الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۴

وہ چند قدم بڑھ کر آگے آیا اور حسن کو مخاطب کرکے بولا ۔ ‘‘واؤ زبردست ڈکشن اور ایکسپریشن ۔ کہاں کی ٹریننگ ہے آپ کی؟’’
حسن نے کہا۔‘‘میں سمجھ نہیں پایا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟’’
اس مرد نے ٹھنڈا سانس لے کر بصد اطمینان کہا۔ ‘‘پرفیکٹ۔ جس کیریکٹر کو میں پچھلے ایک سال سے ڈھونڈ رہاہوں، وہ آج مجھے مل گیا۔’’
یہ کہہ کر جیب سے ایک کاغذ نکالا حسن کو تھمایا اور بولا ۔ ‘‘میں شہریار نظیر ہوں۔’’
یہ سن کر پاس کھڑے حجام نے ایک چیخ ماری اور آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ ‘‘شہریار نظیر ؟مشہور ڈائریکٹر؟’’
شہریار نظیر نے حجام کی چیخ و پکار کو نظر انداز کیا اور بولا۔ ‘‘ میرے نئے ڈرامے میں ایک نواب کا کردار ہے۔ اس کے لئے مجھے جیسے شخص کی تلاش تھی۔ تم ہو بہو وہی ہو۔ You are perfect for the role۔ کروگے؟’’
ابھی حسن کوئی جواب نہ دینے پایا تھا کہ حجام نے بصد منت و سماجت کہا۔ ‘‘سر مجھے لے لیں سر میں کروں گا رول۔’’
شہریار نے اعتنائی سے کہا۔ ‘‘نواب چاہیے ، نائی نہیں۔’’
پھر حسن کو گومگو کے عالم میں کھڑے دیکھ کر کہا۔ ‘‘تم سو چ لو ۔ میگا پراجیکٹ ہے۔ بڑی کاسٹ ہے۔ ایسے موقع بار بار نہیں ملتے۔ یہ میرا کارڈ لے لو۔ ارادہ بنے تو بس مجھے ایک کال کردینا۔ میری گاڑی آکر تمہیں لے جائے گی۔’’
یہ کہہ کر شہریار نظر چلا گیا۔ حجام کو چکر آیا اور وہ پاس پڑی کرسی پر گر کر آنسو بہانے لگا۔ حسن نے پیسے اس کے ہاتھ میں تھمائے اور وہاں سے کھسک لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کونانی لاؤنج میں بیٹھی آگ تاپتی تھی جب حسن بدر الدین آیا اور نانی کے پاس بیٹھ گیا۔ جیب سے مونگ پھلی نکال کر نانی کو پیش کی۔ نانی خوش ہوئی، بڑی دعائیں دیں۔ اتنے میں زلیخا چائے لے کر آگئی۔ ایک ایک پیالی نانی اور حسن کو پکڑائی اور خود بھی پاس بیٹھ گئی۔ حسن نے نانی اور زلیخا کو آج حجام کی دکان میں پیش آنے والے کُل واقعات سے آگاہ کیا۔ سب کچھ راست راست کہہ سنایا، کچھ بھی نہ چھپایا۔ جیب سے شہریار نظیر کاکارڈ نکال کر بھی دکھایا۔
ساری بات سن کر نانی پریشان ہوگئی۔ سوچتے ہوئے بولی ‘‘ویسے تو نیا زمانہ ہے اور ان کاموں کو اب برا نہیں سمجھا جاتا لیکن بیٹا خاندان والے کیا کیا نہ باتیں بنائیں گے۔’’
حسن نے کہا ‘‘خاندان والے تو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ باتیں بنائیں اور ہر کسی کی زندگی میں پیر اڑائیں۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ میں قطعاً نہیں جانتا ہوں کہ یہ کیا معاملہ ہے اور یہ شخص مجھ سے کیا چاہتا ہے۔’’
نانی نے آبدیدہ ہوکر کہا۔ ‘‘کتنا معصوم ہے میرا بچہ۔ بس اسی لئے ڈرتی ہوں کہ کسی غلط آدمی کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔’’
زلیخا ہنس کر بولی۔ ‘‘غلط آدمی کو چھوڑیئے، وہ غلط عورت کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔’’
نانی بولی۔ ‘‘ہائے ہائے کیوں مجھے ڈراتی ہے زلیخا۔ اگر اس نے ڈراموں میں کام شروع کردیا تو وہاں تو اتنی اتنی خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں۔ یہ نہ ہو کوئی اسے قابو کرلے۔ اے بات سن حسن تو اس آدمی کو منع کردے بیٹا۔ یہ کام اچھا نہیں۔ چپ کرکے کالج جا، پڑھائی کر، ڈگری لے اور عزت سے انجینئر بن۔’’
زلیخا بولی۔ ‘‘دا دی اماں اب تو بہت پڑھے لکھے لوگ اس فیلڈ میں آتے ہیں۔ میں د س لوگوں کے نام گنوا سکتی ہوں آپ کو جو ڈاکٹر یا انجینئر ہیں اور اس فیلڈ میں ہیں۔’’
