الف — قسط نمبر ۰۱

جان ِجہاں!
تمہیں گئے 423 دن ہو گئے۔ 423 دن نہیں، ایسا لگتا ہے 423 سال ہو گئے۔ تم نے میری زندگی کے ان دنوں کو جو تمہارے ساتھ لمحوں کی طرح گزرتے تھے، سال بنا دیا ہے۔ مجھے کئی بار لگتا ہے میں ریت کی گھڑی ہوں جو پچھلے 423 دنوں سے تمہاری واپسی کے دنوں کو منٹوں، گھنٹوں کی طرح گنتے ہوئے اسی ریت کی طرح گرتی بکھرتی جا رہی ہوں۔
تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے تو دوسری ملاقات میں یہ ساری باتیں تم نے کہی تھیں۔ وقت کے منٹوں، گھنٹوں کو گننے کی، نہ گزرنے کی، لمحوں کی سست رفتاری کی۔ سالوں جیسا لگنے کی اور تب ہماری پہلی اور دوسری ملاقات میں بس ایک دن ہی تو آیا تھا۔
آج میں 423پہاڑ سر کر کے بیٹھی ہوں، تم نے مجھے موم کا بنا دیا ہے۔ اپنے ہی شعلے کی تپش سے پگھلنے والا موم، پر نہ ختم ہونے والا۔ جو پگھل پگھل کر ڈھیر ہوتا رہتا ہے،راکھ نہیں بنتا۔ تم جو سزا دے کے گئے ہو، وہ بہت لمبی ہو گئی ہے۔ یہ سزا تم نے دی ہے اس لیے اسے کاٹوں گی۔
آج چھت کی بیل میں پہلا پھول کھلا، تمہارے ہاتھ کی لگائی ہوئی بیل میں کاسنی رنگ کا پہلا پھول۔ تین کلیاں اور بھی ہیں جو کل صبح میرے جاگنے تک پھول بن چکی ہوں گی۔ بہار آرہی ہے، ہر بار تم مجھے چھت اس بیل میں پہلا پھول کھلنے کی خبر دیا کرتے تھے۔ بہار بھی سب سے پہلے تم کو اپنے آنے کی نوید دیتی تھی۔ اور تم مجھے سفید گلاب لا کر پیش کرتے تھے، یہ سبز بہار ان سفید گلابوں کے بغیر کبھی بہار نہیں لگتی تھی مجھے۔ تمہارے ہاتھ کا لگایا ہر پودا، ہر پیڑ مجھ سے تمہاری باتیں کرتا ہے۔ تمہارا پوچھتا ہے، پچھلے سال تمہیں پوچھتے پوچھتے وہ خزاں کی لپیٹ میں آئے تھے۔ اس بار پھر تمہیں یاد کرتے ہرے ہو رہے ہیں، صرف ایک میں ہوں جس پر ایک ہی موسم ہے۔ خزاں کا موسم، پتے جھڑنے، ٹوٹنے بکھرنے کا موسم۔
وہ سارے پرندے پھر سے آنے لگے ہیں، جن کی بولیوں اور چہچہاٹوں کے معنی تم مجھے بتایا کرتے تھے۔ وہ کب کیا مانگ رہے تھے، کیا کہہ رہے تھے۔ کیا چاہ رہے تھے، کون خوش تھا، کون اداس، کون اپنے ساتھی کے ساتھ کی خوشی میں چہچہا رہا تھا۔ کون اپنے ساتھی کی جدائی کے غم میں اداس تھا۔ کون گیت گا رہا تھا، کون نوحہ۔ یہ سب صرف تمہارے بوجھنا آتا تھا مجھے نہیں اور مجھے لگتا تھا۔ مجھے کبھی آبھی نہیں سکتا، پر جان جہاں تمہارے بغیر گزارے ان 423 دنوں میں یہ بولی بھی جاننے لگی ہوں میں۔
ان میں سے ہر ایک مجھ سے صرف تمہارا پوچھتا ہے کہ وہ جو اس پہاڑ کے دامن میں، اس گھر کے پھولوں کے بیچ و بیچ چاندنی راتوں میں اور خنک سویروں میں اپنے سفید لباس میں رقصاں ہوا کرتا تھا، وہ کہاں ہے۔ وہ جس کے پاؤں کی گردش میں رومی کے مصرعوں جیسا وجد تھا۔ وہ اب کہاں ہے اور جس کے بازوؤں کی جنبش پنکھ کی طرح ہواؤں میں اپنا راستہ بناتی تھی، وہ خود اس گھر کا راستہ کیوں بھول گیا ہے۔
