الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

‘‘واہ واہ زبردست۔’’ زلیخا نے سارا قصہ سن کر کہا۔ ‘‘تم تو سٹار بن گئے۔’’
حسن صحن میں نانی اور زلیخا کے پاس بیٹھا تھا۔ پاس منا بیٹھا اپنے مدرسے کا کام کرتا تھا۔ نانی کوئی گاڑھا سا محلول ایک پیالے میں گھول رہی تھیں تاکہ اسے زلیخا کے چہرے پر لگائیں، اسے گورا بنائیں۔ حسن مزے سے بیٹھا حویلی میں ہونے والے تمام واقعات سناتا تھا، ساتھ ساتھ مالٹے کھاتا جاتا تھا۔
نانی نے شوق سے کہا۔ ‘‘کب آئیں گی تیری تصویریں؟ میں سارے محلے کو دکھاؤں گی۔’’
زلیخا ہنس کر بولی۔ ‘‘واہ دادی اماں خوب شو بن جائے گی آپ کی۔’’
نانی نے کچھ سوچ کر کہا۔ ‘‘لیکن پہلے نظر اتاروں گی حسن کی۔ اتنا پیار ا میرا بچہ ہے، لوگ سو طرح کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ چشم بددور۔’’
زلیخا نے ہنس کر کہا۔ ‘‘لوگوں کو دکھاتے ہوئے میری تصویر ساتھ رکھ دیجئے گا۔ نظر بٹو کے طور پر۔’’
نانی خفا ہوکر بولیں۔ ‘‘چل فضول باتیں نہ کر۔ یہ کوئی مذاق کی بات ہے؟ تیرے نین نقش خاندان میں سب سے خوبصورت ہیں۔ یہ تو دھوپ میں پھر پھر کر تو نے اپنا رنگ خراب کرلیا ہے۔ یہ دیکھ کتنا اچھا ٹوٹکا ہے میرے پاس۔ ہفتے دس دن لگانے سے گوری ہوجائے گی تو۔’’
یہ کہہ کر پیالے کے محلول میں انگلیاں ڈبوئیں اور زلیخا کے چہرے پر لگانے لگیں۔ زلیخا نے منہ بنایا۔ لیکن نانی کا ہاتھ نہ ہٹایا۔
اتنے میں منے نے سراٹھا کر پوچھا۔ ‘‘آج تاریخ کیا ہے؟’’
نانی نے کہا۔ ‘‘سولہ فروری۔’’
زلیخا بولی۔ ‘‘نہیں نہیں سولہ تو ہفتے کو تھی، آج پیر ہے۔’’
نانی نے زلیخا کے چہرے پر لیپ کرتے ہوئے حسن سے کہا۔ ‘‘اے حسن بیٹا، یہ تیرے ساتھ اخبار پڑا ہے۔ ذرا اٹھا کر آج کی تاریخ بتا دے بچے کو۔’’
حسن نے اخبار اٹھایا اور تاریخ دیکھی۔ 18فروری2019۔ ۱۳جمادی الثانی، ۱۴۴۰ہجری۔ ایک بجلی سی حسن کی آنکھوں کے سامنے کڑکی اور اسے یاد آیا کہ ٹھیک ایک سال پہلے وہ آج کی تاریخ میں وقت کی گردش میں پھنسا، اس زمانے، اس وقت، اس گھر میں آن گرا تھا۔ نظروں کے سامنے اپنی اب تک کی پوری زندگی گھوم گئی۔ اسے ماں باپ یاد آئے، ان کی شفقت و محبت یاد آئی ۔ اپنا مکان عالیشان اور خاصے کے گھوڑے اور خدام سلیقہ شعار اور خواجہ سرا اور داروغہ اور خاص بردار اور امیرانہ ٹھاٹھ یاد آئے۔ وہ ریشم و اطلس، عطر وعنہر اور جواہرات کی تجارت یاد آئی اور رسم وزر میں کھیلنا یاد آیا۔ جب اعلیٰ درجے کی غذائے لذیذ اور بادہ مشک بیز، راح روح، کیمائے فتوح کھانے میں آتے تھے ۔ جب وہ بادشاہوں اور تاجداروں کا سا لباسِ فاخرہ زیب بدن کرتا تھا، کج کلاہی کا دم بھرتا تھا۔ بازار میں نکلتا تھا تو لوگ جھک جھک کر سلام کرنے آتے تھے اور سلام کرنے کے وقت زمین دوز ہوجاتے تھے۔ وہ ٹھاٹھ اور کروفر تھا کہ دنیا اور زرِ دولت کو ہیچ جانتا تھا۔ روپے کو خاک نہیں مانتا تھا۔
