وہ پرانے زمانے کا ایک وینٹی باکس کھولے اس میں موجود چیزوں کو اِدھر اُدھر کرتے مومنہ کے انتظار میں تھا۔ مومنہ کے کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے بے حد پروفیشنل انداز میں ایک کپڑے کو مومنہ کی گردن کے گرد ڈال دیا تھا۔ وینٹی باکس میں سے ایک فاؤنڈیشن نکال کر وہ اب بڑی پھرتی سے اس فاؤنڈیشن کو ہتھیلی پر رکھ کر گیلے اسپینج کے ساتھ اسے مومنہ کے چہرے پر لگا رہا تھا۔ نقطوں کی شکل میں۔ وہ میک اپ کرنے کا پرانا طریقہ تھا اور سلطان پرانے طریقوں سے ہٹنے پر تیار نہیں تھا۔ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے مومنہ خاموشی سے اس سے میک اپ کرواتے ہوئے وینٹی باکس کے ڈھکن پر لگی حسنِ جہاں کی ایک بے حد دلکش مسکراہٹ والی تصویر کو دیکھنے لگی جس پر کوئی بھی نظر ڈالتا تو اسے ایسا ہی لگتا جیسے وہ اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
وہ اب اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس پر نظریں جمائے مومنہ دل ہی دل میں گھڑی کی سوئیاں گن رہی تھی۔
”ابا! ذرا جلدی۔ مجھے بس پکڑنی ہے۔” مومنہ نے بالآخر سلطان سے کہہ ہی دیا۔ سلطان کے ہاتھ پہلے سے تیزی سے کام کرنے لگے تھے اور وہ ساتھ کہنے لگا۔
”ہاں۔ ہاں۔ بس ہو جائے گا پانچ منٹ میں حسنِ جہاں کو بھی پانچ منٹ میں تیار کرتا تھا میں۔ اسے بھی جلدی ہوتی تھی ہر کام کی۔ ایسی مکھن جیسی دودھیا ملائم اسکن تھی اس کی۔ پاؤڈر بھی پھسلتا تھا۔ میرے علاوہ کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھی وہ چہرے کو۔ میرے ہاتھ کے علاوہ کسی پر اعتبار نہیں تھا اسے۔”
مومنہ، حسنِ جہاں کا تذکرہ سننے کی عادی تھی اور صرف وہ ہی نہیں اس گھر کا ہر شخص اور سلطان کا ہر دوست اور ملنے والا۔
وہ حسنِ جہاں کا میک اپ آرٹسٹ رہ چکا تھا۔ دن میں کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا تھا جب اس کو کسی نہ کسی حوالے سے حسنِ جہاں کی یاد نہ آتی ہو۔
وینٹی باکس کے ڈھکن پر لگی اس کی مسکراتی تصویر دیکھتے ہوئے مومنہ اس کے قصے باپ کی زبان سے سن رہی تھی اور وہ سب اتنی بار سنا ہوا تھا کہ وہ باپ کا اگلا جملہ بھی دہرا سکتی تھی۔
”یہ لو۔ ہو گیا کام۔ اب بس لپ اسٹک رہ گئی۔” سلطان گہرا سانس لیتے ہوئے سیدھا ہوا اور اس نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”ابا لپ اسٹک میں خود لگاتی ہوں۔” مومنہ نے باپ کو روکنے کی کوشش کی۔ سلطان نے اسے ٹو دیا اور وینٹی باکس میں سے اس کے لیے لپ اسٹک ڈھونڈنے کے لیے ہاتھ مارنے لگا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”لپ اسٹک لگانا ہی تو اصل آرٹ ہے۔ کیمرہ کے سامنے بری اور اناڑی کے ہاتھ سے لگی ہوئی لپ اسٹک کی وجہ سے بڑے بڑے خوب صورت چہرے بُرے لگتے ہیں۔”
