الف — قسط نمبر ۰۱

داؤد نے اس کے لیے اسٹوڈیو کا دروازہ کھولا اور وہ اندر داخل ہو گئی۔ پہلی نظر میں اندر داخل ہونے پر اسے قلبِ مومن نظر نہیں آیا تھا جو اس وقت ایک ٹیبل پر ایک لیپ ٹاپ پر فوٹیج دیکھ رہا تھا جو آڈیشن کے لیے شوٹ ہو رہی تھی۔
”وہاں چلی جائیں۔” اس کے ساتھ اندر آنے والے داؤد نے اسے اسٹوڈیو کے اس حصے کی طرف بھیجا جہاں اسپاٹ لائٹس تھیں۔ مومنہ نے اس وقت ایک ٹیبل پر لیپ ٹاپ لیے بیٹھے مومن کو دیکھ لیا تھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس کی پوری توجہ اس کے اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھی۔ اس اسٹوڈیو میں عملہ کے چند لوگ بھی تھے۔ مانیٹر پر بیٹھا ایک شخص اور کیمرہ کے پیچھے کھڑا ایک اور شخص۔
مومنہ رکے بغیر سیدھا اس جگہ پر جا کر کھڑی ہو گئی تھی جہاں ایک اسٹول پڑا تھا اور اسپاٹ لائٹ کی روشنی مرکوز تھی اور جیسے ہی وہ وہاں جا کر کھڑی ہوئی تھی قلبِ مومن نے پہلی بار نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور لیپ ٹاپ کے بجائے اس مانیٹر کی اسکرین کی طرف متوجہ ہو گیا جو اس ٹیبل پر ہی پڑا تھا۔
”یہ مومنہ سلطان ہیں۔” داوؑد نے قلبِ مومن کو جیسے اس کا تعارف دیا۔ وہ مومنہ کی میز پر جا کر بیٹھ چکا تھا۔ ”ان کی شوریل میں نے شیئر کی تھی آپ کے ساتھ۔”
اس نے مومن کو جیسے یاد دلایا۔ اسپاٹ لائٹس کی روشنی میں بہت دور نیم تاریکی میں میز کے دوسری طرف بیٹھے قلبِ مومن کے چہرے کے تاثرات دیکھنا اس وقت مومنہ کے لیے بہت مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اس وقت وہاں تیز روشنیوں میں کھڑی داؤد کو بھی ٹھیک سے نہیں دیکھ پا رہی تھی۔
”اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔”
”گریجویشن کیا ہے۔ تین چار سال سے ایکٹنگ کر رہی ہوں۔” مومنہ نے میکانکی انداز میں کہنا شروع کیا۔
”میں نے کبھی کسی فلم میں نہیں دیکھا آپ کو۔” مومن نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”ٹی وی پر کام کر تی ہوں میں۔” مومنہ کو اب اسے دیکھنا کچھ آسان لگنے لگا تھا۔
”کس سیریل میں لیڈ کیا ہے؟”’ مومن کا اگلا سوال آیا۔
”لیڈ نہیں کیا۔ کافی سوپس میں کام کیا ہے۔ سیریل میں اب کر رہی ہوں۔” مومنہ نے جواباً کہا۔ اس نے قلبِ مومن کو داؤد کی طرف مڑتے اور بے حد تندوتیز لہجے میں انگریزی میں کہتے سنا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

” یہ سوپس میں کام کرتی ہے اور تم نے اسے میری مووی کے لیے بلایا ہے۔”
مومنہ کا رنگ سرخ ہوا مگر وہ اس سے نہیں داؤد سے مخاطب تھا اور داؤد نے کچھ کم زور سے لہجے میں اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”ایکٹریس بہت اچھی ہے۔ اس لیے میں نے سوچا آپ دیکھ لیں۔”
مومن داؤد کے جملے پر دوبارہ سیدھا ہو کر مومنہ سے مخاطب ہوا۔
”اسکرپٹ آپ کے پاس ہے؟” اس نے کہا۔
”جی!” مومنہ نے جواباً کہا۔
”پہلا سین پرفارم کر کے دکھائیں۔” اگلی ہدایت آئی۔ مومنہ نے کسی توقف کے بغیر ہاتھ میں پکڑے اسکرپٹ کو میڈیکل فائل کے اوپر رکھتے ہوئے کھولا۔ ایک نظر صفحے پر ڈالی پھر اسکرپٹ اور میڈیکل فائل کو اس اسٹیڈنگ اسٹول پر رکھنے کے بعد وہ آڈیشن کے لیے تیار ہو گئی تھی۔
