استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 6

ہاتھ میں لئے ڈھلوانی سڑک پر چلتے ہوئے اوپر آئے تو دیکھا کہ سڑک کے کنارے اک بوڑھی مقامی عورت کپڑے سے بنی گڑیاں سیچ رہی تھی۔ یہاں چھوٹے قصبوں میں بھی Small buisness اور ہوم انڈسٹریز عروج پر تھیں۔
سیاحت کے ساتھ یہاں لوگ مختلف اقسام کے کاروبار سے بھی منسلک تھے۔ جہاں سیاحوں کی آمدورفت ہو۔ وہاں مارکیٹنگ اچھی ہوتی ہے اور کاروبار بھی چلتے ہیں۔ ملک کی خوشحالی میں محدود پیمانے پر چلنے والے کاروبار کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ ہم نے نوٹ کیا کہ ترکی میں ہوم انڈسٹریز عروج پر تھی۔ لوگ اپنے گھروں میں ترکی کے روایتی کھلونے بناتے اور فروخت کرتے ۔ لوگ جگہ جگہ تِلوں والے بن فروخت کرتے نظر آتے، انار کا تازہ جوس عام ملتا، لوگ گھروں میں ہینڈی کرافٹس اور ہاتھ سے بنی دیگر اشیاء بناتے اور فروخت کرتے اس لئے یہاں کے لوگ خوشحال تھے۔ ترکی میں سیاحوں کا رش ہوتا ہے۔ اس لئے ہوم انڈسٹری کی چیزیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں۔ آپ ترکی کے دیہاتوں اور قصبوں میں چلے جائیں آ پ کو وہاں خوشحالی ہی نظر آئے گی۔
ہم نے سوچا کہ ہمارے پاکستان میں بھی ٹورزم نے بہت ترقی کی ہے۔ ہمارے پاس قراقرم ہے، کے ٹو ہے، نانگا پربت ہے، جھیل سیف الملوک ہے۔ ہنزہ کیلاش اور اسکردو ہیں۔ پہاڑ ، وادیاں ، برف زار، جنگلات، صحر ا سب کچھ ہے۔ ہم بھی سیاحت کے ساتھ ہوم انڈسٹریز کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹؤرزم کے ساتھ جو کاروبار چل رہے ہیں۔ ان میں جدت اور ترقی کی ضرورت ہے۔
ہم وہاں سے چلتے ہوئے پراسرار پہاڑوں کی وادی کی طرف آئے جسے Goreme open air meuseum کہا جاتا ہے۔
وہ ایک حیرت انگیز اور انوکھی وادی تھی جسے دیکھ کر لوگ مبہوت رہ جاتے۔
دور تلک پراسرار پہاڑوں کا سلسلہ نظر آرہا تھا۔ کچھ پہاڑ قلعے سے مشابہہ لگتے ، کچھ تکونی پہاڑ تھے، ان پہاڑوں میں صدیوں پرانے غار بنے تھے اور یہ غار پہاڑوں میں کھڑکیوں کی طرح نظر آرہے تھے۔
پہاڑوں کے درمیان سڑکیں بنی تھیں۔
اور راستوں کے اطراف چیری بلاسم کے خوبصورت درخت ایستادہ تھے۔ وادی کے راستے چیری بلاسم کے خوبصورت پھولوں سے بھرے ہوئے تھے۔ قدرت کے خوبصورت اور دلکش مناظرتھے۔ ہم حیرت سے یہ نظارے دیکھ رہے تھے۔
سرخان انگریزی زبان میں ان غاروں کی تاریخ کے متعلق بتارہا تھا کہ صدیوں پہلے لوگ ان غاروں میں چھپ کر پناہ لیاکرتے تھے۔ ان غاروں کی تاریخ بہت پرانی تھی۔
یہ بے حد وسیع وادی تھی۔ ہم کچھ دیر اس وادی میں پیدل چلتے رہے اور پراسرار پہاڑ اور ان میں بنے غار دیکھتے رہے کچھ جگہوں پر زنجیریں لگی ہوئی تھیں۔ پہاڑوں کے قریب سیڑھیاں بنی تھیں جو بلندی کی طرف جاتی تھیں۔