اور پھر وہ وقتِ بد آیا کہ پدرِ بزرگوارکو ایک مکارہ ساحرہ نے بزورِجادو بکرا بنایا اور قصائی نے اپنے ہی گھر میں ان کی گردن پر چھرا چلایا۔ عرصے تک باپ کی مفارقت کا ملال رہا۔ بہت برا حال رہا۔ آخر آہستہ آہستہ صبر آیا اور احباب سے ملنے جلنے لگا اور رفقا و مصاحب کی محبت میں شریک ہونے لگا۔ باپ کے مرنے پر جو ترکہ پایا تو خوب آنکھ بند کرکے لٹایا۔ مگر یکا یک تقدیر نے پلٹا کھایا۔ بختِ بد نے روزِ بد دکھایا۔ فاقہ کشی کی نوبت آئی، افلاس وادبار نے صورت دکھائی۔ نوبت بہ اینجا رسید کہ ماں نے اسی غم میں جان گنوائی۔
پھر اس ساحرہ سے سامنا یاد آیا جو باپ کی قاتلہ تھی۔ ساحرہ کا عاشق ہونا، نکاح کا اصرار، حسن کا انکار۔ وہ وقت ایک تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے آیا جب حسن نے چھری تاک کر پھینکی تھی اور ساحرہ نے اسے وقت کی گردش میں پھینک دیا تھا۔ صدیوں کا چکر کاٹتے ہوئے حسن بدر الدین سال دو ہزار اٹھارہ میں آن گرا تھا جہاں اس نے زندگی کے وہ وہ رنگ دیکھے تھے جو کبھی خواب میں بھی نہ سوچے تھے۔
وہ اپنے خیالوں سے اس وقت چونکا جب نانی نے اس کا بازو ہلایا۔ نظر اٹھائی تو دیکھا کہ نانی ، زلیخا اور منا بے حد فکر مندی سے اس کی جانب دیکھ رہے ہیں اور نانی پوچھ رہی ہے۔ ‘‘حسن کیا ہوا بیٹا رو کیوں رہا ہے؟’’
حسن نے بے اختیار ہاتھ سے چہرے کو چھوا۔ اس کے گال آنسوؤں سے تر تھے۔ خود کو جو یوں آنسو بہاتے پایا تو اور بھی دل بھر آیا۔ پھوٹ پھوٹ کر رونا آیا۔ اخبار ہاتھ سے پھینکا اور بھاگتا ہوا پھاٹک سے نکل گیا۔ اندھوں کی طرح ٹھوکریں کھاتا گلی میں چلا جاتا تھا۔ انواع و اقسام کے رنج سہتا تھا، حالتِ جنوں میں سردھنتا تھا، تنکے چنتا تھا۔
اسی حالت میں محبوبہ رشک قمر کرن کے مکان کے سامنے پہنچا۔ دل میں خیال آیا کہ اور صدمے کیا جانِ ناتواں کو کم تھے کہ عشق نے گھات لگائی اور دل کو شکار کیا۔ ذلیل و خوار کیا۔
اب حال یہ ہے کہ بھری دنیا میں تنہا ہوں اور اس غریب الوطنی، بے بسی اور مصیبت کے عالم میں گو بظاہر زندہ ہو مگر اندر سے موا ہوں۔ اس خیال نے اور بھی زار زار رلایا ۔ جنون طاری ہوا، دماغ حلیہ صبر سے عاری ہوا۔
اتنے میں زلیخا اور منا گلی کے سرے پر نمودار ہوئے۔ وہ حسن کو ڈھونڈنے نکلے تھے اور افتاں و خیزاں چلے آتے تھے۔ زلیخا کے چہرے پر اب بھی نانی کے محلول کا لیپ لگا تھا اور بھوت بنی بھاگی آتی تھی۔ حسن کو کرن کے مکان کے سامنے کھڑا پایا۔ کچھ سمجھ نہ آیا۔ دیکھا کہ جان اپنی عالمِ بے خودی میں حسن دیا چاہتا ہے، خدا جانے کیا ہوا چاہتا ہے۔ گھبرا کر زلیخا اور منا بھاگم بھاگ آئے اور حسن کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر گھر لے گئے۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۳

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!