استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 6

روایتی لباس تھا۔
”آپ کا لباس بہت منفرد ہے۔ کیا یہ یہاں کا روایتی لباس ہے؟”
ہم نے بے ساختہ پوچھا۔
”جی ہاں ۔ یہ اس علاقے کا قدیم اور روایتی لباس ہے۔ ہم آج بھی اسے اپنی روایتوں سے محبت کے اظہار کے طور پر زیب تن کرتے ہیں۔ عموماً لوگوں کا عام تاثر یہ ہے کہ ترکی میں زیادہ تر مغربی لباس پہنا جاتا ہے مگر استنبول اور انقرہ سے باہر نکل کر دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ ترکی کے قصبوں ، دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں آج بھی لوگ اپنا روایتی لباس پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم ترک اپنی ثقافت ، کلچر اور روایتوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔”
اس نے خوشدلی سے کہا۔ ہم نے اس سفر کے دوران یہ بات نوٹ کی کہ ترکوں کو کسی طرح کا احساس کمتری نہیں تھا۔ لوگ بڑے شہروں میں رہتے ہوں یا چھوٹے قصبوں میں، ان کا تعلق خواہ کسی بھی طبقے سے ہو، ان کی خود اعتمادی بے مثال تھی۔ روایات اور ثقافت سے محبت ہر قوم کا اثاثہ ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ بہت سے complexes کا شکار رہتے ہیں۔ احساس کمتری خوشیوں اور خود اعتمادی کو ختم کردیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں اور یہ غم ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لسانی و علاقائی تعصب کی جہالت نے بھی بگاڑ پیدا کررکھا ہے۔ ترکوں کی یک جہتی ، خود اعتمادی اور ترقی دیکھ کر ہم بہت متاثر ہوتے اور پھر ترکوں کا Nationalisim، جگہ جگہ ، دکانوں، ہوٹلوں، شاہرائوں پر آپ کو ترکی کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے۔ یہ پرچم اک پیغام ہے کہ ہم ترک ہیں، ایک قوم ہیں، کہ ہم عزت کرتے ہیں اور عزت کرواتے ہیں ، یہ پرچم فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
”لڑکیوں جلدی کرو، بس میں بیٹھو، ابھی تک باہر کھڑی ہو۔” یاسمین نے بلند آواز میں کہا۔
ہم نے جلدی سے موبائل کا کیمرہ کھولا اور آئس کریم والے کے ساتھ ایک سیلفی بنائی۔ پھر ہم بس میں آگئے۔ لوگ بس میں بیٹھ چکے تھے۔
”یہ آئس کریم کہاں سے لی؟”
رضوانہ نے فوراً پوچھا۔
”وہاں سے، کونے والی دکان کے پاس آئس کریم بنانے والا بھی کھڑا ہے۔”
لبنیٰ نے اشارہ کرکے بتایا۔
بس میں بیٹھے ہر شخص کی نظریں اس آئس کریم پر تھیں۔
”رک جائو اور حسان ، ابھی بس نا چلانا، ہم بھی ذرا یہ آئس کریم لے آئیں۔”
رضوانہ بلند آواز میں ڈرائیور سے کہتے ہوئے بس سے اتریں ان کے پیچھے کئی لوگ بھی اُتر کر آئس کریم والے کے پاس گئے۔
وہاں یکدم رش پڑگیا۔ وہ مسکرا مسکرا کر آئس کریم بناتا رہا اس کا کاروبار خوب چمکا۔ کچھ دیر بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے۔ کرن نے ہمیں ہاتھ میں پہنی انگوٹھی دکھائی جس کے پتھر کا رنگ روشنی کے ساتھ بدلتا تھا۔ اس پتھر کا نام سلطان تھا۔ ہم نے سوچا ہم بھی ایسی ہی انگوٹھی انقرہ سے لے لیں گے۔ پھر ہم Ramada Hotel Coppadocciaچلے آئے جو وہاں کا مشہور اور شاندار ہوٹل تھا۔ کمرے آرام دہ اور خوبصورت تھے۔ ہم نے کمرے میں سامان رکھا، ایک کائونٹر پر چائے کا سامان پڑا تھا۔ ہم نے چائے بنائی اور آرام سے بیٹھ کر چائے پی۔ وادی میں چل چل کر تھک گئے تھے، سفر کے بعد اک پرسکون جگہ بیٹھ کر چائے پینے کا اپنا ہی لطف ہے۔
شیشے کی کھڑکی سے روشنیاں جھانک رہی تھیں۔
ساجدہ میرے سامنے بیٹھی تھیں۔