نانی بصد اصرار بولی۔ ‘‘لیکن حسن تو انجینئر ہی بنے گا۔ اس کے مرحوم ماں باپ کا خواب تھا یہ۔’’
زلیخا نے ٹھنڈا سانس لیا اور کہا۔ ‘‘دادی اماں اب آپ کو کیا بتاؤں۔ میں نے حسن کا کیس ڈسکس کیا تھا اپنے ٹیچرز سے۔ ان کا کہنا ہے کہ Prolonged stressسے حسن کا دماغ نارمل پیٹرن سے ہٹ گیا ہے۔ میں آپ کو بلیم نہیں کررہی لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ حسن ہمیشہ سے بزنس پڑھنا چاہتا تھا ، آپ نے مرحومین کی خواہش پوری کرنے کے لئے اسے زبردستی انجینئرنگ دلوادی۔ اب نتیجہ دیکھ لیں اس کا۔ دماغ ہل گیابے چارے کا۔ خود کو پرانے زمانے سے آیا ہوا سمجھتا ہے۔ اپنی زندگی کی کوئی بات یاد نہیں۔ فیل بھی اسی لئے ہوا ہے کہ چار سال جو پڑھا تھا سب بھول گیا۔’’
یہ سن کر نانی کی آنکھیں بھر آئیں۔ پلو سے آنسو پونچھے اور بولی۔ ‘‘میں نے تو سوچا انجینئر بن جائے گا تو زندگی بن جائے گی اس کی۔ مجھے کیا معلوم تھا یہ دن دیکھنا پڑے گا۔’’
زلیخا نے نانی کو تسلی دی اور کہا: “ہر چیز میں اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے دادی۔ میرے ٹیچرز نے کہا ہے کہ اسے ایک سال کی بریک دیں۔ اس کو بالکل stress free ماحول میں رکھیں۔ اس کو ایسی activities میں مصروف رکھیں جن سے اس کا دل بہلا رہے اور یہ پرسکون رہے۔ اور آرٹ سے بہتر تو کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر یہ آرٹسٹ بننا چاہتا ہے اسے بننے دیں۔’’
نانی نے کچھ سوچ کر کہا۔ ‘‘کہتی تو تو ٹھیک ہے بیٹی۔ اگر یہ ڈراموں میں کام کرے گا تو کون سی قیامت آجائے گی۔ ویسے بھی مرد کی ذات کو کیا فرق پڑتا ہے؟ سب کچھ کرکے بھی پاک صاف گنگا نہائے۔’’
زلیخا نے ہنس کر کہا۔ ‘‘اور شہرت اور پیسہ الگ ۔ ساری زندگی نوکری کرکے اتنا نہیں کما سکتا جتنا دو ڈراموں سے کما لے گا۔ جو رشتے دار آج باتیں بنائیں گے ، کل کو وہی آٹوگراف لینے آئیں گے۔’’
یہ سن کر نانی خوش ہوئیں۔ رشتے داروں کو نیچا دکھانے کے خیال سے دل کو بڑی راحت ہوئی۔ حسن سے بولیں ‘‘بس پھر تو کرلے یہ ڈرامہ۔ اور دیکھ اچھا اچھا کام کرنا۔ ایسی ایکٹنگ کرناکہ دنیا تعریف کرے۔ اور ہاں خبردار جو کسی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا۔ شرافت سے رہنا۔ یہ نہ ہو کل کو اخباروں میں تیرے سکینڈل چھپے ہوں اور خاندان میں میری ناک کٹ جائے۔’’
بات کرتے کرتے نانی کی نظر زلیخا پر پڑی اور وہ حیران ہوکر بولی۔ ‘‘ہے ہے زلیخا کیا کرتی ہے؟ پورا پیالہ حلوے کا کھا گئی۔ پھر تیری ماں تجھے بولے گی کہ وزن بڑھ گیا ۔ ہوا کیا ہے تجھے؟ دو دن سے دیکھ رہی ہوں۔ بہت کھانے لگی ہے۔ کوئی ٹینشن ہے تجھے ؟ ہمیشہ پریشانی میں تو ڈبل کھانے لگتی ہے۔’’
بے اختیار زلیخا کی نظریں حسن سے ملیں اور اس نے خفیف ہوکر پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا۔
نانی نے ہمدردی سے کہا۔ ‘‘میری بچی پریشانیاں تو زندگی کے ساتھ ہیں۔ میں جانتی ہوں تجھے ڈاکٹری نہ کرسکنے کا غم ہے۔ پھر رشتے کی ٹینشن۔ چل ایک کام کریں۔ اس اتوار کو پکنک پر چلتے ہیں۔ حسن کا دل بھی بہل جائے گا تیر ابھی۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن میری عقل میں نہیں آتا اور کچھ سمجھ نہیں پاتا کہ اس کا کیا کروں؟’’ یہ کہہ کر کارڈ لہرایا۔
زلیخا نے تسلی دے کر کہا۔ ‘‘ تم بس اس شخص کو فون کرو۔ باقی یہ تمہیں خود سمجھا دے گا۔ کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔’’
یہ سن کر حسن کو تسلی ہوئی اور اطمینان سے چائے پینے لگا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۳

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!