”ہاں کچھ زیادہ دن ہی لگ گئے مگر واپس تو آ گئی، مرید بابا!”
وہ ایک بار پھر مسکرائی تھی۔ خانساماں چائے رکھ کر واپس کچن کی طرف چلا گیا تھا۔ نانو نے اس کے لئے چائے بنانی شروع کی۔
”ارے ہاں میں نے تو تمہیں بتایا ہی نہیں عمر آیا ہوا ہے۔ ”
چائے کا کپ اسے تھماتے ہوئے نانو نے اچانک پر جوش آواز میں بتایا تھا۔
”عمر… ! وہ کب آیا؟ ”
وہ نانو کی بات پر حیران ہو گئی۔
”پچھلے ہفتے کا آیا ہوا ہے۔ ”
”اکیلا آیا ہے؟ ”
”ہاں اکیلا ہی آیا ہے۔ سی ایس ایس کے پیپرز دینے آیا ہے۔ ابھی یہیں رہے گا ایک دو ماہ۔ ”
”سی ایس ایس ؟ مگر وہ تو جاب کر رہا تھا ، لندن میں پھر یہ۔۔۔۔ ؟”
وہ الجھ کر رہ گئی تھی۔
”جاب چھوڑ دی ہے اس نے۔ کہہ رہا تھا وہ اپنے آپ کو سیٹ نہیں کرپا رہا تھا۔ وہاں بہت تکلیف دہ روٹین ہو گئی تھی۔ میرا خیال ہے جہانگیر نے اس طرف آنے پر مجبور کیا ہے۔ تمہیں پتہ ہے وہ شروع سے ہی دباؤ ڈال رہا ہے۔ پچھلی دفعہ وہ جب یہاں آیا تھا تو عمر کے بارے میں کافی فکر مند تھا۔ وہ کسی بھی کام میں مستقل مزاج نہیں ہے۔ ہر سال چھ ماہ بعد اس کی دلچسپیاں بدل جاتی ہیں اور ظاہر ہے آگے نکلنے کے لئے ٹک کر کام کر نا بہت ضروری ہے۔ تب بھی وہ عمر کو مجبور کر رہا تھا کہ وہ فارن سروس میں آ جائے۔ ابھی اچھی پوسٹ پر ہے جہانگیر وہ چاہتا ہے کہ بیٹا بھی فارن سروس میں آ جائے۔ تو اسے بھی اسٹیبلش کر دے گا۔”
نانو نے چائے پیتے ہوئے اسے تفصیل سے بتایا تھا۔
وہ چائے پیتے ہوئے ایک ہاتھ سے کرسٹی کے سرکو سہلاتے ہوئے ان کی بات سنتی رہی۔
”اس وقت کہاں ہے ؟”
ان کے بات ختم کرنے پر اس نے پوچھا تھا۔
”سو رہا ہے ابھی ، سونے کی روٹین تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انگلینڈ اور یہاں کے وقت میں بہت فرق ہے، اور اسے یہاں آ کر سونے کے اوقات میں کافی تبدیلی کرنی پڑ رہی ہے۔ اوپر سے آج کل گرمی بھی بہت ہے۔ کل باہر گیا تھا مارکیٹ کچھ چیزیں لانے کے لئے اور واپس آیا تو حالت خرا ب ہو رہی تھی۔ میں تو پہلے ڈر گئی کہ کہیں سن سٹروک ہی نہ ہو گیا ہو۔ مگر ڈاکٹر نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے بس ابھی ذرا باہر نکلنے میں احتیاط کرے۔ شام کو کہیں جا کر اسے کچھ ہوش آ یا، لیکن بہت زندہ دل ہے مجھ سے کہہ رہا تھا۔ میں پورا انگریز ہوتا تو یقیناً فوت ہو جاتا۔ تھوڑا بچ گیا ہوں تو یہاں کا ہونے کی وجہ سے، لگتا ہے گرمی نے پہچان لیا ہے مجھے، لگتا ہے کہ دوبارہ کوئی گڑ بڑ نہیں ہو گی۔ میں نے اس سے کہا کہ اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے بہتر ہے کہ وہ ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق ابھی باہر جانے سے پر ہیز ہی کرے۔ ضروری نہیں کہ اگر ایک بار سن سٹروک سے بچ گیا تو دوسری بار بھی بچ جائے گا۔ ”
علیزہ قدرے عدم دلچسپی سے ان کی باتیں سنتی رہی۔ وہ مسلسل عمر کے بارے میں ہی بات کر رہی تھیں۔
”پتہ ہے تمہاری تصویریں دیکھ کر کیا کہہ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا علیزہ پھوپھو کی کاربن کاپی ہے۔ میں نے کہا کہ تمہیں کیسے پتہ، تم کونسا ثمینہ کو اتنا دیکھتے رہے ہو یا علیزہ کو اچھی طرح دیکھ چکے ہو۔ اس کے لئے کسی کو ایک بار دیکھنا ہی کافی ہے۔ اصل میں دو سال پہلے وہ بھی آسٹریلیا گیا ہوا تھا،کچھ دوستوں کے ساتھ سیر وغیرہ کے لئے ، وہاں ثمینہ کے پاس بھی گیا تھا۔ بہت تعریف کر رہا تھا اس کی۔ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا تم بھی اپنی ماں کی طرح باتونی ہو۔ میں نے کہا جب ملو گے تو خود ہی دیکھ لینا،کہ باتونی ہے یا نہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر میں اٹھنے ہی والا ہو گا مل لینا اس سے۔ اسے بھی پتہ ہے کہ آج تم آ رہی ہو۔ ”
