”نہیں بھئی مجھے باہر نہیں جانا۔ کچھ کام کرنے ہیں مجھے، تم خود ہی مالی کے ساتھ جا کر یہ پلانٹس لگوا لو۔”
نانو نے اس سے کہا۔
”میں اس لئے آپ کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا تا کہ آپ لان میں جگہ سیلیکٹ کر لیں، ان پلانٹس کے لئے بعد میں آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو کہ میں نے غلط جگہ پر پلانٹس کیوں لگوا دیئے ہیں۔
”نہیں ! مالی اچھا ہے ، وہ تمہیں بتا دے گا کہ یہ کہاں ٹھیک لگ رہے ہیں اور کہاں نہیں۔ تمہیں اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی تم جہاں بھی پلانٹس لگواؤ گے مجھے برا نہیں لگے گا کیونکہ وہ تمہارے لگوائے ہوئے پلانٹس ہوں گے۔”
عمر نے نانو کی بات پر مسکرا کر انہیں دیکھاتھا۔ علیزہ نے نانو کی آنکھوں کی چمک کو کچھ اور گہرا ہوتے دیکھا اسے ان دونوں کی مسکراہٹیں بری لگی تھیں۔
”چلو علیزہ ! ہم دونوں پلانٹس لگواتے ہیں۔”
عمر نے کھڑے ہوتے ہوئے اسے آفر کی تھی۔
”میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے،کہ مجھے گارڈننگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر آپ مجھے ساتھ لے جاکر کیا کریں گے۔”
علیزہ نے سنجیدگی سے اسے کہا تھا۔
”تم آؤ تو، دلچسپی بھی پیدا ہو ہی جائے گی۔ میں اسی لئے تو تمہیں ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔”
عمر نے بڑے ہشاش بشاش لہجہ میں اس سے کہا تھا۔
”نہیں میں نے آپ سے کہا ۔۔۔۔۔”
علیزہ نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر نانو نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”کم آن علیزہ ! جب وہ بار بار تم سے کہہ رہا ہے تو اتنا نخرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چلی جاؤ اس کے ساتھ۔”
علیزہ نے نانو کے چہرے کو دیکھا تھا،وہاں ناگواری کے تاثرات نمایاں تھے۔ وہ خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔ عمر ملازم کو پودے اٹھانے کے لئے کہہ رہا تھا۔ وہ بجھے دل کے ساتھ باہر لان میں آ گئی تھی۔ کچھ دیر بعد عمر بھی لان میں نکل آیا تھا۔ وہ بے مقصد لان میں چکر لگانے لگی تھی۔
عمر مالی کے ساتھ مل کر لان میں پودے لگوا رہا تھاگاہے بگاہے وہ علیزہ سے بھی رائے لے لیتا۔ وہ ہوں ہاں میں جواب دے کر اس کے پاس سے ہٹ جاتی۔ وہ مالی سے پودے لگواتے ہوئے خاصے غور سے اس کے چکروں کو دیکھتا اور کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں مالی نے سارے پودے لگا دئیے تھے۔ عمر نے واپس اندر جانے کی بجائے اپنے کمرے میں رکھے ہوئے ان ڈور پلانٹس بھی باہر ہی منگوالئے تھے۔ علیزہ نے بے زاری سے ملازم کو انڈور پلانٹس کوباہر لاتے دیکھا۔
”ان پلانٹس کی کٹنگ وغیرہ کر دیتے ہیں۔ پھر کل تک انہیں یہیں لان میں ہی رہنے دوں گا۔ تا کہ انہیں کچھ روشنی وغیرہ مل جائے۔ لو علیزہ ! تم بھی ان پلانٹس کو prune کرنا (تراشنا) شروع کر دو کام جلدی ختم ہو جائے گا۔”
اس نے علیزہ کو پاس بلا کر اسے ایک قینچی تھما دی تھی۔ وہ بے دلی سے پودوں کی کٹنگ کرنے لگی۔ عمر بڑی دلجمعی اور مہارت سے پودوں کی تراش خراش کر رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ ہر پودے کے باے میں بھی اسے کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا۔ وہ گارڈینیا کی کٹنگ کر رہی تھی کہ اس نے عمر کو کہتے ہوئے سنا۔
”یہ میرا سب سے فیورٹ پلانٹ ہے۔”
