میں نے جیب سے اپنا نیا آئی فون نکالا، ملیحہ کا میسج تھا “Very cute look… Jan!!!” اوپر دیکھا تو دوسری منزل پر کھڑی وہ بڑے پُر جوش انداز سے ہاتھ ہلا رہی تھی۔اُس نے سکن ٹائٹ ٹرائوزر اور بغیر بازوئوں والی شرٹ زیب تن کر رکھی تھی۔
“You are all set to kill me… Mili” میں نے جواب دیا اور ساتھ ہی اشارہ کیا کہ وقفے میں ملتے ہیں۔ مجھے ان رنگین تتلیوں میں ہمیشہ ہی بہت کشش محسوس ہوتی تھی، جو میری طرف خود ہی کھنچی چلی آتی تھیں۔ رومانس، ڈیٹنگ سب کچھ میری زندگی کا لازمی حصہ تھے… کچھ میری وجاہت اور کچھ شاہانہ اخراجات، مہنگے ترین مالز سے ان کے لئے تحائف اور اچھے ہوٹلز میں کھانا… ان لڑکیوں کو اس سب کے علاوہ کسی چیز سے مطلب بھی کیا۔ اچانک میری نظر سامنے لگے ٹائم ٹیبل پر پڑی…
Islamic studies: 9-11am
”اوہ نو!” میں نے افسوس سے سر پر ہاتھ مارا۔ پوری انجینئرنگ میں سب سے بور سبجیکٹ۔ پتا نہیں ان HEC والوں کی عقل کہاں چلی جاتی ہے؟ ہمیشہ کی طرح مجھے سلیبس طے کرنے والوں پہ غصہ آ رہا تھا، جو ایک غیر تکنیکی مضمون کو اتنی پروفیشنل پڑھائی کا حصہ بنانے پر تلے رہتے ہیں۔ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں، نماز روزے کا پتا ہے، پھربھی نہ جانے کیوں ہمیں وہی چیزیں بار بار رٹتے رہنیپر مجبور کرتے ہیں۔ اوپر سے ڈاکٹر ذوالقرنین! قسم سے ان ڈاکٹر صاحب کو تو ایمان داری کا ایسا رو گ لگا ہے کہ بس!!! مجال ہے جو کبھی ایک لیکچر بھی کینسل کر دیں۔ دو گھنٹے تک پھر ان کا لیکچر!!!!
پورے سمسٹر میں آج میں دوسری بار ان کی کلاس میں جا رہا تھا۔ میرے پورے تعلیمی کیرئیر میں یہ شاید واحد مضمون تھا جسے میں نے ہمیشہ “one eyed study” کے ذریعے پاس کیا تھا۔ آج تو پیچھے والی ساری نشستیں پُرہونے پر مجبوراً مجھے ڈاکٹر صاحب کے بالکل سامنے والی سیٹ پر بیٹھنا پڑا۔
”مر گئے۔ آج تو بچنے کا کوئی امکان بھی نہیں۔ کیسے گزریں گے یہ دو گھنٹے؟؟؟” میں نے بے بسی سے سوچا۔ ڈاکٹر صاحب نے بورڈ پر لکھنا بند کر دیا تھا۔ تختۂ سفید پہ تاریخ کے ساتھ آج کے لیکچر کا عنوان بھی خوشخط لکھا ہو اتھا…
”ہر ذی روح نے موت کا مزا چکھنا ہے۔”
”موت ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا۔ لوگ خدا کو ماننے سے منکر ہو سکتے ہیں، رسولوں کی حقانیت کو اپنے بے بنیاد نظریات کے مقابل غلط سمجھ سکتے ہیں، آسمانی کتابوں، مر کر جی اٹھنے اور جنت و جہنم کو تو جھٹلا سکتے ہیں مگر موت… یہ ایسی ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھنے والا، چاہے تعصب کی کتنی ہی گہری عینک لگا لے، موت کو نہیں جھٹلا سکتا” ڈاکٹر صاحب کی نرم مگر مضبوط آواز گونج رہی تھی۔
”ان مولوی لوگوں کو بھی بس موت، جنت اور جہنم کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا، مغرب ترقی کی انتہائوں کو چھو رہا ہے، ہماری زندگی ان کی ایجادات کی مرہونِ منت ہیں اور یہ ہیں کہ بس اسی ”پتھر کے دور” میں جی رہے ہیں”… میں نے ناگواری سے سوچا!
