امربیل — قسط نمبر ۱

وہ نانوکے کمرے میں چلی آئی تھی، وہ ابھی آرام کر رہی تھیں۔
”عمر کے کمرے میں دیکھو وہاں ہو گی۔ ”
انہوں نے اسے بتایا۔
”عمر کے کمرے میں……لیکن کرسٹی تو کبھی کسی کے پاس نہیں جاتی۔۔۔۔”
اسے ان کی بات پر جیسے صدمہ ہوا تھا۔
”ہاں! لیکن عمر کے ساتھ بہت اٹیچ ہو گئی ہے۔ تمہارے بعد سارا دن اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ ابھی بھی وہیں ہوگی۔”
نانو نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
وہ چپ چاپ ان کے کمرے سے نکل آئی تھی۔ اسے ابھی بھی ان کی بات پہ یقین نہیں آرہا تھا کہ کرسٹی اس کے علاوہ کسی اور کے پاس جا سکتی ہے۔ عمر کے کمرے کے دروازے پر اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے دستک دی تھی۔
”یس! کم ان۔ ”




اندر سے فوراً ہی اس کی آواز ابھری تھی اور وہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
”کرسٹی یہاں تو۔۔۔۔۔”
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ سامنے ہی راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرا ہاتھ کرسٹی کو سہلا رہا تھا۔ وہ اس کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزہ کو دیکھ کر بھی کرسٹی نے اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھی رہی تھی۔ علیزہ صدمے اور مایوسی سے اسے دیکھتی رہی۔
”ہاں ! کرسٹی میرے پاس ہے، جاؤ کرسٹی۔ ”
اس نے کرسٹی کو گود سے اتار دیا، اور کرسٹی بھاگتے ہوئے اس کی طرف آنے لگی۔ علیزہ کو ان دونوں پر بے تحاشا غصہ آیا تھا۔
”Just go to hell.”(دفع ہو جاؤ(
اس نے بلند آواز میں کہا تھا اور زندگی میں پہلی دفعہ پوری قوت سے دروازہ بند کرتے ہوئے بھاگ آئی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اور شام تک کمرے سے باہر نہ نکلی تھی۔ شام تک اس کا غصہ تشویش میں بدل چکا تھا۔ وہ پریشان تھی کہ اگر عمر نے نانو کو اس کی اس حرکت کے بارے میں بتا دیا تو وہ کیا سو چیں گی۔ اسے اپنی اس حرکت پر افسوس ہو رہا تھا۔ اسے خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس بات پر غصہ آ یا تھا۔ کرسٹی کے کسی اور کے پاس چلے جانے پر یا عمر کے پاس جانے پر ،یا اس کو دیکھ کر بھی اس کے پاس نہ آنے پر ، یا پھر عمر کے کہنے پر اس کے پاس آ نے پر۔
جب وہ لاؤنج میں آئی تو کرسٹی وہیں بیٹھی ہوئی تھی۔ علیزہ کو دیکھتے ہی اس نے اس کے پاس آ نے کی کوشش کی تھی مگر علیزہ نے اسے درشتی سے اپنے سے دور ہٹا دیا تھا۔
عمر رات کے کھانے کے لئے معمول کے مطابق اپنے کمرے سے آیا تھا۔ وہ جس بات پر خوفزدہ ہوئی تھی ویسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ اسے د یکھ کر ہمیشہ کی طر ح مسکرایا۔ پھر ویسے ہی کھانے کے دوران اسی طرح سب سے باتیں کرتا رہا تھا جیسے وہ ہمیشہ کیا کرتا تھا۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیاتھا۔ علیزہ نے سکون کا سانس لیا تھا۔
اگلے چند د ن بھی ا سی طرح گزر گئے۔ عمر نے اس واقعہ کے بارے میں نانا ، نانو یا اس سے کوئی بات نہیں کی تھی لیکن علیزہ نے نوٹ کیا تھا کہ اس نے دوبارہ کرسٹی کو بلانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کرسٹی اس کے نظر آنے پر اگر اس کی طرف جانے کی کوشش کر تی بھی تو وہ اسے نظر انداز کر دیتا ۔ اس کا مطلب تھا وہ اس کے اس دن کے غصے کی وجہ جان گیا تھا۔
”مرید بابا! آج رات کے کھا نے پر میرے لئے تھوڑی سی سبزی بنا لیں۔ ”
اس دن کافی دنوں کے بعد علیزہ نے رات کے کھانے کے لئے کوئی فرمائش کی تھی۔ رات کو کھانے کی ٹیبل پر اس نے بڑی خوشی کے ساتھ ڈونگے کا ڈھکن اٹھایا تھاساتھ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔
”نانو سبزی میں چکن کیوں ڈالا ہے،مرید بابا نے۔ انہیں پتہ ہے میں ہمیشہ چکن کے بغیر ہی سبزی کھاتی ہوں؟”
اس نے کچھ حیرانی کے عالم میں نانو سے کہا تھا۔
”میں نے کہا تھا چکن ڈالنے کے لئے۔ میں عمر کو رات کے کھانے کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس نے کہا کہ سبزی بن رہی ہے تو چکن والی بنا لیں میں بھی تھوڑی کھا لوں گا۔” علیزہ نے ڈونگے کا ڈھکن ہاتھ میں پکڑے پکڑے ٹیبل کی دوسری طرف عمر کو دیکھا۔ وہ اپنی پلیٹ میں چاول نکا ل رہا تھا۔ ٹیبل پر پڑی ہوئی ساری چیزیں یا تو عمر کی مرضی سے بنی تھیں یا پھر نانواور نانا کی ۔ اس نے آسٹریلیا سے و اپس آنے کے بعد پہلی فرمائش کی تھی، اور …یک دم ہی اس کی بھوک غائب ہو گئی تھی۔
کچھ افسردگی سے اس نے دوبارہ ڈونگے پر ڈھکن رکھ دیا، اور جب اس نے چمچ بھی رکھ دیا تو نانو اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
”کیوں کیا ہوا ، سبزی نہیں لی؟”
وہ کرسی کھینچ کر کھڑی ہو گئی۔ عمر نے اسے پہلی بار چونک کر دیکھا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔ ”
”یہ کیا حماقت ہے، ابھی تم کھانے کے لئے بیٹھی تھیں ابھی بھوک ہی ختم ہو گئی ہے۔ بیٹھ جاؤ۔ ”
نانا نے اسے کہا تھا۔
”میں دودھ پی لوں گی۔ ”
وہ چل پڑی تھی۔
”دودھ سے کیا ہو گا ، علیزہ! واپس آؤتھوڑا سا ہی سہی لیکن کھانا کھاؤ۔ ”
نانو نے اسے واپس بلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ پیچھے مڑے بغیر ہی وہاں سے چلی گئی۔ عمر حیرانی سے اسے جاتے دیکھتا رہاتھا۔
”اسے کیا ہوا؟ کیاناراض ہو کر گئی ہے؟”اس نے ڈائننگ سے نکلتے ہوئے اپنے پیچھے عمر کی آواز سنی تھی۔
”نہیں علیزہ کبھی ناراض نہیں ہوتی، اسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ شاید ویسے ہی بھوک ہی نہیں تھی۔ میں ابھی پوچھوں گی جا کر ۔”
نانو نے نے اس کے جانے کے بعد عمر سے کہا تھا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!