”آرہی ہے نشا! تم ریہرسلز کرواؤ۔” اسسٹنٹ نے کچھ جھنجھلا کر ڈائریکٹر سے کہا تھا۔
”کتنی ریہرسلز کرواؤں، صبح سے ریہرسلز ہی ہو رہی ہیں۔” مومنہ نے اسسٹنٹ کو بھی جھنجھلاتے دیکھا اور چائے کا کپ ایک گھونٹ میں خالی کر کے اسپاٹ بوائے کو تھما دیا۔
”بس ہمیں بیٹھا چھوڑتے ہیں، تین تین گھنٹے کے لیے۔” اس نے اپنے برابر بیٹھی ایک ایکسٹرا لڑکی کو کہتے سنا۔
”قسمت کہتے ہیں اسے۔” دوسری نے جواباً کہا تھا۔ وہ ایک خاموش تماشائی تھی اور ایسے موقعوں پر تو جیسے اس کے سارے لفظ ہی کہیں گم ہو جاتے تھے۔ کسی بھی سیٹ پر سب سے بے ضررر وجود مومنہ سلطان ہی کا ہوتا تھا۔ اس کی کسی چیز کے بارے میں کوئی رائے نہیں ہوتی تھی۔ ہوتی بھی تھی تو وہ اس کے لب پر نہیں آتی تھی۔ اسے شکایت کرنے کی عادت کبھی رہی ہی نہیں تھی اور اب ان حالات میں شکایت کرنا تو وہ افورڈ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وقت اس کے پاس بہت تھا۔
آج کا دن ان دنوں میں سے ایک تھا جب اسے ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر پہنچنے کے لیے بھاگنا نہیں تھا۔ یہ پہلا سیریل تھا جو وہ کر رہی تھی اور اسے سیریل کہنا شاید کچھ لفاظی ہوتی۔ وہ ہیروئن کی ایک دوست کا رول کر رہی تھی۔ جس کے پاس صرف بارہ سین تھے، چوبیس اقساط کے اس سیریل میں۔
سیٹ پر ایک دم کھلبلی مچ گئی۔ وہ ہیروئن بالآخر آن پہنچی جس کا انتظار ہو رہا تھا۔ مومنہ نے بھی سکون کا سانس لیا، اب بالآخر وہ سین کروا کے گھر جا سکتی تھی۔
”مومنہ! آکر ریہرسل کرو۔ تمہارا سین ہو گا پہلے۔” اسسٹنٹ نے اسے پکارتے ہوئے کہا۔ وہ برق رفتاری سے اٹھی اور سیٹ کے اس حصے میں چلی گئی جہاں نشا اپنے بال بنوا رہی تھی۔ وہ میک اپ کروا کر آئی تھی۔ اس لیے ڈائریکٹر خوش تھا کہ وہ وقت بچ گیا تھا۔
”ہائے۔” اس نے مومنہ کے سلام کے جواب میں ایک ہلکی مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور ساتھ جمائی لیتے ہوئے اسسٹنٹ سے کہا۔
”چائے پلوا دو تاکہ آنکھیں تو کھلیں میری۔” اسسٹنٹ نے بجلی کی رفتار سے سپاٹ بوائے کو دوڑایا تھا۔
”ہاں بال ٹھیک ہیں اب میرے۔ بائیں کندھے پر ڈالو۔”
نشا اب میک اپ آرٹسٹ سے مخاطب تھی اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہوئے سات لپ اسٹک بھی دیکھ رہی تھی۔
”ڈائیلاگز یاد ہیں آپ کو؟” اسسٹنٹ کو مومنہ کو کھڑے دیکھ کر اچانک یاد آیا کہ اسے کس کے لیے بلوایا گیا تھا۔
”ڈائیلاگز کیا گھر سے یاد کر کے نکلوں گی میں؟ میں نے تو اسکرپٹ دیکھا تک نہیں ابھی۔ بس یہ پتا ہے کہ رول کیا ہے میرا۔”
نشا نے اسی بے زار اور تیکھے انداز میں جمائی لیتے ہوئے کہا۔ وہ پچھلی رات ہی بیرون ملک چھٹیاں گزار کر آئی تھی اور اب اگلی صبح ہی سیٹ پر آکر شوٹنگ کروانا، وہ اپنی بے زاری کو بالکل حق بجانب سمجھ رہی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”مومنہ! تم ذرا لائنز دہراؤ اپنی۔ میں میڈم کی دہراتا ہوں۔” اسسٹنٹ نے مومنہ سے کہا تھا۔ نشا اسسٹنٹ پر تپی۔