میرے پاس ان کے سوالوں کے جواب میں خاموشی کے سوا کچھ نہیں۔ ان سے کیا بات کروں، کیا بتاوؑں۔ ان میں سے کوئی کچھ نہیں سمجھ پائے گا۔ نہ میری تاویلوں کو، نہ مجبوریوں کو، نہ بہانوں کو، نہ میرے غم کو، پر تم تو سمجھ سکتے تھے نا۔ تم تو ساتھی تھے میرے۔ زندگی بھر کے ساتھ کا وعدہ کر کے لائے تھے مجھے۔ پھر تم اس طرح چھوڑ کر کیسے چلے گئے۔
ان لفظوں کی سیاحی کو جو دھندلا رہا ہے، وہ میری آنکھوں کا پانی ہے۔ آنسو نہیں ہیں۔ یہ پانی ہے۔ میرا پچھتاوا۔ میری ندامت۔ میری خطا کو مٹا دینے، بہا دینے کے لیے آنکھوں میں امڈ آنے والا پانی۔
وقت گزرتا جا رہا ہے، زندگی گزرتی جا رہی ہے۔ پر نہ میرا پچھتاوا کم ہو رہا ہے نہ تمہاری جدائی کا غم۔ نہ تمہارا غصہ۔ زندگی میں ایک غلطی کی میں نے۔ تم نے وہ بھی معاف نہیں کی۔ تم جو رومی کے عالم وجد میں گھومتے درویش تھے، اس کے باوجود۔ تم ساری دنیا کے لیے رحم اور درگزر تھے، میرے لیے کیوں نہیں ہوئے۔ میں نہیں رہوں گی، تب آؤ گے تو کیا آؤ گے۔
اتنے خط، اتنی منتیں میں نے کہاں کبھی کسی کی، کی ہیں مگر تمہاری کی ہیں تو مجھے اس کا بھی رنج نہیں۔ تمہارے ساتھ زیادتی بھی تو بہت بڑی کی تھی نا میں نے۔
یہ سارے خط جو میں نے تمہیں لکھے ہیں، یہ میرے پچھتاوے کے گواہ ہیں۔ صرف یہ کاغذ ہی ہیں جن پر میں اپنا دل کھول کر رکھ سکتی ہوں اور یہ میرا غم جھیل لیتے ہیں۔ جو میں کر بیٹھی ہوں، وہ کس کو سنا سکتی ہوں میں۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ میری اور تمہاری محبت کا قصہ سنے اور پھر جدائی کی داستان۔ محبت کی ہر کہانی کو لوگ جھوٹا کہتے ہیں یا پھر نادانی۔ بس ایک میں ہوں جو اب بھی اس پر یقین رکھے بیٹھی ہوں۔
پتا نہیں یہ صحیح ہے یا غلط۔ پتا نہیں نادانی ہے یا حماقت۔ پر جو بھی ہے، یہ میری زندگی لے گئی۔
تمہاری خطا کار جہاں
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پانی کی پہلی بوند اس کے سر پر گری تو اس نے سائیکل چلاتے ہوئے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ وہاں بادل اس کی سائیکل کے پہیوں ہی کی رفتار سے رواں دواں تھے۔ سیاہ جنوں بھوتوں جیسا رنگ اور شکلیں بناتے بادل۔ دوسری بوند ٹھیک اس کی ناک کی نوک پر گری تھی اور وہاں سے اس کے ہونٹوں اور ہونٹوں سے ٹھوڑی اور ٹھوڑی سے اس کی گردن کا سفر اس نے سیکنڈز میں کیا تھا۔
اس نے سرجھکا کر پیڈلز کو پوری قوت سے گھمانا شروع کر دیا تھا۔ یوں جیسے وہ ان بادلوں اور ان پر سوار بوندوں کو ہرانا چاہتا ہو۔ ہر کولیس کی طرح۔ تیز، تیز اور تیز۔ ہوا سے تیز۔ بادلوں سے طاقت ور۔
