الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

اگلی صبح ماموں نے بصدِ شفقت حسن کے سر پر ہاتھ پھیرا اور محبت سے کہا۔ ‘‘بیٹا آج میرے ساتھ دکان پر چلو۔ میں نے اعظم کلاتھ والوں کو تمہاری نوکری کا جواب دے دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں اب تم میری نظروں کے سامنے رہو۔’’
حسن سمجھ گیا کہ یہ کل کے واقعات کا تسلسل ہے۔ کل ا س پر جو عالم گریہ وزاری طاری ہوا تھا، اس سے یقینا نانی کے دل پر وار کاری ہوا تھا۔ انہی نے ماموں کو ہدایت کی ہوگی کہ اب حسن کو اپنے ساتھ رکھیں۔ مطلق تنہا نہ چھوڑیں۔  نظر اٹھا کر نانی کو دیکھا تو چپکے چپکے آنسو پونچھتا پایا۔ دل اس منظر کی تاب نہ لایا۔
ماموں نے حسن کی آنکھوں میں رنج اور اداسی کی پرچھائیں دیکھی تو مسکرا کر شفقت سے بولے۔ ‘‘بوڑھا ہوگیا ہوں نا، اب کام سنبھالا نہیں جاتا۔ جوان بیٹے کا سہارا چاہیے۔ تم ہی سنبھالو گے اب میری دکان۔ ’’ یہ کہہ کر اچانک گھبرا گئے اور ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی میں بولے۔ ‘‘دیکھنا تمہاری ممانی کو پتہ نہ چلے۔’’
چنانچہ حسن ماموں کے سکوٹر پر بیٹھا، ماموں کو پیچھے بٹھایا، خود کو ماموں کی دکان پر پہنچایا۔ گوکہ ماموں نے کہا تھا کہ کام سنبھالا نہیں جاتا مگر حقیقت حال یہ تھی کہ دکان میں سوائے مکھیاں مارنے کے کوئی کام ہی نہ تھا۔ حسبِ عادت ماموں نے ایک کتا ب اٹھائی اور کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ میں مصروف ہوگئے۔ حسن نے اکتا کر کہیں نکلنے کی اجازت چاہی تو ماموں نے نرمی سے منع کردیا۔ بہانہ یہ کیا کہ اگر کوئی گاہک آگیا تو وہ بوڑھے آدمی کیسے نمٹائیں گے؟ شاید انہیں ڈر تھا کہ حسن کل کی طرح عالمِ بے خودی میں کہیں ادھر ادھر نکل گیا اور اسے کوئی حادثہ درپیش ہوا تو کیا کریں گے۔ حسن چپکا ہوکر بیٹھ رہا۔ وقت گزاری کے لئے اس نے ادھر ادھر کتابیں دیکھنی شروع کیں۔ ایک الماری میں اسے دو موٹی موٹی جلدیں دکھائی دیں جن پر کچھ حساب کتاب لکھا تھا۔ اس نے ماموں سے ان کے بارے میں پوچھا۔
انہوں نے نظر اٹھائی اور کہا۔ ‘‘یہ حساب کتاب کے رجسٹر ہیں بیٹا۔ بنا ہی دیکھتا ہے تمام حساب کتاب۔ مہربانی ہے اس کی ۔’’
یہ کہہ کر دوبارہ کتاب میں گم ہوئے۔ حسن کو حساب میں بچپن سے دلچسپی تھی۔ اس کی مرحومہ ماں حساب دانی میں طاق تھی۔ اور دقیق سے دقیق مشق آسانی سے حل کرلیا کرتی تھی۔ حسن نے حساب اس سے پڑھا تھا۔ رجسٹر کھولا تو پچھلے پورے سال کا کھاتہ سامنے آگیا۔ سامان کا خرچ، بجلی پانی کے ماہانہ خرچے کا حساب، حسن کی دکان کے کرائے کی آمدنی ، حکومت کو دیا گیا لگان جسے یہ لوگ ٹیکس کہتے تھے۔ روزانہ کی بکری کا حساب۔ خرچ، منافع، جوڑ، توڑ۔
شام تک حسن باریک بینی سے دونوں رجسٹرچاٹ چکا تھا اور یہ امر روزِ روشن کی طرح اس پر عیاں ہوچکا تھا کہ حساب کتاب میں ہوشربا گھپلے تھے۔ یہ گھپلے اس باریکی سے کئے گئے تھے اور ہاتھ کی صفائی اس ماہر کاریگری سے دکھائی گئی تھی کہ بنظر غائر انہیں پکڑ نا مشکل تھا۔
بہت دیر حسن رجسٹر ہاتھ میں لئے بیٹھا سوچتا رہا۔ کیا کرے کیا نہ کرے۔ دل میں کہتا تھا الٰہی یہ کیا معاملہ ہے؟ بنے بھائی گھرمیں نقب لگا رہے ہیں، اپنے سوتیلے والد کا مال دھوکے سے کھا رہے ہیں۔ بہت دیرحسن فکر میں پڑا رہا اور اس حرکت کے مال ِ کارکو سوچا کیا۔ ہر چند فکر کرتا تھا، مطلب کو نہ پہنچتا تھا۔ کبھی سوچتا ماموں سے کہوں، پھر خیال آتا یہ حال کھلے گا تو بنے بھائی کا تو کچھ نہ بگڑے گا البتہ ممانی میرا خون پی جائے گی۔ بنے بھائی جلاد بن جائیں گے۔ مجھے ملک عد م کو پہنچائیں گے۔ ماموں کی کچھ پیش نہ چلنے پائے گی، نانی خوامخواہ میں میرا صدمہ اٹھائے گی۔ اور زلیخا …… ارے زلیخا کا خیال پہلے کیوں نہ آیا؟ بس ٹھیک ہے یہ کل حال من و عن زلیخا کے سامنے رکھوں گا۔ سب گڑبڑ کہہ سناؤں گا۔ کوئی بات اس سے نہ چھپاؤں گا۔ زلیخا بہت سمجھدار ہے، یقینا کوئی تدبیر کرے گی اور کوئی عمدہ فکر مناسب بتائے گی۔ یہ سوچ کر انہی رجسٹروں پر ہر قسم کے گھپلے کا حساب کتاب لکھا اور صفحہ پھا ڑلیا۔ صفحہ جیب میں چھپایا اور ماموں کے سامنے ایک لفظ بھی زبان پر نہ لایا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۳

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!