استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 5

تحریر:مدیحہ شاہد

”استنبول سے انقرہ تک ”  (سفرنامہ)

قونیہ ، تصوف کا شہر

باب5

صبح سویرے ناشتا کرنے کے بعد ہم پاموکلے سے قونیہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں سب لوگوں نے عائشہ کو سالگرہ کی مبارکباد دی اور اس خوشی میں یاسمین مشتاق نے بس میں ہی عائشہ کو چھوٹا سا پیسٹری نما کیک بھی کھلایا۔ ہم بس میں یہ خوشیاں مناتے ہوئے قونیہ کی جانب سفر کرتے رہے۔
قونیہ ایک تاریخی شہر ہے۔ 1420ء میں قونیہ کو عثمانیوں نے فتح کیا تھا اور بعد میں اسے صوبہ قرہ سان کا دارالحکومت بنادیا گیا تھا۔ قونیہ اناطولیہ کے وسط میں واقع ہے۔ یہ صوبہ قونیہ کا دارالحکومت ہے۔ جو رقبے کے لحاظ سے ترکی کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ بے حد خوبصورت شہر ہے۔
مولانا رومی اس شہر کو iconium کہا کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ قونیہ شہر میں ولی پیدا ہوتے رہیں گے اور اس شہر کو مدینة الاولیاء کا لقب دے دیا تھا۔
بس راستے میں ایک جگہ رکی اور ہم لوگ بس سے اترے دور پہاڑ نظر آرہے تھے، ذرا فاصلے پر سرسبز درخت بھی تھے۔ وہاں چند دکانیں تھیں اور باہر گاڑیاں بھی کھڑی تھیں، وہاں لوگوں کی آمدورفت تھی۔ یہاں بھی چینی سیاح نظر آئے۔ لگتا ہے کہ چینی لوگوں کو سیاحت کا بے حد شوق ہے۔ ہمارے پاکستان میں بھی اکثر و بیشتر چینی نظر آتے رہتے ہیں۔
ہم لوگوں نے دکانوں سے کچھ چیزیں خریدیں۔ وہاں ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ شیشے کی کھڑکیوں کے ساتھ مختلف رنگوں کے اسکارف لٹکے ہوئے تھے۔ دکان کے باہر ایک اسٹینڈ پر باریک اور نازک جیولری سجی ہوئی تھی۔
ایک دکان میں پرانے زمانے کی روایتی ٹوپیاں رکھی تھیں جن کے دونوں اطراف دوپٹے کی طرح کپڑا کندھوں پر گرتا تھا۔ پرانے زمانے میں ترک خواتین ایسی ٹوپیاں پہنتی تھیں۔
سب لوگوں نے دکان سے وہ ٹوپیاں اٹھا کر پہنیں اور تصاویر بنوائیں۔
ترک دکاندار بھی پاکستانی خواتین کی زندہ دلی پر حیران ہوئے۔
ہم نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں اور آئس کریم خریدی۔
قونیہ پاموکلے سے قونیہ کافی فاصلے پر تھا۔ ہم نے باتیں کرتے ہوتے خوبصورت نظارے دیکھتے ہوئے اور آئس کریم کھاتے ہوئے یہ سفر طے کیا۔
ہم دوپہر کو قونیہ پہنچے ۔ بس سے اتر کر ہم لنچ کرنے کے لئے ایک ریسٹورنٹ میں آگئے۔ کھانے میں پیزا نما نان تھے۔ یہ بھی ترکی کی مشہور ڈش تھی۔ ساتھ سلاد اور لسی تھی۔ ایک طشتری سے کھانا کھایا ۔ کھانا بچا تو ہم نے ویٹر سے کہہ کر کھانا پیک کروالیا۔
حسنہ عباسی نے تجویز دی۔
”یہاں بہت سے شامی مہاجر بچے ہوتے ہیں۔ یہ کھانا ہم ان کو دے دیں گے۔ وہ خوش ہوجائیں گے اور یوں ان کی مدد بھی ہوجائے گی۔”
اس تجویز سے سب نے اتفاق کیا۔
کھانے کے بعد ہم باہر آئے تو وہاں قریب ہی ایک وسیع مگر خوبصورت احاطہ تھا۔ پکے فرش پر مختلف جگہوں پر چھوٹے چھوٹے سبزہ زار بنے ہوئے تھے اور لوگوں کے بیٹھنے کے لئے بنچ بھی موجود تھے۔ وہ ایک پرسکون جگہ تھی مگر وہاں رونق بھی تھی۔ کچھ لوگ بنچ پر بیٹھے تھے اور کچھ لوگ چل پھر رہے تھے۔ وہاں ہمیں کچھ شامی مہاجر بچے بھی مل گئے۔ ہم نے پیک کیا ہوا کھانا انہیں دے دیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔
ایک بھورے بالوں اور سیاہ لباس والی بچی ہمارے قریب چلی آئی۔ اس نے اپنا تعارف Syrian(شامی) کہہ کر کروایا۔ اس کی آنکھوں میں اداسی اور چہرے پر حزن اور تھکن تھی۔ پہلے تو ہمیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے پھر غور سے سننے پر سمجھ آئی کہ وہ لفظ Syrian (شام سے تعلق رکھنے والے) بول رہی ہے۔ اس کے بولنے کا تلفظ اور انداز مختلف تھا۔ اس ایک لفظ Syrian میں اک داستان پنہاں تھی۔ یہ لفظ اک اداس تعارف تھا، اس بچی کا سنبھال کررکھا ہوا فخر تھا۔ اس کی پہچان اور شناخت تھا۔ اس کا اثاثہ تھا۔ وہ ترکی میں تھی مگر آج بھی Syrian تھی۔ غریب الوطنی کا دکھ اس کے چہرے پر لکھا تھا اور اس کی آواز سے عیاں تھا۔ وہاں ایک اور بچہ بھی تھا۔ پرانی سی جینز اور جامنی شرٹ پہنے ہوئے سیاحوں کو دیکھ رہا تھا۔ ان بچوں نے بچپن ہی میں غریب الوطنی کے دکھ دیکھ لئے تھے۔ یہ ترکوں کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نے شامی مہاجرین کو پناہ دی۔ یہ مہاجر بچے مہاجر کیمپ میں رہتے تھے اور ان کو سیاحوں کی رونق دیکھنے اس احاطے میں آجایا کرتے تھے۔ بہت سے لوگ خوشی خوشی ان مہاجرین کی مدد کردیا کرتے ہیں۔