سامنے لگے کیمرے میں دیکھتے ہوئے اس نے جھکے ہوئے سر کو اٹھایا اور کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولنا شروع کیا۔
”میں جانتی ہوں تم مجھ سے نفرت کرتے ہو۔ محبت سے زیادہ گہرا، پرانا اور دائمی رشتہ ہے میرا اور تمہارا کوئی مجھے چوائس بھی دے تو میں اپنا اور تمہارا رشتہ نہ بدلوں۔”
پہلا ڈائیلاگ بولتے ہوئے اس نے سینے پر پھیلا کر لیے ہوئے دوپٹے کو دوبارہ ٹھیک کیا اور اس سے پہلے کہ وہ اپنا دوسرا ڈائیلاگ بولنا شروع کرتی۔ اس نے قلبِ مومن کو کہتے سنا۔
”دوپٹہ اتار دیں اپنا۔” وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئی پھر اس نے کہا۔
”جی؟”
”سین خراب کر رہا ہے یہ۔” قلبِ مومن نے جواباً مانیٹر پر ہی اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ فوٹو جینک تھی وہ یہ دیکھ چکا تھا۔
”میں باندھ لیتی ہوں۔” اس نے مومنہ کو جواباً کہتے سنا اور اس نے کچھ خفگی کے عالم میں مانیٹر سے نظر ہٹا کر سیدھا اس کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”اتار دینے میں کیا اعتراض ہے آپ کو؟”
”میںcomfortable نہیں ہوں گی سین میں۔” مومنہ نے کہا تو قلبِ مومن بے اختیار ہنسا۔
”میری فلم میں کوئی دوپٹہ نہیں لیتا اور آپ دوپٹہ اتار دینے سے سین نہیں کروا پائیں گی۔ تم نے رول بتایا ہے اسے؟” اس نے پہلا جملہ مومنہ سے اور آخری داؤد سے بولا تھا۔
”اوہ! وہ میری اتنی detail میں بات نہیں ہوئی بس آڈیشن والے سینز دیے تھے۔ بریف بھی تھا اس میں۔”
داؤد نے اتنے ڈائریکٹ سوال پر کچھ گڑبڑا کر کہا تھا۔ داوؑد کے بجائے مومنہ نے اس کے سوال کا جواب دیا تھا۔
”ہیروئن کی بیسٹ فرینڈ کا رول ہے جو اپنی دوست کے منگیتر کو چھیننا چاہتی ہے۔” قلبِ مومن نے اس کی آواز پر گردن موڑ کر سیدھا اس کو دیکھا اور پھر بے حد تیکھی آواز اور لہجے میں اس سے کہا۔
”ویمپ کا رول ہے جو ایک مرد کو پانے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ پارٹیز میں جاتی ہے، ناچتی گاتی ہے، بوائے فرینڈز کے ساتھ پھرتی ہے۔ آئٹم نمبرز بھی کرتی ہے تو کیا دوپٹہ اتارے بغیر یہ سب تم کر سکو گی؟”
وہ سیدھا آپ سے تم پر آیا تھا اور اس کے انداز میں تنفر تھا اور انداز چیلنج کرنے والا۔ مومنہ اور وہ چند لمحے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے پھر مومنہ نے بڑی خاموشی کے ساتھ اپنا دوپٹہ اتار کر اسی اسٹول پر رکھ دیا تھا جہاں اس نے وہ اسکرپٹ اور میڈیکل فائل رکھی تھی اور پھر دوبارہ اسی جگہ آکر کھڑی ہو گئی جہاں وہ پہلے کھڑی تھی۔
ایک بار پھر مومن اور وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔ پھر مومنہ نے اپنا اگلا ڈائیلاگسے پہلے ہی اس نے تیزی سے داوؑد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”یہ ایکٹنگ کر سکتی ہے لیکن میرا ایشو گلیمر ہے اور مجھے یقین نہیں کہ یہ گلیمرس لگے گی جو اس رول کی ڈیمانڈ ہے۔”
”میرا خیال ہے وہ سنبھال لے گی ابھی تو یہ شلوار قمیص میں ہے اس لیے لگ رہا ہے کہ شاید گلیمرس نہیں لگے گی۔” داؤد نے اس سے کہا۔
‘Hot pants اورbikini میں بھی مجھے لگتا ہے یہ ایسے ہی لگے گی۔” قلبِ مومن نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا تھا اور مومنہ نے اس کی بات سن لی تھی۔
