”بہت شکریہ خالہ! بس آپ کا پیار ہے۔” اس نے انکساری سے کہا۔
”بس اب سوپ وغیرہ چھوڑو اور کوئی سیریل کرو۔ کوئی بڑا رول۔” انہوں نے ساتھ ہی مشورہ دیا۔
”جی ایک سیریل بھی کر رہی ہوں آج کل۔” اس نے ان پر انکشاف کیا اگر ان مرعوب کرنے سے کچھ اور دن مل جاتے کرایہ دینے کے لیے تو کیا برا تھا۔
”ارے واہ۔ یہ تو بڑی خبر ہے۔ کون کون ہے سیریل میں؟” انہوں نے فوراً پوچھا۔
”نشا ہے۔”
”اور تمہارا کیا رول ہے؟”
”چھوٹا رول ہے خالہ۔”
”چلو کوئی بات نہیں، بڑا بھی ملے گا۔ نشا کو میرا بتانا کہ میں فین ہوں اس کی۔”
”جی ضرور۔” مومنہ نے ہامی بھری۔
”ارے ہاں جس بات کے لیے تمہیں روکا تھا وہ تو بھول ہی گئی۔” وہ بالآخر مدعا پر آگئیں۔ ”تمہارے گھر گئی تھی۔ جہانگیر کو دیکھا تو بڑا افسوس ہوا۔ جہانگیر سامنے تھا تو ثریا سے کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔” ان کے چہرے پر اب ہمدردی کے تاثرات تھے۔
”مجھے پتا ہے خالہ! کرایہ لیٹ ہو گیا ہے اس بار بھی۔ لیکن میں ایک ہفتے تک دے دیتی ہوں آپ کو، سیریل کا چیک مل جائے گا اس ہفتہ میں۔” اس نے بڑے نادم انداز میں ان سے کہنا شروع کیا۔
”نہیں نہیں۔ کرائے کی تو کوئی بات نہیں ہے وہ دے دینا تم۔ مجھے اصل میں گھر خالی کروانا ہے۔” وہ بڑا جھجک کر بولیں۔ ایک لمحہ کے لیے مومنہ کی سانس رکی۔
”گھر خالی کروانا ہے؟” وہ بے یقینی سے بولی۔
”ہاں بیٹا! وہ بس میرا بیٹا اپنا گھر بنوا رہا ہے تو پیسے کم پڑ گئے ہیں، اس لیے اب یہ والا گھر بیچنا پڑے گا۔” انہوں نے وضاحت دی۔
”لیکن خالہ اتنا اچانک۔” وہ بے حد پریشان ہوئی تھی۔
”نہیں۔ نہیں وقت تو دیں گے تمہیں۔ مہینہ دو مہینہ۔ آرام سے گھر ڈھونڈو۔ آخر میں فین ہوں تمہاری۔ چلو پھر چلتی ہوں، درزی کے پاس بھی جانا ہے مجھے اور سیریل جب چلنا شروع ہو تو ضرور بتانا۔ اوکے اللہ حافظ۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ اسی طرح تیز تیز کہتی ہوئی چلی گئیں اور مومنہ وہیں کھڑی رہ گئی۔ وہ ہوں ہاں بھی نہیں کر سکی تھی۔ وہ واقعی ایک خراب دن تھا مگر اس کی زندگی میں خراب دنوں کی اتنی بھرمار تھی کہ اسے اب ان کی گنتی بھی بھول گئی تھی۔
”تو اب یہ ایک اور مسئلہ ہو گا۔ نیا گھر ڈھونڈنا۔” اس نے چلنا شروع کر دیا۔ اپنے گھر کے کھلے دروازے کے آگے لٹکتا پردہ ہٹا کر اس کا دل چاہا وہ وہیں گر جائے، کسی میراتھن میں حصہ لینے والے رنر کی طرح جو فنشنگ لائن تک پہنچتے پہنچتے ڈھے جانے کی خواہش جیتنے کی خواہش سے زیادہ کرنے لگتا ہے۔ اپنا بیگ صحن میں بڑی چارپائی پر پھینکتے ہوئے اس نے صحن کے کونے میں لگے ہوئے بیسن کا نلکا کھول کر چہرے پر چھینٹے مارنا چاہے اور نلکے سے پانی کے قطروں کے علاوہ کچھ برآمد نہیں ہوا تھا۔ اس کا دل عجیب طرح سے ڈوبا، وہ اس وقت پسینے سے شرابور تھی اور منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے کے بعد غسل خانے میں جا کر نہانا چاہتی تھی۔ جبکہ یہاں پانی ہی نہیں تھا۔