احاطے میں ایک جگہ Konya لکھا ہوا تھا۔ اس کے نیچے یہ عبارت تحریر تھی (City of hearts) (دلوں کا شہر) وہ بے حد خوبصورت جگہ تھی۔ ہم نے وہاں گروپ فوٹو بنوایا اور وہاں سے آگے کی طرف چلے۔
پھر ہم مولانا رومی کے مزار کی طرف چلے آئے۔ مولانا رومی بہت بڑے عالم ، بزرگ، صوفی ، شاعر، مفکر ، استاد اور بے حد اہم شخصیت کے حامل تھے۔
مولانا جلال الدین رومی کا نام محمد، لقب جلال الدین اور عرنیت مولانا رومی ہے۔ ان کے اسلاف کا تعلق بلخ سے تھا جو اب افغانستان میں واقع ہے۔ مولانا رومی 1207 ء میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا حسین بن احمد خطیبی عالم فاضل شخص تھے، ان کے والد مولانا بہائو الدین بھی عالم تھے۔
یہ وہ دور تھا جب اسلام کی سرحدیں شمالی افریقہ تک تھیں اور مسلمان یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔برصغیرپاک و ہند میں شہاب الدین غوری کی اسلامی حکومت تھی۔ اسلام کے ثقافتی اثرات دنیا میں پھیل رہے تھے مگر اس دور میں اسلام دشمن لوگوں نے فتنے فساد فوجیں یلغار کررہی تھیں اور مشرق کی طرف سے تاتاری سیلاب امڈ رہا تھا مگر امت مسلمہ پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم تھا کہ اللہ نے مسلمانوں کو مولانا جلال الدین رومی جیسے صاحب علم اور صاحب کشف شخص عطاء کئے جنہوں نے اصلاح و تربیت کا کٹھن کام اس خوبی سے سرانجام دیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے اس صدی کے آخری حصے میں اسلام کے دشمن اسلام کے نام ہوا بن گئے۔
تاتاری حکمران برکا خان نے اسلام قبول کرلیا اور انہی منگولوں نے اسلام کی گراں قدر خدمات سرانجام دی جو کبھی اسلام کے دشمن ہوا کرتے تھے۔
مولانا جلال الدین رومی کے والد مولانا بہائو الدین محمد امام غزالی سے بہت متاثر تھے۔ مولانا رومی نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے گھر میں امام غزالی کی تعلیمات کا بہت چرچا تھا۔ یہ ایک علم دوست گھرانہ تھا جس پر صوفیانہ رنگ کے اثرات تھے۔ یہ وہ دور تھا جب بچوں کو قرآن کریم اور حدیث کا مطالعہ کروایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ حساب ، منطق، سیاسیات اور فلسفے کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مولانا رومی کے والد نے ان کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی اور اسی لئے انہوں نے سید برہان الدین کومولانا رومی کا اطالیق مقرر کیا جو کہ بے حد قابل استاد تھے۔
کچھ عرصہ بعد مولانا بہائو الدین اپنے اہل خانہ کے ساتھ بلخ سے روانہ ہوگئے اور راستے میں آئے جس بھی شہر سے گزرتے تو ان لوگوں کا پرجوش خیر مقدم ہوتا نیشا پور پہنچے تو ان کی ملاقات مشہور بزرگ شاعر خواجہ فرید الدین عطار سے ہوئی۔
خواجہ صاحب نے ننھے جلال الدین کو دیکھا تو ان کے والد سے کہا کہ اس جوہر قابل سے غافل نہ ہونا، یہ کہہ کر انہوں نے اپنی کتاب اسرار نامہ ننھے رومی کو دی جسے مولانا رومی نے ساری عمر عزیز رکھا۔
پھر مولانا رومی کے والد اپنے اہل خانہ کو لے کر بغداد پہنچے اور وہاں سے مکہ مکرمہ حج کرنے کے لئے چلے آئے۔ اس کے بعد یہ خاندان دمشق اور پھر زنجان چلا آیا، پھر انہوں نے ملاکیہ کا رخ کیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ لارندہ چلے گئے اور کچھ سال وہیں رہے۔مولانا رومی کی شادی شرف الدین کی بیٹی گوہر خاتون سے کردی گئی۔ اس وقت مولانا کی عمر سترہ یا اٹھارہ برس تھی۔ مولانا کے دو بیٹے رشید سلطان اور علائوالدین لارندہ ہی پیدا ہوئے ۔ اس دور میں چنگیز خان نے ثرقند غارا نیشاپور بلخ اور دیگر علاقوں میں تباہی مچادی تھی۔ اس لئے لوگ ان متاثرہ علاقوں سے ہجرت کرکے قونیہ کا رخ کررہے تھے۔

