اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

اگلی صبح بہت حسین تھی۔ بے حد حسین۔ نجیب نے یونی میں قدم رکھا تو کیا دیکھتا ہے ایک خوبصورت سنہری رنگ والی لڑکی تیز تیز چلتی اس کے پاس آگئی۔ وہ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں پہچان گیا۔ وہ جنت تھی۔ جنت کو سامنے دیکھ کر نجیب پر تو جیسے سحر ہی طاری ہو گیا۔
اپنی طرف دیکھ کر جنت نے کچھ اور خیال کیا۔
’’آپ نے مجھے پہچانانہیں؟‘‘
نجیب اپنا اشتیاق بہ مشکل ہی چھپا پایا۔
’’سوری یہاں اتنی لڑکیاں ہیں کہ…‘‘
’’ارررے…‘‘ جنت نے اپنی خفت چھپائی۔
’’میں نے کل ہی تو آپ کی فرینڈ ریکوئسٹ ایکسپٹ کی ہے۔‘‘
نجیب نے کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیا اور بہ ظاہر بے پروائی سے کہا۔
’’بڑے دن لگا دیے مجھے قبول کرتے کرتے۔‘‘
جنت ہنس دی اس کے سچے موتیوں جیسے دانت ایک قطار میں کھلکھلانے لگے۔
’’اصل میں، میں لڑکوں کی ریکوئسٹ قبول نہیں کرتی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ یہ جو لڑکے ہوتے ہیں نا۔ بس۔‘‘
اس نے ہنس کے جملہ ادھورا رہنے دیا۔
’’تو آپ نے مجھے کیوں قبول کیا؟‘‘
جنت ہنسی نہیں۔ اس کی آنکھیں ہنس دیں، کہنے لگی۔
’’میں نے آپ کی وال دیکھی۔ آپ تو ہمارے بیج فیلو ہیں اس لیے۔ کوئی چیز تو کامن ہونی چاہیے یونہی سہی۔‘‘
نجیب مسکرا دیا۔ اسے معلوم تھا جب وہ ہونٹ بھینچ کے مسکراتا، تو اس کا چہرہ خوش رنگ ہو جاتا تھا۔اسے اس کی کئی گرل فرینڈز یہ بات کہہ چکی تھیں تم اس طرح مسکراتے ہوئے سیدھے دل میں اتر جاتے ہو۔
’’اوہ…‘‘ نجیب نے مصنوعی حیرت کا اظہار بھرپور اعتماد سے کیا اور مسکرا دیا۔
’’اوہ۔ شکریہ۔‘‘
’’شکریے کی بات نہیں۔‘‘ جنت نے مسکرا کے سرجھکا دیا۔ ’’ایکچولی۔ آپ سب سے مختلف ہیں۔ میرا مطلب ہے سب جیسے نہیں ہیں۔‘‘
نجیب نے ہونٹوں کے کناروں پر اپنے دانت جما کر بہ مشکل بے ساختہ آنے والی ہنسی کو روکا اور کہنے لگا۔ ’’مختلف کا مطلب بہت آسان ہے۔ مجھے آتا ہے۔‘‘
جنت بے حد شرمندہ ہوئی۔
’’میں چائے پینے جا رہا تھا۔ آپ چلیں گی؟‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نجیب نے پچھلے تجربوں سے فائدہ اٹھایا اور معصومیت سے کہا۔
’’شکریہ۔‘‘ جنت نے سہولت سے انکار کیا۔
’’ویسے کوئی حرج بھی نہیں۔‘‘ چھے فٹ کے نجیب نے 60 کے زاویے پر جھک کر پانچ فٹ تین انچ کی جنت سے سرگوشی میں کہا کہ اُس سے انکار ہی نہ ہوا۔ وہ ساتھ چل پڑی۔ کچھ تو تھا۔ کچھ بھی۔ نجیب کے لہجے میں گھلا شہد اس کی مقناطیسی شخصیت ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتی۔
جنت تو پہلے ہی نجیب کے عشق میں گرفتار تھی۔ اس نے آج تک کسی کو نہیں بتایا تھا کہ اس نے منت مانی تھی کہ نجیب اس کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجے گا، تو وہ دس فقیروں کو پیسے دے گی اور ایک دن قسمت کی یاوری نے یہ دن دکھا دیا۔نجیب نے ریکوئسٹ بھیجی اور مسلسل اصرار کرتا رہا۔