اس نے صحن میں کپڑے دھونے والی جگہ پر پڑی بالٹی دیکھی اور پھر اس بالٹی میں پڑے پانی سے وہ اپنے منہ پر چھینٹے مارنے لگی۔
”پانی کی پائپ لائن پھٹ گئی۔ وہاں سڑک پر پورے محلے والے جمع ہیں وہیں سے پانی لا رہے ہیں صبح سے۔ اب دیکھو کب ٹھیک کرتے ہیں میونسپلٹی والے۔”
اس نے اپنے عقب میں اچانک ثریا کی آواز سنی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اس نے اپنے چھوٹے بھائی جہانگیر کی بھی آواز سنی تھی۔
”آپا! تم آگئیں؟” یہ جملہ وہ ہر روز اس کے آنے پر بولتا تھا۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اس کی چاپ سن کر اندر کمرے سے باہر آجاتا تھا اس سے اس کے دن کی داستان سننے کے لیے۔ شوٹنگ پر ہونے والے واقعات، کس نے کس سے کیا کہا۔ کون کس سے لڑا، کون کس کے ساتھ افیئر چلا رہا ہے، کون فلرٹ کر رہا ہے۔ اس کی پرفارمنس نے کتنوں کو متاثر کیا۔ سین میں کس کس نے اسے داد دی۔ اس کا سوال نامہ روز ایک جیسا ہوتا تھا مگر مومنہ کو روز نئے سرے سے اس کی تیاری کرنا پڑتی تھی۔ باہر اور شوبز کی دنیا کے ساتھ وہ جہانگیر کے رابطے کا واحد ذریعہ رہ گئی تھی اور وہ اسے قائم رکھنا چاہتی تھی۔
”تمہاری طبیعت کیسی ہے؟” اس کا جواب بھی جہانگیر کو یقینا رٹا ہوا ہو گا۔ وہ اس کے سوال کا جواب ہمیشہ اس سوال سے دیا کرتی تھی اور پھر اس کا جواب جہانگیر کی زبان پر ڈھونڈنے کے بجائے اس کے چہرے اور انداز سے ڈھونڈتی تھی کیوں کہ جہانگیر کی زبان پر ہمیشہ جھوٹ ہوتا تھا۔
”میں تو ٹھیک ہوں۔” اس نے مسکرا کر کہا اور وہ اس کا چہرہ کھوجنے لگی۔ وہ ویسا ہی تھا جیسا روز ہوتا تھا۔ وہی حلقے، وہی پیلی پھیکی رنگت، وہی سیاہ ہونٹ، وہی آنکھوں کے گرد سوجن، وہی آنکھوں کی غائب ہوتی ہوئی چمک اور وہی کھڑے رہ پانے کی جدوجہد۔ وہ گردوں کی بیماری میں مبتلا تھا اور ڈائیلائسس کروا رہا تھا اور مومنہ سلطان رقم جمع کرنے میں مصروف تھی جس سے وہ اس کا گردہ تبدیل کروا لیتی۔ وہ بہت سے محاذوں پر بہت سی جنگیں ایک ہی وقت پر لڑ رہی تھی اور ہر جنگ ہار رہی تھی۔
”وہ آپا پھر آج کیسا گیا سیریل کے سیٹ پر تمہارا پہلا دن؟” جہانگیر اس کی کھوجتی آنکھوں کو خود پر سے ہٹانا چاہتا تھا۔
”میں تھوڑی دیر سو جاؤں پھر اٹھ کے۔ بتاؤں گی۔” اس نے اندرونی کمرے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کھانا تو کھا لو۔” ثریا نے اس سے کہا۔
”وہ بھی بعد میں۔”
ا س نے پلٹے بغیر ماں سے کہا تھا یہ پوچھے بغیر کہ پکا کیا ہے۔ دال، آلو، گوبھی، چاول۔ وہ مینیو کی فہرست اور ترتیب سے واقف تھی اور اسے یہ بھی پتا تھا کہ جب تک کرایہ ادا نہ ہو جاتا اس مینو میں گوشت کی انٹری نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ گوشت کی شوقین تھی بھی نہیں۔ ڈراموں کے سیٹس پر اسے سب کچھ مل جاتا تھا۔ ثانوی کرداروں میں بھی اچھا کھانا یا کم از کم وہ کھانا جو اس کے اپنے گھر سے بہتر ہوتا تھا اور کھانے کے بارے میں اب سوچتا بھی کون تھا۔ زیادہ سے زیادہ جو وہ سوچتی تھی وہ کھانا کھانے کے بارے میں تھا۔ کیا کھایا جائے اس بارے میں نہیں۔
