے بھٹکا دے۔ مجھے ضرور بتانا۔‘‘
جنت نے گھبرا کر ابو کے سینے میں پناہ لے لی۔
’’جی ابو۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’اب جاؤ۔ جا کر آرام کرو اور سوچو کم نمبر آنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘ ابو نے جنت کی کمر تھپتھپائی۔ جنت اپنے کمرے میں آگئی۔
بھلا اس میں سوچنے کی کیا بات تھی۔ ظاہر تھا سب نجیب کی محبت ہے۔ اس کی آٹھویں سر کو چھیڑتی محبت بھری آواز ہے جو سوتے جاگتے اسے سنائی دیتی ہے۔ اسے اپنا آپ بھی یاد نہیں رہنے دیتی۔ نصاب کیسے یاد کرتی۔ اسے نہیں پتا تھا محبت میں کوئی ایسا عنصر بھی پایا جاتا ہے جو فراموش کر دیتا ہے انسان میں نسیان کا مرض آجاتا ہے، مگر جنت کو کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔
اس نے کمرے میں آتے ہی موبائل کھولا۔ میسنجر میں کئی میسج تھے۔
’’تم کہاں ہو۔ میں تڑپ رہا ہوں تمہارے انتظار میں۔‘‘
یہ اب تک کا نجیب کا آخری میسج تھا۔
’’ابو نے بلا لیا تھا۔ میرے نمبر جو کم آئے ہیں۔‘‘
نجیب فوراً ہی آن لائن ہو گیا۔
’’تم نے بتا دیا کہ کیوں کم آئے ہیں؟‘‘
’’جی میں تو تھا کہ بتا دوں، لیکن حوصلہ نہیں ہوا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے ابھی میرا پیار تم پر سوار نہیں ہوا۔‘‘
’’جنت مسکرا دی۔‘‘ سوار تو بہت ہے، لیکن ابو نہیں سمجھیں گے۔‘‘
’’تو میں آکے سمجھا دیتا ہوں۔‘‘
’’فائنل ایگزام ہو جائیں۔‘‘
’’پتا ہے میں نے کیا سوچا ہے؟‘‘
’’کیا سوچا ہے؟‘‘
’’میں نے سوچا ہے اگر گھر والے نہ مانے تو ہم کورٹ میرج کر لیں گے۔‘‘
ایک لمحے کو جنت کانپ گئی۔ پھر لکھنے لگی۔’’لیکن۔‘‘
’’میں چاہوں گا کہ ہماری شادی روایتی نہ ہو کیوں کہ میں روایتی نہیں ہوں۔ میں آج کا انسان ہوں۔ دورِ حاضر کا جب محبت اور نفرت دونوں کا اظہار ایک سیکنڈ میں ہو جاتا ہے، تو اتنا سسک سسک کے زندگی کیوں گزاریں۔‘‘
جنت نے ایک لمحے کے لیے سوچا کیا جواب دے پھر لکھا۔
’’مگر میں بہت روایتی ہوں۔‘‘
نجیب نے حیران ایموجی بھیجا۔
’’مطلب انہوں نے کہا مجھے چھوڑ دو تو تم مجھے چھوڑ دو گی۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ جنت نے لکھا۔
’’یہ کیا جواب ہے نہ چھوڑو گی نہ کورٹ میرج کرو گی۔‘‘
’’میں انہیں منا لوں گی۔‘‘
’’واہ۔ اچھا اس خوشی میں ایک حسین تصویر بھیجو میں دیکھنا چاہتا ہوں تم کیسی لگ رہی ہو۔‘‘
جنت نے دوسرے لمحے اپنی خوبصورت سیلفی بھیج دی۔
نجیب نے تصویر دیکھی مسکرایا اور لکھا۔
as fresh as flower.