وہ اس کے ہونٹوں پر برش سے لپ اسٹک لگا رہا تھا اور ساتھ اس سے کہہ رہا تھا اور وہ اپنا پاؤں ہلانے لگی تھی۔ اسے واقعی ہی جلدی تھی۔
”یہ لو۔ دیکھو ٹھیک ہے نا۔” سلطان نے بالآخر اس سے کہا۔ اس نے آئینے میں خود پر ایک نظر ڈالتے ہوئے فوری طور پر اٹھتے ہوئے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہے ابا۔” سلطان پرانے زمانے کا میک اپ آرٹسٹ تھا لیکن مومنہ کو اس کے ہاتھ پر یقین تھا۔ وہ جب بھی سلطان سے میک اپ کروا کر جاتی تھی۔ اسکرین پر اس کا چہرہ بے حد اچھا آتا تھا۔ سلطان اپنے کام کا ماہر تھا۔ اپنے زمانے میں فلم انڈسٹری میں اس کا طوطی بولتا تھا۔
”وہ کل جہانگیر کا ڈائیلسس ہے۔ تمہارے سیریل کی پے منٹ کب آئے گی؟” ثریا یک دم اندر کمرے سے برآمدے میں آئی تھی اور اس نے مومنہ کو یاد دہانی کروائی تھی۔
”آج جاؤں گی آڈیشن کے بعد پے منٹ کے چیک کے لیے۔ جونیئر آرٹسٹ ہوں۔ خود کہاں آئے گی میری پے منٹ۔” وہ بڑبڑائی تھی۔
”بس آپ لوگ دعا کریں۔ یہ فلم مل جائے کسی طرح۔” اس نے اپنا پرس اٹھاتے ہوئے ثریا اور سلطان دونوں سے کہا۔
”میں نے تیار کیا ہے۔ تم دیکھنا کیمرے کے سامنے حسن جہاں لگے گی۔ یوں رول دیں گے، یوں۔”
گھر سے نکلتے ہوئے اس نے اپنے عقب میں سلطان کو بے حد گمان سے ثریا سے کہتے سنا۔ وہ باپ سے یہ نہیں کہہ سکی کہ اب کوئی بھی حسنِ جہاں کو نہیں جانتا نہ پہچانتا ہے۔ اور میک اپ دیکھ کر اگر رول دیے جاتے تو۔
اسٹاپ پر کھڑی بس پر بیٹھتے ہوئے بھی اس نے یہی سوچا تھا۔
”ابا کو لگتا ہے ان کا وینٹی باکس مجھے حسن جہاں بنا دے گا۔ ابا کو پتا ہی نہیں ان کے وینٹی باکس کی ساری چیزیں ایکسپائر ہو چکی ہیں یا دو نمبر ہیں۔ اب تو وہ برانڈ بھی بند ہو چکا ہے جو برانڈ حسنِ جہاں کا پسندیدہ تھا۔” اس نے کھڑکی سے باہر سڑک پر بھاگتی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے تلخی سے سوچا۔ یہ ساری باتیں وہ صرف سوچ سکتی تھی کہہ نہیں سکتی تھی۔
”ابا ہر بار مجھے حسنِ جہاں بنا کر دنیا میں بھیجتے ہیں اور میں پھر مومنہ سلطان بن کر رہ جاتی ہوں۔” اس نے سوچا۔
٭…٭…٭
آفس کی ریسپشن میں تقریباً پچیس لڑکیاں تھیں۔ مومنہ ان میں سے چند چہروں کو فوراً پہچان گئی۔ وہ چند ابھرتی ہوئی ماڈلز تھیں اور چند دوسری ایکٹریسز جنہوں نے حال ہی میں ایک آدھ سیریل میں مین لیڈ کی تھی۔ وہ تمام پچیس کی پچیس اس ریسپشن ایریا میں بیٹھی کچھ نہ کیے اور کیے ہوئے بھی بے حد گلیمرس اور اسٹائلش لگ رہی تھیں۔ ان میں سے کچھ اپنے اپنے سیل فون پر مصروف آس پاس بیٹھی لڑکیوں کو اگنور کر رہی تھیں۔ کچھ جو ایک دوسرے سے واقف تھیں۔ وہ آپس میں بیٹھی اور کھڑی گپ شپ کر رہی تھیں۔ چند ایک ہاتھ میں پکڑے اسکرپٹ پر نظر ڈال رہی تھیں اور چند ایک ریسپشن ایریا میں موجود دوسری لڑکیوں کو گھورنے اور جانچنے میں مصروف تھیں۔ سادہ جینز اور کرتوں سے لے کر فارمل پینٹس اور کرتے تک اور کچھ سکرٹس بھی۔ لانگ شارٹ دونوں قسم کے۔ صرف چند ایک تھیں جو شلوار قمیص میں ملبوس تھیں اور مومنہ ان میں واحد تھی جس کے گلے میں ایک دوپٹہ بھی لٹک رہا تھا۔ باقی کوئی اگر شلوار قمیص میں ملبوس تھی تھی تو بغیر آستین قمیص میں ٹخنوں سے بہت اونچے اور گھٹنوں سے تھوڑا ہی نیچے والی کیپری میں۔
مومنہ کے لیے وہ مجمع نیا نہیں تھا۔ نہ وہ وہاں پریشانی کا شکار ہوئی، نہ کم تری کا۔ وہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ میڈیا میں کام کر رہی تھی اور ان سب کے رویوں سے بخوبی واقف تھی۔ مگر وہاں بیٹھے اسے یہ یقین نہیں تھا کہ اس مجمع میں وہ اپنی جگہ بنائے گی یا نہیں مگر اس وقت آڈیشن کے لیے وہاں بیٹھے ہوئے اس کے سر پر جہانگیر کا کل کا ڈائیلسس سوار تھا۔
اس کی وہ میڈیکل فائل جو گھر سے نکلتے ہوئے ثریا نے اس کے ہاتھ میں دی تھی کیوں کہ ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں تبدیل کروائی تھیں اپنے پچھلے چیک اپ میں۔ جس میں مومنہ شوٹنگ کی وجہ سے نہیں جا سکی تھی۔ وہ نئی دوائیاں مہنگی اوپر نیچے جاتے تھے اور اس کیاچانک آنے والے اخراجات مومنہ کے سارے مالیاتی تخمینوں اور اندازوں کو ملیا میٹ کر دیتے تھے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر مہینے کسی نہ کسی سے قرض لینے پر مجبور ہوجاتے۔
وہ اس وقت بھی اس میڈیکل فائل کو کھولے ان اخراجات کا حساب لگانے میں مصروف تھی جو اس کا رائلٹی چیک نہ ملنے پر اسے پھر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کرنے والے تھے۔
وہ فائل کو اس طرح کھولے اس میں سر گھسائے بیٹھی تھی کہ دائیں بائیں بیٹھی لڑکیاں اس فائل کے اندر موجود نسخوں کو نہ دیکھ سکیں مگر جس وقت وہ بالآخر اس سارے حساب کتاب سے گہرا سانس لیتے ہوئے فارغ ہوئی اور اس نے فائل بند کرتے ہوئے اپنا سر سیدھا کیا تو اس کے برابر میں بیٹھی لڑکی نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”You are so focused” جب سے آئی ہیں بس اسکرپٹ میں سر دیے بیٹھی ہیں مجھے تو ابھی تک لائنز بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔” اس لڑکی نے مسکراتے ہوئے دوستانہ انداز میں اس سے کہا۔ وہ بھی جواباً دوستانہ انداز میں مسکرا دی اور اسے اچانک آڈیشن اور اسکرپٹ دوبارہ یاد آیا۔