چادر کو چہرے پر کھینچتے ہی وہ جیسے سکون کی کسی وادی میں اتر گئی۔ یہ اس کی عادت تھی وہ سر سے پاؤں تک چادر خود پر تان کر چِت سویا کرتی تھی۔ وہ چادر نما خیمہ جیسے اس کی حفاظتی باڑ تھی جو کچھ لمحوں کے لیے اسے ہر چیز سے بے نیاز کر دیتا تھا۔ اس چادر کے اندر اس کے اپنے وجود کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ نہ گھر کی دیواروں سے اترتا سیمنٹ، نہ برسات میں چھت سے ٹکپتا پانی، نہ گھر کا مرمت طلب فرنیچر، نہ جہانگیر کا بیمار چہرہ، نہ ثریا کی مجبور نظریں، نہ سلطان کی اداس آنکھیں۔
اس چادر کے اندر مومنہ سلطان کو صرف مومنہ سلطان نظر آتی تھی جو صرف اپنے ساتھ ہوتی تھی۔ کچھ دیر کے لیے نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے وہ چادر کے اندر آنکھیں کھولے اس چادر کی چھت کی دیکھتی رہتی اور اس خالی پن میں سکون محسوس کرتی جیسے کسی نے سلیٹ پر لکھی گڈمڈ تحریریں کچھ دیر کے لیے ڈسٹر سے مٹا دی ہوں اور سلیٹ بالکل خالی ہو۔
پنکھے کی گھرر گھرر کی آواز اس کی چادر کو ہلانے میں مصروف تھی۔ باہر صحن میں ثریا اور جہانگیر آپس میں باتیں کر رہے تھے اس چادر کے اندر وہ بند آنکھوں سے ان کی آوازیں سن رہی تھی۔
”مجھے پتا ہے، پہلا سین دیکھتے ہی ڈائریکٹر اور سارے ایکٹر متاثر ہو گئے ہوں گے آپا سے شاید تالیاں بھی بجائی ہوں۔ ہو سکتا ہے اگلا سیریل بھی دینے کی بات کر رہے ہوں۔”
جہانگیر خواب دیکھنے کا عادی تھا اور اون سلائیوں کے ساتھ ایک خواب کے اُدھڑے دھاگوں کے ساتھ دوسرا خواب بننے کا عادی بھی۔ وہ آنکھیں بند کیے چادر کے اندر سوچ رہی تھی۔
”ہاں سیریل مل جائے کوئی بڑا تو تمہارا گردہ ٹرانسپلانٹ کروا لیں گے فوراً۔ سیریل کے پیسے بھی تو بہت ملتے ہیں ہیرو ہیروئن کو۔”
اس نے ثریا کی آواز سنی۔ مومنہ کی ہر کامیابی ثریا اور سلطان کے نزدیک جہانگیر کی زندگی بچانے کے قدموں کے طور پر گنی جاتی تھی۔ اب مومنہ یہ کرے گی تو جہانگیر کو یہ مل سکتا ہے۔ یہ کرے گی تو جہانگیر کے ساتھ یہ ہو جائے گا اور یہ ہو گا تو وہ سانپ سیڑھی کا وپرا بورڈ کسی سانپ کے لیے زہر کا شکار ہوئے بغیر اپنے بھائی کے ساتھ پار کر جائے گی۔ وہ اس سے آگے کچھ سوچ نہیں پائی۔ نیند مہربان تھی اور زندگی نامہربان۔
٭…٭…٭
اس نے آنکھیں کھول دیں اور پہلا احساس جو اسے ہوا تھا وہ سر میں دھمک کا تھا۔ یہ رات کا ہینگ اوور،after party effects تھا۔ وہ کچھ دیر اسی طرح اپنے بیڈ پر ٹانگیں کھولے چِت لیٹا رہا۔ آنکھیں کھولتا بند کرتا رہا۔ اس کے کانوں میں رات کی پارٹی کے ڈی جے کا بجایا ہوا میوزک اب بھی گونج رہا تھا۔ ڈرم کی بلند بیٹ۔ اس نے سر کو بے اختیار جھٹکا یوں جیسے شور کو بھی سر سے جھٹک دینا چاہتا تھا۔ پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے گلاس پینٹ ہاؤس کی دیواروں اور کھڑکیوں سے اس وقت روشنی چھن چھن کر آرہی تھی۔ وال کلاک دس بجا رہا تھا اور عام طور پر اس کے جاگنے کا وقت تھا چاہے وہ ساری رات ہی کسی پارٹی میں رہتا لیکن دس بجے اس کا باڈی کلاک اسے کسی الارم کی طرح اٹھا دیتا تھا۔
