ملازم اس کے باہر نکلنے اور بیٹھنے کے دوران اس کے لیے کافی کا ایک مگ رکھ گیا تھا۔ سامنے ایک نیوز چینل پر اچانک رات کے ایوارڈ شو کی جھلکیاں دکھائی جانے لگیں اس نے آواز تھوڑی بلند کر دی۔ نیوز کاسٹر اس کی فلم کے حوالے سے خبر دے رہا تھا اور وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ایوارڈ لیتے ہوئے فوٹیج دیکھ رہا تھا۔ تب ہی اس کا صوفے پر پڑا سیل فون بجنے لگا اس نے فون کی اسکرین پر چمکتا شیلی کا نام دیکھا اور ایل سی ڈی کی آواز ہلکی کرتے ہوئے اس نے فون کال ریسیو کی۔ وہ اس کی فلم کی ہیروئن تھی۔
”ہیلو جان۔” بے حد میٹھی اور بے حد اپنائیت بھری آواز میں اس نے اسے اسی انداز سے مخاطب کیا تھا جس انداز سے وہ انڈسٹری کے ہر ہیرو اور ڈائریکٹر کو مخاطب کرتی تھی۔
”ہیلو شیلی!” اس نے جواباً اس عام لہجے میں اسے مخاطب کیا جس میںہمیشہ کیا کرتا تھا۔
”اُف کیا کہوں تمہارے بارے میں، تم نے تو تباہی مچا دی رات کو ایوارڈ میں۔” وہ اب اسے مکھن لگانے کی مہم شروع کر چکی تھی۔
”ہم لوگ تو آڈینس میں بیٹھے تھے اور پھر تالیاں بجانے لگے تو بس بجاتے ہی گئے میں نے تو کھڑے ہو کر تمہارے لیےclapping کی اور cheerبھی کیا۔ تم نے دیکھا؟” اس نے مومن سے پوچھا اس کی بات سننے کے دوران کافی پیتے ہوئے ریموٹ لیے چینل بدلنے میں مصروف ہو چکا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا شیلی بہت لمبی بات کرے گی۔
”نہیں کب؟” وہ چونکا۔
”Ohhh God, you missed it۔” وہ بے اختیار مایوس ہوئی۔ ”اگر ان لوگوں نے ایڈٹ نہ کیا نا تو ٹی وی پر جب ایوارڈ شو چلے گا۔ تمہیں cheer کرتے ہوئے میری فوٹیج تم دیکھنا۔ تم نے تو کیسی جرأت دکھائی کہ ان کے منہ پر ہی انہیں بول دیا۔ آج دیکھو ذرا نیوز میں ایوارڈ سے زیادہ تمہاری اسپیچ کی کوریج ہے۔”
وہ قلبِ مومن کی جتنی تعریفیں کر سکتی تھی اس وقت کر رہی تھی کیوں کہ بدقسمتی سے پچھلی رات ایوارڈ کی پارٹی میں وہ کوشش کے باوجود قلبِ مومن سے مل کر یہ سب نہیں کہہ پائی تھی کیوں کہ اس ایوارڈ شو کو جو برانڈ اسپانسر کر رہا تھا وہ مسلسل قلبِ مومن سے چپکے ہوئے اسے وضاحتیں دے کر اس کی خفگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شیلی اتنی بے وقوف نہیں تھی کہ اس برانڈ کے نمائندوں کے سامنے وہ قلبِ مومن کو اس ”دلیری” پر وہاں کھڑے ہو کر داد دیتی۔
”میں نے ابھی نیوز پیپرز دیکھے نہیں۔ ابھی دیکھتا ہوں۔” اس نے شیلی سے مختصراً کہا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”ارے وہ تم نے ”ڈسک” کا کور دیکھا؟” شیلی کو اچانک یاد آیا۔ مومن نے سامنے پڑے ہوئے اس میگزین ”ڈسک” پر ایک نظر دوڑائی اور کہا۔ ”ہاں دیکھا ہے۔”
