استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 4

وہ لڑکا کچھ حیران ہوا اور یہ ناگواری بھری حیرانی تھی۔
”ہاں ہاں کیوں نہیں، حیدر بیٹا یہ سامان اٹھا لو اور باجی کے ساتھ چلے جائو۔ یہ سامان ان کے کمرے میں رکھ دینا۔”
زاہدہ فاروق نے ازراہِ اخلاق کہتے ہوئے اپنے راج دلارے اور پیارے بیٹے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں تنبیہ نما اشارہ کیا۔
موصوف نے بُرا مناتے ہوئے ناگواری بھرے انداز میں سامان اٹھایا۔ یوں لگتا تھا کہ اگر ماں کا اشارہ نہ ہوتا تو موصوف کبھی یہ زحمت گوارا کرنا پسند نہ کرتے۔
”چلیں۔”
موصوف نے بے زاری سے کہا۔
ہم دوسرے کمرے میں آگئے۔ پردیس میں سامان اٹھانے کی مشقت کو عادت بنانا پڑتا ہے۔ شروع میں عادت نہیں ہوتی اور دل بھی دُکھتا ہے کہ ہائے یہاں کوئی سامان اٹھانے والا بھی نہیں ہے، کوئی پروٹوکول نہیں، کوئی اہمیت نہیں، کسی کو ہماری پرواہ نہیں۔ کہیں سے کوئی بندہ بھاگا ہوا نہیں آتا کہ لائیں باجی سامان میں اٹھا لیتا ہوں۔ یہ پاکستان نہیں پردیس ہے۔ خیر موصوف نے دروازے کے پاس سامان رکھ دیا۔ ہم نے اخلاقی طور پر شکریہ ادا کیا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں اور یسریٰ ہوٹل کی لابی میں چلے آئے۔
یسریٰ نے بتایا کہ آج عائشہ کی سالگرہ بھی ہے۔ ہم نے سوچا کہ اسے وِش کرنا چاہیے اور اگر کہیں سے کیک ملتا ہے تو لے لیتے ہیں۔ ہم سارے ہوٹل میں پھرتے رہے، اکثرایسا ہوتا ہے کہ ہوٹل میں بیکری بھی ہوتی ہے۔ جہاں سے کیک وغیرہ بآسانی مل جایا کرتے ہیں مگر ہم بیکری ڈھونڈتے ہی رہے کیک نہ ملا۔
یہ چھوٹا سا قصبہ تھا اور یہاں کا ماحول ترکی کے دیگر شہروں سے بہت مختلف تھا۔
ہوٹل کے ایک ہال میں شادی کی تقریب بھی منعقد کی جارہی تھی۔ ہال کو سجایا ہوا تھا۔ مہمانوں نے بھاری بھرکم زیورات نہیں پہنے ہوئے تھے۔ ان کی سادگی میں سٹائل تھا۔ سادہ فیشن کرنا ترکوں کی خاصیت تھی۔
پھر ہم کھانے کے لئے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں چلے آئے۔ خوبصورت برتنوں میں کھانے کی ڈشز سرو کی گئی تھیں۔ ترکوں میں ہم نے ایک نمایاں خوبی دیکھی، وہ ہے ان کی سلیقہ مندی ۔ ترک بے حد سلیقہ مند قوم ہے۔ نک سک سے تیار رہتے ہیں ۔ سڑکیں، ہوٹل، ریسٹورنٹ ، دسترخوان ، کھانے کے برتن، ہر چیز میں سلیقہ نظر آتا ہے۔ یہ سلیقہ مندی ان کی دکانوں اور گھروں ، باغیچوں میں بھی نمایاں نظر آتی ہے۔
سب لوگوں نے خوش گپیوں کے دوران کھانا کھایا کھانے کے بعد ہم کچھ دیر ہوٹل کی کیکری میں بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر ہم واک کے لئے باہر نکلے مگر یہ گائوں نما قصبہ تھا۔ دکانیں وغیرہ بند ہوچکی تھیں۔ سڑکوں پر رش اور گہما گہمی بھی نہیں تھی۔ یہاں لوگ رات کو جلدی سونے کے عادی تھے۔