”چائے تو پینے دو مجھے۔ آرٹسٹ ہوں میں اور وہ بھی سیریل کی مین لیڈ۔ مزدوروں کی طرح ٹریٹ مت کرو مجھے۔”
مومنہ اور اسسٹنٹ ایک دوسرے کو دیکھ کر چند لمحوں کے لیے ہکا بکا ہو گئے۔ پھر اسسٹنٹ نے فوری طور پر نشا سے معذرت کرنا شروع کر دی۔ وہ اس فیلڈ میں بغیر غلطی کے ان معذرتوں کا اتنا عادی ہو چکا تھا جیسے کسی جھگڑالو سسرال میں آنے والی غریب خاندان کی بہو جس کی زبان پر سلام کے بعد پہلا جملہ معاف کر دیں ہوتا ہے۔
نشا کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا، وہ اب چائے کی چسکیاں لے رہی تھی۔ مومنہ اب بھی کھڑی تھی اسکرپٹ ہاتھ میں لیے۔
”اچھا ذرا دہراؤ میری لائنز۔” اس نے بالآخر چائے کا کپ خالی کر کے اسپاٹ بوائے کو تھمایا۔ میک اپ آرٹسٹ سے ایک بار پھر برش اور پاؤڈر لگوایا اور پھر اسسٹنٹ سے کہا، جو طوطے کی طرح اس کے جملے دہرانے لگا تھا۔ پندرہ منٹ وہ اسے جملے یاد کرواتا رہا اور مومنہ وہیں کھڑی دیکھتی رہی۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے بلا مقصد وہاں کھڑی تھی لیکن وہ کسی سے نشا کی طرح یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ اسے بلاوجہ کیوں وہاں کھڑا کیا گیا ہے جبکہ سین ابھی تیار ہی نہیں ہے۔ وہ ثانوی کردار تھی، اپنی حیثیت اور اوقات جانتی تھی۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ نشا کی ساری فرسٹریشن اس پر اتاریں۔
پندرہ منٹ بعد بالآخر نشا کو ڈائیلاگ یاد ہو گئے، وہ اب سین کے لیے تیار تھی۔
ایکشن کی کیو کے ساتھ ہی مومنہ نے اپنی لائنز بولنا شروع کر دیں۔
”میں تمہاری دوست ہوں، تم اس طرح کے الزامات نہیں لگا سکتیں مجھ پر، وہ بھی صفائی کا موقع دیے بغیر۔” اس نے نشا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اپنے ڈائیلاگز بولے۔ وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں۔
”میرے بس میں ہو تو تمہیں جان سے مار دوں۔” نشا نے جواباً غصے میں کہا۔
مومنہ نے یک دم اس کے ہاتھ پکڑے اور اپنی گردن تک لاتے ہوئے بے حد جذباتی انداز میں کہا۔
”مار دو۔ اگر میرے مر جانے سے دوستی بچ جاتی ہے تو مجھے یہ بھی قبول ہے۔”
نشا نے اس سے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”تم نے یہ بات مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی۔ اتنا بڑا راز۔ ۔۔کٹ کریں۔”
نشا اپنے ڈائیلاگز آخری منٹ میں بھول گئی تھی اور اس نے یک دم سین کٹ کروایا تھا۔ ڈائریکٹر اور ڈی او پی بے اختیار جھنجھلائے تھے۔ سین ختم ہوتے ہوئے خراب ہو گیا تھا۔
”ڈائیلاگ دہراوؑ میڈم کے۔” ڈائریکٹر نے اسسٹنٹ سے کہا مگر اس سے پہلے کہ اسسٹنٹ کچھ کہتا نشا نے بے حد خفگی سے کہا۔
