استنبول سے انقرہ تک  (سفرنامہ) | بُرصا کے رنگ | باب 3

رہا ہے۔”
میں نے انگریزی میں کہا۔
“Please stay in the bus.
He is coming to hotel, don’t be scared.”
سرخان نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”اور گروپ کے دیگر لوگ کب اور کیسے آئیں گے؟”
میں نے فوراً پوچھا۔
”وہ سلک بازار کے دوسرے کونے سے دوسرے راستے سے ہوٹل پہنچ جائیں گے۔ آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں۔ ڈرائیور اوہان کے ساتھ رہیں۔ یہ ہمارا اپنا بندہ ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، یہ آپ لوگوں کو ہوٹل پہنچادے گا۔”
اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ہمیں کچھ اطمینان ہوا۔
”ٹھیک ہے۔”
میں نے شکریہ ادا کرکے فون بند کردیا اور موبائل ڈرائیور کو دے دیا۔ سعادت منیر کو تفصیل بتائی تو انہیں بھی اطمینان ہوا۔ بس انجانے راستوں پر چلتی جارہی تھی۔ ہم بس میں بیٹھے کھڑکی کے پار نظر آتے برصا شہرکے نظاروں کو دیکھتے رہے۔ سوچا کہ یہ بھی ایک ایڈونچر ہی سہی۔
ڈرائیور نے ہوٹل کے سامنے بس روکی۔ ہم سامان لے کر کمرے میں آئے۔ شام کی چائے پی اور کچھ دیر آرام کیا پھر رات کے کھانے کے لئے ڈائننگ ہال میں آئے۔ کھانے کے بعد ہم باہر واک کرنے چلے آئے۔
شام کو آرام کرلیا تھا اس لئے اب سوچا کہ برصا شہر ہی دیکھ لیں۔ بوفے ڈنر میں ترکی کے روایتی کھانے تھے۔ عائشہ نے کہا کہ کہیں سے فاسٹ فوڈ کھالیتے ہیں۔ پھر ہم پزا کھانے ایک ریسٹورنٹ چلے آئے۔
”بیف یا چکن پیزا؟”
ویٹر نے مستعدی سے پوچھا۔
”چکن پیزا۔”
عائشہ نے جواباً کہا۔
ویٹر نے فوراً پیزا تیار کروایا۔
ہمیں تفصیل سے کچھ باتیں کرنے کا موقع ملا۔
”یوں تو میں کیمیکل انجینئر ہوں مگر مجھے Tourisim میں بے حد دلچسپی ہے۔ اس لئے میں نے اپنی فیلڈ بدل لی پاپا کو شوق تھا کہ میں انجینئر ہوں ۔ میں نے انجینئرنگ تو کرلی اور کچھ عرصہ اپنی فیلڈ سے وابستہ ادارے میں جاب بھی کی مگر وہ جاب میرے مزاج کے مطابق نہ تھی۔ میں اپنی دلچسپی اور شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹوڑزم کی فیلڈ کی طرف آگئی اور اب خوش ہوں Job satisfaction بھی ضروری ہوتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بچے ڈگری کسی اور فیلڈ میں لیتے ہیں اور جاب کسی اور فیلڈ میں کرتے ہیں ۔ یہ لوگوں کے رجحانات پر depend کرتا ہے۔
عائشہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
میں نے ایم فِل کیا ہے اور مجھے بھی سیاحت میں بے حد دلچسپی ہے۔ نئے ملک اور نئے شہر explore کرنے کا شوق اکثر جنون بن جاتا ہے اور یہ جنون انسان کو کسی نئے ملک کے سفر کرنے کی تحریک دیتا ہے۔
یسریٰ نے کہا۔