ہم نے عائشہ کو سالگرہ کی مبارک باد دی اور تلاش بسیار کے باوجود کہیں سے کیک نہ مل سکا۔ ہم واک کرکے ہوٹل واپس آگئے۔
صبح سویرے کچھ لوگوں نے Hot Air Balloon کی سیر کے لئے جانا تھا اور لبنیٰ نے Paragliding کرنی تھی۔ یہاں ہوا میں اُڑنے والے غبارے کی سیر بہت مشہور تھی۔ اس غبارے کو آگ جلا کر ہوا میں اڑایا جاتا ہے اور ساتھ ایک ٹوکری بھی لگی ہوتی ہے جس میں لوگ سوار ہوتے ہیں اور یوں غبارے میں سوار لوگ پوری وادی اور قصبے کا نظارہ کرتے ہیں ۔ یہ غبارے کپاڈوکیہ میں بھی ہوتے ہیں مگر اس غبارے کی سیر کے ٹکٹ کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ تقریباً بیس ہزار پاکستانی روپوں سے زیادہ مالیت کا ٹکٹ تھا۔
ہم نے سوچا بیس ہزار روپے بچا لیتے ہیں۔ پاموکلے دیکھ تو لیا ہے۔ اتنے بھی کیا چونچلے کرنے، ہوا میں اڑنے والے غبارے میں بیٹھنا کوئی ضروری تو نہیں۔ لبنیٰ کو Paragliding کا شوق تھا سو اس نے صبح سویرے Paragliding کے لئے جانا تھا۔ اس کا ٹکٹ نسبتاً کم تھا۔
واک سے واپس ہوٹل آئے تو ایک کائونٹر سے ہم نے کھانے پینے کی چیزیں چپس وغیرہ لئے۔ عائشہ نے کافی لی اور یسریٰ نے آئس ٹی بی۔ عائشہ نے صبح سویرے ہوا میں اڑنے والے غبارے کی سیر کے لئے جانا تھا اس لئے آج رات ا س کا جاگنے کا پروگرام تھا۔
ہم کچھ دیر کے لئے عائشہ کے کمرے میں چلے آئے۔
”کافی اس لئے پی رہی ہوں کیونکہ میں نے صبح چار بجے Hot Air Balloon کی سیر کے لئے جانا ہے۔ ابھی سوگئی توصبح چار بجے اٹھا نہ جائے گا۔ کافی پیئوں گی تو صبح تک بآسانی جاگتی رہوں گی۔” اس نے کافی پیتے ہوئے کہا۔
”میں نے بھی صبح Paragliding کے لئے جانا ہے۔ اب یہاں آئے ہیں تو یہ تجربات بھی ضرور کرنے چاہیے۔ ویسے آج وانی جگہ بہت خوبصورت تھی۔ سب نے بہت انجوائے کیا۔”
لبنیٰ نے خوشدلی سے کہا۔
”مجھے بھی آج والی جگہ بہت خوبصورت لگی وہاں پانی میں چل چل کر ہماری جلد بھی بے حد صاف ہوگئی ہے۔ واقعی ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس پانی میں healing properties ہیں۔”
یسریٰ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہاں کا موسم بھی اچھا ہے۔ فضا میں خنکی نہیں ہے تازگی ہے۔ میں کچھ عرصہ پہلے اپنی بہن کے پاس انگلینڈ گئی تھی وہاں بھی ہم نے بہت انجوائے کیا تھا مگر وہاں کا موسم سرد ہے۔ ہم پاکستانی سرد موسم کے عادی نہیں ہوئے خصوصاً ہم لوگ جو سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر یہاں کا موسم بہت خوشگوار ہے۔ ترکی کی خوبصورتی کے آگے مجھے یوکے پھیکا سا محسوس ہوا۔ ترکی میں کچھ خاص بات ہے۔ جو لوگوں کو اپنی طرف اٹریکٹ کرتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے رویوں میں بھی وہ گرم جوشی اور محبت ہے جو انگلینڈ کے لوکل باشندوں کے رویوں میں نہیں ہوتی۔