”ڈائیلاگز ہیں ہی بکواس میرے۔ ساری لائنز اس کو دی ہوئی ہیں۔ مجھے بس ”اتنا بڑا راز” دے کر بٹھایا ہوا ہے۔ ڈائیلاگ کم کریں اس کے ڈائریکٹر صاحب! وہ میرا سین کھا رہی ہے، آپ کو نظر نہیں آرہا۔”
مومنہ ہکا بکا کھڑی تھی اور ایسا ہی حال عملے اور ڈائریکٹر کا تھا۔ مومنہ کا خیال تھا وہ اپنے ڈائیلاگز بھولنے کی وجہ سے شرمندگی میں یہ سب کہہ رہی ہے، اسے یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ وہ اس کی پرفارمنس اور ایکسپریشنز سے پریشان ہوئی تھی۔
نشا سیریلز کرتے کرتے نئی نئی دو فلمیں کر کے آئی تھی اور فلم کی طرح وہ بھی آتے ہی مقابل کے ڈائیلاگ کٹوانے بیٹھ گئی تھی۔ وہ اسٹار پاور تھی اور مومنہ بے چارگی کے عالم میں مین فریم کے اندر ویسے کی ویسے ہی کھڑی تھی۔
تھوڑی دور ڈی او پی مانیٹر پر اسی فریم کی فوٹیج ڈائریکٹر کو دکھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”میں آپ کی جگہ ہوتا تو مومنہ ہی کو کاسٹ کر لیتا۔ نشا ٹھیک کہہ رہی ہے۔ وہ اس کا سین کھا رہی ہے، وہ سب کا سین کھا جاتی ہے۔ چاہے بہن بنا کر کھڑا کر دو، چاہے نوکرانی۔ مومنہ کے ایکسپریشن کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔”
ڈی او پی اسے داد دے رہا تھا اور بہت کھلے دل سے دے رہا تھا جبکہ ڈائریکٹر پریشانی سے اس سے کہہ رہا تھا۔
”پتا ہے مجھے پرفارمر ہے وہ مگر نشا برانڈ ہے۔ سیریل برانڈ نیم سے بکتا ہے، پرفارمنس سے نہیں۔ میں لاتا ہوں منا کر نشا کو۔ طاہر تم اسکرپٹ دیکھو۔ مومنہ کی لائنز کم کر دو بلکہ نشا میڈم کے پاس لے آؤ وہ خود ہی کم کر دیں گی۔”
مومنہ نے اتنی دور سے بھی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے درمیان بلند آواز سے ہونے والی گفتگو سن لی تھی، گفتگو کو اس کے کانوں تک نہ پہنچنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی تھی۔
”انڈسٹری میں عزت، نخرہ اور انا صرف مین لیڈ کی دیکھی جاتی ہے۔ باقی سب یہ چیزیں گھر چھوڑ کر سیٹ پر آتے ہیں۔”
کسی سینئر ایکٹر نے ایک بار مومنہ سے کہا تھا اور مومنہ کو وہ بات یاد آئی تھی۔
٭…٭…٭
اس کے گھر کی گلی بہت لمبی تھی اور تنگ بھی، ٹوٹی پھوٹی بھی اور بے حد گندی بھی۔ نہ وہاں کوئی کوڑا اٹھانے آتا تھا نہ نالی صاف کرنے، یہ کام اس دن ہوتا جب محلے کے لوگوں کا میونسپلٹی کے جمعداروں کے ساتھ لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ ہوتی اور پھر محلے والے مل کر محلے کے جمعدار کے خلاف ایک درخواست دیتے اور اس دن میونسپلٹی کسی نہ کسی کو صفائی کے یلے وہاں بھیج دیتی۔ یہ سالوں سے ہو رہا تھا۔ نہ جمعدار کی ڈھٹائی میں تبدیلی آئی تھی نہ محلے والوں کی ثابت قدمی اور بے نیازی میں۔
وہ آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں صرف دو سین کروا کر اور تین ڈریس بدل کر تھکی ہاری اپنی گلی میں شام سے کچھ پہلے داخل ہوئی تھی۔ نیند سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں اور ایک لمحہ کو اس کا دل چاہا تھا وہ اسی گلی میں سونے کے لیے لیٹ جائے۔ گلی کی زمین پر اگر جگہ جگہ اسے گندگی نظر نہ آرہی ہوتی تو وہ شاید یہ کر بھی بیٹھتی۔ اس کی ذہنی حالت کچھ ایسی ہی تھی آج۔
