استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 5

(مولوی مولانا روم کبھی بھی نہ بنتا اگر وہ شمس تبریز کا غلام نہ بنتا۔)
علامہ اقبال بھی مولانا رومی کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے اور ان کے کلام سے متاثر تھے۔ مولانا رومی نے بے شمار شعر، (عبایات اور قطعات لکھے، انہوں نے اللہ، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت شمس تبریز کے لئے محبت بھرے اشعار لکھے۔
ان کی سب سے مشہور کتاب مثنوی مولانا روم ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مشہور کتاب فیہ مافیہ بھی ہے۔ صدیوں بعد بھی رومی کے کلام کو پڑھا جاتا ہے۔ اُن کا کلام آج بھی شہرت رکھتا ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں ان پر ستار موجود ہیں۔
ایک کلام انہوں نے حضرت شمس تبریز کے متعلق بھی لکھا ہے۔
مولانا رومی نے اپنے مریدوں کو نصیحتیں کیں کہ وہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔ مولانا رومی نے مولانا حسام الدین چلبی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔
1273ء کو مولانا رومی کا انتقال ہوا۔ سو انہیں ان کے والد کے مقبرے کے قریب ہی دفن کیا گیا۔
ان کے مزار مبارک کے ایک طرف شیشے کی ایک الماری میں مولانا کے تبرکات موجود ہیں جن میں ان کا لباس،جائے نماز، کندھے پر ڈالنے والارومال، مولانا کی تین ٹوپیاں اور دو عدد جبے سرفہرست ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی کی درگاہ، مسجد اور میوزیم خوبصورت فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ میوزیم درگاہ مولانا رومی، مسجد، درویشوں کے کمروں، صحن،باغیچہ، سماع ہال، تبرکات کے کمرے، لائبریری اور دفاتر پر مشتمل ہے جس کا رقبہ تقریباً 18000 مربع میٹر ہے۔ یہاں پر سیاحوں کا رش رہتا ہے اور لوگ دراز کے علاقوں سے یہاں آتے ہیں۔ یہاں اکثر عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ استنبول میں حضرت ابوایوب انصاری کا مزار بھی ہے مگر ہم وہاں نہ جاسکے تھے۔ وہاں بھی صبح شام عقیدت مندوں کا رش ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم دوبارہ استنبول جائیں اور حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری دیں۔
ہم میوزیم اور درگاہ مولانا رومی کی طرف پیدل ہی چلے۔ صاف شفاف خوبصورت راستے، رنگین پھولوں کے باغات، فن تعمیر کا شاہکار عمارات اور سرسبز درخت توجہ کا مرکز تھے۔
وہاں ایک وسیع مگر خوبصورت صحن تھا، ایک طرف ترکوں کا روایتی وضو خانہ بنا ہوا تھا۔ سامنے قطار میں درویشوں کے کمرے بنے تھے۔ جن کے آگے کوریڈور تھا۔ اس عمارت پر مسجد کی طرح کے گنبد اور مینار تعمیر ہوئے تھے۔
ہم ایک عمارت کے سامنے کھڑے تھے جس پر سبز مینار تعمیر ہوا تھا۔ سامنے سرخ پردوں والا دروازہ تھا، اس کے ساتھ ایک کھڑکی تھی اور عمارت پر دروازے کے اوپر یہ عبارت تحریر تھی۔
یا حضرت مولانا
یہ مولانا رومی کی درگاہ تھی۔
ہم لوگ اور کمرے کے اندر داخل ہوئے، وہ ایک وسیع ہال تھا۔ انٹیریر بے حد خوبصورت تھا۔ دیواروں پر خطاطی کی گئی تھی اور روشنیاں روشن تھیں۔ مولانا رومی کے مزار پر ٹوپی بھی رکھی گئی تھی۔
کچھ لوگ کھڑے تھے، کچھ لوگ دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
وہاں قرآنِ پاک کے نسخے بھی موجود تھے۔
مولانا رومی کی چیزیں اور ان کی کتاب مثنوی بھی رکھی تھی۔