”میری تصویر کا سائز دیکھو باقی دونوں سے چھوٹا کر دیا ہے مجھے۔” شیلی نے لمحہ بھی ضائع کیے بغیر شکایت کی۔ مومن نے کچھ سمجھے بغیر میگزین اٹھا لیا اور اس کور کو دیکھنے لگا جس پر اس کے ساتھ اس کی پچھلی تین فلموں کی ہیروئنز کی بے محد مختصر ملبوسات میں تصاویر تھیں اور اوپر ایک ہیڈنگ میں ”دی کوئن میکر” لکھا ہوا تھا۔ مومن نے ایک نظر سرورق پر ڈالتے ہوئے میگزین کو دوبارہ ٹیبل پر پھینکتے ہوئے کہا۔ ”ہاں ہاف انچ ہی چھوٹی ہو گی اگر ہوئی بھی تو۔”
دوسری طرف اس کے جملے پر شیلی جیسے چلا اٹھی تھی۔
”ہاف انچ بھی کیوں چھوٹی ہوئی میری پکچر۔ کس کی فلم ہٹ ہوئی ہے اس سال؟ میری۔ اور تصویر کس کی چھوٹی دے رہے ہیں؟ وہ بھی میری؟”
مومن نے اسے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ”تم پروا مت کرو۔”
”کیسے پروا نہ کروں۔ مجھے کیا پتا نہیں کہ ”ڈسک” کے ایڈیٹر کی نیت کیا ہے اور کس طرح وہ لینا کو پروموٹ کر رہے ہیں۔”
شیلی نے اس کور میں موجود ایک دوسری ہیروئن کا نام لیتے ہوئے کیا۔ مومن اب بے زار ہونے لگا تھا۔ وہ صبح سویرے تصویروں کے سائز پر سر نہیں کھپانا چاہتا تھا۔
”شیلی اس وقت میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے اور تمہاری آدھی باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر رہی ہیں۔”
اس نے بے حد صاف گوئی سے کہا۔ شیلی نے بغیر برا مانے فوراً ہی اپنی ٹون بدلی۔
”جان! مجھے بتایا کیوں نہیں۔ میں اپنی باتیں لے کر بیٹھ گئی۔ سو سوری جان۔ میں ابھی آتی ہوں۔”
”نہیں۔ نہیں ابھی تو میں آڈیشنز کے لیے نکل رہا ہوں۔” مومن نے فوراً کہا۔ شیلی نے جواباً کچھ خفگی سے اس سے کہا۔
”تم میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔ اتنی بڑی ہِٹ دی ہے تمہیں اور تم پھر بھی اگلی فلم کے لیے آڈیشن کرنے بیٹھے ہو۔”
”تمہیں پتا ہے میں ہیروئن ریپیٹ نہیں کرتا۔ یہ میری کامیابی کی وجہ ہے۔”
”گالی دینا چاہتی ہوں تمہیں میں اس بات پر۔” شیلی نے جواباً کہا۔
”وہ تم ٹیکسٹ کر دینا۔ ابھی تو میں نکل رہا ہوں گھر سے۔” مومن نے جواب چڑانے والے انداز میں اسے کہا۔
”ہو تم ویسے گالیوں ہی کے قابل۔” دوسری طرف سے شیلی نے فون بند کرنے کے بعد کہا تھا۔
٭…٭…٭
اس چھوٹے سے کمرے میں پڑا فرنیچر مرمت طلب ہونے کے باوجود اپنے ”خاندانی” ہونے کا اظہار کر رہا تھا۔ اس گھر اور کمرے اور اس گھرمیں رہنے والے لوگوں کی خستہ حالی کے باوجود اس کمرے میں فرنیچر کے نام پر بہت ساری چیزیں تھیں۔ جو مرمت ہو جاتیں تو اینٹیک کہلاتیں اور فرنیچر کے ان ہی آئٹمز میں وہ قد آدم شیشہ بھی تھا جو پہلے کبھی کسی ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ منسلک تھا مگر اب اس کے بغیر ہی اس دیوار پر لگایا گیا تھا جس کے سامنے اس وقت مومنہ سلطان کھڑی انگلیوں میں ایک سگریٹ لیے اس کے کش لگاتی اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے جیسے آئینے سے باتیں کر رہی تھی۔
”آئینہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں تم سے اور تم کسی اور سے۔ تینوں پاگل ہیں اور تینوں خالی ہاتھ رہیں گے۔”
