اس گلاس پینٹ ہاؤس کی سب سے خاص چیز سٹنگ ایریا میں لگی ہوئی بہت بڑے سائز کی وہ خطاطی تھی جس پر اھدنا الصراط المستقیم لکھا ہوا تھا۔ آسمانی رنگ کے شیڈز میں اور خطاطی کے محقق اسٹائل میں، اس خطاطی کے علاوہ سٹنگ ایریا میں اگر کوئی اور پینٹنگز تھیں تو وہ تجریدی نیوڈ تھیں۔ سٹنگ ایریا میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے سنگی مجسمے بھی تھے اور وہ بھی تقریباً تمام یونانی دیو مالا کی دیویاں تھیں جو بے لباس تھیں یا پھر نامکمل لباس میں۔
وہ گلاس پینٹ ہاؤس جیسے قبل ِاسلام کے کعبہ جیسا منظر پیش کر رہا تھا جہاں اھدنا الصراط المستقیمکی اس خطاطی کے نیچے اور اردگرد ہر طرف بُت ہی بُت تھے۔ پہلی نظر میں کوئی بھی اس پینٹ ہاؤس کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ ڈیزائن کرنے والے کے بہترین ہنر اور عمدہ ذوق کا عکاس تھا اور پہلی بار وہاں آنے والے کو کچھ دیر کے لیے مسحور کر دینے کی خصوصیت رکھتا تھا۔
سٹنگ ایریا کے باہر اوپن ٹیرس اور روف گارڈن تھا اور اس سے پرے، بہت پرے پسِ منظر میں سمندر کا ٹھاٹھیں مارتا پانی اور اس میں چلتی پھرتی کشتیاں۔ سٹنگ ایریا کو ٹیرس سے الگ کرنے والی دیوار شیشے کی تھی جس میں چند ایک لکڑی کے پینل تھے اور جو بھی سٹنگ ایریا میں کھڑا ہوتا۔ وہ ٹیرس اور وہاں سے دور سمندر کی لکیر بنا کسی دقت کے دیکھ سکتا۔
اس پینٹ ہاوؑس کے سٹنگ ایریا میں اس کیلی گرافی، مجسموں اور پینٹنگز کے علاوہ دوسری نمایاں چیز اس کی ایک دیوار کے ساتھ رکھے ایک شیلف میں ایوارڈ، ٹرافیز اور شیلڈز کا ایک انبار تھا اور اس ہی شیلف کے اوپر دیوار پر لگے ہوئے بہت سے فوٹو فریمز جن میں ایک مرد بہت سے فنکشنز اور ایونٹس میں بہت سے نام ور اداکاروں اور اداکاراؤں کے ساتھ نظر آرہا تھا۔ کچھ فریمز میں وہ مختلف میگزینز کے سرورق پر مختلف ہیڈنگز کے ساتھ نظر آرہا تھا۔ ایوارڈز اور ان فوٹوفریمز کی وہ دیوار اس کیلی گرافی کی دیوار کے بالکل سامنے تھی اور دونوں دیواروں کے درمیان موجود سٹنگ ایریا میں بیٹھنے کے لیے مختلف شکلوں اور قسموں کا فرنیچر پڑا ہوا تھا۔
وہ گلاس پینٹ ہاؤس قلبِ مومن کی وہ جنت تھی، جس کے عشق میں وہ مبتلا رہتا تھا اور وہاں ہونے والی پارٹیز میں شریک ہونے والے اس کے دوست بھی۔ وہ انڈسٹری کا نام ور فلم ڈائریکٹر تھا جو ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھی چلاتا تھا اور کمرشل فلمز کرنے سے پہلے وہ پاکستان کی چند بڑی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے ساتھ آرٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کر چکا تھا۔اس وقت وہ پاکستان کے چند بہترین نوجوان آرٹ اور کمرشل فلم ڈائریکٹرز میں سے ایک مانا جاتا تھا اور اس شیلف پر موجود شیلڈز، ایوارڈز اور ٹرافیز کی تعداد جیسے اس کے اس اسٹیٹس میں اضافہ کرنے کے لیے کافی تھیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رشنا قدوائی اس وقت اپنے ٹی وی شو کے لیے قلبِ مومن کے ایک انٹرویو کے لیے اس کے اس پینٹ ہاؤس پر اپنے عملہ کے ساتھ موجود تھی اور اس جگہ کو دیکھ کر ویسے ہی مرعوب ہوئی تھی جیسے وہاں پہلی بار آنے والا کوئی بھی نووارد ہو جاتا۔ اس نے قلبِ مومن کے بارے میں جتنا سن رکھا تھا، اتنی ہی شہرت اس نے اس پینٹ ہاؤس کی نائٹ پارٹیز کی بھی سن رکھی تھی اور آج وہ بالآخر مہینوں بعد قلبِ مومن سے انٹرویو کے لیے وقت لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
