”میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی فلمزcritics کی نظر میں cheap entertainmentکے سوا کچھ نہیں، وہ آپ کی نظر میں کیا ہیں؟” رشنا نہ چاہتے ہوئے بھی اس بار تلخ ہوئی تھی۔
”اور یہcritics وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی ہٹ فلمز پر اپنے flop reviews لکھ لکھ کر پانچ منٹ کے لیے نمایاں ہونا چاہتے ہیں۔” اس کا دوٹوک جواب آیا تھا۔
”میری نظر میں میری فلمز میرے لیےobject of fantasy (تصورات کی تجسیم) ہیں۔ میں وہ بناتا ہوں جو مجھےentertainکرتا ہے اور وہ اچھی ہیں یا بری اس کا فیصلہ باکس آفس کرتا ہے۔ criticsکے ٹو اور تھری اسٹار ریویوز نہیں۔” اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”آپ جو بھی کہیں، یہ بات تو ایک فیکٹ ہے۔ آپ اپنی فلمز میں عورت کو ایکobject (شے) کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک باربی ڈول سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔گلیمر… گلیمر… گلیمر۔” رُشنا نے اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے کہا۔ قلبِ مومن کی صاف گوئی نے یک دم جیسے اسے بھی بے حد منہ پھٹ بنا دیا تھا۔
”یہ قلبِ مومن نہیں کرتا، یہ پوری دنیا کی فلم انڈسٹری کرتی ہے۔ اسی فی صد فلمز عورت ہی کے گرد گھومتی ہیں۔ اس کے جسم، اس کی خوب صورتی، اس کے گلیمر کے گرد۔ میں آرٹ فلمز بنانا نہیں چاہتا جن کو دیکھنے کے لیے وہcritics بھی سینما نہیں جاتے اور صرف ٹریلر دیکھ کر ورلڈ کلاسک قرار دیتے ہیں۔”
”آپ بہتblunt (منہ پھٹ) ہیں۔” رشنا کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
”یہ خامی ہے کیا؟” اس نے فوراً پوچھا۔
”نہیں۔ میں جانتی ہوں، یہ آپ کی کامیابی کی عنایت ہے۔ کامیابی میں ہر شخص بلنٹ ہوتا ہے۔” رشنا نے کہا۔ وہ اس بار مسکرایا اور اس نے کہا۔
”میں ناکامی میں اس سے زیادہblunt ہوں گا،don’t worry۔” رشنا بھی مسکرا دی تھی۔
”اب اگر کامیابی کے بارے میں بات شروع ہو ہی گئی ہے تو آپ بتائیں، آپ کے نزدیک کامیابی کیا ہے؟”
”کامیابی وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے، جس کے بارے میں آپ خود نہیں دنیا بات کرے۔ لوگ آپ جیسا بننے کے لیے آپ سے جیلس ہوں۔ میں envy (رشک) کی بات نہیں کر رہا jealousy (حسد) کی بات کر رہا ہوں۔ اسٹیج پر آپ کھڑے ہوں اور نیچے دنیا کا ہر شخص آپ کا دشمن۔”
رشنا کو لگا وہ مذاق کر رہا تھا مگر اس کے چہرے کا اطمینان رشنا کے اس اندازے کی نفی کر رہا تھا۔
”کامیابی دائمی نہیں ہوتی۔ اس کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ وقت گزر جاتا ہے۔” رشنا نے جیسے اسے یاد دہانی کرائی۔ ”پھر دشمنوں اور حاسدین کے اس گروہ کا آپ کیا کریں گے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”پھر یہ میرے ساتھ نہیں ہوں گے، اگلے کامیاب آدمی کے پیچھے ہوں گے۔” وہ اسی طرح اطمینان سے مسکرایا۔ رشنا اس کی حاضر جوابی سے محظوظ ہوئی۔
”آج ایوارڈز ہو رہے ہیں آپ اور آپ کی فلم کو نامزد کیا گیا ہے۔ کیا توقعات ہیں؟” رشنا نے آخری سوال کیا۔
