امربیل — قسط نمبر ۱

وہ کار کا دروازہ کھول رہی تھی جب اس نے لاؤنج کا دروازہ کھول کر نانوکو باہر آتے دیکھا۔ شاید وہ کار کا ہارن سن کر باہر آئی تھیں۔ انہوں نے اسے دیکھ کر دور سے ہی بازو پھیلا دئیے۔ وہ مسکراتی ہوئی ان کے پاس جا کر لپٹ گئی۔
”اس بار میں نے تمہیں بہت مس کیا۔ ”
انہوں نے اس کے گال چومتے ہوئے کہاتھا۔
”میں نے بھی آپ لوگوں کو بہت مس کیانانو!”
ان کے ساتھ اندر لاؤنج کی طرف جاتے ہوئے اس نے کہاتھا۔
”میں جانتی ہوں۔ ”
انہوں نے بڑے پیار سے ساتھ چلتے ہوئے اسے اپنے کندھے سے لگا یا۔
”کیسا رہا تمہارا قیام ،انجوائے کیا؟”
”ہاں بہت انجوائے کیا۔ ”




”ثمینہ کیسی ہے ؟ پاکستان کب آ رہی ہے؟”
”ممی ٹھیک ہیں ابھی پاکستان آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ شاید اگلے سال آئیں۔ ”
لاؤنج میں آکر اپنا بیگ صوفہ پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”چار سال ہو گئے ہیں اسے وہاں گئے ابھی بھی اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا آنے کو۔ ”
اس نے نانو کو بڑ بڑاتے ہوئے سنا تھا۔ وہ کچھ دیر ان کاچہرہ دیکھتی رہی۔
”وہ لوگ آسٹریلیا سے امریکہ شفٹ ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ انکل کا کا نٹریکٹ ختم ہو رہا ہے اس سال۔ امریکہ کی کسی کمپنی کی آفر پر غور کر رہے ہیں۔ ممی کہہ رہی تھیں کہ اگلے سال اگر امریکہ سیٹل ہونے کا ارادہ کر لیا تو وہاں جانے سے پہلے پاکستان کا ایک چکر لگا کر جائیں گی۔ ”
اس نے جیسے نانو کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”تمہارے باقی بہن بھائی کیسے ہیں ؟”
نانو نے جیسے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔
”بہت اچھے ہیں اب تو بہت بڑے ہو گئے ہیں۔ میں تصویریں لے کر آئی ہوں۔ آپ دیکھ لیجئے گا۔ ”
اس نے نظریں چراتے ہوئے جھک کر اپنے جاگرز کھولنے شروع کر دئیے تھے۔ نانو خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھیں۔
”تم پہلے سے کمزور ہو گئی ہو۔ ”
”ہاں شاید ، میں کچھ دن بیمار رہی تھی وہاں۔ پانی سوٹ نہیں کر رہا تھا۔ ”
ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے نانو کو بتایا تھا۔
”بیمار ہو گئی تھیں مگر تم نے مجھے تو نہیں بتایا۔ ثمینہ نے بھی فون پر ذکر نہیں کیا ۔ ”
نانو اٹھ کر تشویش بھرے انداز میں اس کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔
”میں نے منع کر دیا تھا۔ آپ خواہ مخواہ پریشان ہو جاتیں ،ویسے بھی زیادہ سیریس بات نہیں تھی۔ ”
اس نے لاپروائی سے کہا تھا۔
”پھر بھی تمہیں بتانا تو چاہیے تھا، اس طرح…؟”
”نانو ! پلیز میں ٹھیک ہوں۔ آپ خود دیکھ لیں کیا اب بیمارلگ رہی ہوں؟ ”
اس نے بات ٹالنے کی کوشش کر تے ہوئے کہا۔
”کرسٹی کہاں ہے۔ اسے یک دم جیسے یاد آ یاتھا۔
”سیڑھیوں کے نیچے سو رہی تھی۔ میں نے تم سے چائے کا بھی نہیں پوچھا ،میں ذرا تمہارے کھانے کے لئے کچھ کہہ کر آ تی ہوں۔ ”