”اسی بات کو اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں کہ اگر تم میرے وجود سے انکاری ہو اور انسان ہی کو ہر طرح کی طاقتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہو، تو جس وقت ہم تم میں سے کسی ایک کی جان نکالتے ہیں تو تم اس کو واپس کیوں نہیں ڈال لیتے؟؟ اور سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود انسان اس قابل ہو ہی نہیں سکا کہ وہ اس دعویٰ کو جھٹلا سکے۔”
میں اپنی زندگی اور کامیابیوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا ہے، یہ صدارتی ایوارڈ، بورڈ ٹاپر… یہ تو ابھی شروعات ہیں… میں سائنسدان بننا چاہتا ہوں اور میری منزل ”ناسا” ہے…
”(لوگو) تمہیں (مال و خواہشات کی) بہت سی طلب نے غفلت میں ڈال دیا ، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔”
موت کو بھول جانا بہت بڑی حماقت ہے، ہم لوگ پوری زندگی کا ٹائم ٹیبل سیٹ کرتے ہیں، پر اس میں صرف ایک چیز کبھی فٹ نہیں کرتے اور وہ ہے موت۔ دنیا کی چاہت میں انسانوں کے دل گناہوں سے زنگ آلود ہو جاتے ہیں، نصیحت اثر نہیں کرتی، الفاظ بے فائدہ ثابت ہو جاتے ہیں۔
”پھر اس کے بعد تمہارے دِل سخت ہو گئے گویا کہ وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی سخت”
اور اس سختی سے نجات کا سب سے کارگر طریقہ ہے موت کی یاد۔ جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر اس نے اس جہان فانی کو چھوڑ جانا ہے اور دنیاوی مال و متاع یہاں ہی رہ جانا ہے تو وہ بہت سی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے مارا مارا نہیں پھرتا… یہی وجہ تھی کہ نبی ۖ خود بھی موت کا تذکرہ کثرت سے فرمایا کرتے اور صحابہ کوبھی اس کی تلقین فرماتے۔”
اگر ہر وقت موت کا ہی سوچتے رہے تو پھر تو گئے کام سے۔ دنیا کا نظام ہی ختم ہو جائے گا اگر ہر کوئی یہ سوچ ہر وقت ساتھ لیے پھرے تو … اور یاروں دوستوں کے ساتھ کی جانے والی تفریح!!! ہنہ، موت جب آئے گی تو دیکھ لیں گے۔”
”ایک دفعہ نبی ۖ صحابہ کی مجلس میں تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ کھلکھلا کے ہنس رہے تھے اور ہنسی کی وجہ سے ان کے دانت کھل رہے تھے۔ آپ ۖ نے فرمایا کہ اگر تم موت کو کثرت سے یاد کرو تو جو حالت میں دیکھ رہا ہوں وہ پیدا نہ ہو۔ قبر پر کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب وہ یہ آواز نہ دیتی ہو کہ میں تنہائی کا گھر ہوں، بیگانگی اور کیڑوں کا مسکن ہوں۔ جب کوئی صالح میت اس میں رکھی جاتی ہے تو وہ اسے کہتی ہے کہ تیرا آنا مبارک ہو، زمین پر جتنے آدمی چلتے تھے، تجھ ہی سے مجھ کو زیادہ الفت تھی آج جب تو میرے حوالے ہوا ہے تو میرے حسن سلوک کو بھی دیکھ لے گا۔ اس کے بعد وہ حدِ نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے اور ایک دروازہ جنت کا کھل جاتا ہے۔ اور جب کوئی بدکردار اس میں رکھا جاتا ہے تو کہتی ہے کہ تیرا آنا نامبارک ، برا کیا جو تو آیا، زمین پر جتنے آدمی چلتے تھے تجھ سے ہی مجھے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ اس کے بعد وہ اس کو اتنا دباتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دو سرے میں گھس جاتی ہیں اور جہنم کی ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جہاں سے جہنم کا دھواں اور بدبو اس کو آتی رہتی ہے۔”
”آج آنے کی غلطی ہو گئی ہے تو اب اس کی سزا اس طرح ملے گی!!!” میں نے انتہائی بے زاری سے سوچا۔
”صحابہ ہر وقت موت کو پیشِ نظر رکھتے تھے، اور اسی وجہ سے ان کے دل دنیا سے اچاٹ رہتے تھے۔ اس حالت میں ان کو ذرہ بھر بھی تغیر محسوس ہوتا تو فوراً سے پیشتر خود کو ملامت کرتے۔ ایک دفعہ ایک محفل میں جب نبی ۖ نے قبر کے حشر کا ذکر فرمایا تو صحابہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ مجلس کے بعد جب حنظلہ گھر آئے اور بیوی بچوں کے ساتھہنسی مذاق میں مشغول ہوئے تو فوراً یہ خیال آیا کہ آپ ۖ کی خدمت میں تو آنسو اور یہاں یہ حال؟ خود کو منافق سمجھتے ہوئے حاضر خدمت ہوئے تو آپ ۖ نے فرمایا کہ ہر وقت میری مجلس والی کیفیت رہے تو فرشتے سرِ بازار تم سے مصافحہ کرنے لگ جائیں، لیکن ایسا تو کبھی کبھی ہوتا ہے۔”