اس کا عملہ اس وقت سٹنگ ایریا کے ایک حصے کو اس انٹرویو کے لیے منتخب کر کے وہاں لائٹنگ وغیرہ کرنے اور کیمرہ ایڈجسٹ کرنے میں مصروف تھا اور رشنا قدوائی قلبِ مومن کے اسسٹنٹ کے ساتھ گپ شپ کرنے میں، جس نے یہاں ان کا استقبال کیا تھا۔ اسی نے انٹرویو کے لیے قلبِ مومن سے معاملات طے کیے تھے۔
”اگلی فلم کے لیے آڈیشن کب سے اسٹارٹ کر رہے ہو تم لوگ؟” رشنا قدوائی نے مومن کے اسسٹنٹ داؤد سے پوچھا۔ وہ عمومی سی بات چیت تھی۔
”اگلے ہفتے سے شروع کر رہے ہیں۔” داؤد نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مومن عام طور پر ہمیشہ وقت پر آتا تھا۔ آج وہ دس منٹ لیٹ تھا، غیرمعمولی بات تھی۔
”اچھا تو ساری ہی کاسٹ نئی اٹھاؤ گے تم لوگ؟” رشنا نے مزید کریدا۔
”ہاں وہ تو ظاہر ہے، مومن نے اپنی تینوں فلموں میں ابھی تک مین کاسٹ میں کسی کو ریپیٹ نہیں کیا۔”
داؤد نے اپنے موبائل پر مومن کو ٹیکسٹ کرتے ہوئے کہا اور پھر یک دم پرجوش انداز میں رشنا سے کہا۔
”He is here (وہ یہیں ہیں۔)” داؤد نے پلٹ کر کسی کو سلام کیا تھا۔ رشنا قدوائی نے بے اختیار سفید اور بلوسلم فٹ کاٹن شرٹ اورDockers کیKhaki جینز میں اسٹائلشTom Ford کے جوتے پہنے ہوئے تھا وہ بہت خاص لگ رہا تھا۔ رشنا قدوائی قلبِ مومن سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی لیکن اس کے باوجود اس کا چہرہ اس کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ وہ درجنوں پارٹیز اور ایوارڈ شوز میں اسے دیکھ چکی تھی مگر اس کے گھر پر اس طرح روبرو وہ پہلی بار اسے دیکھ رہی تھی۔ پہلی بار دونوں کا آمنا سامنا ہو رہا تھا۔ قلبِ مومن مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا۔ یہ اس نے کئی لوگوں سے سنا تھا مگر وہاں اس کے روبرو اس سے ملتے ہوئے پہلی بار اس کی ”مقناطیسیت” محسوس بھی کی تھی۔
”میں لیٹ تو نہیں ہوا؟” رشنا کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے خوش گوار لہجے میں پوچھا تھا۔
”بہت زیادہ نہیں۔” وہ جواباً ہنسی۔ وہ اسے نروس کر رہا تھا اور اپنے صحافتی کیریئر میں یہ رشنا کے ساتھ کم کم ہی ہوا تھا۔
”لائٹنگ ٹھیک نہیں۔” وہ رشنا کو وہیں کھڑا چھوڑ کر آگے بڑھا۔ اب وہ اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں انٹرویو کے لیے لائٹس اور کیمرہ لگایا گیا تھا۔
وہ رشنا کے جوابی ردِّعمل کا انتظار کیے بغیر ڈی او پی کے مانیٹر پر فریم دیکھنے لگا تھا اور اس سے پہلے کہ رشنا یا اس کی ٹیم میں سے کوئی بھی کچھ اور کہتا۔ وہ لائٹ مین کو ہدایات دینے لگا۔ پانچ، سات منٹ کے بعد اس نے مومن کو دوبارہ مانیٹر پر جھکتے دیکھا اور پھر ایک لمحہ بعد ہی وہ سیدھا ہو گیا اور اس نے رشنا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”اب یہ بالکل ٹھیک ہے۔”
وہ مسٹر پرفیکٹ تھا، وہ لوگ جو اس کے ساتھ اس کے اشتہارات اور فلموں میں کام کر چکے تھے۔ اس کے بارے میں کہتے تھے۔ اس کا عملی مظاہرہ اس نے قلبِ مومن سے اپنی پہلی ملاقات میں ہی دیکھ لیا تھا۔ رشنا کچھ ندامت سے مانیٹر کی طرف جھکی تھی۔ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو اسی کیفیت کا شکار ہوتا کیوں کہ وہ یہ توقع نہیں کر رہی تھی کہ جس سے وہ انٹرویو لینے جائے گی۔ وہ اس کے عملہ کا کوئی نقص پکڑ کر اس کے سامنے رکھ دے گا۔ مانیٹر کے فریم پر پہلی نظر ڈالتے ہی رشنا مومن کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ یہ وہ فریم ہی نہیں لگ رہا تھا جو وہ چند لمحے پہلے اس مانیٹر پر دیکھ کر ہٹی تھی۔ کیمرہ کے اینگل اور لینز کی معمولی ایڈجسٹمنٹ اور ایک د و جگہ لائٹس کی تبدیلی نے اس فریم کو بالکل بدل دیا تھا۔