اسے ابھی بھی نانو کی باتوں میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ کوئی بھی جواب دئیے بغیر وہ خاموشی سے چائے پیتی رہی۔
”ممی نے آپ کے لئے کچھ گفٹس بھجوائے ہیں ،ابھی نکال دوں یا پھر کل؟ ”
اس نے ان کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔
”ابھی سامان مت کھولو ،تم تھکی ہو ئی ہوگی ،آرام کرو۔ کل میں خود تمہارے ساتھ سامان کھلواؤں گی۔ پھر دیکھ لوں گی۔ ”
نانو نے اس سے کہا تھا۔ چائے پینے کے بعد نانو نے آرام کرنے کے لئے کہا تھا، اور وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی اور کپڑے تبدیل کئے بغیر ہی بستر پر لیٹ کر سو گئی۔
عمر جہانگیر اس کے لئے کوئی نیا نام نہیں تھا۔ وہ دو ، تین سال کے بعد اکثر چھٹیوں میں اپنے باپ اور فیملی کے ساتھ پاکستان آیا کرتا تھا، اور وہ وہیں ٹھہرا کرتا تھا اور ایسا پچھلے بہت سے سالوں سے ہو رہا تھا۔ مگر اس بار وہ تقریباً چھ سال کے بعد آ یا تھا، اور پہلی بار اس طرح اکیلا آیا تھا۔ علیزہ اور اس کے درمیان رسمی سی ہیلو ہائے تھی۔ اسے ہمیشہ ہی وہ بہت ریزرو لگا تھا۔ بچپن میں بھی وہ اس طرح کا بچہ نہیں تھا جو آ سانی سے دوسرے بچوں سے گھل مل جائے۔ خود علیزہ بھی اسی طرح تھی، اس لئے دونوں کے درمیان کبھی بے تکلفی نہیں ہوئی تھی۔ پھر کئی بار ایسا بھی ہو تا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ چھٹیاں گزارنے پاکستان آتا اور خود علیزہ اپنی ممی کے پاس آسٹریلیا چھٹیاں گزارنے چلی جاتی۔ اس لئے انہیں کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہ ملا تھا، اور اب بھی عمر جہانگیر کی آمد اس کے لئے کسی خاص خوشی کا باعث نہیں بنی تھی۔
اسے اندازہ نہیں ہوا،وہ کتنی دیر سوئی رہی تھی۔ جب دوبارہ بیدار ہوئی تو کمرے میں اندھیرا پھیلا ہو تھا۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہو ئی رسٹ واچ ہاتھ میں لے کر ٹائم دیکھنے کی کوشش کی تھی،ریڈیم ڈائل سات بجا رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آن کر دی۔ وارڈ روب سے کپڑے نکال کے وہ واش روم میں چلی گئی تھی۔ جب وہ لاؤنج میں آئی تو سوا سات ہو رہے تھے۔
”So the lady is here!”(تو محترمہ یہاں ہیں)۔
نانا نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا، وہ مسکراتے ہوئے جا کر ان سے لپٹ گئی۔
”میں نے دو ، تین بار تمہارے کمرے میں جانے کی کوشش کی لیکن تمہاری نانو نے منع کر دیا کہ تم ڈسٹرب ہو گی۔”
نانا نے اس سے کہا تھا وہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی تھی، اور اسی وقت اس کی نظر دورکونے میں رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے شخص پر پڑی تھی۔ جو مسکراتے ہوئے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے متوجہ ہونے پر اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد دیکھنے کے باوجود علیزہ کو اسے پہچاننے میں دیر نہیں لگی تھی۔ پانچ سال پہلے اس نے جب عمر کو دیکھا تو وہ خاصا دبلا پتلا تھا۔ مگر اس وقت وہ ایک لمبے چوڑے وجیہہ سراپے کا مالک تھا۔ وہ اس سے آٹھ سال بڑ ا تھا۔ مگر اپنی قد و قامت کے لحاظ سے وہ اپنی عمر سے بڑا نظر آ رہا تھا۔ وہ بے اختیار کچھ جھجکی۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ وہ اسے کیسے مخاطب کرے ، گلا صاف کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔
)”Hello! How are you?” ہیلو! آپ کیسے ہیں؟)
عمر نے ہلکے سے سر کو نیچے کیا تھا۔
4 Comments
Want to read umeera ahmad books
Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why
Ye link open nhi horaha
Missing umera Ahmed s novel s