اس کی سائیکل اس پگڈنڈی پر ہچکولے کھا رہی تھی، پر چلتی جا رہی تھی۔ سرسبز کھیتوں کے بیچ و بیچ سے گزرتی، اس وسیع علاقے پر پھیلے درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو رہی تھی جہاں وہ جانا چاہتا تھا۔ بادل اور بارش اس کا تعاقب کر رہے تھے یا کم از کم اسے ایسا ہی لگ رہا تھا۔ وسیع و عریض علاقے پر پھیلے ہوئے بلند درختوں کے اس جنگل میں داخل ہوتے ہی اسے لگا تھا جیسے وہ بادلوں کو شکست دے آیا تھا۔
وہ اس جنگل کے سامنے سے روز گزر کر اسکول جایا کرتا تھا بلکہ اس کے ساتھی، اسکول کے ساے بچے، روز ہی وہاں سے گزرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ جنگل بیر ڈھونڈنے اندر گھس جاتے تھے مگر کبھی بھی اس جنگل میں بہت اندر تک جانے کی ان کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی لیکن آج وہ اکیلا ہی اس جنگل میں گھس آیا تھا۔ بلند و بالا گھنے درختوں کے تنوں نے بہت بلندی پر جیسے اپنی شاخوں سے اس سارے جنگل پر ہی چھت تان دی تھی، جس میں سے سورج کی روشنی اور ہوا چھن چھن کر آتی لیکن اس وقت جب سورج بادلوں کی اوٹ میں تھا تو جنگل دن میں بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا لگ رہا تھا۔
وہ آٹھ نو سالہ بچہ جنگل میں آگے بہت آگے جانا چاہتا تھا لیکن اس تاریکی نے یک دم جیسے اس کی ہمت پسپا کر دی تھی۔ اپنی سائیکل روک کر اس نے اپنا دل مضبوط کرنے کی کوشش کی، جو تیز ہوا سے ہلتے درختوں کے پتوں اور ٹوٹنے والی شاخوں کی آوازوں سے دہل رہا تھا۔
اس نے سائیکل سے اتر کر اسے زمین پر لٹا دیا اور جنگل میں چلنے لگا۔ ہوا چند لمحوں کے لیے تھمی، جیسے جنگل اس کے اندر کا خوف بھانپ کر اسے دلاسا دینے کے لیے سانس روک کے بیٹھا تھا۔ وہ اب ایک عجیب سناٹے کے عالم میں کھڑا تھا۔ پتوں کی سرسراہٹیں اور پرندوں کا ہلکا شور۔ وہاں اس وقت کوئی تیسری آواز نہیں تھی۔ وہ چند قدم اور آگے بڑھا اور اس نے اپنے جوتوں کے نیچے سوکھے پتوں کے چر مرانے کی آوازیں سنیں۔ وہ رکا جیسے وہ آواز بھی اسے خوف زدہ کر رہی تھی۔ اس نے پلٹ کر اس جگہ کو دیکھا جہاں اس نے سائیکل زمین پر لٹائی تھی اور پھر درختوں سے پار نظر آنے والے کھلے کھیتوں کو۔ یوں جیسے وہ اپنے آپ کو یہ حوصلہ دینا چاہتا تھا کہ وہ جب چاہتا وہاں سے بڑی آسانی سے بھاگ سکتا تھا۔