وہ پرانی طرز کی طویل اور کشادہ سیڑھیاں تھیں۔ کچھ اسٹیپ کے بعد وسیع جگہ آتی پھر اگلے اسٹیپ شروع ہوجاتے۔ سیڑھیوں کے کنارے پر چھوٹی سی دیوار بھی بنی تھی۔
میں نے مغربی شہزادیوں جیسی ہیٹ پہنی ہوئی تھی۔ لوگوں نے تصویریں بنوانے کے لئے وہ ہیٹ مجھ سے ادھار لی۔
لوگ قریب آکر مسکراتے ہوئے کہتے۔
”ذرا دو منٹ کے لئے یہ ہیٹ دے دیں۔ تصویر بنوا کر واپس کردیں گے۔”
ہم نے بھی لوگوں کی فرمائش پوری کی اور اس دن وہ شہزادیوں جیسی ہیٹ کپاڈوکیہ کی پراسرار وادی میں بے حد مشہور ہوگئی۔
ہم کافی دیر چلتے رہے پھر میں پہاڑ کے قریب بنی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی کچھ لوگ بلندی کی طرف جارہے تھے۔
عائشہ کیمرے کا لینس ٹھیک کرتے ہوئے میرے پاس آئی۔
”ہم بلندی کی طرف جارہے ہیں، آپ چلیں گی؟”
اس نے مجھ سے پوچھا۔
بلندی پر جانے کے لئے کافی سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں اور اونچائی پر بھی پہاڑ تھے۔
”نہیں، میں یہیں بیٹھی ہوں۔ تم لوگ جائو۔”
میں نے جواباً کہا۔
”دیکھیں بوڑھے ضعیف اور معمر لوگ بھی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس طرف جارہے ہیں۔ یہ عالم شوق کا، کیا کہنے ہیں بھئی۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میں نے یہ وادی دیکھ لی ہے۔ مجھے Acrophobia یعنی اونچی جگہوںکا خوف ہے اس لئے میں بہت ہانٹ پر نہیں جاسکتی ہوں۔ میں کچھ دیر یہیں بیٹھوں گی ۔ یہاں سے پوری وادی کا نظارہ کرنے کا اپنا ہی لطف ہے۔”
میں نے سنہری کرنوں کے اجالوں میں چمکتی وادی کو دیکھتے ہوئے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
عائشہ کندھے اُچکا کر سیڑھیوں کی طرف چلی گئی۔
میں سیڑھی کے کنارے پر بیٹھی وادی کو دیکھتی رہی کچھ فاصلے پر سبز پتوں اور ہلکے گلابی رنگ کے پھولوں سے لدا چیری بلاسم کا خوبصورت درخت تھا۔ راستے پر پھول بکھرے ہوئے تھے اور ہوا سے ادھر ادھر رقص کررہے تھے۔ کچھ فاصلے پر رمشہ اسمارا آرٹیکا سیڑھیوں پر بیٹھی نظر آئیں۔ سامنے سے عذرا، صفیہ اور نگہت بھی آتی دکھائی دیں۔
”یہاں بیٹھی ہو! ہمارے ساتھ آجائو۔”
نگہت نے کہا۔
مگر مجھے یہ جگہ، سیڑھیوں کا کنارہ، سیڑھیوں کے قریب سبزہ زار اتنا پسند آیا کہ یہاں سے اتھنے کو دل نہ چاہا۔
”مجھے یہاں بیٹھنا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ سیاحتی مقام پر جا کر کسی خوبصورت جگہ بیٹھ کر نظارے دیکھنا مجھے ہمیشہ سے ہی پسند رہا ہے۔ یوں انسان قدرتی نظاروں کی خوبصورتی کو محویت اور توجہ کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔”