اچھا سنو میں ایک کام سے جا رہا ہوں۔ کچھ دیر میں آتا ہوں۔ نجیب آف لائن ہوا اور جنت کی جان پر بن گئی۔ وہ پریشان رہنے لگی۔ یہ کیسی محبت ہے جو وہ کر رہی ہے۔ اتنے سارے لوگ تھے اس کی فرینڈلسٹ میں ایک بس نجیب ہی کیوں،مگر اس کیوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
گڑیا نے بہت پیار سے کہا۔
’’جنت محبت دنیا کا سب سے بے کار مشغلہ ہے۔‘‘
’’مشغلہ؟‘‘ جنت خفا ہونے لگی۔
’’مشغلہ ہی تو ہے۔ ٹائم پاس۔‘‘
’’ساری محبتیں ٹائم پاس نہیں ہوتیں گڑیا۔ کچھ چاہتیں ٹائم کے ساتھ ساتھ پاس کر دیتی ہیں یعنی قریب۔‘‘
گڑیا ہنسنے لگی۔
’’اچھا میری نجیب سے ملاقات کراؤ۔‘‘
’’ایسا کرتے ہیں کھانے پر چلتے ہیں۔ اس نے بہت اچھے نمبروں سے ایگزام پاس کیا ہے اسے ٹریٹ بھی دینی ہے۔‘‘
لیکن اتفاق ایسا نہ ہو سکا اور یونی کھل گئی۔ دونوں پاس ہو کر اگلی کلاس میں چلے گئے۔ وقت اور آگے ہوا۔ جنت سے اس کی محبت اور زیادہ ہو گئی۔ وہ کسی لمحے بھولتا، تو اُسے دوری کا احساس بھی ہوتا۔ محبت میسجز سے نکل کے زندگی کی شاہراہ میں آچکی تھی۔ یونی کے بعد جنت نجیب کے ساتھ چلی جاتی۔
روز تو نہیں ہفتے میں دو ایک بار ایسا ضرور ہو جاتا۔ نجیب جنت کو ڈراپ کر دیتا اور جب ایسا ہوتا سب سے پہلا سوال دادی کرتیں۔
’’بیٹا دیر نہیں ہو گئی؟‘‘
وہ سوال بھی اس محبت سے کرتیں کہ جنت مسکرا دیتی۔
’’ہو تو گئی ہے۔‘‘ جنت دادی کے پاس آکے بیٹھ جاتی۔ ’’لیکن پڑھائی میں دیر سویر ہو جاتی ہے دادی۔‘‘
’’اماں ٹھیک کہہ رہی ہیں جنت۔ گڑیا کتنی جلدی آجاتی ہے کالج سے۔‘‘
امی کی نرم سی بات بھی جنت کو بری لگتی۔
’’امی وہ کالج میں ہے۔ میں یونیورسٹی میں۔‘‘ جنت نے ٹھنک کے کہا اور چلی گئی۔
’’بچے جب بڑے ہو جائیں، تو ہم بڑوں پر اسی طرح سے تنقید کرتے ہیں۔‘‘حالاں کہ وہ میڈیکل کالج میں ہے اور تم سادھی سی یونیورسٹی میں۔
دادی نے فکر کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح سے کہا جیسے ان کا شجرہ شیکسپیئر سے جا کے ملتا ہے۔ سنجیدہ اور دوٹوک سی بات۔
اس رات نجیب بہت خوش تھا۔ بتا رہا تھا بڑے بھائی کی شادی کی تاریخ رکھی گئی ہے۔ اس نے میسج کیا۔
جنت کو بہت ناگوار گزرا۔
’’اب تم بہت مصروف ہو جاؤ گے؟‘‘
’’میری کوئی مصروفیت ایسی نہیں جس میں تم نہ ہو۔ تم پہلے ہو جان۔‘‘
جنت خوش تو ہوئی، مگر اس کی فکر کم نہ ہوئی۔
’’پھر پھر۔ بھائی کے سامنے میرا کیا مقابلہ۔‘‘
نجیب نے لکھا۔
’’واقعی کوئی مقابلہ نہیں۔ تم میری جان ہو۔ وہ میرا بھائی ہے۔‘‘
’’کیا کر رہی ہو؟‘‘ گڑیا نے آواز دی۔
’’باتیں۔ نجیب سے۔‘‘ جنت نے عام سے لہجے میں کہا۔
’’جنت اس سے کہو اتنی ہی باتیں کرنی ہیں، تو تمہیں گھر لے جائے۔‘‘
اسی وقت نجیب کا میسج آیا۔
’’بھائی کی شادی کے بعد میرا نمبر ہے۔ سمجھا کرو۔‘‘
جنت خوش ہو گئی۔
’’اس کے بھائی کی شادی ہے اس کے بعد اس نے اپنی ہی بات کرنی ہے۔‘‘