اس دن جنت نے منت اتاری اور اپنی سب سے پیاری دوست اپنی بہن کو سارا قصہ بھی سنایا۔
گڑیا نے جنت کو اس طرح دیکھا جیسے وہ کوئی پاگل ہو۔
’’سچی۔‘‘ جنت نے کہا۔
’’اصل میں نجیب میں کچھ ہے۔ بہت خاص۔‘‘
’’جنت آج کل کے لڑکوں میں کچھ خاص نہیں ہے۔ وہ ایسے ہی ہیں پہلے درخواست کرتے ہیں پھر دوستی۔ پھر قربت۔ ان کی نظر میں محبت صرف ان کی ہوس ہے۔ ہوس ختم اور سب ختم۔‘‘
جنت خفا سی ہو گئی۔
’’تم اپنے یہ فضول فضول سٹیٹمنٹ اپنے پاس رکھو۔ مجھے مت سناؤ۔‘‘
گڑیا ہنس دی۔
’’اوکے جنت۔ تم خوش رہو بس۔‘‘
’’میری خوشی نجیب ہے۔ بس نجیب شاہ۔ لمبا چوڑا، ہنستا مسکراتا، باتیں بناتا۔ پتا ہے گڑیا جب وہ جھک کر مجھ سے بات کرتا ہے، تو کیا لگتا ہے۔‘‘ جنت کی کھوئی کھوئی آنکھوں میں گڑیا کھو گئی۔
’’مجھے لگتا ہے مجھ پر آسمان جھک آیا ہے۔ خدا مہربان ہو گیا ہے۔ وہ بادل ہو جاتا ہے اور میں دھرتی ہو جاتی ہوں۔‘‘
گڑیا خوف زدہ ہو گئی۔
’’جنت… پلیز کنٹرول یور سیلف۔ نہ تم لیلیٰ ہو نہ وہ مجنوں۔ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ اب ایسی محبتوں کا رواج ختم ہو گیا ہے۔‘‘
جنت نجیب کے حصار سے نکلی اور خفگی سے کہنے لگی۔
’’تو کیا اکیسویں صدی میں محبت کے معنی بدل جاتے ہیں۔ ہونہہ۔‘‘
گڑیا سے خفا ہوئی تو توجہ موبائل پر ہو گئی۔
جنت نے پھول اور چاکلیٹ گوگل سے اٹھائے اور نجیب کو بھیج دیے۔ نیچے لکھا تھا۔
’’Thanks for accept my F.request.‘‘
نجیب نے مسکراتا ہوا میسج بھیجا۔
’’مجھے تحفوں میں گوگل کی شراکت پسند نہیں۔‘‘
جنت خوب ہنسی۔ اس نے بہت سارے ایموجی بھیج دیے۔
نجیب نے لکھا۔
’’میں لائیو چیزوں کو مانتا ہوں۔‘‘
اگلے دن جنت کے ہاتھ میں پھول اور چاکلیٹس کا پیکٹ تھا۔ نجیب کو دیتے ہوئے اس نے بے تحاشا ہنستے ہوئے کہا۔
’’بازار سے لیے ہیں گوگل سے نہیں اٹھائے۔‘‘
نجیب حیران رہ گیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ جنت اس کی زندگی میں آنے والی کتنویں لڑکی ہے، لیکن اب تک اتنی شاہ خرچ محبوبہ نصیب نہ ہو سکی۔ دل میں تو خوش تھا، لیکن سنجید گی سے بولا۔
’’تم تو مجھے بگاڑ دو گی۔‘‘
’’او ایم جی۔‘‘ اس نے منہ کو ایسے زاویے سے پھیلایا کہ ساری حیرت سمٹ کے اس ہونٹوں پر آگئی۔
’’بھلا میں آپ کو بگاڑ سکتی ہوں؟‘‘
’’بگاڑ چکی ہیں جنت جی۔‘‘ نجیب نے یقین سے کہا اور پیکٹ کھول کے ایک چاکلیٹ نکال کے جنت کی طرف بڑھائی۔
’’میری طرف سے… میں آج کے دن کو خوبصورت دن بنانا چاہتا ہوں۔ یادگار دن۔
نجیب نے جنت کی سنہری آنکھوں میں جھانکا اور بے ساختہ کہا۔
’’تمہاری آنکھیں بہت خوب صورت ہیں۔‘‘
جنت کی پلکوں تک میں حیا کی جھلک دکھائی دینے لگی۔
’’تم۔ آئی کہاں سے ہو۔ کیا پرستان سے؟‘‘
