اس کینوس پر وہ آیت ایک عجیب روشنی میں گھِری ہوئی تھی، لفظ جیسے نور تھے، حروف جیسے موتی اور اطراف ان پر بادلوں کی طرح سایہ فگن۔
اللّٰہُ نُورُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْض
وہ بوڑھا ہاتھ اس کینوس پر اس آیت کی خطاطی میں مصروف تھا۔ وہ روشنی جو اس آیت کے گرد ہالہ بنائے ہوئے تھی، وہی اس ہاتھ کو بھی گھیرے ہوئے تھی پر ہاتھ رک نہیں رہا تھا۔ جھریوں زدہ جلد پر ابھری ہوئی نیلی رگیں اس روشنی میں ایکسرے کی مانند نظر آرہی تھیں اور ہاتھ رکے بغیر چلتا ہی جا رہا تھا اس شخص کی طرح جسے اپنے کام میں پوری مہارت ہو۔
فضا میں اب کوئی اپنی بے حد خوب صورت آواز میں اس آیت کی تلاوت کرنے لگا تھا۔ بے حد دل کش، بھاری، صاف مگر میٹھی مردانہ آواز دل کے تاروں کو بربط کے تاروں کی طرح چھیڑے، وہ آواز صرف وہ آیت نہیں پڑھ رہی تھی جو کینوس پر تھی۔
”اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل (ایسی صاف شفاف ہے) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے، اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعن) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (بڑی) روشنی ہی روشنی (ہو رہی ہے) اللہ اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اللہ جو مثالیں بیان فرماتا ہے تو لوگوں کی (سمجھانے کے لیے) اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔”
(سورة النور 35)
تلاوت کرنے والی وہ آواز یک دم خاموش ہو گئی تھی۔ فضا میں اب بھی اس آیت کی گونج تھی۔ وہ ہاتھ اب بھی کینوس پر اسی آیت کو خوش خطی سے سجا رہا تھا۔
اور پھر ایک دم بہت دور سے ہلکی موسیقی کی آواز آنے لگی۔ نور کا وہ ہالہ جو اس ہاتھ اور کینوس کو فوکس کیے ہوئے تھا، دور جانے لگا تھا اوپر آسمان میں۔ اور نیچے اب اس کینوس کے سامنے ایک کھلے میدان میں جو ویسی ہی دودھیا روشنی سے نہایا ہوا تھا۔ ایک شخص درویش کا لباس پہنے بازو پھیلائے دائرے میں چکر لگا رہا تھا، بے حد آہستہ یوں جیسے اسے کسی نے ہوا کے دوش پر رکھ دیا ہو۔ پھر وہ موسیقی بلند ہونا شروع ہوئی اس شخص کا وجود تیزی سے گھومنا شروع ہوا تھا۔ اس کا سفید لباس اب ہوا میں پھڑپھڑا رہا تھا اور اس کے سر پر موجود اونچی ٹوپی اس کے چہرے کا کچھ حصہ ڈھکے ہوئے تھی اس کی رفتار اب تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔
فضا میں گونجنے والی اس بلند اور مسحور کن بانسری کی آواز کے ساتھ جواب ہر چیز پر حاوی ہوتی جارہی تھی وہ کینوس اب اتنا چھوٹا ہو چکا تھا کہ اوپر سے نظر آنا بھی بند ہو چکا تھا اور وہ ہاتھ اب غائب تھا۔ نیچے اس میدان میں روشنی کے اس ہالے میں اب صرف اس درویش کا رقص کرتا ہوا وجود تھا۔ جس کا رقص تیز سے تیز ہوتا جا رہا تھا۔ اتنا تیز کہ اس کا سفید لباس اور اس کے سر پر موجود ٹوپی اب ایک پھول اور اس کے مرکز کی طرح لگنے لگے تھے، پھر اس رقص میں اور تیزی آتی گئی۔ اتنی تیزی کہ انسانی آنکھ کا اس پر نظر جمانا اور اسے شناخت کرنا مشکل ہونے لگا، پھر یک دم اس وجود میں آگ لگی اور وہ شعلے کی طرح بھڑکا پھر پلک جھپکتے میں جل کر بجھا، اس کے ساتھ ہی جیسے وہ اس ساری روشنی کو لے کر اندھیرے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نو سال کا وہ بچہ ہڑبڑا کر اٹھ کر اپنے بستر میں بیٹھا۔ اس کا سانس تیز چل رہا تھا اور وہ گہرے گہرے سانس لے رہا تھا، یوں جیسے وہ کسی خوف ناک خواب میں سے نکلا ہو۔ کمرے میں نیم تاریکی تھی اور اس کے بستر میں اس کی ماں اس کی طرف پشت کیے ہوئے سو رہی تھی۔ اپنے جسم سے چادر ہٹا کر اس نے بلی کی طرح بڑی احتیاط سے پاؤں زمین پر اتارے اور دبے قدموں چلتا ہوا وہ سیدھا کمرے کے اس کونے میں گیا جہاں اسٹڈی ٹیبل تھی۔ اسٹڈی ٹیبل پر ایک لیمپ تھا جسے اگر وہ روشن کرتا تو اس کی ماں کی آنکھ کھل جاتی۔ اس نے ٹیبل کے پاس پہنچ کر پلٹ کر بستر پر لیٹی ماں کو دیکھا، اس کی پشت ٹیبل کی طرف تھی۔ وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ روشنی اس تک جائے گی یا نہیں اور اس نے اندازہ لگا لیا تھا، گردن واپس موڑ کر اس نے ٹیبل لیمپ پر وہ اسکارف چڑھایا، جو اس کی ماں کا تھا اسٹڈی ٹیبل کی کرسی کی پشت پر لٹک رہا تھا۔ بے حد ہلکے ہاتھ کے ساتھ اس نے لیمپ کا بٹن دبایا کہ بٹن دبنے کی آواز بھی اس کی ماں کے کانوں تک نہ پہنچے۔ لیمپ روشن ہوا اور اس نے برق رفتاری سے پلٹ کر ماں کو دیکھا، روشنی اس تک نہیں گئی تھی، اس کا ”ٹوٹکا” کام کر گیا تھا۔ اس کی ماں کے وجود میں حرکت نہیں ہوئی۔ وہ فاتحانہ اور مطمئن انداز میں مسکرایا پھر اس کرسی پر بیٹھ گیا جس پر اب اسکارف سے جھلکتی روشنی میز کی سطح پر پڑ رہی تھی۔ اسٹڈی ٹیبل کے ایک کونے میں سجی اپنی کتابوں اور نوٹ بکس میں سے ایک نوٹ بک اس نے اٹھا کر کھولی، میز پر رکھتے ہوئے اس نے پین ہولڈر میں رکھے۔ رنگین مارکرز میں سے ایک ڈارک بلو رنگ کا مارکر اُٹھالیا۔
”کیا کر رہے ہو تم؟” اندھیرے کمرے میں اس کی ماں کی آواز گونجتے ہی اس نے برق رفتاری سے لیمپ کا بٹن آف کیا اور جیسے اپنا سانس بھی روک لیا۔
”مجھے پتا ہے تم اسٹڈی ٹیبل کے سامنے بیٹھے ہو، کیا کر رہے ہو؟” اس کی ماں نے دوبارہ غنودگی بھری آواز میں کہا۔
”ہوم ورک۔ تھوڑا سا رہ گیا تھا، بس دو صفحے۔” اس نے بے اختیار کہا اور لیمپ دوبارہ آن کر دیا۔ چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، پتا نہیں اس کی ماں اندھیرے میں بھی کیسے دیکھ لیتی تھی۔
”ٹھیک ہے، جلدی سے کرو اور آکر سو جاؤ۔”
”اوکے۔” وہ بے اختیار خوش ہوا، اس نے ایک نظر پلٹ کر ماں کو دیکھنے کے بعد جیسے سکون کا سانس لیتے ہوئے دوبارہ اس کاغذ پر تیزی سے ہاتھ چلانا شروع کیا تھا۔