”میں رائٹر ہوں۔ کہانیاں، ناول ، ٹی وی ڈرامے لکھتی ہوں۔ میں نے بہت سے ٹی وی ڈرامے لکھے ہیں جن میں ڈائجسٹ رائٹر، ضویا صالحہ، ایک تھی رانیہ اور میری امی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے بہت سے ناول، افسانے اور بچوں کی کہانیاں لکھی ہیں۔ مجھے لکھنے کا شوق ہے اور اکثر لکھنے لکھانے کی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہوں۔”
میں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ہم لوگ کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور اپنے شوق اور دلچسپیوں کے بارے میں بتاتے رہے کچھ دیر بعد ویٹر گرما گرم پیزا لے کر آیا تو ہم پیزا کھانے میں مصروف ہوگئے۔
”ٹرکش کھانے بھی اچھے ہیں مگر ہمیں دیسی کھانوں اور فاسٹ فوڈ کی عادت ہے۔”
عائشہ نے پیزا کھاتے ہوئے کہا۔
”ہم پاکستان سے کہیں بھی چلے جائیں، دیسی کھانوں کو بہت مِس کرتے ہیں۔”
یسریٰ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اپنی ثقافت اور کلچر کی طرح ہمیں اپنے روایتی کھانوں سے بھی انسیت ہے۔
ترکی آکر ہمیں بھی پاکستانی کھانے یاد آرہے تھے۔ جب میری شادی ہوئی اور میں لاہو رسے راولپنڈی چلی آئی تو مجھے اپنی امی کے ہاتھ کے بنے کھانے بہت یاد آتے تھے۔ میں اور میرے میاں اکثر کھانے کے لئے باہر جایا کرتے ، ہم مختلف ریسٹورنٹ ، ہوٹلز میں ہر جگہ کے کھانے کھاتے رہے مگر امی کے ہاتھ کے پکے کھانوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ میں جب بھی میکے آیا کرتی، تو ابا باہر دعوت کااہتمام کرواتے مگر میں امی سے کہتی میرے لئے آپ کھانا خود پکائیں۔ اب بھی میں اکثر امی سے کہتی ہوں کہ امی ہم آپ کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانا چاہتے ہیں مگر اب انہوںنے کچن سے ریٹائرمنٹ اختیار کرلی ہے۔
پیزا کھانے کے بعد ہم ریسٹورنٹ سے باہر آئے اور کچھ دیر برصا کی سڑک پر چلتے رہے پھر ہم قہوہ پینے قہوہ خانے میں چلے آئے۔
یہاں قہوہ بہت مشہور ہے اور یہاں قہوہ پینے کا رواج
عام ہے۔
ویٹر شیشے کی پیالیوں میں ہمارے لئے قہوہ لے آیا۔ قہوہ خانے میں اور لوگ بھی بیٹھے تھے اور قہوہ پینے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔ قہوہ پینے کے بعد ہم باہر آئے اور کچھ دیر برصا کی سڑک پر واک کرتے رہے۔
یہاں استنبول جیسا رش نہیں تھا۔ لوگ سلجھے ہوئے اور باشعور نظر آئے۔ برصا تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے اور اس شہر کی آبادی تقریباً بیس لاکھ سے زائد ہے۔ برصا شہر کے ایک طرف پہاڑیاں اور جنگلات ہیں۔ یہاں کی عمارتوں کی بھی اپنی دلکشی ہے۔ مساجد، کلاسیکل انداز میں بنے گھر، خوبصورت عمارتیں،قہوہ خانے، روایتی ہوٹل، باغات، سرسبز درخت اور صاف شفاف کشادہ سڑکیں یہاں کی پہچان ہیں۔ یہاں کے بازاروں میں بھی روایتی اور کلچرل رنگ نظر آتا ہے۔ برصا کی ان چیزوں میں آپ ترک کلچر کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔
کچھ دیر بعد ہم ہوٹل واپس آئے ۔ میں اپنے کمرے میں آئی۔
مجھے آتے دیکھ کر زاہدہ فاروق نے پوچھا۔
”تم لوگ کہاں گئے تھے؟”
”پیزا کھانے، قہوہ پینے، سوچا برصا کا قہوہ پینا چاہیے اور برصا کے مختلف رنگ بھی دیکھ لیں۔”
میں نے جواباً کہا۔
”سارا دن گھوم پھر کر تھکے نہیں تم لوگ؟”
وہ مسکرا کر بولیں۔
”تھک تو گئے تھے پھر سوچا برصا آئے ہیں تو برصا شہر کو اچھی طرح دیکھ لیں۔ صبح تو ہم نے پاموکلے کے لئے نکلنا ہے۔”
میں نے کہا۔
پھر ہم سونے کے لئے لیٹ گئے۔
یہ تھا ہمارا برصا میں اک خوبصورت اور خوشگوار دن۔ جب ہم نے نیلے پانی والے مرمرا کے سمندر میں سفر کیا تھا ۔ سِلک بازار، تکونی چھت والے گھر، برصا کی ہریالی ، قہوہ خانہ اور برصا کے کباب آج بھی ہماری یاداشت میں محفوظ ہیں۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب2

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 4

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!