نجیب اس قدر سنجیدہ تھا کہ جنت جھینپ گئی۔
شام بال بناتے ہوئے جنت نے اپنی سنہری آنکھوں کو پہلی مرتبہ غور سے دیکھا۔ ایسا تو کچھ نہیں ہے اس میں عام سی ہیں۔ اس نے بہن کو آوازدی۔
’’سنو گڑیا میری آنکھیں کیسی ہیں؟‘‘
گڑیا نے ہنس کے آنکھوں میں جھانکا۔
’’ان سے پوچھیں جس کے لیے آپ منتیں مانگتی پھرتی ہیں۔‘‘
جنت کھلکھلا کے ہنسی۔
’’ وہ کہتا ہے میری آنکھیں بہت خوب صورت ہیں۔‘‘
گڑیا دل سے ہنسی۔
’’محبت کی نظر ہے۔ جھوٹ نہیں ہو سکتی۔‘‘ جنت کی آنکھیں اور بھی زیادہ حسین ہو گئیں۔
’’میں نے تمہاری محبت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے جنت۔‘‘
جنت کو سنورنا آگیا تھا۔ وہ نکھر گئی تھی۔ محبت کا دریا کوئی ایسا ہی دریا تھا جس میں ایک بار ڈوب کر ابھرنا موت کی طرح ہے۔ اس کی لہروں میں سکون محسوس ہوتا ہے۔
میسج ٹون بجی۔ جنت موبائل پر لپکی۔
’’کہاں ہو یار؟‘‘ نجیب نے لفظوں میں بے تابی بھر دی۔
’’یہیں ہوں۔‘‘ مسکرا کے لکھا۔
’’تمہیں دیکھنے کو دل مچل رہا ہے۔‘‘
’’مجھے؟‘‘ جنت نے مجھے لکھ کر حیرت بھرے کئی ایموجی بھیج دیے۔
’’ارے بھئی انہیں نہیں مجھے، تو تمہاری من موہنی صورت دیکھنی ہے۔ کیسی لگ رہی ہو؟‘‘
’’میں۔‘‘ جنت نے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھا او رمسکرا دی۔
نجیب منتظر تھا کہ جنت اپنی تصویر ضرور بھیجے گی۔ سو اس نے بھیج دی۔ نجیب نے زوم کیا۔ کبھی چہرے کو دیکھا کبھی آنکھوں کو کبھی ہونٹوں کو اور کبھی ناک اور جب اس کی نظر کان کی لو پر پڑی، تو لاکھوں چراغ روشن ہو گئے۔ ننھے ننھے ستاروں جیسے ٹاپس۔ واقعی جنت بہت حسین لڑکی تھی۔
’’سنو تم اپنی نظر اتار لینا۔‘‘ نجیب نے میسج میں مشورہ بھیجا۔
’’ہا ہا ہا۔ تمہاری نظر لگے گی کیا؟‘‘
نجیب نے بے نیازی سے لکھا۔
’’جی میری۔ کیوں کہ پیار کرنے والوں کی نظر جلدی لگ جاتی ہے۔‘‘
’’تو پیار کرنے والے خود ہی نظر اتار دیں۔‘‘
جنت نے شرارتی سے ایموجی کے ساتھ میسج بھیج دیا۔
وہ نجیب تھا پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ اگلی صبح سو روپے کا نوٹ جنت سے وار کے کینٹین میں کام کرنے والے بچے کو دے دیا۔
دن ایک دم سے حسین لگنے لگے۔ صبح ہوتی دونوں طرف سے صبح بخیر کا تبادلہ ہوتا۔ دن بھر ساتھ ہوتے۔ رات کو دیر تک میسجز ہوتے۔
یونی میں دونوں کی خواہش ہوتی کہیں الگ جگہ ہو۔ خاموشی خاموشی سی۔ یہ آرزو جنت کے دل میں ہوتی اور نجیب کی زبان پر۔ جنت کو نجیب کی بے باکی بھا گئی تھی۔ وہ دیوانہ وار دوڑ رہی تھی۔ محبت کا سرپٹ گھوڑا ضرب کی چال چل رہا تھا۔ دوقدم چل کے دو سے ضرب دینا۔ پھر چار کو چار سے۔ اتنا تیز۔ اتنا تیز۔ جنت محبت کا مقابلہ کرنا چاہ رہی تھی۔ نجیب کے ساتھ رہنا چاہ رہی تھی۔
گڑیا پوچھتی ’’جنت تم بور نہیں ہو جاتی؟‘‘
جنت حیران ہو کر پوچھتی ہے۔ ’’کس بات سے؟‘‘