”وہ پراسرار وادی کتنی حیرت انگیز تھی۔ میں نے اس طرح کا لینڈ اسکیپ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس وسیع وادی میں بہت چلنا پڑا۔ میں تو چل چل کر تھک گئی اور تھوڑی دیر کے لئے بنچ پر بیٹھ گئی۔ بضدی پر بھی پہاڑ تھے اور بہت سیڑھیاں چڑھنی پڑیں مگر وہاں آنے لوگوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔
انہوں نے شاپر میں سے گڑیا نکال کر میز پر رکھی۔
”کپاڈوکیہ کے بارے میں جتنا سنا تھا کم تھا۔ یہ گڑیا آپ نے بندالی ریسٹورنٹ کے پاس سے لی ہے نا ! میں نے ڈھلوانی سڑک کے کنارے ایک ضعیف عورت کو کپڑے کی گڑیاں بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔”
میں نے چائے پیتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔ یہ میں نے ایک soonevier کے طور پر لی ہے۔ ہمارے بلوچستان میں بھی ہینڈی کرافٹس بنائے جاتے ہیں۔ بلوچی کڑھائی بہت مشکل ہوتی ہے اور اپنے منفرد ٹانکوں کی وجہ سے یہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔

مگر وہاں ترقی کی ضرورت ہے۔ اس کام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں آکر ہم نے ترکوں کے لائف اسٹائل کو قریب سے دیکھا ہے اور میں ترکوں سے بہت متاثرہوئی ہوں۔ یہ لوگ زندگی کا شعور رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کا خاندانی نظام بھی بہت اچھا مضبوط ہے۔ ہم نے پاموکلے میں دلہا دلہن کو ان کے عزیز و اقارب کے ساتھ دیکھا تھا۔ سب کتنے خوش تھے یہاں ساس بہو آپس میں لڑتی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کا تعلق چاہے کسی طبقے سے بھی ہو، ان میں ساس بہو کے جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے۔ جاہل لوگوں کو تو خیر شعور ہی نہیں ہوتا۔ اچھی بھلی پڑھی لکھی ڈاکٹر، انجینئر لڑکیاں بھی سسرال والوں سے عاجز آئی ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ساس اک خوفناک لفظ کے ساتھ اک خوفناک رشتہ بھی ہے۔ ان حالات میں اچھے بھلے میچیور مرد بھی جیسے عقل سے مائوف ہوجاتے ہیں اور انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کریں۔ ان کی بزدلی خاندانی نظام کو مزید تباہ کردیتی ہے۔ یہاں لوگوں کے خاندانی نظام مضبوط ہیں۔ ساس بہو کے فساد نہیں ہیں، مرد بیوی کے حقوق ادا کرنے کا پابند ہے۔ عورت پر ظلم نہیں کیا جاسکتا، اس کے حقوق سلب نہیں کئے جاسکتے۔ گھر میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، یہاں عورت کی عزت ہے۔ جس گھر میں عورت کی عزت نا ہو اس گھر میں خیر اور برکت بھی نہیں ہوتی۔”
وہ چائے پیتے ہوئے سنجیدگی سے بولیں۔
ہم نے اثبات میں سرہلایا۔
”یہ بات ہم نے بھی نوٹ کی ہے۔ ترکوں کی ترقی میں مضبوط خاندانی نظام کا بہت اثر ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب لوگ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو وہ جوان لوگوں کو ناپسند کرنے لگتے ہیں۔ انہیں نوجوانوں کی ہر عادت اور ہر بات پر اعتراض ہونے لگتا ہے اور یہی ساس بہو کے جھگڑے کی بنیاد ہے۔ ساس کو بھی سمجھنا چاہیے کہ آنے والی لڑکی بوجھ اٹھانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ محبت بھری زندگی گزارنے کے لئے گھر میں آئی ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں محبت کے status سے تو سب واقف ہیں۔ لوگ محبت کرنے والوں کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جوانی میں لوگ محبت کرتے ہی ہیں، یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیںہے۔ شادی کی بنیاد محبت پر ہوتی ہے مگر ہمارے معاشرے میں جس سے انسان محبت کرتا ہے۔ اس سے اس کی شادی نہیں کی جاتی اور ہماری سوسائٹی میں زبردستی کی شادیوں کا رواج ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی اب تک ایسا کیوں ہے۔ ہم نے پاموکلے میں دلہا دلہن کو ہنستے مسکراتے اور خوش دیکھا تو سوچا یہاں نوجوان جوڑے کتنے خوش رہتے ہیں، سسرال کی سازشوں اور لوگوں کی نفرت سے دور، ان پر ان دیکھے بوجھ اور جبری ذمہ داریوں کا بار نہیں ہوتا سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا کیوں ہے، شاید اس لئے کہ ہمارے ہاں جب لوگ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو انہیں ہر جوان شخص برا لگنے لگتا ہے اور وہ نوجوان نسل سے مقابلے پر اُتر آتے ہیں۔ ان کی جوانی گزر چکی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ جوان لوگوں کو محبت کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ وہ سمجھدار ہونے کے بجائے حاسد بن جاتے ہیں۔ خود حُسن ، جوانی اور محبت سے دور جاچکے ہوتے ہیں۔ وہ اس complex کو نفرت کی آڑ میں چھپالیتے ہیں۔
صرف ساس بہو ہی نہیں بلکہ دیورانیاں ، جیٹھانیاں، نندیں بھی نفرتوں کا شکار رہتی ہیں۔اور زیادہ تر ان کے جھگڑے مقابلے بازی اور چیزوں کے لین دین پر ہوتے ہیں۔ ترکوں کو دیکھ کر ہم نے یہ سیکھا کہ کسی سے کبھی کوئی چیز نہ لیں۔ اپنے لئے ہر چیز خود خریدیں۔ ایک اور اہم بات جو ہم نے ترکوں سے سیکھی۔ اگر مرد دو جملے کہنے کی ہمت رکھتا ہو تو خاندانی نظام بہترین بن سکتا ہے۔ وہ دو جملے جو بیوی کی عزت و احترام اور وقار کو ظاہر کرتے ہوں، وہ دو جملے جو ماں کی حرمت و تقدس کا اظہار کرتے ہوں۔ وہ دو جملے کہ گھر میں ہر شخص کی عزت کی جائے اور ہر شخص کے حقوق کا خیال رکھا جائے چاہے وہ ماں ہو بہن ہو یا بیوی ہو۔ ہر کچھ عورت کی برسوں کی قربانیوں سے نہیں ہوتا، وہ مرد کے دو جملوں سے ہوسکتا ہے۔”
ہم نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
یہ سچ تھا کہ ہم نے ترکوں سے بہت کچھ سیکھا تھا اور اس لحاظ سے ترک ہمارے استاد بھی تھے۔
ہم چائے پیتے ہوتے کچھ دیر تک یہی باتیں کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔
لوگوں کو کسی دوسرے دیس میں جاکر ان لوگوں کے کلچر کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہ کلچر ایک وسیع دنیا کی طرح ہوتا ہے۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم لوگ Whirling Dervesh کا شو دیکھنے ایک جگہ گئے۔ جو ترکی کے درویشوں کا قدیم اور خاص انداز ہے جس کا تعلق صوفی ازم، تصوف اور روحانیت سے ہے۔
ورلنگ درویش سفید رنگ کے لمبے اور گھیردار چوغے پہنے، سر پر میرون رنگ کی گول اور لمبی ٹوپی رکھے ہاتھ ہوا میں پھیلائے اک خاص دائرے میں گول گول گھوم کر صوفیانہ رقص کرتے ہیں۔ہم سب بس میں بیٹھ کر Deevis Evi پہنچے جہاں ورلنگ درویش کا لائیو شو منعقد کیا جارہا تھا۔ اسٹیج روشنیوں میں جگمگاتے اسٹیج کے اطراف لوگوں کے بیٹھنے کے لئے نشستیں لگی نہیں اور اسٹیج پر درویش سفید لمبے گھیر دار چوغے اور گول اور لمبی برائون رنگ کی ٹوپی پہنے، ہوا میں ہاتھ پھیلائے صوفیانہ رقص کررہے تھے۔ لکڑی کی چھت پر روشنیوں سے بھرے برقی قمقمے جگمگارہے تھے۔ آف وائٹ فرش پر سائے کے عکس نمایاں نظر آرہے تھے۔