وہ ہاتھ روک کر اسے دیکھنے لگی تھی۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ اس پلانٹ کو دیکھ رہا تھا۔
”مجھے زندگی میں بہت زیادہ چیزوں میں دلچسپی نہیں ہے ، مگر جن چیزوں میں ہے ان سے بہت دلچسپی ہے۔ یہ سارے پلانٹس بھی ان ہی چیزوں میں شامل ہیں۔ پتہ ہے علیزہ! یہ پلانٹس بعض دفعہ مجھے اپنے فرینڈز کی طرح لگتے ہیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ میری آواز سنتے ہیں،شاید جواب بھی دیتے ہیں ، میں بہت چھوٹا تھا جب مجھے ان ڈور پلانٹس لگانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ شاید میں سات یا آٹھ سال کا تھا جب اپنے ہاتھوں سے ایک پلانٹ لگا یا تھا بعد میں تو جیسے عادت سی ہو گئی۔ یہ کمرے میں ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کمرے میں کوئی اور زندہ چیز موجود ہے، جو سانس بھی لیتی ہے ، اور شاید میرے وجود کو بھی محسوس کر لیتی ہے۔”
علیزہ کو اس وقت یوں لگا جیسے اس کا دماغ خراب ہے۔ اس نے کچھ دیر حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”تم سوچ رہی ہو گی میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔”
عمر نے اس کا ذہن پڑھ لیا تھا۔
وہ گڑ بڑا گئی تھی ۔
”تم اگر ایسا سوچ رہی ہو تو غلط نہیں سوچ رہی۔ ہو سکتا ہے۔ میرا دماغ واقعی خراب ہو گیا ہو مگر میں جس کلچر جس سوسائٹی سے آیا ہوں، وہاں سب کے دماغ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جب انسانوں سے آپ کی محبت ختم ہو جائے توپھر چیزوں سے محبت شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے باہر لوگوں کو ، جانوروں سے محبت ہوتی ہے ، پلانٹس سے محبت ہوتی ہے، پینٹنگز سے محبت ہوتی ہے۔ میوزیم ، آرٹ گیلریز اور تھیٹر سے محبت ہوتی ہے۔ میں بھی اسی ماحول میں پیدا ہوا ہوں وہیں بڑا ہوا ہوں مجھے بھی انسانوں کے بجائے چیزوں سے زیادہ محبت ہے۔ ٹھنڈے ملک میں رہتے رہتے بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ میں بھی cold blooded ، جانور بن گیا ہوں۔”
وہ بات کرتے کرتے اچانک قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا تھا۔
”ہے نا مزے کی تھیوری؟ Cold blooded animal!”
اس نے علیزہ سے پوچھا تھا، مگر علیزہ کو یوں محسوس ہو ا کہ جیسے اسے اس کی رائے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ خود ہی اپنے جملے کو انجوائے کر رہا تھا۔ سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے وہ اچانک مذاق کرنے لگا تھا۔ وہ کچھ دیر غور سے اسے دیکھتی رہی، جیسے اسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو ، اور عمر جہانگیر سے یہ بات چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ وہ کچھ بولتے بولتے بات بدل گیاتھا، بڑی مہارت کے ساتھ اس نے سب کچھ کیمو فلاج کر لیا تھا، اور یہ کام کرنے میں کوئی اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
”وائٹ کلر مجھ پر بہت اچھا لگتا ہے ، ہے نا علیزہ ؟”
اس نے یک دم سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کی بڑی بے خوفی اور بے تکلفی سے پوچھاتھا۔
”اور خاص طور پر Versaceکی شرٹس۔”
4 Comments
Want to read umeera ahmad books
Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why
Ye link open nhi horaha
Missing umera Ahmed s novel s