’’پھر بھی جنت۔‘‘گڑیا نے فائل پر کچھ لکھتے لکھتے بال پین کا آخری سرا دانتوں میں دبا کر کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’تم اس کی محبت میں بہت آگے بڑھ گئی ہو۔ مجھے ڈر لگتا ہے اگر اس نے تمہارے ساتھ بے وفائی کی تو کیا ہو گا؟‘‘
’’وہ بے وفائی کر ہی نہیں سکتا اور جہاں تک بات ہے محبت میں آگے بڑھنے کی، تو محبت میں پیچھے ہٹنے والے بزدل ہوتے ہیں۔ آگے جانا تو محبت کی نشانی ہے۔
گڑیا ہنس دی۔ ’’جنت۔‘‘
’’جنت…‘‘
’’مِس یو۔‘‘
’’مِس یو ٹو۔‘‘
کاش میں تمہیں چھو سکتا۔‘‘
جنت کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا جواب دے۔
’’کچھ مت کہو۔ میں جانتا ہوں تم بہت شرمیلی ہو۔ رسم و رواج کی پابند ہو۔ تم کچھ بھی نہیں کہہ سکو گی۔‘‘
جنت کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
’’اب سو جاؤ۔ صبح یونی جانا ہے۔‘‘
’’کچھ دیر اور… بس۔ ایک بجے سو جاؤں گی۔‘‘
’’ایک بجنے میں پانچ منٹ ہیں۔‘‘
’’ہممم۔ صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں۔‘‘
’’پھر ہم نے سو جانا ہے روزہ رکھ لینا ہے صبح تک۔‘‘
’’ہائے کیا چیز ہو تم۔‘‘
’’مجھے چیز نہ سمجھنا کبھی بھی میں محبت ہوں۔ صرف محبت۔‘‘
نجیب کی ہمت اور بڑھی۔
’’مجھ سے ملو گی۔ میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’روز تو ملتے ہیں۔‘‘
’’ایسے نہیں۔‘‘
جنت نے کچھ سوچا۔ ’’پھر کیسے؟‘‘
’’ایسے نہیں۔‘‘ نجیب نے گہرے انداز میں کہا۔ ایسے کہ
’’تم میری دیوانگی کو محسوس کرو۔‘‘
’’جنت ناسمجھی کی کیفیت میں سرہلا کر بولی۔ ’’میں سمجھی نہیں۔‘‘
نجیب کو جنت کی معصومیت کا ایمان کی حد تک یقین تھا۔ اس لیے جب یونی کے بعد اس نے جنت سے کہا۔
’’میرے ساتھ چلو گی۔‘‘ نجیب کے چہرے کا سکوت جنت نہ دیکھ سکی۔ اپنی محبت کا سہارا لیے اس کے ساتھ جانے کے لیے مچلنے لگی۔
’’چلو۔‘‘
دونوں چل دیے۔ نجیب کی کار میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کے وہ خود کو بہت اعلیٰ چیز سمجھ رہی تھی۔ اُسے یقین تھا اس کے چہرے پر محبت کے سارے نورانی رنگ موجود ہوں گے۔
نجیب نے کن انکھیوں سے جنت کو دیکھا اور ہینڈبریک پر رکھا ہاتھ جنت کی طرف بڑھایا۔ جنت نے ایک نظر ہاتھ کو اور ایک نظر نجیب کودیکھا۔ نجیب خاموش تھا، مگر اس کی آنکھوں میں التجا تھی۔ لمحوں میں صدیاں بیت گئیں۔ جنت کا کانپتا نرم ملائم ہاتھ نجیب کے مضبوط ہاتھوں میں تھا۔ ایک کرنٹ تھا جو جنت کے جسم میں دوڑ گیا۔ اس نے ہاتھ کھینچنا چاہا، لیکن جنت کا ہاتھ نجیب کے ہاتھ میں نہیں وقت کی قید میں تھا۔ جنت کی مدافعت اتنی کمزور تھی کہ صرف ہاتھ ہی نہیں پورا وجود نجیب کی مٹھی میں آگیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

رعنا کی چھتری — روبینہ شاہین

Read Next

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!