مجھے کسی کی موت نے کبھی نہیں رلایا تھا، حتیٰ کہ اپنی سگی ماں کی وفات پر بھی ایک آنسو تک نہیں نکلا تھا میرا، احساس تک نہیں ہوا تھا کہ کیا ہو چکا ہے… میرے سب جاننے والے میرے حوصلے کی داد دیا کرتے تھے۔ مجھے سب سے بڑی ڈرامہ باز وہ عورتیں لگتی ہیں جو مردے کے سرہانے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں… اس پر میں ہمیشہ ایک ہی لفظ بولا کرتا تھا… “Overacting”۔
”حضرت عبداللہ ایک حدیث اس طرح سے بیان فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی مسافر اور فرماتے تھے کہ اگر صبح مل جائے تو شام کی امید مت رکھو اور شام کو پالو تو صبح کی امید نہ رکھو۔”
”پھر تو بندہ مصلے سے سر ہی نہ اٹھائے، اس میں دنیا داری تو کہیں نہیں بچتی”… میں نے سوچا۔
”حضرت عثمان قبر کے ذکر پر اتنا روتے تھے کہ بعض دفعہ داڑھی تر ہو جاتی۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، جو اس میں سرخرو ہوا وہ آگے بھی بچ جائے گا۔ حضرت عمر جن کی فراست کا ہر کوئی معترف تھا اور ہے، انہوں نے اپنی مہر ایک عبارت پر درج کروا رکھی تھی۔
”نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے”
یہ الفاظ اچانک ہی میرے دل میں جا پیوست ہوئے اور میرے ذہن پر دستک دینے لگے… مجھے کچھ اور سجھائی دے رہا تھا نہ سنائی۔ اس ایک عبارت کے الفاظ نے مجھے کیا کر دیا تھا؟ میں سمجھنے سے قاصر تھا… میں تو بڑے بڑے علماء کی باتوں کو چٹکیوں میں اُڑا دیا کرتا تھا… اس ایک فقرے میں کیا جادو تھا… میری ساری حسیات یک دم میرا ساتھ چھوڑ گئی تھیں… میں، جسے اپنی قوتِ ارادی پر ناز تھا مجھ سے فیصلے کی ساری قوت لے لی گئی تھی… جس کو اپنی دماغ پہ غرور تھا… اس کا ذہن کام کرنا چھوڑ گیا تھا… میں تو انتہا درجے کا پریکٹیکل آدمی تھا… پھر بھی نہ جانے کون سی طاقت تھی جو مجھے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے پہ مجبور کر رہی تھی؟؟؟ مجھے اپنے سامنے مرنے والے سارے لوگ ایک ایک کر کے یاد آنے لگے جنہیں میں غیر سنجیدگی سے لیا کرتا تھا۔ وہ جنازے جن میں مجھے میرے گھر والے زبردستی بھیج دیا کرتے تھے، وہ ساری میتیں میرے ذہن میں دستک دینے لگیں۔ سفید کپڑوں میں ملبوس وہ چہرے ایک سلائیڈ شو میں چلنے لگے اور ہر کسی کے منہ سے بس ایک سوال نکل کر آرہا تھا کہ کیا تم نے کبھی اس دنیا کو نہیں چھوڑنا، کیا تم ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو؟ ابھی کل ہی دوست کی والدہ کے جنازے کے لئے گیا تھا، چوںکہ میرا ارادہ خانہ پری کا تھا اس لئے راستے میں سب دوستوں کے ساتھ ویسے ہی فحش گفت گو، کار میں انگلش دھنیں اور آنکھوں سے بد نظری… مجھے کھانا پسند نہیں آیا تھا، میں نے اپنے دوست کی خوب مٹی پلید کی، کہ اس موقع پر تو اچھا انتظام کر لیتے… اس کے بعد ہم چاروں دوست وہاں سے نکلے اور سیدھے ایک اچھے ہوٹل گئے۔ رات ہو چکی تھی اس لئے ”شیشے” کا پروگرام بنایا اور شہر کے مشہور ”حقہ بار” پہنچ گئے…
پتا ہے کبھی کبھی آپ کی آنکھیں برس رہی ہوتی ہیں پر آپ کو پتا نہیں چلتا۔ کھلی آنکھوں سے کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا، آوازیں آپ کی سماعت سے ٹکراتی ہیں پر آپ انہیں سمجھ نہیں پا رہے ہوتے، سب کو جانتے ہوئے بھی کسی کو پہچان نہیں پاتے… کچھ ہو گیا تھا میرے دل کو… لگتا تھا کہ پتھر بھی آخر ٹوٹ رہا تھا۔
”اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی ٹپکنے لگتا ہے اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔”
دل میں ایک کسک سی جاگ اُٹھی تھی، شاید آگہی کی یا اپنے ماضی پہ ماتم کی!!! میں فرق کرنے سے قاصر تھا۔
”میرے بچے! کیا ہوا؟؟” ڈاکٹر صاحب کی مدھم سی آواز سنائی دی، اُن کے پُر نور چہرے پر میری نظر ٹھہر نہ پائی… میرے آنسو گرتے جا رہے تھے اور جسم پسینے سے شرابور… میں نے ٹوٹتی آواز سے کہا:
”سر!!! اب تو موت بھی نصیحت نہیں کرتی”