وہ لڑکی پہلی بار کسی ایکٹنگ اسائنمنٹ کے لیے آڈیشن دینے آئی تھی اور نروس تھی۔ چند لمحے وہ مومنہ سے گپ شپ کرتی رہی اور جب وہ خاموش ہو کر اپنے اسکرپٹ کی طرف متوجہ ہوئی تو مومنہ اٹھ کر ریسپشن ایریا سے باہر نکل آئی۔ اس کی باری میں ابھی دیر تھی اور اسے بہت ضروری کال کرنی تھی۔ اسٹوڈیو کے داخلی دروازے کے سامنے ہی ٹہلتے ہوئے اس نے اپنے ایک ڈائریکٹر کو فون کیا۔
”مومنہ! ابھی تمہیں ہی فون کرنے والا تھا میں، ایک رول ہے۔ کام نکالا ہے خاص طور پر تمہارے لیے میں نے سوپ میں۔”
سلیم بھائی نے چھوٹتے ہی اس کی آواز سنتے ہوئے کہا۔ مومنہ بے اختیار خوش ہوئی۔
”بڑی مہربانی سلیم بھائی۔ کتنے دن کا کام ہے؟”
”دس دن کا۔” ان کے اگلے جملے نے اسے مایوس کیا تھا۔
”کوئی بڑا رول دیتے مجھے سلیم بھائی اس بار تو۔”
”ہاں، ہاں اگلی بار بڑا رول بھی دوں گا۔ کتنی بار تو سمجھایا ہے تمہیں کہ پوڈیوسر کے ساتھ گپ شپ لگایا کرو۔ اس کی پارٹی میں جاؤ۔ دوستی بناؤ۔ آنا جانا ہو گا تو رول بھی ملے گا اور رول بڑا بھی ہوتا جائے گا۔”
سلیم بھائی نے اسے فوری طور پر وہی مشورہ دیا تھا جو وہ ہمیشہ دیتے تھے۔ وہ مومنہ کے فن کے واقعی قدردان تھے مگر کام وہ اسے زیادہ نہیں دے پاتے تھے اور نہ دینے کی وجوہات وہ ہمیشہ مومنہ کو بڑی صاف گوئی سے بتا دیتے تھے جنہیں وہ برا مانے بغیر سن لیا کرتی تھی کیوں کہ وہ وجوہات وہ پہلے ہی جانتی تھی۔
”میرا چیک مل جائے گا سلیم بھائی آج؟” اس نے سلیم بھائی کے مشوروں کے جواب میں عجلت کے عالم میں کہا۔
”آج تو مشکل ہے۔” انہوں نے جواباً کہا۔
”کسی طرح کروا دیں سلیم بھائی۔ جہانگیر کا ڈائیلسس ہے کل۔ تھوڑی بہت رقم تو دلوا دیں مجھے۔” اس نے کچھ منت بھرے انداز میں کہا تھا۔ وہ ان کا انکار سن کر واقعی پریشان ہو گئی تھی۔
”اچھا۔ اچھا میں کرتا ہوں کچھ۔ تم آرہی ہو؟” سلیم بھائی کو جہانگیر کی بیماری کا پتا تھا اور وہ اس سے ہمدردی رکھتے تھے۔
”ہاں دو تین گھنٹے تک۔” اس سے پہلے کہ وہ ان سے کچھ اور کہتی اس نے اپنے عقب میں داؤد کی آواز سنی وہ خفا لگ رہا تھا۔
”حد ہے مومنہ میں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ فون الگ سے بزی چل رہا ہے تمہارا۔” داؤد اندر سے باہر نکلا تھا۔ وہ مومنہ کا اسسٹنٹ تھا۔
”جی ٹھیک ہے سلیم بھائی۔ خدا حافظ۔” مومنہ نے فون بند کرتے ہی اس سے معذرت کرنا شروع کی۔ ”ایک ضروری کال تھی بس۔ ختم ہو گئی، میری باری آگئی کیا؟”
‘یار خاص طور پر لی ہے تمہاری باری اور تم غائب۔ اب آجاؤ جلدی، ڈائیلاگز یاد ہیں نا؟”
وہ کہتے ہوئے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اندر چلا گیا۔ وہ بھی تیز قدموں سے اس کے پیچھے گئی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});