الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

گھر والے حسن سے یوں پیش آنے لگے تھے گویا وہ بچہ ہے اور پسند کا کھلونا نہ دیا گیا تو ابھی زمین پر لیٹ کر رونے لگے گا۔ نانی واری صدقے جاتی تھی، زلیخا پچکارتی تھی۔ حسن باہر نکلتا تو منا سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ ماموں پاس بٹھا کر اس قدر اقوالِ زریں اور شعر سناتے تھے کہ اکتاہٹ سے حسن کی جان پر بن آتی تھی۔ صرف ممانی تھی جو پہلے کی طرح پیش آتی تھی اور ہمہ دم جلی کٹی سناتی تھی۔
ادھر حسن کا یہ حال تھا کہ اگرچہ اپنے حادثہ جگر دور کی تاریخ سامنے آنے پر از بس پریشان حال و بے قرار ہوا تھا، دل و دماغ میں فتنہ بپا ہوا تھا لیکن پھر خود کو سمجھایا کہ ہر زمانے پر لازم ایک انقلاب ہے، لہٰذا بے کار یہ اضطراب ہے۔ یہ سوچ کر جب درد اور صدمہ کم ہوا تو کلمہء توحید زبان پر لایا اور صبر اور شکر کے فضائل یاد کر کے دل کی ڈھارس بندھائی ۔ آہستہ آہستہ دن بھر کے ذکر الٰہی سے بے قراری و گریہ زاری میں افاقہ ہوا اور رات کی نیند بھرپور آئی۔ صبح تک حسن کی طبیعت میں جو لانی آئی۔ دل کا یہ اطمینان پایا تو حسن بہت مسرور ہوا۔ دل میں جو بھی غم جاگزیں ہوا تھا، بفضلہ دور ہوا۔
لیکن گھر والے تھے کہ اس پر محبتیں لٹاتے تھے اور پل بھر کو تنہا نہ چھوڑ تے تھے۔ حسن زلیخا سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اسے بنے بھائی کی کارستانی دکھانا چاہتا تھا لیکن موقع نہ پاتا تھا۔ آخر اتوار کا دن آیا اور نانی سب لوگوں کو باغ کی سیر کرانے لے گئیں۔ کھانے پینے کا سامان ساتھ لیا گیا۔ اُوبر بلوائی گئی اور اس میں لد لدا کر سب کر باغِ جناح پہنچے۔ وہاں گھاس پر چادر بچھائی، فواکہہ لذیذ سے شکم کی آگ بجھائی۔ کھا پی کر ممانی کی طبیعت میں ہوشیاری آئی اور ا س نے نانی سے لڑنا شروع کردیا۔
زلیخا نے جو جھگڑ ے کا بازار گرم ہوتے دیکھا تو چپکے سے حسن اور منے کو اشارہ کیا اور کہا ۔ ‘‘اٹھو …… کھسکیں یہاں سے۔’’ یہ سن کر وہ دونوں چپکے سے اٹھے اور زلیخا کے ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے وہاں سے سٹک لئے۔
بہت دیر پھولوں کی روشوں پر چلتے رہے اور بہار کی جولانیاں دیکھتے رہے۔ آخر زلیخا تھک کر ایک سنگی تختے پر بیٹھ گئی۔ منا کھیلتا ہوا آگے نکل گیا۔ اور حسن نے موقع غنیمت جان کر زلیخا کو بنے بھائی کی تمام کارستانی کہہ سنائی اور بطور ثبوت جیب سے حساب کتاب کا کاغذ بھی نکال کر دکھا دیا۔
زلیخا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کاغذ پڑھتی جاتی تھی اور بے اختیاری کے عالم میں کہتی جاتی تھی۔
‘‘I cant believe it …… بنے بھائی کو شرم نہ آئی۔’’
آخر جب اس اچانک خبر کا اثر زائل ہوا تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔ حسن سے بولی۔ “?Are you sure, تمہیں غلطی تو نہیں لگی؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘یوں تو غلام کسی قابل نہیں لیکن والدہ محترمہ منشی گری میں طاق تھیں، شہرۂ آفاق تھیں……’’