ہم درگاہ مولانا رومی سے باہر آئے۔ اور کچھ دیر کے لئے فوارے کے پاس سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ میرے ساتھ سعادت منیر بھی بیٹھی تھیں۔ اس جگہ انوکھا ساسکون تھا۔
قونیہ ترکی کا منفرد شہر ہے۔ یہاں کا ماحول، کلچر اور ثقافت کا اپنا الگ ہی اثر ہے۔
ہم کچھ دیر وہیں بیٹھے رہے۔ کچھ لوگ درگاہ میں تھے، کچھ لوگ درویشوں کے کمروں کی طرف چلے گئے، کچھ صحن میں تھے بہت سال پہلے میں نے مولانا رومی اور شمس تبریز کا وہ قصہ پڑھا تھا جس میں حضرت شمس تبریز نے مولانا رومی کی کتابوں کو حوص کے پانی میں ڈال دیا تھا۔ وہ قصہ پڑھ کر ہم ہرت زدہ رہ گئے تھے، اس وقت میں نے بھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن ہم مولانا رومی کے مزار کے باہر بیٹھے ہوں گے زندگی کیا ہے ! کسی کو سمجھ آجائے تو بڑی بات ہے۔
میں نے عائشہ کو دیکھا تو اس کے پاس چلی آئی۔ ہم نے نوشین سے کہا کہ عمارت کے باہر ہماری تصویر بنادے۔ نوشین نے مسکرا کر اپنے میاں مجاہد صاحب کی طرف اشارہ کیا۔
”تصویر اِن سے بنوالیں، انہیں فوٹو گرافی کا جنون کی حد تک شوق ہے اور صحیح اینگل سیٹ کرکے بہت اچھی تصویریں بناتے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔”
یہ کہتے ہوئے نوشین نے اپنے میاں سے بات کی۔
ہم دروازے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
مجاہد صاحب نے اپنی بیگم کی کہی ہوئی بات کو سچ کر دکھایا۔ پہلے اینگل سیٹ کئے، پھر ہمیں ہدایات دیں۔ اتنی محنت، محویت اور توجہ سے تصویریں بنانے والے وہ پہلے شخص تھے، وہ یادگار تصویر آج بھی ہماری فیس بک پر لگی ہوئی ہے۔
درگاہ سے ہم باہر نکلے اور پیدل چلتے رہے۔
وہاں سے ہم باہر آئے اور اسی خوبصورت اور وسیع احاطے میں چلے آئے۔ ذرا قریب ہی سلیمیہ مسجد تھی جسے سلیم ثانی نے تعمیر کروایا تھا۔ وہ بے حد خوبصورت اور شاندار مسجد تھی۔ عثمانیوں کے پاس باکمال اور ہنر مند معمار تھے۔
اس احاطے میں سب لوگ پیدل چلتے تھے اور ٹریفک کا داخلہ ممنوع تھا۔ وہاں کچھ بچے اور بڑے سائیکل چلا رہے تھے۔
عائشہ نے ایک بچے کو سائیکل چلاتے دیکھ کر ایکسائیٹڈ آواز میں بے ساختگی سے کہا۔
”ارے، وہ دیکھیں سائیکل! مجھے بھی سائیکل چلانی ہے۔”
وہ جوش و خروش بھرے انداز میں کہتے ہوئے لپک کر اس بچے کے پاس چلی آئی۔
”کیا میں کچھ دیر کے لئے آپ کی سائیکل چلا سکتی ہوں؟”
اس نے پرجوش انداز میں انگریزی میں پوچھا۔
بچے نے خوشی خوشی سائیکل اُسے دے دی۔
یہاں کے لوگ بے حد بااخلاق بھی ہیں۔
عائشہ ایکسائیٹڈ انداز میں سائیکل چلانے لگی۔
اُسے یوں سائیکلنگ کرتے دیکھ کر یسریٰ اور اسمارا بھی بھاگی چلی آئیں۔
”یار ہمیں بھی سائیکل چلانی ہے۔”

انہوں نے ایکسائیٹڈ انداز میں اصرار کیا۔
سائیکلنگ کے لئے پاکستانی لڑکیوں کی ایکسائٹمنٹ حیرت انگیز اور قابل دید تھی۔ پاکستان میں بھی لڑکیوں کو سائیکل چلانے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں یہ کلچر اتنا مقبول نہیں تھا۔ شاید اسی وجہ سے پاکستانی لڑکیوں کے لئے آزادی سے سائیکل چلانا اک انوکھی خواہش ہوتی ہے۔ مجھے بھی ٹین ایج کے دور میں سائیکلنگ کا شوق تھا میں اور میری بہن تانیہ اکثر سائیکل لے کر نکل پڑتے تھے مگر اب سائیکل چلانے کا شوق نہ رہا تھا۔ میں بنچ پر بیٹھ گئی۔ وہاں رضیہ پھپھو، صدیق انکل بھی بیٹھے تھے۔ قریب ہی آرٹیکا، عقیلہ شمسی اور سعید انکل بیٹھے تھے ہم لوگ باتوں میں مشغول ہوگئے۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ فضا میں انوکھا سا احساس تھا۔ قونیہ آکر انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ تصوف اور صوفی ازم سے وابستہ جگہ ہے۔