”I will win all۔” قلبِ مومن نے اسی پُراعتماد لہجے اور گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا جو رشنا کو اس کا شناختی نشان لگی تھی۔
”اور اگر نہ جیت سکے تو؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
”تو ایوارڈ کا بائیکاٹ کر دوں گا۔” اسی روانی اور اطمینان سے جواب آیا۔
”یہ فیئر پلے تو نہیں ہے۔” رشنا کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
”میں فیئر پلے پر یقین بھی نہیں رکھتا۔”
قلبِ مومن نے مسکراتے ہوئے اپنے کالر سے مائیک اتارتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
”بیسٹ ڈائریکٹر کا ایوارڈ دیا جاتا ہے قلبِ مومن کو ”میری جان کے لیے۔”
ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔
چھت میں لگی اسپاٹ لائٹس نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے بے حد تیکھے نین نقش اور سفید رنگ والے چھ فٹ سے نکلتے قد کے مالک قلبِ مومن کو فوکس کیا۔ جواب نشست سے کھڑے ہوتے ہوئے اپنی بلیک ڈنر جیکٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے اپنی دائیں بائیں بیٹھی اپنی فلم کی کاسٹ سے ہاتھ ملاتے، گلے لگاتے۔ اسٹیج کی سیڑھیوں کی طرف جا رہا تھا اور اس کے عقب میں اس ہال میں بیٹھی ہر عمر کی اداکارہ کی نظریں مقناطیس کی طرح اس کے وجود کے ساتھ کھینچتی جا رہی تھیں۔
یہ ناممکن تھا کہ قلبِ مومن ان سب کی توجہ کا مرکز نہ بنتا۔ وہاں اس ہال میں بیٹھی ہر وہ ایکٹرس جو اس کے ساتھ کام کر چکی تھی، وہ اس کے لیے تالیاں بجاتی اسے داد دیتی انڈسٹری کے سب سے کامیاب نوجوان فلم ڈائریکٹر کو اپنی سپورٹ کا یقین دلا رہی تھی اور اس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند ہر نوجوان اداکارہ اس کے لیے تالیاں پیٹتے جیسے اس کی مرکز نگاہ بننا چاہتی تھی۔
وہ اب اسٹیج پر پہنچ کر ایوارڈ وصول کرنے کے بعد روسٹرم کے پیچھے کھڑا تالیوں کے رکنے کے انتظار میں تھا۔ جو بجتی ہی جا رہی تھیں اور وہ کچھ محظوظ مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ میں پکڑا ایوارڈ روسٹرم پر دھرے اپنے منہ کے سامنے مائیک درست کرنے میں مصروف تھا۔
وہ رات قلبِ مومن کی رات تھی اور پچھلے تین سال سے پاکستان کے اس سب سے بڑے فلم ایوارڈ شو کی ہر رات قلبِ مومن ہی کے نام ٹھہر رہی تھی، وہاں بیٹھے کسی فرد کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔
تالیوں کی گونج بالآخر تھمی تو قلبِ مومن نے بات شروع کی۔ امریکن لب و لہجے میں بولی جانے والی انگلش میں اس نے وہاں بیٹھے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ اپنے لیے اور اپنی فلم کے لیے پاپولر ووٹ دینے والے لوگوں اور اپنی کاسٹ کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد اس نے اس ایوارڈ شو کی انتظامیہ پر بجلی گراتے ہوئے ایوارڈز کی جیوری کو بری طرح رگیدا تھا کیوں کہ اس سال پہلی بار اس کی فلم تمام نامزدگیاں نہیں جیت سکی تھی۔
بیسٹ ٹائٹل ٹریک قلبِ مومن کے دیرینہ حریف احسن ملک کی فلم کو دے دیا گیا تھا، نہ صرف یہ بلکہ بیسٹ سینما ٹو گرافی کا ایوارڈ بھی اسی کی فلم کو دیا گیا تھا اور قلبِ مومن یہ ہضم نہیں کر سکا تھا۔ اس کے لیے جیتنے والے چھ ایوارڈ سے زیادہ اہم ہارنے والے دو ایوارڈز تھے۔
