کمرے کا دروازہ یک دم کھل گیاتھا۔ وہ یک دم ہڑ بڑا گئی تھی،اور کمرہ ایک بار پھر اس وجود سے خالی ہو گیا تھا۔
”علیزہ بی بی ! مجھے بیگم صاحبہ نے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہی ہیں، کمرے کی سیٹنگ بدلنی ہے۔ تو مجھے بتا دیں، میں چیزیں اٹھا کر ادھر ادھر کر دوں گا۔ ”
ملازم نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا تھا۔ وہ کچھ دیر خالی الذہنی کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہی ، پھر جیسے وہ اپنے حواس میں آگئی۔ اس نے پرفیوم کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ہاں میں کچھ چیزیں ادھر ادھر کروانا چاہتی ہوں ، مگر پہلے تم اسٹور روم میں جا کر وہ پردے نکالو جو پچھلے ماہ تم نے یہاں سے اتارے تھے۔ ”
علیزہ نے اسے ہدایات دینا شروع کر دیا تھا۔
”وہ نیلے والے !”
ملازم نے علیزہ سے پوچھا تھا۔
”ہاں ! وہی والے ، اور دیکھو ویکیوم بھی لے آؤ۔ ”
ملازم نے اس کی ہدایات پر سر ہلانا شروع کر دیا۔ وہ واپس مڑ رہا تھا جب علیزہ نے ایک بار پھر اسے روکا۔
”اچھا دیکھو، واپس آؤ تو ساتھ حاکم کو بھی لیتے آنا۔ میں چاہتی ہوں کہ کمرہ جلدی صاف ہو جائے۔ ”
اس نے ملازم کو روک کر اسے مزید ہدایات دی تھیں۔
”جی ٹھیک ہے!”
ملازم کمرے سے نکل گیاتھا۔
وہ ایک بار پھر کمرے کا جائزہ لینے لگی تھی۔ کمرے میں بہت سے ان ڈور پلانٹس رکھے ہوئے تھے،اور یہ سب عمر کی چوائس تھے۔ اسے جن چند چیزوں میں دلچسپی تھی ،ان میں باغبانی بھی تھی۔ وہ جتنا عرصہ وہاں رہا تھا اس نے گھر کو اپنی پسند کے ان ڈور پلانٹس سے بھر دیا تھا۔ مہینے میں ایک دن وہ ان سب پودوں کو لے کر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ ان کی تراش خراش کرتا، ان میں کھاد ڈالتا، ان پر دواؤں کا سپرے کرتااور اپنے کمرے میں ان کی جگہ بدلتا رہتا۔ اس کے جانے کے بعد یہ کام علیزہ نے سنبھال لیا تھا۔
”ان پلانٹس کو باہر لان میں لے آؤ۔ ”
ملازم جب پردے لے آیا تھا تو علیزہ نے اسے ایک نئی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ وہ خود بھی کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ ملازم باری باری سارے پلانٹس باہر لے آیا۔ علیزہ نے پودوں کو دیکھنا شروع کر دیا، اس نے ان کی کٹنگ شرو ع کر دی تھی۔ وہ منی پلانٹ کو دیکھ رہی تھی چند چھوٹی شاخیں خشک ہو کر لٹک رہی تھیں،اس نے اسے چھانٹنا شروع کر دیاتھا۔ وہ بڑی احتیاط سے بیل کی شاخوں اور پتوں کو کاٹ رہی تھی۔ صرف ایک لمحہ کے لئے اس کا دھیان کہیں اور گیا خشک شاخ کے ساتھ ایک ہری بھری شاخ بھی کٹ گئی تھی۔ وہ یک دم ساکت ہوگئی تھی۔
”کوئی بات نہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ تم دیکھنا، اب یہ بہت تیزی سے بڑھے گا اور پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو جائے گا۔ مجھ سے جب بھی کوئی پلانٹ اس طرح کٹتا ہے پھر وہ پہلے سے بہت اچھا ہو جاتا ہے۔”
4 Comments
Want to read umeera ahmad books
Masha Allah it was an absolute pleasure to reread it I remember i have read this novel only once in my lifetime that too some 10 years before
Umer Jahangir is a lovely character. Feels like he is so caring towards Alizey but i don’t understand is Alizey intentionally destroying his favourite things but why
Ye link open nhi horaha
Missing umera Ahmed s novel s