میں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اچھا جیسی تمہاری مرضی ہم بھی وہیں سامنے بیٹھے ہیں۔ چل چل کر تھک گئے ہیں۔”
نگہت نے کہا اور پھر نگہت صفیہ اور عذرا ذرا فاصلے پر بنی سیڑھیوں پر بیٹھ گئیں۔
میں سیڑھی کے کنارے پر بیٹھی تھی اور قریب سے لوگ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر کی طرف جارہے تھے۔ میرے عقب میں اک بلند پہاڑ تھا جس میں غار بنے تھے۔ ان غاروں کے دروازے نہیں تھے۔ سیڑھیوں کے کنارے اک چھوٹی سی دیوار بنی تھی۔ اس کے آگے میدان ساتھا جہاں کئی جگہوں پر سبز گھاس تھی اور چھوٹے درخت بھی تھے۔
ہم نے اک سیاح موصوف کو روکا۔ وہ ایک خوبرو نوجوان تھا۔ ہمارے اشارے پر رک گیا۔
”اک تصویر بنادیں گے کہ عقب میں وہ پہاڑ بھی نظر آئے۔”
ہم نے معصوم سی فرمائش کی۔
”ضرور۔”
وہ خوشدلی سے راضی ہوگیا۔ وہ بے حد خوش اخلاق نوجوان تھا۔
ہم نے اسے موبائل تھمایا۔ اس نے سامنے آکر توجہ اور محویت سے تصویر بنائی۔
”شکریہ۔”

ہم نے اخلاقاً کہا۔
وہ ایک بہترین تصویر تھی۔
”یہاں بھی تمہیں فوٹوگرافر مل گیا؟”
سامنے سے آتی صباحت نے شرارت سے کہا مجھے اس جملے پر ہنسی آگئی۔
”ایسے ہی اک سیاح، راہ گیر کو آواز دے کر روک لیا تھا اور موصوف رُک بھی گئے۔ ہماری فرمائش بھی پوری کردی۔”
میں نے مسکرا کر کہا۔
”ویسے بندہ بہت خوبرو اور ہینڈسم ہے۔ یہاں کتنے خوبصورت لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں اور انہیں اپنی خوبصورتی کا احساس بھی ہوتا ہے۔”
صباحت قریب آتے ہوئے بولی۔
وہ نوجوان اس گفتگو سے لاتعلق موبائل مجھے تھماتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
”یہاں کی اک خاص بات یہ ہے کہ یہاں اجنبی لوگ بھی اپنائیت سے ملتے ہیں۔ اجنبیوں کے دیس میں بھی انسان خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتا۔”
صباحت دو قدم قریب آتے ہوئے بولی۔
ہم نے اک نظر مڑ کر سیڑھیاں چڑھتے اجنبی کو دیکھا اور تائیدی انداز میں سرہلایا۔
”ہاں، بعض دفعہ انسان کو اجنبی لوگوں سے ملنے کی خواہش ہوتی ہے اور انسان کسی دور دیس میں جاکر اجنبیوں میں خوش رہتا ہے کیونکہ اجنبی کسی کے ماضی کی تاریکی سے واقف نہیں ہوتے۔ انہیں کسی کے مستقبل سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی اور انہیں کسی کے حال پر بھی اعتراض نہیں ہوتا۔ وہ کسی سے بے جا توقعات بھی نہیں رکھتے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان قریبی دوستوں اور واقف کاروں سے کنارہ کشی اختیار کرکے اجنبیوں سے قریب ہوجاتا ہے۔”