”میں یہ کپڑے تو نہیں پہن سکتی لیکن میں یہ یقین دلاتی ہوں کہ میں بہت اچھی پرفارمنس۔” مومن نے اس کا جملہ بیچ میں ہی کاٹ دیا تھا۔
”میڈم! میں آرٹ فلم نہیں بنا رہا۔ کمرشل فلم بنا رہا ہوں اور میرے ایکٹرز مجھے یہ نہیں بتاتے کہ وہ کیا پہنیں گے اور کیا نہیں۔ یہ میں انہیں بتاتا ہوں۔” اس نے بے حد ہتک آمیز لہجے میں اس بار اسے مخاطب کیا تھا۔ پھر انگریزی میں کہا۔
”تمہارے پاس وہ چیز ہی نہیں ہے جو فلم اسٹار بننے کے لیے چاہیے ہوتی ہے۔”
قلبِ مومن نے اپنی اسی بے باکی کا مظاہرہ کیا تھا جس کے لیے وہ مشہور تھا اور مومنہ چند لمحوں کے لیے جیسے ہل نہیں سکی تھی۔
”Next artist۔” وہ اب داوؑد سے کہہ رہا تھا یہ جیسے مومنہ کے لیے جانے کا اشارہ تھا۔
سرخ دھواں ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ مومنہ نے اپنا دوپٹہ اور بیگ اٹھایا اور کسی کی طرف دیکھے بغیر وہ برق رفتاری سے اسٹوڈیو سے نکل آئی تھی۔ باہر ریسپشن میں بیٹھی لڑکیوں نے اس کے چہرے کے چہرے کے تاثرات سے جیسے اسے کھوجنے کی کوشش کی تھی اور انہیں زیادہ جدوجہد کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
اسٹوڈیو سے باہر سڑک پر چلتے ہوئے بھی اس کے کانوں میں قلبِ مومن کے جملے گونج رہے تھے۔
”چلو پھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے تھا تمہیں مومنہ سلطان۔ یا شاید شرم سے ڈوب مرنے کے لیے چلّو بھر پانی بھی زیاد ہے۔ تم آخر گئی کیوں تھیں اس کے پاس۔” اس کے اندر جیسے کوئی بول رہا تھا۔
”ضرورت نے مجبور کیا تھا۔ ضرورت بڑی بے شرم چیز ہے۔”
اس نے اپنی توجیہہ پیش کی اور اس کے اندر کی آواز گونگی ہو گئی یوں جیسے اس نے اس کی توجیہہ مان لی تھی اور تب ہی یک دم مومنہ کو یاد آیا کہ وہ اسکرپٹ کے ساتھ ساتھ جہانگیر کی میڈیکل فائل بھی اندر اسٹوڈیو میں آڈیشن والی جگہ پر اسٹول پر ہی چھوڑ آئی تھی۔ اسے جیسے کرنٹ لگا تھا۔
وہ آدھ کلومیٹر چلتے ہوئے وہاں سے دور آگئی تھی اور مین روڈ پر چڑھنے والی تھی اور اب اسے پھر واپس پیدل مارچ کرنا تھا وہ بھی قلبِ مومن کے اسٹوڈیو کی طرف ریسپشن میں موجود لڑکیوں نے اسے ایک بار پھر وہاں پا کر بڑی حیرانی سے دیکھا تھا مومنہ نے کھڑے کھڑے داود کو فون کیا۔ کسی نے کال ریسیو نہیں کی۔ ریسپشنسٹ موجود نہیں تھی اور وہ انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ ایک لمحہ جھجکنے کے بعد وہ اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی۔
اسپاٹ لائٹس والی جگہ پر ایک بے حد ماڈرن خوب صورت اور اسٹائلش لڑکی بہت بولڈ کپڑوں میں ملبوس کھڑی تھی اور مومن اس کے بالمقابل کھڑا اس کے اسٹیپس میں کٹے ہوئے لمبے بالوں کو اس کے ایک کندھے سے دوسرے پر ڈالتے ہوئے اسے کچھ ہدایات دے رہا تھا وہ لڑکی جواباً مومن سے کہہ رہی تھی۔
”اچھا اس طرح بال جھٹک کر یہ ڈائیلاگ بولوں میں؟”
”ہاں!” مومن نے جواباً اس سے کہا۔
”میں نروس ہو رہی ہوں آپ کو اتنے قریب اتنے سامنے دیکھ کر۔I love you۔”
اس لڑکی نے مومن پر لائن مارنے کا یہ موقع بھی ضائع نہیں کیا تھا اور نہ مومن نے فلرٹ کرنے کا۔
”I love you too Honey!”