اسٹیج پر کھڑا وہ ایوارڈ شو کی انتظامیہ اور جیوری دونوں کی بری ججمنٹ پر اعتراض بھی کر رہا تھا اور ہال کو اس وقت سانپ سونگھا ہوا تھا۔ وہ ایوارڈ شولائیو نہیں جا رہا تھا ورنہ اس شو کی انتظامیہ جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے منسلک تھی حذف کر سکتے تھے مگر قلبِ مومن کی اتنی کھلی تنقید اور وہ بھی اس پوری انڈسٹری کے سامنے جس میں سے کوئی بھی اس ایوارڈ شو کی انتظامیہ کے سامنے منہ تو کیا زبان بھی ہلا نہیں سکتا تھا۔ اس کمپنی کی بیک اسٹیج اور فرنٹ رو میں بیٹھی ہوئی انتظامیہ کو ہضم نہیں ہوئی تھی۔ مگر کوئی مائی کا لعل انڈسٹری کے سب سے تگڑے اور کامیاب ڈائریکٹر کو چپ کروانے کی کوشش نہیں کر سکتا تھا۔
قلبِ مومن اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد اپنا ایوارڈ اٹھا کر اسٹیج کی سیڑھیوں کی طرف واپس جانے لگا تو نہ صرف ہال میں ایک بار پھر تالیوں کا شور گونجنے لگا بلکہ انتظامیہ کی بھی جان میں جان آئی تھی۔
اسپاٹ لائٹس اسٹیج سے اس کی سیٹ تک کے سفر کو تب تک کور کرتی رہیں جب تک وہ دوبارہ اپنی کرسی پر نہ بیٹھ گیا اور تالیاں تب تک بجتی رہیں جب تک اسٹیج پر اگلی کیٹگری کی اناؤنسمنٹ نہ شروع ہو گئی تھی۔
وہ سب جو قلبِ مومن اسٹیج پر کہہ کر آیا تھا صرف قلبِ مومن ہی کہہ سکتا تھا اور وہ انتظامیہ صرف قلبِ مومن سے ہی سن سکتی تھی۔
قلبِ مومن اپنی سیٹ پر آکر بیٹھا تو ہال میں بیٹھے ہوئے بہت سے اداکار اور اداکارائیاں اپنی سیٹوں سے اٹھ اٹھ کر اس کے قریب آکر اسے مبارکبادیں دینے لگے۔ وہ اس وقت وہاں بادشاہ کی طرح بیٹھا ہوا تھا اور یہ ممکن نہیں تھا کہ بادشاہ کو کورنش نہ بجا لائی جائے۔
”مومن۔ مومن۔ کوئی مسئلہ ہو گیا؟”
اس ملٹی نیشنل کمپنی کی اہم خاتون عہدے دار تقریباً بھاگتی ہوئی پھولے سانس کے ساتھ مومن کی سیٹ پر پہنچی تھی۔ وہ بے حد معذرت خواہانہ اور مدافعانہ انداز اپنائے ہوئے تھی اور ان دو ایوارڈ کو جو قلبِ مومن کی فلم کے بجائے ایک دوسری فلم کو دے دیئے گئے تھے اس کے لیے وضاحتوں پر وضاحتیں دے رہی تھی۔ اسٹیج پر اگلی کیٹگری سے پہلے ایک پرفارمنس کا اعلان ہو رہا تھا اور فرنٹ رو میں قلبِ مومن کو صفائیاں اور وضاحتیں دیتے ہوئے اس برانڈ سے منسلک لوگوں کا حال برا ہو رہا تھا۔
آخری ایوارڈ بیسٹ فلم کا تھا اور وہ ایوارڈ اگر قلبِ مومن کے علاوہ کسی دوسرے کی فلم کو ملتا تو قلبِ مومن وہاں کھڑے کھڑے انتظامیہ کو سولی پر لٹکا دیتا۔
وہ متکبر تھا۔ متکبر چھوٹا لفظ تھا۔ منتقم مزاج تھا اور اسے جائز سمجھتا تھا۔ زودرنج تھا اور اسے اپنا حق سمجھتا تھا۔ اپنے آرٹ کو سب سے برتر سمجھتا تھا اور اپنے ٹیلنٹ کو لاثانی۔ وہ اس انڈسٹری کے لوگوں کے ساتھ وہی کرتا تھا جو اس انڈسٹری کے لوگ کم کامیاب لوگوں کے ساتھ کرتے تھے۔
فلم انڈسٹری نام کی پوجا کرتی ہے اور قلبِ مومن کا نام ہی کافی تھا۔ فلم انڈسٹری کامیابی کے سکے کے علاوہ کسی اور سکے کو نہیں مانتی، اس سکے پر آج کل قلبِ مومن کا نام او رشبیہ کھدی ہوئی تھی فلم انڈسٹری اگر ستارہ پرست تھی تو قلبِ مومن کے علاوہ پچھلے تین سال میں آسمان فلم پر کسی ڈائریکٹر کا ستارہ نہیں چمکا تھا۔
