امربیل — قسط نمبر ۱

”ایسا ہی ہے۔ اگر تم چاہو تو میں یہاں سے چلا جاتا ہوں۔ ”
”یہ میرا گھر نہیں ہے کہ میں یہاں سے کسی کو نکالوں۔ ”
وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی خفگی ظاہر کر بیٹھی۔
”دیکھو میں کچھ باتیں واضح کر دینا چاہتا ہوں ،میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے اس گھر میں کوئی تناؤ آئے۔ یہ گھر تمہارا تھا، اور رہے گا۔ مجھے تو یہاں رہنا نہیں ہے۔ چند ماہ کے بعد میں یہاں سے واپس لندن چلا جاؤں گا۔ میرا یہاں قبضہ جمانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے،پھر میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم کس بات پہ اتنی ناراض ہو۔ شکایت کیا ہے تمہیں مجھ سے؟ میرا تو خیال تھا کہ میں خاصا بے ضرر آدمی ہوں۔ ”




”مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے ، لیکن آپ گھر میں ہر چیز کو dominate کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سارا کھانا آپ کی پسند کے مطابق بنتا ہے،ٹھیک ہے آپ مہمان ہیں لیکن جو چیز میں کرنا چاہتی ہوں اس میں تو کسی دوسرے کی مرضی۔۔۔”
عمر نے اس کی بات کاٹ کر دی۔
”تم اس دن ڈش والے واقعہ کی بات کر رہی ہو۔ ٹھیک ہے میں آئندہ ایسی کوئی مداخلت نہیں کروں گا، اور کوئی اعتراض؟ ”
”نہیں اور کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ”
وہ اب وا قعی شرمندہ ہو نے لگی تھی۔
”بس ٹھیک ہے، آئندہ تم اپنا موڈ میری وجہ سے خراب مت کرنا، اور اگر میری کوئی بات بری لگے تو بس مجھ سے آ کر کہہ دینا۔ ”
عمر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے جھینپتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا تھا۔ عمر نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑ اتھا بلکہ خود بھی کھڑا ہو گیا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے قدم بڑ ھائے تھے۔
”اب تمہاری ناراضگی دور ہو گئی ہے،اس لئے میں تمہیں کوئی اچھی سی چیز دوں گا۔ ”
وہ کسی ننھے بچے کی طرح اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے اندر لے گیا تھا۔ نانو ابھی بھی لاؤنج میں بیٹھی ہوئی تھیں۔
”گرینی! میں اور علیزہ بہت اچھے دوست بن گئے ہیں۔ میں علیزہ کے لئے کچھ لایا ہوں۔ ”
اس نے اندر آتے ہی اعلان کیا تھا،وہ اسے اسی طرح ہاتھ پکڑے اپنے کمرے میں لے گیا تھا۔
کمرے میں داخل ہونے کے بعد عمر نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”گرینی نے بتایا تھا، تمہیں پرفیومز بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ تمہارے اور میرے درمیان پہلی کامن چیز ہے۔ مجھے بھی پرفیومز بہت پسند ہیں۔ ”
وہ اس کی طرف پشت کئے ،ڈریسنگ ٹیبل کی دراز کھول کر کچھ تلاش کرتے ہوئے بول رہا تھا۔ علیزہ کی نظریں ڈریسنگ ٹیبل پر مرکوز تھیں۔ جہاں پر پرفیومز کا ایک ڈھیر موجود تھا۔ وہ بے اختیار کچھ آگے بڑھ آئی تھی۔
”عام طور پر مرد کبھی عورتوں کے پرفیومز استعمال کرنا پسند نہیں کرتے،مگر میں ہر وہ پرفیوم خرید لیتا ہوں جو مجھے پسند ہو۔ چاہے وہ خواتین کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ استعمال کروں یا نہ کروں لیکن پاس رکھنے میں کیا حرج ہے۔ ”
اس سے باتیں کرتے ہوئے اس کی تلاش ابھی بھی جاری تھی۔ پھر جیسے اسے وہ چیز مل گئی تھی۔ وہ سیدھاہونے کے بعد اس کی طرف مڑا علیزہ نے اس کے ہاتھ میں Chanel 5 کی ایک پیکڈ شیشی دیکھی تھی۔
مسکراتے ہوئے اس نے ہاتھ علیزہ کی طرف بڑھا دیاتھا۔
”یہ تمہارے لئے ہے۔ ”
علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔
”میرے لئے ؟”
اس نے سوالیہ لہجہ میں پوچھا۔
”ہاں دوستی کرنے کے لئے اس سے اچھا گفٹ تو کوئی نہیں ہو سکتا، اور میں اپنے فرینڈزکو ہمیشہ پرفیومز ہی گفٹ کرتا ہوں۔ ”
وہ ہاتھ بڑھائے کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر اس کے ہاتھ کو دیکھا ،وہ کچھ جھجک گئی تھی۔
”Just take it!”
عمر نے ایک بار پھر اس سے کہا تھا۔
”مگر میں۔۔۔۔”
اس نے کہنے کی کوشش کی تھی مگر عمر نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”اگر مگر کرنے کی ضرورت نہیں بس یہ لے لو۔ ”
اس نے بڑے مستحکم لہجہ میں کہا تھا۔
کچھ جھجکتے ہوئے اس نے عمر کے ہاتھ سے پرفیوم پکڑلیا تھا۔
”مجھے یہ تو نہیں پتا کہ تمہارا فیورٹ پرفیوم کون سا ہے مگر مجھے بہت اچھا لگتا ہے، اگر کوئی لڑ کی یہ پرفیوم استعمال کرے۔ ویسے تمہیں کونسا پرفیوم پسند ہے۔ ”
اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔
”مجھے وہ سارے پرفیوم پسند ہیں جو لڑکوں کے لئے ہوتے ہیں۔ ”
اس کی اس بات پر عمر ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!