لبنیٰ نے کہا۔ واقعی رویوں کا فرق اہم ہوتا ہے۔
ہم کافی دیر کمرے میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ پھر میں اپنے کمرے میں چلی آئی اور اپنی روم میٹ ساجدہ سے کچھ بات چیت کی ۔ ہم نے سوچا کچھ وقت روم میٹ کے ساتھ بھی گزارا جائے۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا۔
”یوں تو میرا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر اسلام آباد میں بھی میرا گھر ہے۔ میں نے ترکی کے بعد سعودی عرب عمرے کے لئے بھی جانا ہے۔ میرے ساتھ پاکستان سے حیدر آیا ہے۔ بہت ہی اچھا بچہ ہے۔ اس نے میرا بہت خیال رکھا کہتا رہا آنٹی فکر نہ کریں۔ بالکل پریشان نہ ہوں۔ ہم لوگ استنبول ایئرپورٹ پر اترے پھر فیری کے ذریعے برصا گئے۔ وہاں میں ایک مساج چیئر پر بیٹھ گئی اور سفربہت اچھا گزرا۔ ”
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اچھا؟ ہمیں تو فیری میں ایسی کوئی مساج چیئر نظر نہ آئی تھی اور ہمیں تو اس بارے میں معلوم بھی نہیں تھا کیا یہاں پر ایسی بھی کوئی ایجاد ہے؟”
میں نے حیرانی سے کہا۔
”مجھے تو مل گئی تھی۔ مساج بھی ہوتا رہا اور سفر بھی اچھا کٹ گیا، تھکاوٹ بھی اتر گئی۔ اس سے پہلے پچھلے سال میں اسکردو بھی گئی تھی۔ مجھے سیاحت سے بے حد دلچسپی ہے اور اکثر تو میں اکیلے بھی اپنے سفر کو بہت نجوائے کرتی ہوں۔ میرے تین بیٹے ہیں۔ میاں کا تعلق سول سروس سے ہے۔ اکثر میں کوئٹہ سے اسلام آباد آتی جاتی رہتی ہوں۔”
انہوں نے کہا۔

ہم نے کچھ دیر باتیں کیں پھر آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے ۔ کمرہ اچھا اور آرام دہ تھا۔ خوبصورت فرنیچر، نفیس پردے ، لیمپ، انٹر کام، فریج، ٹی وی، سب سہولیات تھی۔ کمرہ centrally heated تھا مگر ہم نے اٹھ کر چپکے سے تھوڑی سی کھڑکی کھول دی۔ ہم پاکستانیوں کو تازہ ہوا کی عادت ہے اور ہم اپنی عادت سے مجبور ہیں۔
صبح سویرے لبنیٰ paraglidingکے لئے چلی گئی اور باقی لوگ ہوا میں اڑنے والے غبارے کی سیر کے لئے چلے گئے۔ ہم مزے سے سوتے رہے۔ ہماری سونے جاگنے کی اک روٹین تھی جسے ہم نے برقرار رکھا ہوا تھا۔
پھر ہم لوگ صبح ناشتے پر ملے۔
”کیسی تھی ہوا میں اڑنے والے غبارے کی سیر۔”
ہم نے عائشہ سے پوچھا جو سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پلیٹ میں ناشتے کے لوازمات ڈال رہی تھی۔
وہ تھکی ہوئی لگ رہی تھی مگر اس کے چہرے پر اک انوکھی سی خوشی کا عکس تھا اور سوجی ہوئی آنکھوں میں انہونی سی چمک تھی۔
”بہت اچھا، بہت خوبصورت، دلکش اور exciting ، ہمیں بہت مزہ آیا۔ صبح چار بجے ہم سب ہوا میں اڑنے والے غبارے کی سیر کے لئے جانے کے لئے بالکل تیار تھے۔ ڈاکٹر شمیم اور ڈاکٹر عالیہ سو رہی تھیں۔ انہیں میں نے خود جاکر اٹھایا پھر ہم سب ہوٹل سے روانہ ہوئے۔”
