یہ شاید 1988ء کے آس پاس کی بات ہے، یاد نہیں کیوں میں ان دنوں گائوں گیا ہوا تھا۔ باہر زمینوں میں ہریالی تھی، یعنی برسات کے بعد کے دن تھے۔ بارانی علاقوں میں سبزہ ساون کے بعد ہی نظر آتا ہے۔ عصر کے بعد کا وقت تھا اور بیٹھک میں، میں اکیلا ہی تھا۔ اس وقت ہمارا گھر گائوں کے شروع میں ہی تھا۔
”السلام و علیکم۔” دروازے پر اچانک نمودار ہونے والے پردیسی نوجوان نے سلام کیا۔
میں نے اسے اندر آنے کو کہا مگر اس نے ”جلدی” کی معذرت کرلی اور گائوں کے چوکی دار کا پتا پوچھا۔ مجھے علم تھا کہ وہ آج تحصیل آفس گیا ہوا ہے۔ نووارد کو جب میں نے یہ بتایا تو وہ اندر آگیا اور بولا: ”میں نے دراصل سپاہی شیر محمد ولد بہادر خان کے گھر جانا ہے۔”
میرا ماتھا ٹھنکا۔ گائوں کے بیش تر نوجوان فوج میں ملازم تھے۔ یہ آنے والا جوان بھی بہ ظاہر ڈیل ڈول، خاص کر اپنے بالوں کے سٹائل سے فوجی ہی لگ رہا تھا۔
”خیریت تو ہے؟ اس کے بیٹھتے ہی میں نے پوچھ لیا۔
”وہ جی دراصل شیر محمد سیاچن میں ایک چھوٹی سی لڑائی میں شہید ہوگیا۔ میرا نام شادی خان ہے۔ میں سٹیشن ہیڈکوارٹر سے یہی اطلاع دینے آیا ہوں۔” اس نے اپنے یہاں آنے کی وجہ تفصیلاً بیان کردی۔
یہ وہ دور تھا جب موبائل تو کیا لینڈ لائنبھی اتنے عام نہیں ہوئے تھے اور ٹیلی گرام کی بروقت ترسیل دور دراز دیہاتوں کے لیے ایک مشکل بلکہ ناممکن عمل تھا۔ شیر محمد کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ میں بجھے دل کے ساتھ اسے لے کر اُدھر چل پڑا۔
شیر محمد گائوں کا ہردل عزیز نوجوان تھا۔ خوب صورت، لمبا تڑنگا، شوخ طبیعت، مگر حد درجہ ہم درد اور ملنسار۔ مڈل پاس کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد علاقائی روایت کے مطابق فوج میں چلا گیا تھا۔ اس دوران وہ گائوں کی طرف سے کبڈی بھی کھیلتا رہا تھا اور ارد گرد کے قصبوں میں شیرو کے نام سے کافی مشہور بھی ہوگیا تھا۔ میں نے جب کبڈی کا ذکر کیا تو شادی خان چونکا۔
”پھر تو میں نے اسے کبڈی کھیلتے دیکھا ہوا ہے۔ میں خود اسی علاقے کے فلاں گائوں کا رہنے والا ہوں۔ آرمی والوں نے اسی تعلق کی وجہ سے یہ ڈیوٹی میرے ذمہ لگائی ہے۔” شیر محمد کی شادی دو سال قبل اپنی پھوپھی کی بیٹی نسیم سے ہوئی تھی اور اس کا شیر خوار بیٹا بھی تھا۔
ہم شیر محمد کے گھر پہنچ چکے تھے۔ وہی دیہاتی طرز کا گھر، پیچھے ایک لائن میں تین چار کمرے، سب کمروں کے سامنے ایک لمبا سا برآمدہ اور آگے بڑا کھلا صحن، چار دیواری زیادہ اونچی نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا پورا منظر ہمارے سامنے تھا۔ کمرے مشرق کی طرف ہونے کی بنا پر سایہ برآمدہ سے باہر بھی کافی پھیل چکا تھا۔ شیرو کی بھابھی تندوری میں لکڑیاں جلا رہی تھی، اس کی ماں تخت پوش پر بیٹھی شاید نماز یا تسبیح پڑھ رہی تھی۔ اس کا بھائی اور والد مویشیوں کو باندھتے پھر رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ ابھی ابھی انہیں چرا کر لائے ہیں۔ نسیم ایک چارپائی پر سمٹ کر بیٹھی تھی۔ جیسے بیٹے کو دودھ پلا رہی ہو۔ شیرو کی دونوں چھوٹی بہنیں، جوکہ اتنی چھوٹی بھی نہیں تھیں،۔ دوسری چارپائی پر بیٹھی شیرو کی بھتیجی کے ساتھ کھیل رہی تھیں اور قہقہے لگا رہی تھیں۔ ہمیں دیوار کے پاس کھڑا دیکھ کر گھر کا کتا بھونکتا ہوا ہم پر لپکا۔ شاید وہ شادی کو بری خبر سنانے سے منع کررہا تھا۔ ہماری ہمت بھی نہیں بن رہی تھی کہ کون کس طرح اس ہنستے کھیلتے اور پرسکون ماحول میں ایسی اندوہ ناک خبر سنائے۔ کتے کے اچانک بھونکنے پر شیر محمد کا معصوم بیٹا نیند سے جاگ کر زور زور سے رونا شروع ہوگیا تھا۔ ہوسکتا ہے پریوں نے چپکے سے اس کے کانوں میں کوئی منحوس سرگوشی کردی ہو۔ سارا گھر ہماری طرف متوجہ ہوچکا تھا۔ چناں چہ میں نے ہمت کرکے شیرو کے بڑے بھائی احمد کو آواز دے ہی دی۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے جواب دیا۔
”بھائی اندر آجائو۔”
اس دوران ہم ذرا پیچھے ہٹ کر اوٹ میں چلے گئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ ایک بوڑھے باپ کو یہ الم ناک خبر نہ سنائی جائے۔ جوان بیٹے کی موت کی خبر چہ جائے کہ وہ ایک عظیم موت تھی، شہادت کی موت۔ مگر پھر بھی ایک بیٹے کی موت تھی۔ لمحہ بھر وقفہ کے بعد ہم نے احمد کے بہ جائے اس کے والد کو دروازے سے نکلتے دیکھا۔
”اُف خدایا یہ کیا ہوگیا۔ اب کیا ہوگا۔” ہم ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہے تھے کہ وہ ہمارے قریب آگئے۔
”کی گل اے پتر اندر کیوں نئیں آئے؟”
ہم خاموشی سے زمین کو گھور رہے تھے۔ ہماری خاموشی ہمیں مشکوک بنا رہی تھی۔ جہاں دیدہ بزرگ نے تھوڑا سا توقف کیا اور ہمیں غور سے دیکھتا رہا۔ پھر شادی خاں کو کندھوں سے پکڑ کر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پرُاعتماد آواز میں بولا:
”اوئے تو میرے پتر شیرے دی کوئی خبر لے کے تے نئیں آیا؟”
ان کی اس بات پر ہم دونوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
شادی خان بولا:
”ہاں جی چاچا جی تہاڈا شیر محمد شہید ہوگیا اے۔”آخر کار شادی خان نے کانپتے ہوئے ہونٹوں سے بوڑھے باپ کو اس کے جوان بیٹے کی شہادت کی خبر سنا ہی دی۔
میں نے دیکھا کہ خاموش بند کس طرح ٹوٹتا ہے اور پھر بے کراں پانی کس طرح بہ نکلتا ہے۔ ان کا چہرہ آسمان کی طرف تھا۔ ہاتھ اوپر اُٹھے ہوئے تھے اوروہ زمین پر اکڑوں بیٹھتے جارہے تھے۔ جو الفاظ میں سن پا رہا تھا وہ شاید یہی تھے۔
”اچھا میرے پُتر! اچھا میرے اللہ! اللہ دی مرضی۔”
ابھی تک گلی میں ہم تینوں ہی تھے۔ مگر چچا کی یہ حالت دیکھ کر دو نوجوان پڑوسی بھی آگئے تھے۔
”کی ہویا چاچا… کیا ہوا چاچا” پاس آکر وہ دونوں نوجوان بولے۔
میرے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
‘شیرا شہید ہوگیا ہے۔”
ہم شیرے کے والد کو سہارا دے کر دروازے کی طرف لانے لگے تو محسوس ہوا کہ وہ باہمت بزرگ اپنے زور پر خود چل رہا ہے۔ پڑوسی لڑکے بھاگ کر اندر احمد کے پاس گئے اور اسے صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ مگر کیا شان تھی جبر اور حوصلہ کی بھاگ کر آیا اور اپنے والد سے لپٹ گیا۔
”اباجی صبر… ابا جی صبر۔” اور آگے سے بوڑھا والد کہہ رہا تھا: ”اوئے شیر محمدا۔ اے تے میری واری سی، تو کیویں لے لئی۔”
یہ الفاظ جب صحن میں گونجے تو پھر کیا باقی تھا جو کسی سے پوشیدہ رہتا؟۔ سب کچھ آشکار ہوگیا۔ نسیم اوڑھنی لپیٹ کر روتے بچے کو لیے کمرے کے اندر چلی گئی تھی۔ احمد کی بیوی تندوری میں پانی انڈیل کر وہاں ساکت بت بنی کھڑی تھی۔ کتا بھی کچھ محسوس کر چکا تھا کیوں کہ دور کونے میں جاکر بیٹھ گیا تھا۔ شیرے کی ماں شیرنی کی طرح لپک کر شادی خان کو اُچک کر چارپائی پر لے جاچکی تھی۔ وہ پوری تفصیل جاننا چاہتی تھی۔ شیرے کی بہنیں سہمی سہمی اُسی چارپائی کے پائیوں پر جھکی گفت گو کی طرف متوجہ تھیں۔ مگر شادی خان کے پاس نہ کچھ تھا نہ ہی بتا سکا۔ تھوڑی دیر کے بعد مسجد سے اعلان ہورہا تھا کہ راجا بہادر خان کا بیٹا سپاہی شیر محمد سیاچین میں شہید ہوگیا ہے۔ جنازے کا اعلان کل میت آنے کے بعد کیا جائے گا۔