اور عین اس وقت مومنہ سلطان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی اور وہ کہیں رکے بغیر سیدھا اس اسٹوڈیو کی طرف آئی تھی جس سے کچھ فاصلے پر مومن اور وہ لڑکی کھڑے تھے۔
”Excuse meمیری ایک فائل رہ گئی تھی یہاں۔” مومن اس کی آواز پر جیسے کرنٹ کھا کر پلٹا تھا۔
”تمہیں کوئیmanners ہیں۔ کس سے پوچھ کر آئی ہو اندر؟” اس کا پارہ پلک جھپکتے میں آسمان کو چھونے لگا تھا۔
”سوری میری یہ فائل رہ گئی تھی یہاں، بس یہ لینے آئی ہوں۔” مومنہ تب تک اسٹول کے پاس پہنچ کر اپنی فائل اٹھا چکی تھی۔
”اپنے آپ کو نوٹس کروانے کے لیے اپنی چیزیں چھوڑ کر جانا بڑا گھٹیا طریقہ ہے۔”
قلبِ مومن نے پہلے سے زیادہ بدتمیزی سے کہا۔ مومنہ کچھ لمحوں کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔ اسے غصہ نہیں آتا تھا وہ بے حد ٹھنڈے مزاج کی تھی مگر اس وقت قلبِ مومن کے اوپر اسے اتنا غصہ آیا تھا کہ اگر کوئی چیز اس کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ بھی اسے دے مارتی۔
”جو کچھ یہاں چل رہا ہے اس سے تو یہ بہت ہی کم گھٹیا ہے۔”
اس نے جوابی جملہ اس کے منہ پر اسی کے اندا زمیں دے مارا تھا۔ مومن کو یقین نہیں آیا اس نے کیا سنا تھا اور ایسا ہی ری ایکشن اس لڑکی کا بھی تھا۔
”Get out!” وہ تقریباً چلایا تھا۔
”چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں یہ فائل لینے آئی تھی، یہ فائل لے کر جا رہی ہوں۔” وہ کہتے ہوئے اس کے پاس سے گزری تھی جب اس نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا تھا۔
”اگر یہ سب cheapتھا تو تم آئی کیوں تھیں یہاں یہ سب کرنے۔ اتنی ستی ساوتری ہو تو گھر بیٹھنا چاہیے تھا تمہیں۔ رول کی بھیک مانگنے نہیں آنا چاہیے تھا۔”
وہ کہتا گیا تھا اور مومنہ اس سے بازو چھڑانے میں ناکام ہونے پر مزید مشعل ہوئی تھی اور اس بار اس نے مومن کو پوری قوت سے پیچھے دھکا دیا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا پیچھے گیا۔
”کام لینے آئی تھی عزت بیچنے نہیں۔ بکنی منی اسکرٹ میں عورت کا جسم دکھا کر تم جو آرٹ کی خدمت کر رہے ہو اس کا حصہ نہیں بنتا مجھے۔ پہلے پتا ہوتا تو شکل بھی نہ دیکھتی تمہاری۔ تمہارا کام cheap، تم اس سے زیادہ cheap۔”
وہ کہہ کر بجلی کی تیزی سے اس کے آفس سے باہر نکل گئی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میری ٹیڑھی زلفیں — غزالہ پرویز

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!