اللہ کی مرضی — احسان راجہ

”ہائے کوئی اس لڑکی کو رُلا ہی دیتا ورنہ اس کے اندر تو ورم بن جائے گا۔”
یہ وہ نصیحتیں اور مشورے تھے جو ہر بڑی بوڑھی نسیم کے پاس بیٹھتے، اٹھتے اور گزرتے اسے دے رہی تھی۔ رنج و الم کی کیفیت باہر بھی کچھ کم نہ تھی۔ مگر مرد پھر بھی مرد تھے۔ ہر کوئی اپنی ذہنی، جسمانی اور مالی استطاعت کے مطابق مصروفِ عمل تھا۔ کسی نے جب ایک تیاری نہ ہونے کی نشان دہی کی تو اسے بتایا گیا کہ فوج والے اول تو میت کو نہلا کر اور کفن پہنا کر بھیجتے ہیں اور شہید کو تو ویسے بھی بغیر نہلائے انہی کپڑوں میں دفن کرنا ہوتا ہے۔
لوگ ظہر کی نماز پڑھ آئے تھے۔ قریبی احباب تو لگاتار موجود تھے۔ دوسرے مرد و زن آ جارہے تھے کہ کسی نے گائوں کی طرف آنے والی کچی سڑک پر اڑتی دھول کی نشان دہی کی۔ سبھی اُدھر متوجہ ہوگئے۔ شاید میت آرہی تھی۔ کئی لوگ استقبال کے لیے گائوں کے باہر آگئے۔ کافی مجمع اکٹھا ہوگیا تھا، دھول قریب آتی جارہی تھی۔ آخر دو فوجی گاڑیاں اور ایک سول ایمبولینس لوگوں کے پاس آکر رک گئیں۔ ایمبولینس آگے آگے تھی جس میں ڈرائیور کے علاوہ فرنٹ سیٹ پر ایک JCO صاحب بیٹھے تھے۔ لوگوں نے انہیں بتایا کہ تینوں گاڑیاں چھوٹی ہیں اور اندر گھر تک جاسکتی ہیں۔ قافلہ پھر حرکت میں آگیا۔ تمام لوگ گاڑیوں کے پیچھے تھے۔ ایک دو لڑکوں کو راستہ بتانے کے لیے آگے لگا دیا گیا تھا۔ تھوڑی دور اندر جا کر جب قافلہ ایک چوک سے آگے نکلا ہی تھا تو پچھلی گاڑی میں سے ایک باوردی فوجی، جس کی ڈاڑھی بے ترتیب بڑھی ہوئی اور رنگ جھلسا ہوا تھا، اپنی بندوق تھامے باہر نکلا اور بھاگ کر JCOصاحب کے کان میں سرگوشی کی:
”سر جی ہم نے چوک سے رائٹ مڑنا ہے۔” قافلہ پھر رک گیا۔ لوگ ایمبولینس کے قریب آگئے۔