وہ آخری جملے پر ہذبانی انداز میں قہقہہ مار کر ہنستی پھر کھانستی۔ اس کی آنکھوں میں اب پانی تھا اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ آئینے میں خود کو دیکھ کر انگلیوں میں دبے سگریٹ کو دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”اس سگریٹ کو تمہارے ہونٹوں نے چھوا ہے۔ اب تک جل رہا ہے۔ ایسی ہی ایک آگ میں میں بھی جل رہی ہوں۔
وہ جیسے آئینے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہی تھی۔
”اسے تو میں بجھا سکتی ہوں مگر میں اور یہ آئینہ ہم جل سکتے ہیں۔ بجھ نہیں سکتے۔ آگ ہو سکتے ہیں راکھ نہیں۔”
اس نے جلتے ہوئے سگریٹ کو اپنی ہتھیلی پر بجھایا۔ آئینے میں نظر آنے والے اس کے عکس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی اس کا سیل فون بجنے لگا تھا ہاتھ میں پکڑا سگریٹ کوڑے کی ایک ٹوکری میں پھینکتے ہوئے اس نے فون اٹھا لیا اس پر داؤد کا نام چمک رہا تھا۔
”مومنہ ساڑھے بارہ بجے ہے آڈیشن۔ تم آرہی ہو نا۔ دیکھو دیر مت کرنا۔” دوسری طرف داؤد تھا۔
”ہاں۔ ہاں۔ میں آرہی ہوں۔ بس تھوڑی دیر میں نکل رہی ہوں۔” داؤد نے اس کی بات سننے سے پہلے ہی فون بند کر دیا۔ وہ جلدی میں تھا اور ہمیشہ ہی جلدی میں رہتا تھا۔
”مومنہ! ناشتہ تو کر لو بیٹھ کر۔” وہ ابھی فون اپنے بیگ میں رکھ رہی تھی جب ثریا ایک ٹرے میں چائے کا ایک کپ اور دو سلائس رکھے آئی۔ وہ کچھ کہے بغیر ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔ ثریا چند لمحے وہیں کھڑی رہی پھر اس نے کہا۔
”ریہرسل کر لی نا؟”
”ہاں!” چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے مومنہ نے کہا۔
”مجھے سنا دو ایک بار۔”ثریا کو تجسس ہوا۔
”نہیں اماں! بس اب آڈیشن میں ہی بولوں گی یہ لائنز۔” اس نے سلائس کا ایک اور ٹکڑا دانتوں سے کاٹ کر چائے سے نگلتے ہوئے کہا۔
”میں تمہارے کپڑے پریس کرتی ہوں۔” ثریا دروازے کی طرف لپکی جب مومنہ کی آواز نے اس کے پیروں میں بیڑی ڈالی۔
”میں یہ کام نہیں کرنا چاہتی۔” ثریا نے پلٹ کر مومنہ کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں کی بے چارگی کو دیکھا پھر مدھم آواز میں کہا۔
”کیوں کہتی ہو ہر بار یہ جملہ مومنہ! جب جانتی ہو کہ یہ کام چھوڑ بھی نہیں سکتیں۔”
”اپنے آپ کو یاد دہانی کرواتی ہوں اور تو کچھ نہیں۔” اس نے سلائس کا آخری ٹکڑا نگلا یوں جیسے جلدی میں ہو۔
”جہانگیر سے مل لوں پھر ابا سے میک اپ کروانا ہے۔”
اس نے کہا اور دروازے میں کھڑی ثریا کے پاس سے گزر گئی جو اس کے کپڑے لیے وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔ اپنی کلائی میں گھڑی باندھتے ہوئے وہ اپنے گھر کے دو کمروں میں سے دوسرے کمرے میں داخل ہوئی جہاں جہانگیر اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے قدموں کی چاپ پر اس نے آنکھیں کھول دیں اور مسکرایا۔ وہ بھی جواباً مسکرائی۔
”طبیعت کیسی ہے تمہاری؟” وہ اس کے سوال پر بے اختیار ہنسا اور بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”آپا! پھر وہی سوال۔ میں ٹھیک ہوں۔”