تو قلبِ مومن کو اگر گھمنڈ ہوتا تو کیوں نہ ہوتا۔ وہ اگر ہر ایوارڈ کو چھین کر بھی لے جاتا تو کیوں نہ لے جاتا وہ ناز نخرے نہ دکھاتا تو کیوں نہ دکھاتا جب اس کی ہر فلم باکس آفس پر بزنس کے نئے ریکارڈ بنا رہی تھی اور ہر پروڈیوسر اس کے ساتھ فلم فنانس کرنے کے لیے پاگل ہو رہا تھا۔ ہر اداکار اور اداکارہ اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے اس کے آفس کے چکر کاٹ رہی تھی۔ اگر عروج ہما تھا تو یہ ہما قلبِ مومن کے سر پر بیٹھا ہوا تھا۔
٭…٭…٭
وہ اپنی لائنز کب سے یاد کیے اب سیٹ پر ہیروئن کے انتظار میں ٹیم کے دوسرے لوگوں کی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ اس سیٹ پر تقریباً روز کا معمول تھا۔ ثانوی کرداروں میں کام کرنے والے وقت سے بھی بہت پہلے سیٹ پر موجود ہوتے اور مرکزی کردار کرنے والوں میں سے کوئی نہ کوئی ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو اپنی عدم موجودگی سے کھپا رہا ہوتا۔
سیٹ کے ایک کونے میں وہ ثانوی کردار کرنے والی چند دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ سیٹ پر چائے دی جا رہی تھی اور وہ سب بھی اپنا اپنا چائے کا کپ پکڑے اس کونے میں گپ شپ میں مصروف تھیں۔ ان کی گپ شپ اپنے کیریئر کے بارے میں، ان کی پلاننگ، ان کے آنے والے پروجیکٹس اور حال میں مختلف سیٹس پر ہونے والے تجربات کے علاوہ بڑے اسٹارز کے بارے میں سنی سنائی افواہوں کو چشم دید رپورٹ میں تبدیل کر کے پیش کرنا ہوتا تھا۔ مسالا دار چٹ پٹی خبریں جنہیں سنا کر انہیں یہ تسلی رہتی تھی کہ سب ”انسان” ہی ہیں اور سب گڑھے کھودتے اور ان میں گرتے رہتے ہیں۔ اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
اس وقت ایسا ہی ایک گوسپ سیشن ہو رہا تھا۔ مومنہ چپ چاپ بیٹھی چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ سب خبریں سن رہی تھی جو اس کے کانوں سے کہیں آگے دماغ میں رجسٹر ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ دماغ میں اپنے ہی بکھیڑے تھے، اپنے ہی مسئلے۔ وہاں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے اور ان کی باتیں سنتے ہوئے وہ پورے مہینے کے بجٹ کے بارے میں جوڑ توڑ کرتی رہتی تھی اور جہانگیر کے اخراجات۔
اس نے کچھ فاصلے پر کھڑے ڈائریکٹر کو فون پر اس سیریل کی ہیروئن سے بات کرتے سنا جو ”عادتاً” لیٹ تھی اور جس کے ساتھ مومنہ کا اگلا سین تھا اور اس ایک سین کے لیے مومنہ سلطان صبح سے آکر بیٹھی ہوئی تھی اور ہیروئن ندارد۔
”نشا تم ایک اور گھنٹہ لیٹ ہوئیں نا تو پورا دن ضائع ہو جائے گا ہمارا۔ چار گھنٹے کے لیے آؤ گی تو کتنے سینز نکالیں گے ہم۔ پلیز آجاؤ اب۔ پروڈیوسر نے مجھے پاگل کر رکھا ہے یہاں، پلیز۔”
مومنہ نے ڈائریکٹر کو تقریباً بے چارگی کے عالم میں گڑگڑاتے سنا تھا، وہ اب فون بند کر کے اسسٹنٹ سے کہہ رہا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});