موبائل کی اسکرین چمکی اور سیاہ ہو گئی۔ کلاس میں بیٹھے نجیب کی نظر میز پر رکھے اپنے موبائل پر پڑی۔ اس کے ماتھے پر چند شکنیں ابھریں اور ڈوب گئیں۔ اس نے پھیپھڑوں کو تنفس کی آزاری سے آزاد کیا۔ اس کے بالکل ساتھ والی کرسی پر بیٹھا عبداللہ، نجیب کے چہرے پر چھائی خاموش پریشانی کو محسوس کررہا تھا۔
کلاس ختم ہوئی تو سب لڑکے لڑکیاں باہر نکل آئے مگر نجیب نہ اٹھا۔ عبداللہ نے اپنی کرسی گھسیٹ کر نجیب کے بالکل قریب کر لی اور جھلا کے بولا۔
’’یار تیرا مسئلہ کیا ہے؟‘‘
نجیب نے ایک خاموش نظر عبداللہ پر ڈالی اور سرجھکا لیا ۔
’’بتا نا یار۔‘‘
’’کیا تجھے پتا نہیں، نجیب نے زچ ہو کر پوچھا۔تو نہیں جانتا؟‘‘
’’سب جانتا ہوں، لیکن زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔‘‘
نجیب کا چہرہ کرخت ہو گیا۔ اس نے تلخی سے کہا۔
’’اب جب میں کسی سے بات ہی نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتا، تو کوئی کیوں مجھے ریکوئسٹ بھیج رہا ہے۔‘‘
عبداللہ نے نرمی سے نجیب کے کندھے پر ہاتھ رکھا جیسے دلاسا دے رہا ہو۔
’’جو ہوا… اسے بھول جا… دفع کر۔ زندگی بہت خوب صورت ہے۔ یہ بار بار نہیں ملتی۔ اس کو روگ تھوڑی لگانا ہے۔‘‘
نجیب نے عبداللہ کو اس طرح دیکھا جیسے وہ کسی اور زبان سے بات کر رہا ہو۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا ہو۔
’’ایک لڑکی تھی، تجھے چاہتی تھی۔ تیرے عشق میں اس نے خودکشی کرلی۔ یہی نا اس میں تیرا کیا قصور؟ بول۔‘‘
نجیب نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر کلاس سے نکل گیا۔ عبداللہ اس کے پیچھے پیچھے ہی نکلا، لیکن بہت بور ہو رہا تھا۔ نجیب پر اسے رہ رہ کر غصہ آتا۔ اس کی خاموشی عبداللہ کو الجھن اور غصے میں مبتلا کردیتی۔ لڑکی اپنی موت کی خود ذمہ دار تھی۔ نجیب نے تھوڑی کہا تھا مرجاوؑ۔
مگر نجیب جانتا تھا اس نے کہا نہیں لیکن ایسے حالات پیدا کر دیے کہ وہ مر گئی۔ جنت مر گئی۔
وہ حسین، کومل، محبت کرنے والی لڑکی جس نے نجیب کو سچے دل سے چاہا۔ مر گئی۔
موت اتنی آسان ہو گئی۔ اتنی مہربان۔
نجیب کی آنکھیں سلگنے لگیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’آج لڑکوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کوئی لڑکی انوالو نہیں ہوتی ہو جائے تو وفا نہیں ہوتی۔ اسی میں تو یہ ساری خوبیاں تھیں۔‘‘
’’بہت بدقسمت ہو نجیب شاہ، بہت بدقسمت۔ بن مانگی مراد راس نہ آئی تجھے۔ جنت کا خیال بھی اس کو ہلا کے رکھ دیتا۔
اس کی سوز میں ڈوبی محبت بھری آواز آج بھی سرگوشی کرتی۔
اف کیسے سمجھاؤں کسی کو اس کی قربت اس کی آنکھوں کا نشہ۔
میری بدقسمتی کی داستان۔ اس کی آخری ملاقات۔ آنسوؤں میں ڈوبی۔
’’نجیب میں مر جاؤں گی۔‘‘
نجیب نے قہقہہ لگایا۔
’’کبھی کسی کو کسی کے لیے مرتے دیکھا نہیں۔‘‘
’’تو اب دیکھ لینا۔‘‘
’’ویری فنی…‘‘
اور صبح خبر آئی۔
’’جنت…‘‘