مولانا بہا ئو الدین بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ قونیہ چلے آئے مگر کچھ عرصے بعد مولانا بہائو الدین کا انتقال ہوگیا، یہ خبر سن کر سید برہان الدین ترمز سے توشیہ چلے آئے۔ انہوں نے اپنے شاگرد مولانا رومی کو گلے لگایا اور انہیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ان کے شاگرد نے تمام علوم میں کمال مہارت حاصل کرلی ہے مگر مولانا رومی اب بھی علم کے حصول کے متلاشی تھے اسی مقصد کے تحت وہ شام چلے آئے، اس زمانے میں دمشق بہت اہم تعلیمی مرکز تھا، مزید علم حاصل کرنے کے بعد آپ واپس قونیہ چلے آئے اور پھر وہیں رہے۔
امیر بدر الدین نے قونیہ میں ایک بڑا مدرسہ قائم کیا تھا، مولانا رومی نے وہیں قیام کیا۔ مولانا رومی نے قونیہ میں درس و تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی اور ان کے اکثر ساتھی بھی قونیہ آگئے تھے اس طرح قونیہ علمائے کرام کا اہم مرکز بن گیا۔مولانا رومی کے مدرسے میں چار سو سے زائد طلبا ء تھے۔ مولانا رومی اپنے مدرسے کے علاوہ دیگر مدارس میں بھی درس دیا کرتے تھے۔ پھر مولانا کی ملاقات ایک ایسی اہم شخصیت سے ہوئی۔ جس نے مولانا کے افکار پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے بلکہ اس شخصیت کے روحانی تاثر نے مولانا رومی کے دل کی کیفیت یکسر بدل دی۔ یہ شخصیت ایک بہت بڑے بزرگ اور صوفی حضرت شاہ شمس تبریز کی تھی۔ مولانا رومی حضرت شاہ شمس تبریز کے مرید ہوگئے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ بے حد مشہور ہے کہ ایک دن مولانا رومی حوص کے کنارے اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے اور قریب ہی کچھ کتابیں پڑی تھیں، حضرت شاہ شمس تبریز وہاں تشریف لائے اور انہوں نے مولانا رومی سے پوچھا کہ (ای چی است؟) (یہ کیا ہے؟)مولانا رومی نے جواب دیا تو نامی دانم (تم نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے) مولانا رومی کو اس وقت معلوم نہ تھا کہ سامنے کھڑا شخص کوئی جید بزرگ اور علم ہیں۔ حضرت شاہ شمس تبریز نے وہ ساری کتابیں حوض میں ڈال دیں، اس پر مولانا رومی لبرہم ہوگئے اور کہا کہ یہ تم نے کیا کردیا ہے۔ حضرت شمس تبریز نے حوص سے وہ کتابیں نکال کر مولانا رومی کو دیں تو وہ کتابیں خشک تھیں۔ مولانا رومی حیران رہ گئے، انہوں نے بے ساختہ پوچھا ای چی است؟ (یہ کیا ہے؟) تو حضرت شاہ شمس تبریز نے جواب دیا تو نامی دانم (یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے) اس کے بعد مولانا رومی حضرت شاہ شمس تبریز کے مرید ہوگئے اور انہوں نے حضرت شاہ شمس تبریز کو اپنا شیخ مان لیا۔
ایک بے حد خوبصورت شعرہے:
مولانا ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریز ناشہ

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 4

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 6

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!