سامنے سے آتے جھومر نے اسے دیکھتے ہی تالیاں پیٹ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
”ہماری ہیروئن آگئی۔”
وہ مسکرا بھی نہ سکی۔ اس محلے میں فی الحال اس کے علاوہ کوئی ٹی وی میں کام کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس لیے جھومر اسے بلاوجہ محلے کی شان بنائے بیٹھا ہوا تھا۔
”السلام علیکم مومنہ باجی! میں کیسی لگ رہی ہوں؟” اس نے مومنہ کو سلام کرتے ہی جیسے اس سے اپنی ”تیاریوں” کی داد لینا چاہی۔
”ہمیشہ اچھی لگتی ہو جھومر!” اس نے غور کیے بغیر کہا۔ وہ رک کر مزید بات چیت نہیں کرنا چاہتی تھی جو جھومر کی خواہش رہتی تھی۔
”بس مومنہ باجی! آپ اسٹار ہیں تو نظر بھی آپ کی اسٹاروں والی ہے۔ باقی اس محلے میں تو کوئی آپ جیسا ہے ہی نہیں، اسی لیے تو آپ پر اتنا بھروسا کرتی ہے جھومر۔”
جھومر بولے جا رہا تھا۔ اپنا دوپٹہ گلے میں سیدھا کرتے اور اپنے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے یہ دیکھنا یاد نہیں رہا تھا کہ مومنہ اس کے پاس کھڑی بھی تھی یا نہیں اور جب تک اسے خیال آیا مومنہ اس کے پاس سے غائب ہو چکی تھی۔
”مومنہ۔ مومنہ…!” وہ اپنے گھر کے دروازے سے ابھی بہت فاصلے پر تھی جب اس نے اپنے عقب میں کسی کو اپنا نام پکارتے سنا۔ وہ بے اختیار پلٹی۔ ایک درمیانی عمر کی چھوٹے قد اور بھاری وجود کی عورت پھولے ہوئے سانسوں کے ساتھ اس کی طرف آرہی تھی وہ یقینا بہت دیر سے اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ وہ اس کی مالک مکان تھی اور اس کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالتے ہی مومنہ کو یاد آیا کہ انہوں نے ابھی اس مہینے کا کرایہ دینا تھا۔ ذہن میں کوئی مناسب بہانا ڈھونڈتے ہوئے اس نے اس عورت کو سلام کیا جو اب اس کے قریب آگئی تھی۔
”السلام علیکم عذرا خالہ۔”
”وعلیکم السلام۔ اف تم نے تو دوڑ لگوا دی۔ کب سے آوازیں لگا رہی ہوں تمہیں۔ پر مجال ہے تم نے پیچھے پلٹ کر دیکھا ہو۔” اس عورت نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس سے گِلہ کیا۔
”بہت معذرت، میں نے آواز سنی نہیں آپ کی۔” مومنہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں بھئی، اسٹار ہو تم کیا سنو گی ہمارے جیسوں کی آوازیں۔ ثریا سے کہہ رہی تھی، کیا ایکٹنگ کرتی ہے۔ تمہاری بیٹی ماشاء اللہ، سوپ دیکھ رہی ہوں تمہارا۔”
عذرا نے پھولے ہوئے سانس کو بحال کرنے کا انتظار کیے بغیر اسی سانس میں اس کی تعریفیں شروع کر دی تھیں۔ مومنہ کچھ پرسکون ہوئی۔ اس کا مطلب تھا فی الحال کرایہ کے لیے کچھ دن اور مل سکتے تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});