نجیب کا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بند ہو گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس صبح اس نے جب موبائل آن کیا تھا۔ کیسے پتھر کا ہو گیا تھا۔ کاش۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔
لڑکوں نے مذاق اڑایا۔
’’یار ہم میں سے کسی پر مر جاتی۔ مر گئی کسی کے کام نہ آئی۔‘‘
لڑکیاں دکھی ہو رہی تھیں اس کی موت کا اصل سبب تو کوئی جانتا ہی نہیں تھا۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ…
اس حادثے نے نجیب کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ وہ کسی کی موت کا ذمہ دار ہو سکتا ہے یہ خیال اسے پل پل مارنے کے لیے کافی تھا۔
اس کی خاموشی پر چھوٹی ندا بہت افسردہ تھی۔ گرہ کھولنا چاہتی لیکن نجیب نہ خود کھلتا نہ اس کی خاموش گرہ۔ وہ تو سلگ رہا تھا۔ جیسے چپ چاپ لکڑی اپنی آخری آنچ پر ہو۔ سلگتی ہوئی اندر ہی اندر راکھ بنتی ہوئی۔
رات نو بجے کھانا کھا کے وہ ابھی کمرے میں آیا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہو ئی۔ نجیب کو معلوم تھا کہ ندا کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس نے اندر آنے کا کہا۔ ندا نے آتے ہی کمر پر ہاتھ رکھ کر خفگی سے کہنا شروع کر دیا۔
’’بھائی مجھے سچ سچ ایک بات بتائیں۔‘‘
نجیب نے مسکرا کے بہن کو دیکھا اور اس کے دبدبے کو محسوس کیا۔
’’کون سی بات؟‘‘
’’یہ… زارا کون ہے؟‘‘
نجیب کا مسکراتا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔
’’بتائیں نا؟‘‘
نجیب نے بہ مشکل خود کو پرسکون کیا اور پوچھا۔
’’کیوں تمہیں کیا کہا ہے زارا بی بی نے؟‘‘
’’آپ اسے جانتے ہیں؟‘‘
ندا نے بہ غور نجیب کو دیکھا اور آنکھیں سکیڑیں۔
نجیب کو ندا کا یہ کھوجی انداز بہت بھلا لگتا۔ وہ ہنس کے بولا۔
’’تمہاری قسم۔ بالکل نہیں۔‘‘
’’تو پھر اس نے مجھے کیوں ریکوئسٹ بھیجی؟‘‘
’’تو بھیجنے دو۔ کوئی بات نہیں۔‘‘
’’پھر بھی پتا تو چلے؟‘‘
’’کیا پتا چلے۔‘‘
’’کہ وہ مجھے سیڑھی کیوں بنانا چاہتی ہے۔‘‘
’’لیکن تم بننا نہیں۔‘‘
نجیب سنجیدہ تھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘
ندا نے اطمینان سے کہا۔
’’لیکن وہ مجھے ان باکس کر کے یہ کہتی ہے کہ وہ آپ سے بے حد محبت کرتی ہے۔ اس لیے میں اس کی یعنی زارا احمد ندا شاہ آپ سے سفارش کروں کہ آپ اس کی دوستی قبول کر لیں۔‘‘
نجیب کے چہرے پر سنجیدگی نمایاں ہو گئی۔ ندا نے اپنے اسی کھوجی انداز سے نجیب کو دیکھا۔
’’آپ جانتے ہیں زارا کو؟‘‘
نجیب نے ندا کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔
’’میری جان میں اُسے بالکل نہیں جانتا۔‘‘
’’بھائی۔ اگر اچھی لڑکی ہے، تو کیا حرج ہے بات کر لیں۔‘‘
نجیب نے سنجیدہ اور دکھی مسکراہٹ سے کہا۔
’’تمہارے بھائی کو اچھے برے کی پہچان نہیں ہے۔ اس لیے وہ کیسے جان سکتا ہے کہ کون اچھا ہے کون بُرا؟‘‘
ندا حیرت سے نجیب کو دیکھنے لگی۔