”صاحب جی گاڑیاں آگے جاسکتی ہیں۔” مجمع میں سے کسی نے کہا۔
”نہیں ہم نے تو اُدھر مڑنا ہے۔” سپاہی نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں جی راجا بہادر خان کا گھر تو اُدھر ہے۔” مجمع میں سے پھر آواز آئی ”راجہ بہادر خان” سپاہی نے زیر لب نام کو دہرایا۔ ایک چنگاری سی اس کے دماغ پر گری اور پورے جسم میں سرایت کر گئی۔ پوری صورت حال اس کی سمجھ میں آگئی تھی اور اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھااب وہ تن کر کھڑا ہوگیا۔ وہ کسی کو تلاش کررہا تھا مگر ہاں! اندر اندر اس کی خواہش تھی کہ اسے بھی کوئی پہچان لے۔
کیسی بے بسی ہے یارو کس طرح کے لوگ ہیں
راہ بتلاتے تو ہیں پہچانتا کوئی نہیں
آخر اس نے مطلوبہ شخص کو تلاش کرلیا۔ JCO صاحب کو لے کر وہ اس طرف چل پڑا۔ لوگ اس بات پر حیران تھے کہ اس ناواقف نے شیرو کے والد کو خود سے کیسے پہچان لیا۔
”سر جی یہ ہیں میرے والد صاحب راجا بہادر خان” مگر حواس باختہ والد پھر بھی فقرہ کی باریکی کو نہ سمجھ سکا۔ آخر کار سپاہی چیختا ہوا پھٹ پڑا۔
”ابا جی مینوں تے پچھانوں۔ میں آں تہاڈا پتر شیر محمد۔”
والد نے جب یہ الفاظ سنے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بیٹے کو بانہوں میں جکڑ لیا اور چومتا ہی چلا گیا۔ اب JCO صاحب کو کچھ کچھ سمجھ آرہا تھا اور لوگ بھی اس نوجوان کو پہچان پا رہے تھے جسے پہلے فوجی وردی، بے ترتیب بڑھی ہوئی ڈاڑھی اور سیاچین کی موسمی شدت سے جھلسی ہوئی رنگت کی بنا پر پہچان نہیں سکے تھے۔
مجمع کا ماحول یک سر اور یک دم ہی تبدیل ہوگیا تھا۔ وہیں چوک میں ہی مبارک مبارک اور الحمدُللہ کی صدا گونجنے لگی اور کسی کو یہ خیال نہ رہا کہ کسی شیرو کی میت تو ابھی بھی ایمبولینس میں پڑی ہے۔ زندہ شیرو نے وہیں سے ہی ایک سمجھ دار لڑکے کو مسجد بھیج دیا اور تھوڑی ہی دیر میں مسجد سے اعلان ہورہا تھا :
”شہید سپاہی شیر محمد راجہ بہادر خان دا پتر نئیں بلکہ بہادر خان اعوان دا پتر اے۔”
غم کا پہاڑ راجا بہادر خان کے سر سے اتر کر بہادر خان اعوان کے سر پر جا گرا تھا، جوکہ چوک میں اسی مجمع کے اندر موجود تھا۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے… راجا بہادر خان جو کل سے ”بھائی بہادر اللہ دی مرضی” کے تعزیتی کلمات سینکڑوں دفعہ سن چکا تھا اب خود یہی فقرہ بہادر خان اعوان کے گلے لگ کر روتا ہوا کہہ رہا تھا اور اسے بھی اب سمجھ آرہا تھا کہ اس فقرہ کے کہنے اور سننے میں کتنا فرق ہے۔ شیر محمد میت والے قافلہ کو لے کر اب بہادر خان اعوان کے گھر چلا گیا تھا۔ اسے اپنے گائوں میں کسی گائیڈ کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ مسجد کا اعلان سبھی نے سُن لیا تھا۔ راجہ بہادر خان کے گھر کے اندر موجود خواتین نے بھی اور باہر بیٹھے مردوں نے بھی۔ رونے والوں کا رونا بند ہوگیا تھا اور کئی خاموش دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ پل بھر میں سارا مجمع بہادر خان اعوان کے گھر منتقل ہوچکا تھا۔ اعوانوں نے اپنی خاندانی قبروں کے نزدیک نئی قبر کی کھدائی شروع کروا دی، کیوں کہ پہلی تیار شدہ قبر کی مٹی اس کی قسمت میں نہ تھی۔ کہتے ہیں ناں کہ ہر کسی کی آخر آرام گاہ ازل سے ہی طے ہے۔ اس گھر کے اب وہی حالات تھے، جو دو دنوں سے ادھر تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب۔ میت کو زیادہ دیر رکھنے سے منع کردیا گیا تھا۔ جس بنا پر دور کے رہائشی مگر قریبی رشتہ دار چہرہ دیکھنیبھی نہیں پہنچ سکے تھے۔ جنازے کے لیے فوجیوں نے قومی پرچم میں لپٹے ہوئے پھولوں سے مزّین تابوت کو اپنی نگرانی میں لحد میں اتارا ۔ مٹی ڈالی، پھول چڑھائے اور فوجی روایات کے مطابق پورے گائوں کے سامنے شہید کو سلامی دی۔ لوگوں کا جذبہ عروج پر تھا۔ پاکستان، پاک فوج اور شہید سپاہی شیر محمد زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔ پرُوقار جذباتی ماحول سے مرعوب ایک نوجوان نے جب یہ کہا: ”واہ! عجب شان ہے، رتبہ ہے اور عظمت ہے شہید کی۔” تو اس کے دوست نے اسے فوراً جواب دیا: ”مگر میرے یار اس رتبے کے لیے خود مرنا اور گھر والوں کو زندہ درگور کرنا پڑتا ہے۔”
لوگ سوگ وار بھی تھے اور فخریہ انداز میں خوش بھی، کیوں کہ شہید بھی تو انہی میں سے تھا۔ بہادر خان اعوان اور راجہ بہادر خان دونوں ساتھ ساتھ تھے۔ بہادر خان اعوان اپنے شہید بیٹے کی روح کو خوش کرنے کے لیے خاص طور پر صاف ستھرے کپڑے پہن کر آیا اور صبر و استقامت کی مثال بنا پھر رہا تھا۔ لوگ دونوں کو مبارک باد دے رہے تھے۔ ایک کو مردہ بیٹے کے زندہ ہونے کی اور دوسرے کو بیٹے کے شہید ہونے کی۔ رات ہوتے ہی سارے فوجی واپس چلے گئے مگر شیر محمد یعنی زندہ شیرو اب ایک ماہ کی چھٹی پر تھا۔ فوجی وردی میں ایک آزاد سویلین۔ ایک ہی وقت میں چار چار لوگوں کی بانہوں میں جکڑا ان کے گلے مل رہا تھا اور ان سے پیار لے رہا تھا۔ یہ سلسلہ قبرستان سے واپس گائوں جانے تک یوں ہی چلتا رہا۔ اب بہادر خان اعوان کے گھر کی وہی حالت تھی جو کل راجا کے گھر کی تھی۔