درویشوں کا یہ لباس اور انداز قدیم روایتوں کا حامل ہے۔ ذرا فاصلے پر بیٹھے درویش طبلہ اور بانسری بجا رہے تھے اور اس موسیقی میں دل کو کھینچنے والی کشش تھی۔ قونیہ اور کپاڈوکیہ آنے والے لوگ درویشوں کا شو دیکھنے ضرور آتے ہیں۔ ورلنگ درویش کا انداز روحانیت، تصوف اور صوفی ازم سے جڑا ہوا ہے۔ دیکھنے والے لوگ اس تصوف کے رنگ کو محسوس کرپاتے ہیں۔ تصوف کی دنیا وسیع ہے۔ ہر ملک، ہر دیس، ہر علاقے میں تصوف اور روحانیت کے انداز مختلف ہیں مگر تصوف کی منزل ایک ہی ہے، خدا سے تعلق کو مضبوط رکھنا۔ ورلنگ درویش بھی تصوف سے وابستہ ہیں۔ برصغیر میں بھی تصوف اور روحانیت کو بہت اہمیت حاصل رہی اور یہاں بہت سے اولیائے کرام بھی آئے۔ تصوف اور صوفی ازم کو سمجھنا، اس کے فلسفے کو جاننا اور درویشی اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔
ورلنگ درویش کا شو دیکھ کر ہم ہوٹل واپس آئے اور رات کا کھانا کھایا۔ ہوٹل کا ڈائننگ ہال بیس منٹ میں تھا۔ ہم سیڑھیاں اتر کر ڈائننگ ہال میں آئے تو وہاں لوگوں کا رش تھا۔ بوفے میں ترکی کے روایتی کھانے تھے اور ایک میز پر سوئٹ ڈشز سجی تھیں، کھانے کے بعد ہم لوگ ہوٹل کے وسیع ہال میں چلے آئے وہاں گیتوں کی محفل سجی، ڈاکٹر عالیہ اور نیہاں نے سب کو گیت سنائے اور ہم کافی دیر وہاں بیٹھے رہے پھر ہم ہوٹل سے اٹھ کر نسبتاً پرسکون جگہ پر آگئے۔ باہر سردی تھی، موسم خنک تھا اس ہے ہم باہر واک کرنے نہیں گئے۔ ہوٹل کے ایک پرسکون گوشے میں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ ویٹر سے سینڈوچز اور چپس منگوائے اور ہم نے اپنی ہی ایک محفل سجالی۔
کپاڈوکیہ کی اس وادی کی پراسراریت آپ ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر بھی محسوس کرتے ہیں۔
”میں نے کپاڈوکیہ اوراس کے پہاڑوں میں بنے غاروں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہوا تھا۔ آج اس وادی میں جاکر مجھے انوکھی سی خوشی محسوس ہوئی۔ جن چیزوں اور جگہوں کے بارے میں انسان کتابوں، کہانیوں میں پڑھتا رہا ہو، وہاں جاکر انسان کو خوشی کے ساتھ عجب اطمینان بھی محسوس ہوتا ہے۔ یوں جیسے برسوں پرانی خواہش اچانک پوری ہوگئی ہو۔ ”
عائشہ نے سینڈوچ کھاتے ہوئے ایکسائیٹڈ انداز میں کہا۔ شیشے کی کھڑکیوں کے پار نظر آتی چاندنی رات میں عجب سا سحر تھا۔
”خواہشوں کا پورا ہونا بھی خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو ہر دوسرا شخص خوش نظر آئے گا۔ یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے۔ ہم خوشی کی تلاش میں نگر نگر پھرتے ہیں۔ کبھی یہ تتلی بن کر اڑجاتی ہے۔ کبھی جگنو بن کر دور سے جگمگاتی نظر آتی ہے۔ کبھی فلک کا چاند بن جاتی ہے اور کبھی ایک خوبصورت یاد بن کر دل کے کسی کونے میں چھپ جاتی ہے۔”
ہم نے کھڑکیوں کے شیشے کے پار نظر آتی دلکش رات کی خوبصورتی دیکھتے ہوئے کہا۔
”خوشی دراصل خوشحال سلطنت عالیہ کا نام ہے، جہاں لوگ سکون اور خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، جہاں آزادی ہو اور انسانی حقوق پورے کئے جاتے ہوں۔ لوگ معاشی طور پر خوشحال ہوں تو وہ خوش بھی رہتے ہیں۔ معاشرے کی ترقی کا انحصار کسی حد تک اقتصادی خودمختاری پر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اخراجات اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے قرض دار ہوجاتے ہیں ، برسوں کمیٹیاں ڈالتے بیت جاتے ہیں۔ لاکھوں روپے صحت اور تعلیم پر خرچ ہوجاتے ہیں، پھر کرپشن ، بے روزگاری، شادی، جہیز ، سلامی، مہنگائی، لسانی و علاقائی تعصب ، کس کس کی بات کریں، ان مسائل کے ساتھ لوگ بھلا کیسے خوش رہیں، میں تو کہتی ہوں کہ انسان کو کسی دوسرے دیس کا سفر ضرور کرنا چاہیے، یوں انسان کو بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملتا ہے اور اس پر اپنے معاشرے کی خوبیاں اور خامیاں واضع ہوجاتی ہیں۔”
