امربیل — قسط نمبر ۱

وہ کچھ دیر سبزی کے ڈونگے کو دیکھتا رہا پھر کھانا کھانے لگا مگر اس کا ذہن الجھ چکا تھا۔
نانو کھانے سے فارغ ہو کر سیدھا اس کے کمرے میں آئی تھیں،اور اسے لمبا چوڑا لیکچر دیا۔
”مجھے حیرانی ہو رہی ہے علیزہ ! کہ تم نے میری بات بھی نہیں سنی اور اس طرح اٹھ کر باہر آ گئیں۔ کیا سوچ رہا ہو گا عمر کہ تم کتنی بد تمیز لڑ کی ہو۔ ”
وہ واقعی خفا تھیں۔
”I am sorry.” (مجھے افسوس ہے)
وہ ہلکے سے منمنائی۔




”اب اس کا کیا فائدہ ، بہرحال آئندہ خیال رکھنا کہ ایک بار ڈائننگ ٹیبل پر آ نے کے بعد اس طرح اٹھ کر نہیں آتے۔ وہ بھی اس وقت جب سب کھانا کھا رہے ہوں۔ تمہارا دل کھانے کو نہیں چاہ رہا تھا تم سلاد لے لیتیں یا سویٹ ڈش لے لیتیں، مگر تمہیں وہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ ”
نانو اسے مینرز کی وہی پٹی پڑھا رہی تھیں جوہمیشہ سے ہی پڑھاتی آ ئی تھیں۔ وہ خاموشی سے ان کی بات سنتی رہی، اس کی رنجیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”ضرور عمر نے ان سے میرے بارے میں کچھ کہا ہو گا۔ ”
وہ ان کی باتوں پر اس سے اور بد گمان ہو تی جا رہی تھی۔
”میں نے مرید سے کہہ دیا ہے وہ ابھی تمہیں دودھ میں اوولٹین ملا کر دے جائے گا۔ اب مجھے کوئی اعتراض نہیں سننا ہے۔ ”
نانو نے اٹھتے ہوئے اسے اطلاع دی تھی اور ساتھ ہی اس کے متوقع رد عمل پر خبر دار کر دیاتھا۔ وہ کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔ نانو کمرے سے نکل گئی تھیں وہ خاموشی سے بیڈ پر لیٹ گئی۔ عمر جہانگیر آج اسے سب سے زیا دہ برا لگ تھا۔ جو واحد چھوٹی چھوٹی چیزیں اس کی مرضی سے ہوتی تھیں اب ان میں بھی اس کا عمل دخل ختم ہو گیا تھا۔ مرید بابا نے کچھ دیر بعد دودھ لا دیا تھا، اس نے خاموشی سے دودھ کا گلاس لے کر پی لیا۔ پھر وہ سونے کے لئے لیٹ گئی تھی، لیکن سونے کی کوشش میں اسے بہت دیر لگی تھی۔
اگلے کچھ دن میں اس میں یہ تبدیلی آ گئی تھی کہ اس نے عمر سے بات کر نا بند کر دیا تھا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں وہ پہلے والی ہوں ہاں بھی نہیں کرتی تھی جب تک وہ باقاعدہ اس کا نام لے کر بات نہ کرتا۔
اس دن وہ لاؤنج میں کارپٹ پر فلورکشن کے سہارے بیٹھی کوئی میگزین دیکھ رہی تھی۔ تب ہی اس کے ذہن میں ایک خیال آیا تھا اس نے احتیاط سے نانو کا موڈ دیکھنے کی کوشش کی تھی پھروہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
”نانو ایک بات پوچھوں؟ ”
اس نے ہو لے سے کہا تھا۔
”ہاں! پوچھو۔ ”
وہ اخبار میں غرق تھیں۔
”یہ عمر واپس کب جائے گا؟”
اس نے کافی احتیاط سے لفظوں کا انتخاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”بہت جلد، مائی ڈئیر کزن بہت جلد!”
سوال کا جواب کہیں اور سے ملا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر بالکل ساکت بیٹھی اپنے سوال کا کوئی بہانہ سوچنے لگی۔
اب وہ اس کی پشت سے ہو کر اس کے بالکل سامنے آکر نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گیا تھا۔
” بلکہ آپ جب چاہیں مجھے نکال دیں یہاں سے ۔ ”
اس نے علیزہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”فضول باتیں مت کرو، کوئی نہیں نکال رہا تمہیں یہاں سے۔ تمہاری وجہ سے تو رونق ہو گئی ہے گھر میں۔”
نانو نے اسے پیار سے جھڑکتے ہوئے اس کے گال چھوئے تھے۔ علیزہ نے کچھ کہنے کی بجا ئے میگزین اٹھایا اور وہاں سے واپس آ گئی تھی۔ کچھ شرمندگی کے عالم میں وہ لان میں آکر بیٹھ گئی تھی۔
چند منٹوں بعد اس نے قدموں کی چاپ سنی تھی، عمر اس کی طرف آ رہا تھا۔ وہ کچھ جھنجلا گئی، وہ قریب آکر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا۔
”میں بہت دنوں سے تم سے ایک بات کہنا چاہ رہا تھا بلکہ شاید بہت سی باتیں، مگر تم نظر انداز کر رہی تھی۔ ”
”مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھے ناپسند کیوں کرتی ہو؟”
وہ اس کے اتنے ڈائریکٹ سوال پر کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے؟”
وہ کھڑی ہو گئی تھی۔
”تم بیٹھ جاؤ ورنہ میں تمہیں پکڑ کے بٹھا دوں گا۔ ”
وہ پہلی بار بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ وہ خود بھی کھڑا ہو گیا تھا،وہ کچھ خفگی کے عالم میں سامنے بیٹھ گئی تھی۔
عمر نے درمیان میں پڑاہوا ٹیبل کھینچ کر ایک طرف کر دیا اور پھر اپنی کرسی کھینچ کر سیدھا اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔ وہ اس کے اتنے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ وہ نر وس ہو گئی۔
”ہاں ! اب بتاؤ۔ ”
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں آ پ کو ناپسند نہیں کرتی ہوں۔ ”
”ویری گڈ لیکن پھر تمہیں میرا یہاں رہنا اچھا کیوں نہیں لگ رہا؟”
”ایسا نہیں ہے۔ ”




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!