نجیب نے اپنا دھیان ہٹایا۔
’’اب جاؤ میری گڑیا رانی۔ میں کچھ پڑھ لوں۔‘‘
’’کوئی آپ کی یونی کی ہو۔ ہو سکتا ہے کسی نے نام اور آئی ڈی بدل کے آپ کو اپروچ کرنا چاہا ہو۔‘‘ وہ ابھی تک زارا احمد ہی میں پھنسی ہوئی تھی۔
نجیب نے بے زاری سے کہا۔
’’تو میں کیا کروں۔ کرتا ہے تو کرے۔‘‘
ندا دوچار اور سوال پوچھ کے چلی گئی۔ نجیب نے بے چینی سے لیپ ٹاپ آن کیا اور میسنجر پر آئے زارا کے میسجز دیکھنے لگا۔ جسے وہ کئی دنوں سے اگنور کر رہا تھا۔ پڑھنے لگا۔
بیس دن پرانا ایک میسج تھا۔
’’کیا میں آپ کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج سکتی ہوں؟‘‘
اگلے دن سوال تھا۔
’’آپ نے جواب نہیں دیا۔‘‘
دو دن کے بعد پھر ایک میسج تھا۔
’’یہ تو میں جانتی ہوں آپ مغرور نہیں اور یہ بھی کہ لڑکیوں سے دوستی کرنا آپ کو بہت اچھا لگتا ہے، تو پھر مجھ سے کیوں گریز کر رہے ہیں۔
نجیب نے لمبی سانس لی۔ زارا کی ڈی پی بھی اس کے سامنے تھی۔ آنکھوں میں شوخی کے بہ جائے حزن تھا اور چہرے پر اداس مسکراہٹ۔
میسجز کے انداز میں جو والہانہ پن تھا۔
’’آپ میری بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
وہ کیا کرے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
نجیب میسجز پڑھ کے ڈر گیا تھا۔
’’پچھلے پورے ہفتے سے ایک ہی بات بار بار لکھی جا رہی تھی۔‘‘
’’Add me… Add me.‘‘
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اس قدر حساس ہو سکتا ہے۔
شاید جنت کی وجہ سے…یہ ایک سال پرانی بات تھی۔ نجیب نے جنت کا فیس بک اکاؤنٹ سرچ کیا اور جنت کی تصویر نکال لی۔ ہنستا مسکراتا زندگی سے بھرپور چہرہ آنکھیں جیسے کوئی ستارے ہوں۔ چمک دار ماتھا، خمیدہ پلکیں وہ مکمل حُسن تھی۔ کسی شاعر کا شعر۔ کسی دیوانے کا خواب۔کسی مصور کا تخیل۔
نجیب نے جنت کو ریکوئسٹ بھیجی تھی۔
’’add me.‘‘
ایک دن، دو دن، تین دن۔ وہ میسجز پر ’’ایڈ۔ می‘‘ کی تکرار کیے جا رہا تھا۔ کسی ضدی بچے کی طرح شوکیس میں پڑا جیسے اس کا من پسند کھلونا اس کی پہنچ سے دور ہو اور وہ ایڑھیاں اٹھا کر التجا کر رہا ہو۔ اسے حاصل کرنا چاہ رہا ہو۔
’’مجھے دے دو۔ مجھے دے دو۔‘‘
اور کوئی سن نہیں رہا۔
روزانہ وہ جنت کی وال کا چکر لگاتا۔ بالکل ایسے جیسے وہ اس کی گلی میں پھر کے آیا ہے۔ شاید دروازے سے۔ ٹیرس سے۔ کہیں دکھائی دے۔ کوئی جھلک، آنکھیں، بال، سراپا۔
پھر ایک روز جنت نے اس کی درخواست کو، اس کی التجا کو قبول کر لیا۔
اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔
سب سے پہلے نجیب نے یہ خوش خبری عبداللہ ہی کو تو سنائی تھی اور عبداللہ نے قہقہہ لگا کر کہا تھا۔ ’’یار تمہیں کسی ڈائری میں اپنی سہیلیوں کا بائیوڈیٹا ریکارڈ کرنا چاہیے۔ گینز بک والے مانگ سکتے ہیں۔‘‘
نجیب کا بے باک قہقہہ گونجا، بے لاگ، اپنی کام یابی پر اترایا فخریہ قہقہہ گونجا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});