دوبارہ پلٹ کر وہ چند قدم اور آگے چلا پھر اسے یک دم ایک سوکھے ہوئے درخت کا گرا ہوا تنا نظر آیا۔ وہ بے اختیار خوش ہوا تھا، اپنی پشت پر لٹکا ہوا بیگ کچھ وقت سے اتار کر وہ اب بڑی تیزی سے اس تنے تک گیا جو اتنا بڑا اور موٹا تھا کہ وہ اس کے قد کے برابر آرہا تھا۔ اپنے بیگ کو اس نے اس سوکھے ہوئے تنے کی ایک زمین بوس شاخ پر رکھ کر اس کی زپ کھولی اور اس کے اندر سے کچھ جدوجہد کے بعد اس نے لکڑی کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا لیٹر باکس نکالا جو لکڑی کے غیرہموار ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا۔ اس نے اس لیٹر باکس کو اس تنے کے ساتھ زمین پر رکھ کر ٹکا دیا۔ اس کے پاس کوئی کیل اور ہتھوڑی ہوتی تو شاید وہ اس لیٹر باکس کو اس تنے پر ٹھوک دیتا لیکن ان دو چیزوں کی عدم موجودگی میں اس نے اسے تنے کے ساتھ ٹکانا ہی کافی سمجھا۔
ہوا ایک بار پھر چلنے لگی تھی، اس نے تیزی سے اپنا بیگ کھول کر اب اس میں سے ایک لفافہ نکالا تھا اور اس لفافے کو اس نے لیٹر باکس کے بنائے ہوئے چھوٹے سے لیکن لمبے سوراخ سے اندر ڈال دیا۔ اس لفافے کو اندر ڈالتے ہی اس کے چہرے پر عجیب اطمینان ابھرا تھا۔ ہوا اب زمین پر گرے خشک پتوں کو اڑانے لگی تھی اور وہ بچہ اب برق رفتاری سے اپنے بیگ کی زپ بند کرنے کے بعد اسے اپنی پشت پر چڑھائے ہوئے اس طرف جا رہا تھا جہاں اس کی سائیکل زمین پر پڑی تھی اور تب ہی اس نے اپنے سر پر بارش کی تیسری بوند گرتی محسوس کی۔
ایک دو، تین ۔۔بوندوں کا وہ نہ رکنے والا سلسلہ اب اس جنگل کے درختوں کے پتوں کو شکست دیتے ہوئے راستہ بناتے جیسے ایک بار پھر اس کے تعاقب میں آرہا تھا وہ بیگ پشت پر چڑھا کر زمین پر گری ،چھوٹی موٹی شاخوں کو پھلانگتا اور اوپر سے گرنے والے لکڑی کے ٹکڑوں سے بچتا اپنی سائیکل کی طرف بھاگ رہا تھا مگر اس بار بارش اور بادل اس کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
وہ سائیکل پر سوار ہوا تو بارش میں بھیگ چکا تھا اور سائیکل کو دوڑاتے وہ جب تک اس جنگل سے باہر نکلا وہ تیز طوفانی بارش کی لپیٹ میں تھا اور کھیتوں کے درمیان اس پگڈنڈی پر اب اس گاؤں کے بہت سے بچے سائیکلوں اور پیدل بارش میں بھیگتے اٹھکھیلیاں کرتے بھاگ رہے تھے۔ وہ آٹھ سالہ بچہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ اور وہ بے پناہ خوش تھا۔ بری طرح دھڑکتے ہوئے دل اور بے ترتیب سانسوں کے ساتھ۔
اس نے اس دن اپنی ماں کے لیے بہت بڑا کام کیا تھا اور اپنی اس خوشی سے بے قابو ہو رہا تھا۔ بہت تیزی سے سائیکل چلاتا بارش میں بھیگتا، شور مچاتا اور سرپر اڑتے سیاہ بادلوں کے ساتھ ریس لگاتا، ہرکولیس ساری رکاوٹیں عبور کر کے سونے کا وہ سکہ جیت گیا تھا جو سب سے زیادہ بہادر کے لیے تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میری ٹیڑھی زلفیں — غزالہ پرویز

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!