حسنہ عباسی اپنے شوہر محی الدین کے پاس چلی آئیں۔
”آئیں ہم بھی سائیکل چلاتے ہیں۔”
حسنہ نے مسکراتے ہوئے کہا
”چلو ٹھیک ہے۔ کیا تم سائیکل چلالوگی؟”
وہ بخوشی راضی ہوگئے اور مسکراتے ہوئے بولے:
”ہاں کیوں نہیں، دیکھیں ہمارے گروپ کے لوگ سائیکلنگ کررہے ہیں۔”
وہ خوشدلی سے بولیں پھر سائیکل پر سوار ایک مقامی شخص کے پاس چلی آئیں۔
”بات سنیں! کیا ہم کچھ دیر کے لئے آپ کی سائیکل چلاسکتے ہیں؟”
حسنہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”ضرور! کیا آپ پاکستانی ہیں؟”
وہ مسکرا کر بولا۔
”جی ہاں، ہم سیاحت کی غرض سے آپ کے دیس میں آئے ہیں۔”
حسنہ نے خوشدلی سے کہا۔
ہم پاکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ شاید آپ لوگ ہم سے اتنا پیار نہیں کرتے جتنا ہم آپ سے کرتے ہیں۔ یہ لیجئے سائیکل شوق سے چلایئے۔ اپنے ملک میں پاکستانیوں کو دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔”
اس نے خوشگوار انداز میں سہتے ہوئے سائیکل حسنہ کے حوالے کردی۔
”بہت شکریہ۔”
حسنہ خوش ہوگئیں۔
”آیئے محی الدین صاحب ! ہمارے ترک بھائی نے کچھ دیر کے لئے ہمیں سائیکل دے دی ہے۔”
حسنہ نے بلند آواز میں اپنے شوہر سے کہا۔
”تو چلو پھر سائیکل چلاتے ہیں۔ دیکھو گِر نہ جانا۔”
وہ مسکرا کر بولے۔
حسنہ خوشی خوشی سائیکل چلانے لگیں۔
دیکھا گیا کہ پاکستانی خواتین کو سائیکل چلانے کا جنون کی حد تک شوق ہے اور وہ سائیکلنگ کے لئے دیوانی ہوجاتی ہیں۔ کہیں بھی سائیکل دیکھ لیں تو ان کی ایکسائٹمنٹ عروج پر ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کی سائیکلنگ کا رواج عام نہیں ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی خواتین کو سائیکل چلانے کی آزادی اور مواقع میسر ہوں ورنہ خواتین کی یہ خواہش حسرت میں بدل جاتی ہے اور یہ حسرت جنون کا روپ دھار لیتی ہے۔
اُس شام قونیہ کے وسیع احاطے میں لوگ جہاں بھی دیکھتے پاکستانی خواتین جوش و ولولے کے ساتھ سرغوشی کے عالم میں سائیکل چلاتے ہوئے نظر آتیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بھی تہذیب یافتہ ہیں جن کے لئے خواتین کا سائیکل چلانا بڑی نارمل سی بات ہے۔
ترک پاکستانیوں سے کیوں محبت کرتے ہیں۔ اس کی کئی اہم وجوہات ہیں۔
حسنہ عباسی استنبول میں ایک جگہ بیٹھی تھیں، وہاں ان کی ملاقات ایک ترک خاتون سے ہوئی جس نے حسنہ کو ترکوں کی پاکستانیوں سے محبت کے بارے میں کچھ اہم باتیں بتائیں۔
1900ء میں عثمانی خلیفہ عبدالحمید نے مجاز ریلوے بنانے کا اعلان کیا جس کے لئے کثیر رقم درکار تھی۔ مگر اُن دنوں عثمانی حکومت کے مالی اور اقتصادی حالات اتنے اچھے نہیں تھے جس کی وجہ سے اتنے بڑے پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل تھا۔ خلیفہ عبدالحمید کی خواہش تھی کہ حاجیوں کے سفر کی آسانی کے لئے استنبول سے مدینہ تک ایک ٹرین چلائی جائے تاکہ لوگ باآسانی حج کے لئے جاسکیں۔ اُس دور میں استنبول اور دمشق سے حجاز کے سفر پر جانا بہت دشوار تھا اور یہ سفر کئی مہینوں پر محیط ہوتا۔ راستے میں مسافروں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ اس صدی کا میگا پروجیکٹ تھا۔ پوری مسلم دنیا نے اس پروجیکٹ کے لئے عطیات بھیجے۔