میں نے ادھر ادھر پھرتے سیاحوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ دور تلک پہاڑ نظر آرہے تھے اور ان پر سنہری دھوپ دمک رہی تھی۔ یہاں بھی ہمیں چینی سیاح نظر آئے دور سے موبائل میں ویڈیوز بناتے ہوئے کرن چلتے ہوئے قریب آئی۔
”کیا کوئی ڈاکو مینٹری بنارہی ہو؟”
صباحت نے اس کا انہماک دیکھ کر بے ساختہ پوچھا۔
”مجھے ہسٹری اور آرکیالوجی سے بے حد دلچسپی ہے۔ مجھے تاریخ میں اک عجب طرح کی کشش محسوس ہوتی ہے اور یہ میرا فیورٹ سبجیکٹ ہے۔ مجھے کپاڈوکیہ دیکھنے کی خواہش تھی ان پہاڑوں کی اک تاریخی اہمیت ہے۔ ان غاروں میں لوگ دشمنوں سے چھپ کر پناہ لیا کرتے تھے اور صدیوں پہلے یہاں اک شہر بھی آباد تھا۔ میں اس جگہ کو exploreکرنا چاہتی ہوں۔”
کرن نے اشتیاق کے عالم میں کہا۔
ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر وہاں سے اتھ کر چلتے ہوئے آگے کی طرف آگئے۔
میں چیری بلاسم کے خوبصورت درخت کے پاس چلی آئی۔ سبز پتوں اور ہلکے گلابی پھولوں سے بھرا یہ درخت اتنا خوبصورت تھا کہ اسے دیکھ کر بے ساختہ خوشی ہوتی۔
اس درخت تلے کھڑے ہوکر ہم نے سراٹھا کر سبز پتوں میں جھانکتے گلابی گلابی پھولوں کو دیکھا، کشتی دلکشی تھی، کتنی رعنائی تھی، قدرت کے خوبصورت نظارے تھے سبحان اللہ، پاک و برتر رب جو ہر شے پر قادر ہے، اس کی قدرت کے ایسے خوبصورت نظارے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ قدرتی حُسن کی اپنی ہی دلکشی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورة رحمن میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائوگے۔” سچ تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں کا شمار بھی نہیں کرسکتا۔ نعمتوں کا شمار کرنے بیٹھے تو شکر گزاری کی انتہا کو پہنچ جائے۔ اللہ سبحان تعالیٰ رحیم ہے، کریم ہے، رحمن ہے۔ انسانوں کو رحمتوں اور نعمتوں سے نوازتا ہے۔ دنیا کی مختلف جگہوں کو دیکھتے ہوئے انسان قدرت کے خوبصورت نظارے بھی دیکھتا ہے۔
چیری بلاسم کے درخت پر جب بہار آتی ہے تو نئے پھول کھلتے ہیں اور اس کے نظارے بے حد دلکش ہوتے ہیں۔ لوگ دوردور سے چیری بلاسم پر آئی بہار دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ پھر ہم لوگ قریبی بازار چلے آئے۔ وہ ایک خوبصورت بازار تھا۔ جہاں ہینڈی کرافٹس اور دیگر اشیاء کی سجی ہوئی دکانیں تھیں۔ لوگوں نے وہاں سے شاپنگ کی۔
بازار ختم ہوا تو سامنے اک میدان تھا۔ جہاں لوگ اونٹ پر سواری کررہے تھے۔ ہم سڑک کے کنارے چلتے ہوئے بس کے پاس آئے۔ وہاں قریب کئی دکانیں تھیں۔ ہم نے ایک دکان سے کرنسی ایکسچینج کروائی، دکان سے باہر آئے تو اک آئس کریم والے پر نظر پڑی۔
”آئس کریم!”