اس نے خط کے نیچے اپنا نام لکھا، جلدی سے خط والے کاغذ کو احتیاط سے پھاڑا، تہہ کیا اور دراز میں سے ایک لفافہ نکال کر اس میں ڈال دیا۔ لفافے کے باہر اس نے ایک بار پھر ایڈریس والی لائنز پر ایڈریس لکھا اور پھر لفافے کے اس فلیپ کو زبان پر پھیرتے ہوئے گیلا کیا جو چپک کر بند ہونا تھا۔
لفافے کو چپکا کر بند کرتے ہی اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری تھی۔ اس کا کام مکمل ہو گیا تھا، اس نے پلٹ کر اپنی ماں کو دیکھا جو اب بھی کروٹ کے بل اس کی طرف پشت کیے لیٹی ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
اپنے کاٹیج کے برآمدے میں کھڑے اس نے گاؤں کے ڈاکیہ کو بہت دور سے اس کی سائیکل پر سوار گھروں کی اس لین میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا جس کے تقریباً آخر میں اس کا گھر بھی تھا۔ اس کا دل بے اختیار کسی تتلی کی طرح پھڑپھڑایا تھا۔
ڈاکیہ مختلف گھروں کے باہر لگے لیٹر باکسز میں ان گھروں کی ڈاک رک رک کر ڈالتا اس کے گھر کی طرف آرہا تھا۔
یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اسے ڈاکیے کے آنے کے اوقات کا پتا چل اور وہ اسکول سے آنے کے بعد اپنے کاٹیج کے برآمدے میں کھڑا ہو جاتا تھا۔ روز ڈاکیہ آتا۔ روز ڈاکیہ اس کے گھر کے سامنے سے گزر جاتا۔ روز اس کا دل تتلی کی طرح پھڑپھڑانا شروع کرتا پھر ڈوب جاتا مگر جس عمر میں وہ تھا اس عمر میں خواب اور انتظار دونوں آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔
اور آج بالآخر اس کا تتلی کی طرح پھڑپھڑاتا دل ڈوبا نہیں تھا۔ ڈاکیہ اس کے گھر کے باہر لگے ہوئے میل باکس کی طرف آنے لگا تو اس نے برآمدے سے نیچے دوڑ لگائی تھی۔
”کیا ہمارا خط آیا ہے؟” اس نے ڈاکیہ کے پاس پہنچتے ہوئے کہا۔
ڈاکیہ مسکرایا۔ ہاتھ میں پکڑے ہوئے لفافوں میں سے ایک لفافہ نکالتے ہوئے اس نے سرہلایا اور اس بچے کے ہاتھ میں تھما دیا اور آگے بڑھ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس لفافے پر نظر ڈالتا، پیچھے سے اس کی ماں نے آکر اس سے وہ خط لے لیا، وہ کہہ رہی تھی۔
”میں کب سے تمہیں کھانے کے لیے آوازیں دے رہی ہوں اور تم یہاں کھڑے ہو۔”
”ممی! یہ میرا خط ہے۔” اس نے احتجاج کرتے ہوئے ماں سے لفافہ دوبارہ لینا چاہا۔ ماں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”تمہارا کہاں سے آئے گا، یہ تو میرا ہے۔ دیکھو، پاکستان سے آیا ہے۔” اس نے لفافہ پر لگے ہوئے ٹکٹ اسے دکھائے۔ اس کا دل ڈوبا، سانس رکا پھر اس نے سرجھکا لیا۔
”تم کو ٹکٹ چاہیے نا اس کا؟” وہ اندر جا رہا تھا جب اس نے اپنے عقب میں اپنی ماں کی آواز سنی۔ وہ ٹکٹ جمع کیا کرتا تھا اور گھر میں آنے والے ہر خط پر لگی ہوئی ڈاک کی ٹکٹ پر اس کا استحقاق ہوتا تھا مگر اس وقت اسے اس لفافے اور اس ٹکٹ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