زلیخا نے تعجب سے بات کاٹ کر پوچھا۔ ‘‘کس چیز میں طاق تھیں؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘منشی گری میں یعنی حساب کتاب میں بہت اعلیٰ پائے کی حساب دان تھیں۔’’
زلیخا نے حیران پریشان ہوکر کہا۔ ‘‘کون؟ عذرا پھپھو؟ میتھ میٹکس میں طاق تھیں؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘ہاں اور میں نے یہ فن انہی سے سیکھا ہے۔ والدِ بزرگوار کے درجنوں حساب کے کھاتے میں ہی دیکھتا تھا اور ہزاروں تھان ریشم، سینکڑوں کنٹر عطر اور دربے بہا اور جواہر نایاب کی تجارت کے ایک ایک آنے پائی کا حساب سو فیصد درستی سے کرتا تھا۔’’
زلیخا نے بے چارگی سے خود کو ڈھیلا چھوڑا اور خود کلامی کرتے ہوئے بولی ۔‘‘اوہ نو، ناٹ اگین۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘جب ماموں کی دکان کا حساب کتاب دیکھا تو فوراً سمجھ گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ اب تم بتاؤ کہ کیا کیا جائے؟’’
زلیخا نے پوچھا۔ ‘‘تم نے ابا سے بات کی؟’’
حسن نے گھبرا کرکہا۔ ‘‘ماموں سے کہوں اور بنے بھائی نامی بلا کے ہتھے چڑھوں؟’’
زلیخا سوچتی رہی۔ پھر بولی۔ ‘‘کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ مشکل یہ ہے کہ بنے بھائی کو defend کرنے والی ماما ہیں۔ انہیں بنے بھائی کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ کبھی بھی نہیں مانیں گی کہ ان کا لاڈلا کچھ غلط کرسکتا ہے۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘تم بات کرو۔ شاید تمہاری سن لیں۔’’
زلیخا اداسی سے ہنسی ،بولی۔‘‘ مجھے وہ کس شمار قطار میں رکھتی ہیں؟ میں تو ہر لحاظ سے ان کے لئے شرم کا باعث ہوں۔’’
حسن نے موقع غنیمت جان کر کہا۔ ‘‘اگر تم ڈاکٹر بن جاؤ تو فخر کا باعث ہوجاؤ گی۔’’
زلیخا نے بے زار ہوکر کہا۔  ‘‘اوہ پلیز دوبارہ یہ کہانی نہ شروع کردینا۔ ’’
لیکن حسن کہتا رہا۔ ‘‘انسان اپنے افعالِ ناشائستہ سے باعثِ شرم ہوتا ہے اور اپنے فن و ہنر سے باعثِ فخر ۔ اب یہ تمہاری مرضٰ ہے، خود کو اس قابل کرو کہ لوگوں کو تمہاری بات سنے بنا نہ بنے۔’’
زلیخا نے تنگ آکر کہا۔ ‘‘پلیز میرا پیچھا چھوڑ دو۔’’
حسن نے کندھے اچکا کر کہا۔ ‘‘اگر خدا نے عقل دی ہے تو میرا کہا مانو۔ ورنہ تمہارا کام جانے تم جانو۔’’
زلیخا چونکی ۔ ‘‘کیا مطلب؟’’
حسن نے ہاتھ جھاڑ کر کہا۔ ‘‘مطلب یہ کہ میں نے ثبوت تمہیں دے دیئے میرا کام ختم ۔ اب تم جانو تمہارا کام جانے۔ قابلیت تمہارے پاس ہے، جیسے مرضی استعمال میں لاؤ۔’’
زلیخا خفگی سے بولی۔ ‘‘بڑی مہربانی ۔ میں کرلوں گی کچھ نہ کچھ۔’’
یہ کہہ کر خفگی سے اٹھ کر آگے چل دی۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۳

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!