مومن اپنے کام کا ماہر تھا۔ اسے یہ بات تسلیم کرنے میں اس لمحہ کوئی عار محسوس نہیں ہوا۔ وہ فریم دیکھ کر اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر پلٹنے پر اس نے اسے قدرے فاصلے پر کھڑے داؤد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاپا، یوں جیسے وہ جانتا تھا کہ اس کے فریم میں کوئی بھی خامی ہو گی ہی نہیں اور وہ اس کے تعریفی ریمارکس سے بھی بے نیاز تھا۔ وہ قابل رشک حد تک پراعتماد تھا۔
رشنا کو ہاتھ میں پکڑے انٹرویو کے لیے تیار کیے گئے سوال نامہ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی، وہ اس میں سے بھی کسی سوال پر کوئی اعتراض کرتا۔
”قلبِ مومن فلم انڈسٹری میں آپ کا کیریئر… He came he saw, he conqured (وہ آیا، اس نے دیکھا، اس نے فتح کر لیا) کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کے لیے سب کچھ اتنا ہی آسان رہا ہے؟”
وہ بالآخر انٹرویو کے لیے بیٹھ گئے تھے اور ابتدائی رسمی بات چیت کے بعد رشنا قدوائی نے اس سے پہلا اہم سوال کیا، سوال کرتے ہوئے اس سے نظر ملنے پر رشنا قدوائی کو احساس ہوا کہ قلبِ مومن کی آنکھیں بے حد تیز اور چمک دار ہیں، اس سے نظر ملا کر بات کرنا کسی کے لیے بھی مشکل ہو سکتا ہے۔
قلبِ مومن کی وہ اگر ایک لفظ میں کہیں بیٹھ کر بیان کرتی تو وہ لفظ ”اعتماد” ہوتا۔ اس نے انڈسٹری کے بہت کم لوگوں میں اتنا اعتماد دیکھا تھا، اس کے سامنے بیٹھا بندہ گڑبڑا جاتا تھا۔
ٹانگ پر ٹانگ رکھے کرسی کے دونوں بازوؤں پر ہاتھ رکھے اس نے رشنا کا سوال سنا، مسکرایا اور پھر بولا۔
”اس سے بھی زیادہ آسان رہا ہے میرا سفر۔ میں مانتا ہوں۔ میں خوش قسمت رہا ہوں اس فیلڈ میں آنے کے لیے مجھے کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔”
اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ رشنا نے اس کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ فلرٹ ہے مگر اب تک مومن کے ساتھ بات چیت میں اس کے فلرٹ ہونے کا اشارہ نہیں ملا تھا۔ وہ اس بے حد مہذب طریقے سے مخاطب ہو رہا تھا۔ اس کے جواب کے دوران رشنا قدوائی کا ذہن کہیں اور مصروف تھا۔ اس کے خاموش ہونے پر بھی وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی تھی یوں جیسے اس کی جانب سے مزید کچھ کہنے کی منتظر ہو لیکن اس کی خاموشی پر اسے اندازہ ہوا تھا کہ وہ جواب دے چکا تھا اور اس کے اگلے سوال کا منتظر تھا۔
”آپ کی فیملی میں سے کوئی اور بھی اس فیلڈ میں ہے؟” رشنا کو اگلا سوال ویسے ہی یاد تھا۔
”کوئی نہیں۔” کھٹاک سے جواب آیا، اس سوال کے ساتھ ہی رشنا قدوائی کے لیے انٹرویو کے سب سے دلچسپ حصے کا آغاز ہو گیا تھا۔
”اپنے فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں بتائیں، کہاں پیدائش ہوئی؟ کون کون ہے آپ کی فیملی میں؟”
رشنا نے جتنی دلچسپی سے یہ سوال پوچھا تھا۔ جواب کا آغاز اتنی ہی غیردلچسپی سے ہوا تھا۔
”میری پیدائش ترکی میں ہوئی، فادر کا تعلق ترکی سے تھا اور مدر کا پاکستان سے۔ دونوں کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔ بہن بھائی کوئی نہیں ہے۔” رشنا اس کے جواب پر بے اختیار چونکی۔
”اوہ، اسی لیے آپ کےfeatures اتنے دیسی نہیں ہیں۔ غالباً میڈیا میں بھی زیادہ لوگوں کو یہ علم نہیں ہو گا کہ آپ کے پیرنٹس کا تعلق ترکی سے ہے۔ کتنا عرصہ رہے آپ ترکی میں؟”