بستر پر اٹھ کر بیٹھا وہ چند لمحے پینٹ ہاؤس کی شیشے کی دیواروں سے نظر آتا منظر دیکھتا رہا۔ تیس منزلہ عمارت کی اس آخری منزل پر موجود پینٹ ہاؤس میں صبح آنکھ کھلنے کے بعد وہ اسی طرح ہر روز بستر پر بیٹھا رہتا تھا۔ یہ وقت انجانے میں زندگی کی بے معنویت کو محسوس کرنے کے چند لمحے تھے جو ہر روز قلبِ مومن کی زندگی میں اسی وقت آتے تھے۔
ساری رات پارٹیز میں وقت گزارنے کے بعد صبح سوتی جاگتی کیفیت میں آنکھ کھلنے کے بعد بستر پر بیٹھ کر پینٹ ہاؤس کی شیشے کی دیوار سے نظر آنے والا سمندر اور اس کے اوپر اڑتے پرندے دیکھنا۔ وہ منظر اس کے پینٹ ہاؤس سے بہت دور کا تھا۔ وہ وہاں بیٹھے سمندر کی آواز نہیں سن سکتا تھا اس کے باوجود اس کے اندر اس منظر کو دیکھتے ہوئے سمندر کی موجوں اور لہروں کی حرکت کے ساتھ وہ شور بھی سنائی دیتا تھا جو اس وقت سمندر میں ہوتا۔
بستر سے اتر کر وہ لڑکھڑایا۔ یہ لڑکھڑاہٹ بھی معمول کا حصہ تھی۔ دو تین قدموں میں وہ سنبھل جاتا تھا آج بھی سنبھل گیا۔
واش روم میں واش بیسن پر سر جھکائے وہ اپنے چہرے اور آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارتا ہی چلا گیا تھا۔ یوں جیسے سر میں سنائی دینے والی دھمک کو روکنا چاہتا ہو یا دھو دینا چاہتا ہو۔ پھر اس نے سیدھا کھڑا ہو کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ سرخ پھولے ہوئے پپوٹے، ہلکی بڑھی ہوئی شیو، بکھرے بال اور بھیگا ہوا چہرہ اور اس چہرے سے نیچے گردن اور سینے تک آتی پانی کی مہین لکیریں۔ رات کی تھکاوٹ بھی آئینے میں نظر آنے والے مرد کی وجاہت کو دھندلانے میں ناکام نظر آ رہی تھی۔ اس کے تیکھے نین نقش اس کے عرب یا ترکش ہونے کی چغلی کھا رہے تھے یا کم از کم اس کے جینز میں اس وراثت کی موجودگی کا برملا اظہار کر رہے تھے۔
آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے وہ جیسے وہاں لکھا اپنے پورے دن اور اگلی رات کا شیڈول پڑھ رہا تھا۔ اس کی مصروفیات کی ایک لمبی لائن تھی اور وہ ذہنی طور پر اس وقت ان میں الجھنا نہیں چاہتا تھا۔
نائٹ سوٹ کی شرٹ پہنے وہ باہر لاؤنج میں واپس آگیا جہاں دیوار پر اھدنا الصراط المستقیم کی بڑے سائز کی پینٹنگ دیوار پر لگی ہوئی تھی۔ اسی دیوار پر جس کے ساتھ وہ صوفہ پڑا تھا جس پر بیٹھا وہ اس وقت ٹی وی آن کیے چینل بدلنے میں مصروف تھا میکانکی انداز میں۔ بی بی سی سے فیشن چینلز اور سی این این سے اسپورٹس اور پھر دوبارہ بی بی سی یا سی این این اس کی روز کی چینل روٹین بھی ایک جیسی ہی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});