”مجھے پتا ہے، ایک دن بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔”
جہانگیر نے ترکی بہ ترکی کہا۔ ”مجھے یہ بھی پتا ہے۔”
”آڈیشن کے لیے جا رہی ہوں۔ تم دعا کرنا۔” اس نے جہانگیر سے کہا۔
”قلبِ مومن کی فلم کے لیے آڈیشن کے لیے جا رہی ہیں نا؟” جہانگیر نے بے حد اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں۔” اس کا ذہن کہیں گم تھا۔ ”میں نے رات کو نیوز میں دیکھا تھا۔ اس کی فلم کو پھر ایوارڈ ملا ہے۔” جہانگیر جوش و خروش سے اسے بتانے لگا تھا۔
”آپ کو پتا ہے ہیٹ ٹرک کر لی ہے اس نے بیسٹ فلم اور ڈائریکٹر کی۔ تین فلمیں بنائی ہیں اور تینوں نے ایوارڈز جیتے ہیں۔ انڈسٹری کا پہلا ڈائریکٹر ہے جس نے یہ کارنامہ کیا ہے۔”
جہانگیر رکے بغیر اسے بتاتا چلا گیا تھا۔ وہ صرف اس کا چہرہ دیکھے چلی گئی۔ وہ آج بھی انڈسٹری کی اس طرح خبر رکھتا تھا جیسے انڈسٹری کا حصہ ہو۔ اس بیماری میں گھر میں قید ہو جانے کے بعد اس کی واحد دلچسپی یہی رہ گئی تھی۔ ٹی وی پر شوبز کی خبریں اور فلمیں دیکھنا۔ وہ کبھی کبھار اس کے لیے نیوز اسٹالز سے پرانے شوبز میگزینز لے آتی تو جہانگیر کے دل کی کلی کھل جاتی۔
”دعا کرنا جہانگیر!” اس نے جہانگیر سے کہا۔ یہ جیسے اس کا معمول تھا۔ کسی بھی آڈیشن یا پروجیکٹ کی شوٹ شروع ہونے سے پہلے جہانگیر سے دعا کرنے کے لیے کہنا۔ اسے پتا نہیں کیوں اس کی دعا پر یقین تھا۔ شاید اس صبر اور برداشت کی وجہ سے جس سے وہ اپنی بیماری کاٹ رہا تھا۔
”فکر نہ کریں۔ مل جائے گی آپ کو فلم۔ اسٹار بنیں گی آپ۔ بہت بڑی فلم اسٹار۔”
وہ جیسے اس کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بہن کی جدوجہد سے وہ واقف تھا۔ شوبز کے لیے اس کی ناپسندیدگی سے بھی۔ لیکن اپنے لیے دی جانے والی اس کی قربانی سے بھی۔
”ستارہ نہیں بننا مجھے۔ ستارے تو ٹوٹ جاتے ہیں۔ مجھے تو صرف تمہارا علاج کروا کر تمہارے ٹوٹتے ستارے کو بچانا ہے۔” اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے مومنہ نے سوچا تھا۔
”میں باہر تک چھوڑنے آؤں۔” جہانگیر نے اسے آفر کی۔
”بالکل نہیں۔ میں ابھی ابا کے پاس جا رہی ہوں میک اپ کروانے۔ تمہیں بیٹھنا پڑے گا خواہ مخواہ ہی برآمدے میں وہاں گرمی ہے۔ تم یہیں بیٹھو۔” اس نے فوری طور پر اسے منع کیا تھا۔ پھر وہ اس کی سائیڈ ٹیبل پر جا کر اس کی میڈیسنز چیک کرتے ہوئے بولی۔
”کون کون سی میڈیسنز ختم ہو گئی ہیں تمہاری؟ میں آج لیتی آؤں گی۔”
جہانگیر نے اسے دو میڈیسنز کا بتایا۔ اسے اس سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اسے گھر میں ہر شخص کی دوا کا پتا تھا۔ باہر سے سلطان کی آواز آنے لگی تھی۔ وہ اسے آوازیں دے رہا تھا۔ وہ جہانگیر کے کمرے سے واپس اپنے کمرے میں گئی اور استری شدہ کپڑے پہن کر وہ برآمدے میں اس کرسی پر آکر بیٹھ گئی جس پر بٹھا کر سلطان کسی کا بھی میک اپ کیا کرتا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});