آج تیسویں خط کا بھی جواب نہیں آیا تھا۔
٭…٭…٭
وہ سائیکل پر اسکول سے گھر آتے ہوئے اسی پگڈنڈی میں اسی جنگل نما جگہ کے سامنے سے گزر رہا تھا اور اس نے ایک بار بھی گردن موڑ کر اس طرف نہیں دیکھا تھا۔ ایک عجیب سی خفگی تھی جو وہ دل میں پالے ہوئے تھا۔
”ایسا بھی کیا کہ اتنے خط لکھو اور کوئی جواب نہیں۔”
اس نے تیزی سے سائیکل چلا کر اس جنگل کے سامنے سے گزرتے ہوئے سوچا۔
”سب کے خطوں کے جواب ملتے ہیں اور میرا۔ جب کہ میرا خط سب سے خوب صورت تھا۔ میں نے اس پر پھول اور ستارے بھی بنائے تھے، وہ تھی رنگین مارکرز سے اور ہر جملے کے بعد فل اسٹاپ بھی لگایا تھا اور کاغذ بھی صاف ستھرا۔ مارکر بھی اچھا تھا۔ کہیں سیاہی کے دھبے بھی نہیں لگے تھے۔” وہ دل ہی دل میں اپنے خط کی خوبیاں اور خصوصیات گن رہا تھا جو ہر لحاظ سے اسے ایک جوابی خط کا حق دار کر رہے تھے۔ مگر جوابی خط۔
وہ اب کئی دنوں سے صبح اسکول جاتے اور واپس آتے اس جنگل کے سامنے سے گزرتے بے حد خفگی سے اس کی طرف دیکھے بغیر گزرتا تھا۔ یہ اس کی ناراضی کا اظہار تھا، وہ اپنے خط کا جواب نہ ملنے پر زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا۔
اس نے اب ڈاکیہ کے انتظار میں گھر کے برآمدے میں کھڑا ہونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ کبھی اس کے گھر نہیں آتا تھا۔ آتا بھی تو صرف جس کی ماں کی ڈاک لاتا۔
سائیکل گھر کے باہر ہی کھڑی کر کے وہ بڑی اداسی کے عالم میں دروازے کو دھکیلتا گھر میں داخل ہوا تھا، یقینا اس کی ماں بیرونی احاطے میں تھی۔ اسی لیے وہ اس کے لیے دروازہ کھول گئی تھی ورنہ وہاں دروازہ بجانے کی آواز آتی نہ گھنٹی کی۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے اسکول بیگ رکھا اور پھر بستر پر رکھے اپنے کپڑے دیکھے۔ وہ بھی اس کی ماں ہی کے رکھے ہوئے تھے، خفا سے انداز میں اس نے اپنا یونیفارم تبدیل کرنا شروع کیا حالاں کہ وہ تبدیل کرنے کے موڈ میں نہیں تھا لیکن وہ ماں کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بیرونی دروازے کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر بھی اس نے اپنی قمیص کو اتارنے کی کوشش میں نوٹس نہیں کیا مگر ابھی وہ یونیفارم کی شرٹ اتار کر سیدھا ہی ہوا تھا جب اس نے باہر سے اپنی ماں کی آواز سنی۔
”تمہارا خط آیا ہے۔” یونیفارم کی شرٹ ہاتھ میں پکڑے اس کا دل ایک بار پھر تتلی کی طرح پھڑپھڑایا۔
”کس کا؟” اس نے وہیں کھڑے بے یقینی سے چلا کر پوچھا۔
”تمہارا” اس کی ماں نے جیسے اس کی بے یقینی ختم کی۔
”کس نے بھیجا ہے؟” اس نے اپنے بے قابو ہوتے ہوئے دل کے ساتھ ایک بار پھر پوچھا۔
”اللہ تعالیٰ نے۔” وہ سانس لینا بھول گیا تھا۔ اس کی آنکھیں بے یقینی سے گول ہوئی تھیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});