گڑیا کہتی ہے۔
’’نجیب اب اتنا بھی حسین نہیں کہ اس کے پیچھے تم اتنی خوار رہو۔ صبح صبح۔ رات میسج سارا دن باتیں۔‘‘
جنت ہنس دیتی۔ خیالوں میں کھو جاتی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا اپنے اس پاگل پن کو کیا نام دے؟
’’اب محبت تو کہیں بہت پیچھے رہ چکی ہے۔ یہ تو دیوانگی تھی، دیوانگی۔ مجھے اس کے علاوہ کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔‘‘
گڑیا بھی ہنس دی۔
محبت تو محبت ہوتی ہے۔ جنت کیسے سمجھاتی۔ دل کی خالی سلیٹ پر نجیب پہلا حرف تھا۔اس کی کوری آنکھوں کا پہلا خواب۔ بارش کا پہلا قطرہ، دل کی پہلی واردات، پہلی پہلی آرزوؤں کے نقش بہت گہرے ہوتے ہیں۔ نہ بتائے جاتے ہیں نہ سمجھائے جا سکتے ہیں۔ اس کی زندگی کا جمع اور حاصل نجیب ہو گیا تھا۔
امتحان قریب آچکے تھے، مگر جنت پڑھنے کے لیے کتاب کھولتی اس کا سارا دھیان موبائل پر رہتا۔ اگر نجیب کا فون نہ آتا میسج نہ آتا۔ وہ اداس ہو جاتی اور خود میسج کر دیتی۔
’’Miss U‘‘
نجیب جواب میں ’’مس یو ٹو جان‘‘ لکھ بھیجتا۔ جنت کی دنیا حسین ہو جاتی۔ کسی کو کیسے بتاتی کہ یہ ایک لفظ ایک جملہ اس کے لیے کیا ہے۔ وہ اپنی دنیا میں مگن ہو گئی۔
وہ ایک خوب صورت شام تھی۔ امتحانوں سے پہلے کی بات ہے۔ نجیب نے کہا مجھے تم سے ملنا ہے اور وہ ملنے چلی گئی۔ لارنس گارڈن میں قائداعظم لائبریری سے چلتے چلتے سہ دری تک کا سفر جیسے آسمان پر بادلوں کی زمین پر طے ہو رہا تھا۔
’’مجھے یقین نہیں تھا۔ تم مان جاؤ گی۔‘‘ نجیب نے کہا، تو جنت نے سر اٹھا کے پوچھا۔
تم بلاؤ تو میں کانٹوں پر بھی دوڑ کے آسکتی ہوں۔‘‘
نجیب ہنسا۔
’’تم جانتی ہو نا میری بہت سی لڑکیوں سے دوستی رہی ہے، لیکن تم مختلف ہو۔ بہت پیاری، بالکل پیور۔‘‘
’’پیور؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں۔ ملاوٹ سے پاک۔‘‘
جنت ہنسی۔
’’پیور کا مطلب بہت آسان ہے مجھے معلوم ہے۔‘‘جنت نے نجیب کا جملہ دہرایا۔
’’ لیکن تم مجھے پیور کہہ رہے ہو اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’شاید میں تمہیں سمجھا نہ سکوں، لیکن وقت آئے گا تم سمجھ جاؤ گی۔‘‘ نجیب نے تدبر سے کہا۔
اور بات بدلی۔
’’تیاری کیسی ہو رہی ہے؟‘‘
جنت نے سنجیدگی سے کہا۔
’’نہیں ہو پا رہی۔‘‘
نجیب نے جان بوجھ کر سوال کیا۔
’’کیوں؟‘‘
جنت نے سادگی سے کہا۔
’’تمہیں یاد جو کرنا ہوتا ہے۔‘‘
نجیب نے اس کا ہاتھ پکڑ کے محبت سے کہا۔
’’کیوں ابھی تک یاد نہیں ہوا میں؟‘‘
جنت ہنس دی۔ پھول کھلے۔ نجیب اور جنت کے درمیان فاصلے سمٹ گئے۔
امتحان بھی ہو گئے۔ نجیب نے اچھے نمبر لیے تھے، لیکن جنت کے نمبر بہت کم آئے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

رعنا کی چھتری — روبینہ شاہین

Read Next

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!