اس نے جواباً کہا۔
”وہ کون سی جگہ تھی؟”
ہم نے بے ساختہ پوچھا۔
”وہیں روئی کے قلعے کے چشموں کے پاس اک میدان تھا، وہاں بہت لوگ تھے۔ کچھ غبارے زمین پر اڑان بھرنے کے لئے تیار تھے۔ کچھ ہوا میں اڑ رہے تھے۔ سورج نکل رہا تھا۔ کیا بتائوں کیسا خوبصورت منظر تھا۔ ہماراغبارہ سرخ اور پیلے رنگ کا تھا۔ وہاں قریب ہی Paragliding بھی ہورہی تھی۔ پھر غبارے کا پائلٹ آیا اس نے اپنا تعارف کروایا اور اس سفر کے بارے میں ہمیں اہم معلومات دیں۔ یہ تقریباً چالیس منٹ کا سفر تھا۔ پھر اس نے ہم سے کہا کہ ہماری تصویریں اور ویڈیوز بھی بنیں گی اگر ہم وہ ڈیٹا لینا چاہیں تو ایڈمن کو pay کرکے ڈیٹا لے سکتے ہیں۔ ہم رضا مند ہوگئے ۔ پھر ہم سب لوگ ٹوکری میں سوار ہوئے۔
میں، رمشہ، اسمارا، یاسمین، مشتاق صاحب، سیف انکل، شاہینہ، فضہ، امتیازانکل، طلعت آنٹی، نگہت ، شاہین ، ڈاکٹر شمیم، ڈاکٹر عالیہ، کرن تحسین، حسنہ عباسی، محی الدین انکل غبارے میں سوار ہوگئے۔ آہستہ آہستہ غبارے میں گیس بھرنا شروع ہوئی اور غبارے نے آہستہ آہستہ ہوا میں اڑنا شروع کیا تو سب نے شور مچایا ۔ یہ خوشی اور ایکسائٹمنٹ کا اظہار تھا۔ لوگ پرجوش تھے اور تصاویر اور ویڈیوز بنارہے تھے۔
چشموں والے پہاڑوں کا نظارہ خوبصورت تھا۔ خوبصورت اور دلکش نظارے تھے۔ موسم خوشگوار تھا۔ سورج نکل رہا تھا اور طلوع صبح کا وقت اور منظر بے حد خوبصورت ہوتا ہے۔ ہمیں احساس ہوا اس وقت انسان کو جاگنا چاہیے۔ فجر کی نماز پڑھنی چاہیے۔ طلوع صبح کے منظر کو دیکھنا چاہیے۔ لوگ ہیں ایسے قیمتی وقت میں سوتے رہتے ہیں۔ صبح کے وقت جاگنے اور عبادت کرنے کا بھی اپنا ہی اک لطف ہوتاہے۔”
”ہاں واقعی، طلوع صبح کے وقت انسان کو جاگنا چاہیے اور عبادت کرنی چاہیے۔ طلوع صبح کے کے مناظر ضرور دیکھنے چاہیے۔”
ہم نے بے ساختہ تاہید کی۔
”قریب ہی انگور کا باغ تھا۔ غبارے نے ایک گاڑی پر لینڈ کیا۔”
عائشہ نے بتاتے ہوئے کہا
”گاڑی پر؟”
ہم بے ساختہ چونکے۔
”جی ہاں۔ ہاٹ ایئر بیلو ن نے ایک پک اپ نما بڑی سی گاڑی پر لینڈ کیا تھا۔ پھر ہم سب ٹوکری سے باہر آئے تو پائلٹ اور اس کی ٹیم نے تالیاں بجائیں اور سب کو جوس سرو کئے پھر ہمیں ہوا میں اڑنے والے غبارے میں سفر کرنے کی دستاویز بھی دی۔ ہم نے قیمت ادا کرکے ویڈیوز اور تصاویر کا ڈیٹا بھی لے لیا پھر ہم ہوٹل واپس آگئے۔”
اس نے پرجوش انداز میں کہا اور ناشتہ لے کرکرسی پر بیٹھ گئی۔ شاہین کے چہرے پر بھی انوکھی اور شاد سی مسکراہٹ تھی۔
”میرے لئے بھی یہ تجربہ بہت خوشگوار تھا اور مجھے ہوا میں اڑنے والے غبارے میں سفر کرتے ہوئے بالکل ڈر نہیں لگا اور نا میں خوفزدہ ہوئی بلکہ میں نے اس سفر کو بہت انجوائے کیا۔ یہ میری زندگی کا انوکھا تجربہ ہے۔”
شاہین نے کہا۔
لبنیٰ بھی paragliding سے واپس آگئی تھی اور اس کے چہرے پر ابھی تک ایکسائٹمنٹ تھی۔