لبنیٰ نے سنجیدگی سے کہا۔
میں سمجھتی ہوں سیاحت ایک شوق یا ہابی کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک سبجیکٹ ہے، کچھ عرصہ پہلے تک میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ میں کبھی ترکی کی سیر کرنے جائوں گی۔ مقدر آپ کو کب کہاں لے جائے پتا ہی نہیں چلتا۔ اس ٹرپ پر ہمارے ساتھ شاہدہ اجمل اور رخسانہ عباس نے بھی آنا تھا مگر وہ کسی وجہ سے آنا پائیں۔
شاہدہ اجمل ہمارے ساتھ اسکردو بھی گئی تھیں اور تصویریں بنانے کے شوق کی وجہ سے انہیں سیلفی کوئین کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ پہاڑوں ، وادیوں ، آبشاروں، درختوں ، پھولوں، باغات، ہوٹل کے دالانوں، غرض ہر جگہ انہوں نے خوب تصاویر بنائی تھیں مگر اس ٹرپ پر وہ ہمارے ساتھ آنا پائیں۔ انسان کے لئے مقدر کی فلاسفی کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ہم جو ہنزہ جانے کا سوچے بیٹھے تھے، ترکی آگئے۔”
عائشہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
میں کچھ عرصہ قبل ہنزہ گئی تھی۔ اس وقت مجھے علم نہ تھا کہ میں کبھی ترکی بھی جائوں گی۔ مجھے ترکی کے درویشوں کا شودیکھنے کی بہت خواہش تھی۔ ورلنگ درویش مجھے بہت فیسینیٹ کرتے تھے۔ آج اس شو کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہی تھی کہ کیا خواہشیں یوں بھی پوری ہوجایا کرتی ہیں۔ پھر ہم خواہشوں کی تکمیل کے لئے جدوجہد کرنے کے بجائے انہیں مقدر پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ ہر شخص مقدر کا سکندر سمجھتاضرور ہے۔ بچپن میں میں ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھتی تھی، مجھے اس کا نام یاد نہیں شاید اُسے شعیب منصور نے ڈائریکٹ کیا تھا جس میں درویشوں کا رقص دکھایا جاتا تھا۔ وہ اسی طرح کا سفید لمبا اور گھیر دار لباس پہنے ہاتھ ہوا میں پھیلائے، ترکی کی روایتی ٹوپی پہنے اک مخصوص انداز میں گھومتے تھے۔ یہ انداز ہم پاکستانیوں کے لئے نیا تھا اس لئے مجھے یاد رہ گیا۔”

لبنیٰ نے سوچتے ہوئے کہا۔
ہاں مجھے بھی یاد ہے، پتا نہیں اس پروگرام کا کیا نام تھا، مگر وہ پروگرام ترکی کے درویشوں سے ہمارا تعارف تھا۔
ہم نے بے ساختہ کہا۔
ہم وہاں کافی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ کپاڈوکیہ کا پراسرارشہر، سرد موسم، ہوٹل کی پرسکون لابی اور کھڑکی کے شیشوں کے پار نظر آتی دلکش رات، ہم نے ایسی کسی محفل اور منظر کے بارے میں بھلا کب سوچا تھا۔ کچھ دیر بعد ہم اپنے کمرے میں آگئے اور سونے کے لئے لیٹ گئے۔ صبح سویرے ہم نے انقرہ کے لئے روانہ ہونا تھا۔ یہ تھا ہمارا کپاڈوکیہ میں گزارا ایک دن جب ہم نے پراسرار پہاڑوں کی وادی اور صدیوں پرانے غار دیکھے تھے۔ چیری بلاسم کے پھولوں سے سجے راستے، چائے والا، آئس کریم والا، تصویریں بنانے والا اجنبی سیاح، اردو بولنے والا افغانی لڑکا، سب کے چہرے یادوں کی ڈائری میں محفوظ ہوگئے تھے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 5

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 7

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!