”بچپن تقریباً سارا ہی وہاں گزرا۔ نوجوانی کا کچھ حصہ، اس کے بعد میں امریکا چلا گیا تھا۔ ہائی اسکول کے بعد۔ تقریباً چھ سات سال وہاں رہا اور سات آٹھ سال سے اب پاکستان میں ہوں۔” وہ بے حد سنجیدگی سے بتا رہا تھا۔
رشنا کو اس کی سنجیدگی کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی، اس نے اگلا سوال کیا۔
”پیرنٹس میں سے کوئی اور میڈیا یا فائن آرٹس سے منسلک رہا؟”
وہ اس بار چند لمحوں کے لیے اس کے سوال پر خاموش رہا اور پھر اس نے کہا۔
”میرے فادر ایک Caligrapher تھے۔”
”Very interesting” رشنا کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
”مگر میں بہت چھوٹا تھا جب ان کی ڈیتھ ہو گئی۔”
”اور آپ کی مدر؟” رشنا نے بے ساختہ پوچھا۔
مومن بے ساختہ چونکا پھر اس نے اسی روانی سے کہا۔
”وہ ہاؤس وائف تھیں۔”
”مجھے بڑا انٹرسٹنگ لگ رہا ہے کہ آپ کے فادر ٹرکش تھے اور مدر پاکستانی اور ان کی شادی ہوئی۔ کیا یہ لَو میرج تھی؟” رشنا پوچھے بغیر نہیں رہ سکی اور اس نے پہلی بار مومن کے ماتھے پر بل دیکھے پھر اسے کہتے سنا۔
”انٹرویو میرا ہے نا؟”
”جی، جی آپ ہی کا ہے۔” رشنا گڑبڑائی۔
”تو میرے بارے میں ہی بات کرتے ہیں۔” مومن نے اگلا جملہ کہا۔ رشنا نے اس کی صاف گوئی کے بارے میں بھی سنا تھا مگر اتنے برملا اظہار کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
”کیلی گرافی سے کمرشل فلم میکنگ تک منتقلی یا سفر آپ اسے جو بھی کہیں، یہ کچھ عجیب نہیں ہے؟”
وہ مومن سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ مومن کے ماتھے پر وہ بل دوبارہ نمودار ہوئے تھے۔
”کیلی گرافی سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ وہ میرے فادر کرتے تھے۔ میں امریکا سے فلم میکنگ ہی پڑھ کر آیا ہوں اور شروع سے فلم میکنگ ہی کر رہا ہوں، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے وہ ایڈ فلمز تھیں اب کمرشل۔” اس نے تفصیل سے بتایا۔
”میں نے یہ سوال اس لیے پوچھا کہ اگر آپ کے فادر کیلی گرافی کرتے تھے تو یقینا مذہبی ماحول ہو گا آپ کی فیملی میں اور…”
اس نے پہلی بار رشنا ک وسوال کے دوران ہی ٹوک دیا۔
”میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ انٹرویو میرے بارے میں ہے تو آپ سوالوں کا فوکس مجھ پر ہی رکھیں۔ میرے پیرنٹس کیا کرتے تھے اور کیا نہیں۔ انٹرویو اس بارے میں نہیں ہے۔”
رشنا کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ کس بات کی وجہ سے جھنجھلایا ہوا تھا۔ اس نے اس کے ماں باپ کے حوالے سے کوئی قابل اعتراض سوال نہیں کیا تھا مگر وہ اس وقت قلبِ مومن سے کوئی بحث نہیں چاہتی تھی۔ اس کے پاس وقت محدود تھا اور سوال لامحدود۔
”آپ کی فلمز میں گلیمر کی بھرمار ہوتی ہے۔ عورت کو ایک آبجیکٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ زیادہ ترcriticsکا کہنا ہے کہ اگرچہ آپ کی فلم دیکھنے میں ایک ماسٹر پیس ہوتی ہے اور جتنی خوب صورتی سے آپ اپنی ہیروئن کو فلم اسکرین پر ایک دیوا کے طور پرexpose کرتے ہیں، انڈسٹری کا کوئی اور ڈائریکٹر نہیں کر سکتا۔
آپ اپنی ہیروئن کو تصوراتی شے بنا دیتے ہیں۔” اس نے رشنا کو دوبارہ ٹوکا اور کہا۔
”آپ کا سوال کیا ہے؟ criticsکیا کہتے ہیں وہ میں جانتا ہوں۔” رشنا کا چہرہ سرخ ہوا۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ اسے اس طرح ٹوکے گا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});