بس پھر کیا تھا، آناً فاناً پورا گائوں ان کے گھر موجود تھا۔ رونے کی چیخ و پکار میں عورتوں کے بین مزید اضافہ کررہی تھی۔ لوگوں کے گھروں سے چارپائیاں آرہی تھیں۔ پڑوسیوں نے سارے ڈھور ڈنگر اپنے یہاں منگوا لیے تھے اور جگہ کو چار پائیوں کے لیے صاف کردیا تھا۔ قریبی رشتہ داروں کی طرف سے کھانا بھی آگیا تھا۔ مگر دکھی دلوں میں کہاں کچھ کھانے کی تمنا تھی۔
رات ہوچکی تھی۔ گھر والوں کا دماغ تو تقریباً مائوف تھا۔ رشتہ داروں اور دوست احباب کو اطلاع بھجوائی جارہی تھی۔ نوجوان گھوڑوں، سائیکلوں اور موٹرسائیکلوں پر بے لوث یہ ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ کسی نے خود سے سوزوکی پک اپ نسیم کے میکے والوں کو لانے کے لیے ان کے گائوں بھجوا دی تھی۔ نسیم خود گُم صُم بچے کو بانہوں میں بھینچے برآمدے کے ستون سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھی تھی۔
رات کافی بیت چکی تھی۔ رش بھی تھم گیا تھا۔ مگر پھر بھی کافی مرد و زن اندر اور باہر موجود تھے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ذہن کے مطابق شہادت کے بارے قیاس آرائیاں کررہا تھا۔ مگر سب کی متفقہ رائے تھی کہ گولی سینے پر کھائی ہوگی اور کئی دشمنوں کو مار کر شہید ہوا ہوگا۔ کوئی زندگی کے قصے سنا رہا تھا، تو کوئی کبڈی کے کارنامے۔ ماں اس کی لائی ہوئی چیزوں کو سینے سے لگا کر رو رہی تھی تو بھائی اپنے اکیلے رہ جانے کے احساس سے پر آنسو بہا رہا تھا۔ والد بہادر خان بتا رہا تھا کہ ایک ہفتہ بعد تو اُن کی یونٹ نے سیاچین سے واپس آجانا تھا۔ تب اس کو ایک مہینہ کی چھٹی مل جانی تھی۔ ابھی یہ یادگار یادیں بانٹی ہی جارہی تھیں کہ باہر سے خواتیں کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ شاید نسیم کے گھر والے آ گئے تھے پھر سے کہرام مچ گیا۔ ہر عورت شیر محمد کی والدہ اور بیوی سے گلے لگ کر رو رہی تھی اور اپنے جذبات سے مغلوب ایسے دل خراش بین کررہی تھی کہ اپنے تو اپنے، غیر بھی سسکیوں کے ساتھ رونے پر مجبور تھے۔ مگر کیا مجال کہ نسیم کی آنکھوں سے ایک قطرہ بھی ٹپکا ہو۔ وہ پتھر کی مورتی کی طرح بے حس و بے جان بیٹھی رہی۔ کون سویا تھا رات کو مگر، جس نے بھی صبح دیکھا نسیم اسی جگہ بیٹھی پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ خلائوں میں گھور رہی تھی۔
شیر محمد کے گھر والوں کے لیے تو زندگی تھم چکی تھی مگر قدرت کے شب و روز رواں دواں تھے۔ جوں جوں سورج بلند ہورہا تھا۔ لوگوں کا رش پھر سے بڑھتا جارہا تھا۔
”بھائی بہادر اللہ دی مرضی” یہ وہ ڈائیلاگ تھا جو مردوں میں بہ کثرت استعمال ہورہا تھا اور عورتوں میں بھی شیر محمد کی والدہ ہر کسی کو جواب میں کہہ رہی تھیں۔ ”بس جی اللہ دی مرضی”۔ ماحول انتہائی سوگوار تھا۔ نسیم کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ اتنی دیر سے بھوکی پیاسی تھی، یہ حالت تو ہونی ہی تھی۔
”نسیم بیٹے کچھ کھا پی لو۔ اپنے لیے نہ سہی اس ننھی سی جان کے لیے ہی سہی۔”