نانو اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئیں۔ اس نے گہرا سانس لے کر صوفہ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ ایک ماہ بعد واپس آ کر اسے بہت سکون بہت طمانیت کا احساس ہو رہا تھا۔ یوں جیسے وہ گھر واپس آ گئی ہو۔ ہر چیز اسی طرح تھی۔ وہ اٹھ کر کھڑ کی کے پاس آئی۔مالی گھاس کاٹ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر تک بے مقصد اسے دیکھتی رہی، پھر وہاں سے کوریڈور کی طرف آگئی تھی۔ کوریڈور کراس کرنے کے بعد اسے سیڑھیاں نظر آ ئیں۔ بے اختیار ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہو ئی گئی۔
”کرسٹی!”
اس نے بلند آواز میں پکارا۔
میاؤں کی آواز کے ساتھ ایک بلی سیڑھیوں کے نیچے نمودار ہوئی اور تیزی سے اس کی طرف لپکی۔ وہ گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گئی تھی۔ بلی سیدھی اس کے پاس آئی تھی اس نے اسے گود میں بٹھا لیا۔ چند منٹوں تک وہ اس کا سر اور جسم سہلاتی رہی پھر اس نے اسے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنے چہرے کے پاس کیا تھا۔
”میں نے تمہیں بہت ،بہت ، بہت مس کیا۔ ”
اس نے اس سفید بلی سے یوں کہا تھا کہ جیسے وہ اس کی بات سمجھ رہی ہو۔
”تم نے مجھے یاد کیا ؟”
بلی نے میاؤں کی آواز کے ساتھ جیسے اس کی بات کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔
”ہاں میں جانتی ہوں تم نے بھی مجھے بہت مس کیا ہو گا۔ ”
وہ بلی کو اٹھا کر دوبارہ لاؤنج میں آ گئی۔ صوفہ پر بیٹھنے کے بعد اس نے بلی کو بھی اپنی گود میں بٹھا لیا اور بہت نرمی اور محبت سے اس کا جسم سہلانے لگی۔
”تو پہنچ گئی یہ تمہارے پاس۔ ”
نانو اس وقت کچن سے آئی تھیں وہ ان کی بات پر مسکرا ئی۔
”نہیں اس کو تو پتہ بھی نہیں چلا میں خود ہی لے کر آئی ہوں۔ نانا کہاں ہیں ،نانو!”
اسے بات کرتے کرتے اچانک یاد آ یا تھا۔
”وہ گھر پر ہی تھے ،تمہارا انتظار کر رہے تھے پھر اچانک جم خانہ سے فون آ گیا کوئی کام تھا وہاں۔ مجھ سے کہہ کر گئے تھے کہ تین، چار گھنٹوں تک آ جائیں گے۔ اب دیکھو کہ ان کے تین ، چار گھنٹے۔ تین ، چار ہی رہتے ہیں یا۔۔۔۔۔!”
نانو نے اس کے پاس صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہاتھا۔
”السلام علیکم !علیزہ بی بی ! کیسی ہیں آپ؟”
اسی وقت خانساماں چائے کی ٹرے لے کر آیا، اور اس نے آ تے ہی علیزہ کو مخاطب کیا تھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ،مرید بابا! آپ کیسے ہیں؟”
اس نے جواباً ان کا حا ل پوچھاتھا۔
”اللہ کا شکر ہے بی بی! اس بار تو آپ نے بہت دیر لگا دی واپس آتے آتے۔ ”
مرید بابا نے چائے کی ٹرے اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہاتھا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۱۶ (آخری قسط)

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۲

4 Comments

  • Want to read umeera ahmad books

  • Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
    Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why

  • Ye link open nhi horaha

  • Missing umera Ahmed⁩ s novel s

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!