”میں صبح صبح ہوٹل سے گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئی تھی۔ پھر ہم ایک پہاڑی پر چلے آئے۔ انسٹرکٹر نے مجھے ہدایات دیں اور ساری باتیں بتائیں،ہم نے paragliding سے وابستہ اہم معلومات حاصل کیں پھر پیراشوٹ کے ذریعے paragliding کی۔ میں اپنے احساسات اور ایکسائٹمنٹ کو بیان نہیں کرسکتی کہ وہ کتنا انوکھا تجربہ تھا۔ سبزے کے پاس ہٹ نما گھر بنے تھے جو بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔ تیز ہوا میں تازگی تھی۔ سنہری کرنوں کے اجالے بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔ Cotton castle کے نظارے بھی دلکش تھے۔ خوبصورت وادی، سبزہ، نیلے پانی کے چشمے، دلکش اور صاف ستھرے گھر، کشادہ سڑکیں، یہ سب نظارے اتنے خوبصورت تھے کہ میں بتا نہیں سکتی۔”
لبنیٰ نے پرجوش انداز میں کہا۔
پھر سب ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگئے۔
اس کے بعد ہم نے قونیہ کے لئے روانہ ہونا تھا، طلوع صبح کے بارے میں بے حد اہم بات یہ ہے کہ یہ بہت قیمتی وقت ہوتا ہے، انسان کو طلوع صبح کے وقت جاگنا چاہیے، اٹھنا چاہیے اور رب کا نام لے کر اپنے دن کا آغاز کرنا چاہیے۔ قرآن پاک میں سورة ضحی میں بھی روشن صبح کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ضحی کے معنی دن اور اس کی روشنی کے ہیں۔ ضحی اس وقت کو کہتے ہیں جب سورج بلند ہوتا ہے یہاں مراد پورا دن ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کچھ عرصہ وحی کا سلسلہ تھم گیا تو آپۖ کو پریشانی لاحق ہوئی۔
رب کی طرف سے آپۖ کو تسلی دی گئی اور آپ ۖ کی پریشانی دور کی گئی۔ سب سے پہلے روزِ روشن اور سکون شب کی قسم کھا کر آپۖ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپۖ کے رب نے آپۖ کو ہر گز نہیں چھوڑا ہے اور نا وہ آپ سے ناراض ہوا ہے۔ طلوع صبح کی اپنی اک خاص اہمیت ہے۔
اسی لئے صبح جلدی جاگنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ انسانی زندگی پر سحر خیزی کے بہترین اثرات ہوتے ہیں اور یہ بات تو اب سائنس کی تحقیق سے بھی ثابت ہوچکی ہے کہ سحر خیزی انسانی صحت کے لئے کس قدر مفید ہے۔
طلوع صبح کی خوبصورتی میں اک خاص طرح کی خوشی ہوتی ہے۔ آپ سورج کو طلوع ہوتا دیکھیں گے تو یہ خوشی محسوس کریں گے۔
ناشتہ کرنے کے بعد ہم لوگ قونیہ کے لئے روانہ ہوئے جو کہ ترکی کا تاریخی شہر ہے۔
یہ تھا ہمارا پاموکلے کا ٹؤر جب ہم نے نیلے پانی کے چشموں والے cotton castle دیکھے تھے۔
وہ تازگی بھری خوشی ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک  (سفرنامہ) | بُرصا کے رنگ | باب 3

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 5

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!