برصغیر کے مسلمان جو اس وقت خود غلام تھے انہوں نے عطیات اکٹھے کئے۔ اس مقصد کے لئے خواتین نے اپنے سونے کے زیورات عطیے میں دیئے اور مردوںنے اپنی جمع پونجی بخوشی دے دی اور خلیفہ کے نام ایک خط لکھا کہ یہ عطیات برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے حجاز ریلوے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان عثمانی حکمرانوں کی بے حد عزت کرتے تھے۔ ترک قوم نے برصغیر کے مسلمانوں کی اس محبت کو ہمیشہ یاد رکھا۔ امت مسلمہ کے تعاون سے بالاآخر حجاز ریلوے کا انعقا د ہوا اور اسے اسلامی وقف کا نام دیا گیا بعدازاں یہ پروجیکٹ بھی دشمنوں کی نظر ہوگیا مگر برصغیر کے مسلمانوں کی محبت، ایثار اور احسان نے ترکوں کے دل میں جگہ بنالی۔ ترک خاتون نے بتایا کہ ترکی کے سکونوں میں طلباء کو اس بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔
حسنہ ترک خاتون کی بات سن کر حیران اور خوش ہوئیں۔ واقعی، محبت، احسان اور ایثار ایسے قیمتی جذبے ہیں جن کااثر صدیوں بعد بھی محسوس ہوتا ہے۔۔ برصغیر کے مسلمانوں کی محبت اور ایثار کے جذبے کے متعلق ترک طلبہ کو نصاب میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کی خلافت کے تحفظ کے لئے 1919میں تحریک خلافت کا آغاز کیا تھا۔ یہ مسلمانوں کی وہ خلافت تھی جو خلفائے راشدین کے بعد بنو امیہ، پھر بنو عباس اور پھر ترکی کے عثمانی خاندان کے پاس منتقل ہوئی تھی۔ یہ خلافت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بے حد محترم تھی۔۔ پہلی جنگِ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے بجائے جرمنی کا ساتھ دیا۔ سلطنت عثمانیہ خانہ کعبہ اور دیگر مقدس مقامات کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے بے حد قابل ِ احترام تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں کو پریشانی لاحق ہوئی کہ اگر برطانیہ جنگ جیت گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گا۔ اس لئے برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک خلافت کا آغاز کیا اور برطانیہ کے وزیر اعظم سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران مسلمانوں کے مقدس مقامات کا تحفظ کیا جائے گا اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی۔ اس جنگ میں جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی مگر برطانیہ نے وعدہ خلافی کی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں کو ان کے وعدے یاد دلانے اور خلافت کے تحفظ کے لئے ایک تحریک شروع کی جسے تحریک خلافت کا نام دیا گیا۔ اس کا آغاز 1919ء میں ہوا، اس تحریک میں ان کے بھائی مولانا شوکت علی اور ان کی اماں کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔ اس مقصد کے لئے آل انڈیا خلافت کمیٹی بنائی گئی جس کا مرکزی دفتر لکھنؤ میں بنایا گیا۔ مسلمانوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیا کہ خلافت ِ عثمانیہ کو قائم رہنا چاہیے یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی عظیم خلافت تھی۔ برصغیر کے مسلمان چاہتے تھے کہ یہ خلافت ختم نہ ہو۔ تحریک خلافت کے تین مقاصد تھے۔ ترکی کی خلافت برقرار رکھی جائے، مقامات مقدسہ ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو ترکی کی تحویل میں دیا جائے اور سلطنت عثمانیہ کو تقسیم نہ کیاجائے۔ مسلمانوں کے وفد بھی برطانیہ فرانس اور اٹلی گئے مگر وفد کو کامیابی نہ ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ کے دنیا بھر کے مسلمانون کی جذباتی وابستگی رہی ہے۔ اس لئے سمندر پار موجود ایک دوسرے دیس میں آباد مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لئے زور و شور سے تحریک چلائی، مسلمانوں نے گرفتاریاں پیش کیں مگر ترکی اور خلافت عثمانیہ سے محبت میں کمی نہ آئی۔ درحقیقت تحریک خلافت نے ہی تحریک آزادی کی بنیاد رکھی تھی۔
تحریک خلافت کے رہنما علی برادران پورے ہندوستان میں بے حد مشہور ہوگئے تھے کہ دیہاتوں اور قصبوں میں خواتین چکی پیستے ہوئے اور کھیتوں میں کام کرتے وقت علی برادران کو سراہتے ہوئے گیت گایا کرتی تھیں۔
مگر 1922ء میں سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی اور مصطفی کمال پاشا نے ترکی صدارت کا اعلان کردیا دوسری طرف عبدالعزیز ابن سعود نے سعودی حکومت قائم کرلی اور یوں تحریک خلافت بھی ختم ہوگئی اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے یہ بے حد دکھ کی بات تھی۔ مگر آج بھی ترکوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی محبت، ایثار اور عقیدت کو یاد رکھا ہوا ہے۔ اس لئے آپ ترکی میں جہاں بھی چلے جائیں، پاکستانیوں کی بے حد عزت و تکریم کی جاتی ہے بلکہ پاکستانیوں کو تو لوگ دیکھتے ساتھ ہی پہچان لیتے ہیں۔ جس کی واضح پہچان پاکستانیوں کا لباس شلوار قمیض ہے اور اردو زبان میں بہت سارے ترک الفاظ بھی موجود ہیں۔ ہم پاکستانی ترکوں کی خوبصورتی اور اسٹائل سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ ترک پاکستانیوں کی محبت سے متاثر ہوتے ہیں۔
محبت افراد میں ہو یا اقوام میں، یہ اپنا الگ ہی اک اثر رکھتی ہے۔
ہم بنچ پر بیٹھے احاطے کی رونق دیکھتے رہے۔ شام کے رنگ افق پر اتر آئے ، بے حد خوبصورت شام تھی۔ لوگ بھی احاطے سے جانے لگے۔ شامی بچے بھی واپس مہاجر کیمپ چلے گئے۔
ہم بنچ پر بیٹھے فضا میں چھپے تصوف کے رنگ کو محسوس کرتے رہے۔ بھلا ہم نے کب سوچا تھا کہ یوں ایک دن قونیہ کے وسیع احاطے میں بیٹھے ہوں گے… قونیہ کی رونقیں دیکھ رہے ہوں گے۔ واقعی زندگی کب کہاں لے جائے پتا ہی نہیں چلتا۔
یہاں پر اک انوکھا سا سکون تھا۔ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا سکون جس میں رونق بھی تھی، جس میں خوشی بھی تھی اور اطمینان بھی تھا۔ ان احساسات کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ہم سڑک پار کرکے قونیہ کے بازار چلے آئے جہاں مختلف اشیاء کی دکانیں تھیں یہ بازار منفرد تھا اور یہاں چیزیں بھی سستی تھیں۔ وہاں کے رنگین پیالے بہت مشہور تھے۔ sanveniers، گھڑیاں، ڈیکوریشن کی چیزیں، جیولری غرض وہاں بہت سی چیزوں کی ورائٹی تھی۔ ہم دکانوں میں مختلف چیزیں دیکھتے رہے۔
عائشہ نے جیولری خریدی، حسنہ عباسی نے ایک خوبصورت ڈیکوریشن خریداجس پر پہلا کلمہ تحریر تھا۔ لوگ شاپنگ میں مصروف ہوگئے۔
دکانوں کے باہر سڑک کے کنارے بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ میں وہاں بیٹھ گئی۔
سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھا۔ رنگ برنگی اعلیٰ ماڈل کی گاڑیوں کا رش تھا۔ سڑک کے پار ذرا دور عمارتیں بھی نظر آرہی تھیں۔ میں اپنا پرس گود میں رکھے آرام سے بیٹھ گئی اور اردگرد کے مناظر دیکھنے لگی۔ قونیہ کی فضا میں خوبصورتی تھی۔ یہاں عمارتیں خوبصورت اور سڑکیں کشادہ تھیں۔ یہاں کے ماحول میں اک سادگی سی تھی۔ دیگر قونیہ ایک تاریخی شہر ہے۔ یہاں اکر انسان صوفیانہ رنگ کو محسوس کرتا ہے۔سڑ ک کے کنارے بیٹھ کر لوگوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں انوکھا سا سکون محسوس ہوا۔
میرے ساتھ فضہ اور طلعت بیٹھی تھیں۔
”فضہ میری تصویر بنادو۔”

میں نے فضہ کو دیکھ کر فرمائش کی قونیہ کی سڑ ک کے کنارے بیٹھ کر ہمیں تصویر بنانے کا خیال آیا۔۔
ضرور، استنبول والی تصاویر میں نے آپ کو سینڈ کردی تھیں۔
اس نے مسکراتے ہوئے چند تصاویر بنادیں۔ ایسی دلکش شام ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
”شکریہ نوازش۔”
ہم نے اخلاقاً کہا۔ ایک اہم تو ہمارافضہ نے بنادیا۔
فضہ کم گو اور خاموش طبع لڑکی تھی۔ اپنے کام سے کام رکھتی اور خود میں مگن رہتی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر لوگ اسی مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔
قونیہ کی فضا میں انوکھا ساسکون تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے یہاں خاموشی باتیں کرتی ہے۔ شام کی خوبصورتی میں دلکشی تھی۔ آسمان صاف تھا۔
ذرافاصلے پر بنے ایک اوپن ائیر ریسٹورنٹ میں سرخان بیٹھا تھا۔ وہ حیران ہوتا تھا کہ پاکستانی خواتین کتنی شاپنگ کرتی ہیں۔ ہر شہر کے بازار میں ذوق وشوق سے پھرتی ہیں۔ چیزیں خریدتی ہیں۔ انہیں شاپنگ کرنے کا کتنا شوق ہے۔ یہ لوگ اتنے پیسے خرچ کرتے ہیں ۔ وہ پاکستانیوں کی نئی نئی خوبیوں اور عادتوں سے روشناس ہوتا اور حیران ہوتا۔
کچھ دیر بعد ہم وہاں سے ہوٹل چلے آئے جو وہاں سے قریب ہی واقع تھا اس کا نام Hilton Garden Inn Koryaتھا۔
وہ بے حد خوبصورت ہوٹل تھا۔ جس کے قریب بوگن ویلیا کے پھولوں سے ملتے جلتے پھول کے درخت لگے تھے۔ ہوٹل کے سامنے خوبصورت لان تھے اور ایک خوبصورت سے بورڈ پر اس ہوٹل کا نام لکھا ہوا تھا۔
ہم کمرے میں آئے سامان رکھا اور کچھ دیر آرام کیا۔ رات کو ہم کھانے کے لئے ڈائننگ ہال میں چلے آئے۔
وسیع ڈائننگ ہال، ترتیب سے لگی میز کرسیاں، لذیذ کھانے ، خوبصورت برتن ۔ سب نے کھانا خوشگوار باتوں کے دوران کھانا کھایا۔
کھانے کے بعد ہم واک کرنے کے لئے باہر چلے آئے۔ طاہرہ مظہر بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ انہوں نے اصرار کیا تھا کہ آج میں بھی تم لوگوں کے ساتھ واک کرنے جائوں گی۔ ہم نے خوشی خوشی انہیں ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ موسم میں خنکی تھی۔
اور یہاں کے ماحول میں خاموشی اور سکون تھا۔ دکانیں بند ہوچکی تھیں۔ سڑکیں سنسان تھیں۔ ہم سڑک کے کنارے چلتے ہوئے ذرا آگے آئے تو وہاں ایک وسیع اور خوبصورت عمارت تھی، شاید وہ کوئی یونیورسٹی تھی یا کوئی ادارہ تھا ہم کھڑکیوں سے جھانک کر اندر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہاں سے ہم واپس پلٹ آئے اور کچھ دیر کے لئے عائشہ کے کمرے میں چلے آئے۔ طاہرہ مظہر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
ہم کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ صبح ہم نے کپاڈوکیہ کے لئے نکلنا تھا۔ عائشہ نے کپڑے صبح کے لئے کپڑے استری کرنے تھے۔ اس نے انٹر کام پر کہا:
“Please send me Iron.”