شیر محمد اب شہید کی شہادت کے واقعات تفصیلاً بتا رہا تھا۔ یہ دو تھے اور کس طرح ایک جھڑپ میں انہوں نے دشمن کے چھے سات فوجیوں کو تاک تاک کر مارا تھا۔ جب لاکھ کوشش کے باوجود یہ ان کی گولیوں کی بوچھاڑ میں نہیں آئے تو انہوں نے توپ سے گولے برسائے۔ ایک عین ان کے سامنے پھٹا اور یہ دونوں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ یعنی ملک اور قوم پر قربان، ہم پر قربان، ہماری نسلوں پر قربان۔ کیوں کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ شیر محمد لوگوں کو اپنے سفر کے واقعات بھی سنا رہا تھا اور ساتھ ساتھ لوگ کھانا بھی کھا رہے تھے۔ وہاں سے اٹھ کر راجا فیملی جب گھر پہنچی تو وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ بہت سے لوگ ان کے ہم راہ تھے اور گھر میں پہلے سے ہی ڈھیروں موجود بھی تھے۔ یہ سارے لوگ جو کل دکھ بانٹنے آئے تھے آج خوشیاں لوٹانے آئے ہوئے تھے۔ کل کے سانحہ کے بعد ماں کی زندہ بیٹے سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ اندر آتے ہی اس نے بیٹے کو بانہوں میں جکڑ لیا۔ پھوپھی۔ بھابھی اور دوسری خواتین بھی اس کے ساتھ چمٹ گئیں۔ سبھی زار و قطار روئے جارہی تھیں اور اسے چوم رہی تھیں۔ مگر یہ سارے آنسو خوشی کے تھے۔ نسیم جو اپنے جذبات کا اظہار کُھلے عام نہیں کرسکتی تھی، ہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے اپنے بیٹے کو چوم چوم کر پورا کررہی تھی۔
انسان خوشی سے دکھ میں فوراً چلا جاتا ہے مگر دکھ سے خوشی کی طرف لوٹنے میں تھوڑا سا وقت لگتا ہے۔ چناں چہ دس پندرہ منٹ بعد گھر میں چھائی یہ سوگ وار کیفیت یک سر ختم ہوچکی تھی۔ ماں بیٹے کو اپنے ساتھ بٹھائے بس دیکھے جارہی تھی۔پھر وہ آہستہ سے گویا ہوئی۔
”بیٹے سچی بات ہے کہ اگر میں بھی لاعلمی میں تجھے اس حالت میں دیکھتی تو نہ پہچانتی۔”
آہستہ آہستہ خوشیاں لوٹ رہی تھیں۔ نسیم جو دوپہر تک مردہ جان بت بنی بیٹھی تھی، اب تتلی کی طرح اڑتی پھر رہی تھی۔ چھوٹی بہنوں کے چہرے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی شادی والا گھر ہے۔ بس صرف میٹھے پکوان اور شوخ رنگ کپڑے نہ تھے کیوں کہ پورا گائوں جواں مرگ کے صدمہ سے گزر رہا تھا۔ موت اس گھر میں نہ سہی مگر دوسرے گھر میں تو تھی۔ اگر کوئی شیر محمد کو گزرے کل کی بات بتانا شروع کرتا تو ماں انگلی کے اشارہ سے منع کردیتی۔ لوگ اماں سے مٹھائی کا وعدہ لے کر رخصت ہورہے تھے اور وہ بھی خلوصِ نیت سے ایفائے عہد کا ذمہ اٹھائے بیٹھی تھی۔ شیر محمد بھی کل کی پڑی دھول نہا دھو کر اتار آیا تھا اور وردی سے بھی آزاد ہوگیا تھا۔ خاص آزاد سویلین۔ اسے یاد ہی نہیں تھا کہ سیاچین میں کب نہایا تھا۔ گائوں کے سبھی لوگ تو چلے گئے تھے مگر کل کی غلط اطلاع پر بلائے گئے ذاتی مہمان، رشتہ دار، خاندانی دوست اور میرے جیسے غم گسار تو موجود تھے۔ شیر محمد دولہا بنا سب کے درمیاں بیٹھا کہانیاں سنا رہا تھا۔
”ماں فوج والوں نے تو مجھے اس لیے میت کے ساتھ بھیجا تھا کہ میں اُدھر سیاچین میں تھا اور پھر اسی گائوں کا تھا ورنہ آپ لوگوں نے تو اسی کو اپنا بیٹا سمجھ کر اپنے قبرستان میں دفن کردینا تھا کیوں کہ تابوت میں شیشہ نہ ہونے کی وجہ سے پہچان تو بالکل ناممکن تھی۔”
اماں بولی : ”اللہ بھلا کرے شادی خان بد خبر ے دا جنے دو دن سانوں ہلقان کیتی رکھیا۔”(اللہ بھلا کرے شادی خان کا جس نے یہ بری خبر سنا کر دو دن ہمیں ہلکان کئے رکھا۔”)
مگر اندر اندر میں شرمندہ ہورہا تھا کہ اس بے چارے کیا کیا قصور اسے گھر تو میں نے دکھایا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

انجان راستہ — ثاقب رحیم خان

Read Next

دیواریں — معافیہ شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!