لبنیٰ نے ایکسائیٹڈ انداز میں ہلکی سی چیخ ماری۔
ہم نے بچوں کی طرح خوش ہوتے بھاگتے ہوئے آئس کریم والے کے پاس پہنچے، وہ بھی اپنی اِس عزت افزائی پر خوش ہوا۔
”یوں خوشی خوشی آئس کریم کی محبت میں بھاگتے ہوئے آنے والے لوگ یقینا پاکستانی ہیں، پاکستانی اپنی محبت کے اظہار ، زندہ دلی اور چہرے کی مسکراہٹ سے پہچانے جاتے ہیں۔”
وہ ہماری طرف متوجہ ہوکر مسکراتے ہوئے انگریزی زبان میں بولا:
”ٹھیک پہچانا آپ نے۔”
ہم نے مسکرا کر کہا۔ میں اور لبنیٰ گھیر دار میکبسی میں ملبوس تھے جو مغربی لباس سمجھا جاتا تھا، مگر آئس کریم والے نے ہماری قومیت کو ہمارے رویے اور انداز سے پہچان لیا۔
”آئس کریم تیار کردوں؟”
اس نے فوراً پوچھا۔
”جی ہاں، کیا پاکستانیوں کے لئے کوئی ڈسکائونٹ ہے؟”
لبنیٰ نے بے ساختہ کہا۔
ترکی آنے والے پاکستانیوں کو ڈسکائونٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، مگر میں نے دیکھا کہ آپ دونوں دور سے بھاگتی ہوئی آئی ہیں، اس ڈسکائونٹ مل جائے گا۔”
وہ آئس کریم تیار کرتے ہوئے خوشدلی سے بولا۔ وہ مختلف آئس کریم تھی، بسکٹوں کے سلائس کے اندر مختلف رنگوں کی آئس کریم بھری جاتی۔ یہ ترکی کی روایتی آئس کریم تھی۔
”ارے یہ تو وہی آئس کریم ہے جو عشق ممنوع ڈرامے میں خیال کھا رہی ہوتی ہے۔”
میں نے ایکسائیٹڈ انداز میں کہا۔
”آج ہم کپاڈوکیہ کی وادی میں یہ آئس کریم کھائیں گے۔ٹرکش ڈرامے دیکھتے ہوئے ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ ایک دن ہم بھی ترکی میں گھوم پھر رہے ہوں گے۔ آئس کریم کھا رہے ہوں گے۔”
لبنیٰ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”انسان کی سوچ محدود ہوتی ہے۔ میری امی کا کہنا ہے کہ انسان درحقیقت وہی کچھ ہوتا ہے۔ جو اس کی سوچ ہوتی ہے۔ جیسی اس کی سوچ ہوتی ہے ویسی ہی اس کی شخصیت بھی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے واقعی ہم نے بھی نہ سوچا تھا کہ استنبول جیسے خوبصورت شہر کی رونقیں دیکھیں گے، قونیہ میں مولانا رومی کے مزار کے باہر بیٹھے ہوں گے ۔ چیری بلاسم کے پھولوں سے سجی کپاڈوکیہ کی پراسرار وادی کی سیر کررہے ہوں گے۔ مائنڈ پاور بھی اہم ہوتی ہے مگر مقدر انسانی عقل سے ماورا ہوتا ہے۔
ہم نے دور نظر آتے پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے پرسوچ انداز میں کہا۔
زندگی کے فلسفے کو سمجھنا اور کائنات کے اسرار و رموز کا شعور رکھنا اور اس کے رازوں کو پالینا ہی اصل کامیابی ہے۔ آئس کریم والے نے آئس کریم تیار کردی۔
”یہ لیجئے یہ ترکی کی مشہور و معروف اور سیاحوں کی پسندیدہ آئس کریم ہے، کھایئے اور لطف اٹھایئے۔”
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
وہ سفید رنگت اور سیاہ بالوں والا کم عمر نوجوان تھا جس کے چہرے پر معصومیت جھلکتی تھی۔ اس نے کپاڈوکیہ کا روایتی لباس پہنا ہوا تھا۔ سفید قمیض پر سرخ رنگ کی کوٹی پہن رکھی تھی جس پر سنہری نلے سے بیلیں بنی ہوئی تھیں۔ شاید یہ ان کا کلچرل ڈریس تھا اور قدیم

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 5

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 7

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!