(مجھے استری بجھوادیں۔)
کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ عائشہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ویٹر ہاتھ میں لسی کا گلاس تھامے مسکراتے ہوئے کھڑا تھا۔
عائشہ نے حیرت بھری سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ بھلا یہ لسی سرو کرنے کا کون سا وقت تھا۔
“What is this?”
(یہ کیا ہے؟)
اس نے حیرت سے پوچھا۔ بھلا ویٹر نے بنا کہے یہ مہربانی کیسے کردی۔
ویٹر کے لئے یہ حیرت حیران کُن تھی۔
“This is ayran.”
اس نے جواباً کہا۔
ترک زبان میں آئرن لسی کو کہتے ہیں۔
عائشہ گڑبڑاگئی۔ ایک لمحہ کے لئے تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے۔
”آں…نو…نو… ناٹ دِس، آئرن… اِستری ، مطلب انگلش والی آئرن جس سے کپڑے پریس کرتے ہیں اور اس سوئچ میں لگاتے ہیں۔”
اس نے اشارے کرکے سمجھانے کی کوشش کی۔ ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔
ویٹر بھی ہونق بنا کھڑا رہا اور اشاروں کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔
”یار بتائو ذرا ٹرکش میں استری کو کیا کہتے ہیں؟”
عائشہ نے جھنجھلاکر ہم سے کہا۔
ہم فوراً انٹرنیٹ پر مطلوبہ جواب تلاش کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ترکی آنے سے پہلے ہمیں معلوم نا تھا کہ یہاں انگریزی زبان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ نا یہاں لوگ انگریزی بولتے ہیں، ناانگریزی سیکھتے ہیں اور نا یہاں انگریزی بولنا کوئی فیشن ہے۔ ہم لوگ انگریزی کو اہمیت دینے والے معاشرے سے آئے تھے، انگریزی کو کسی خاطر میں نالانا ہمارے لئے حیرت انگیز تھا۔ قصور ہمارا بھی نہ تھا، ہم بچپن سے یہی سیکھتے آتے تھے۔ انگلش پڑھو، بولو، سیکھو، پھر لوگوں نے معاشرے کو میں انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کی تفریق کردی۔ یہ دو مضامین کی تفریق نہیں بلکہ دو طبقات کی تفریق تھی۔ اس تفریق سے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب نہ کئے اور یہ تفریق احساس کمتری اور احساس بدتری بن گئی۔ خیرویٹر ذہین تھا اور اشاروں کی زبان سمجھنے میں کامیاب ہوگیا کہ یہاں کون آئرن مانگی جارہی تھی۔ پھر اس نے لسی کے گلاس کی طرف اشارہ کیا کہ اس کا کیاکرنا ہے۔
”اب لے آئے ہیں تو لسی پی لیتے ہیں۔ یہاں بھی پنجاب کی طرح لسی پینے کا رواج ہے۔
عائشہ نے لسی کا گلاس تھام لیا۔
ویٹر چلا گیا اور کچھ دیر بعد استری لے آیا جسے اس نے یوں فخریہ پیش کیا جیسے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو۔
عائشہ نے اپنے کپڑے استری کئے۔ ہم کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے پھر اپنے اپنے کمروں میں چلے آئے۔
یہ تھا ہمارا قونیہ میں گزارا ایک دن جہاں ہم نے فضا میں تصوف کے رنگ دیکھے تھے۔ وہ اطمینان بھری خوشی ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 4

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 6

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!