پھلوں کا بادشاہ آم خوشبودار، مزے دار، رنگ دار بس بس بہت ہوگیا دار،، اب آتے ہیں اصل بات کی طرف آج جی چاہ رہا ہے کہ آم کی بات کریں، خاص کی بات کریں، جو آج کل ہر ٹی وی چینل پر ہورہی ہے۔آم چاہے سندھڑی ہو یا چونسا، دسہری ہو یا لنگڑا پہنچ اس کی ہر جگہ ہے خود نہ پہنچ پائے تو جناب کی خوشبو ہی کافی ہے، بے چارے پڑوسی کا جی للچانے کے لئے اوپر سے چھلکے بھی دروازے پر ڈالے جاتے ہیں تاکہ محلے والوں کو بھی تو پتا چلے کہ پتوکی والی پھپو نے آم کی پیٹی بھیجی ہے ورنہ خود خرید لیں ہماری اتنی اوقات کہاں یہ آم کہاں اور ہماری جیب کے حالات کہاں۔ اخبار کی شہ سرخیوں میں خبر پڑھی کہ بلاول بھٹو زرداری نے ملکۂ برطانیہ کو آم کا تحفہ بھیجا ہے اور انہیں وہ تحفہ بہت پسند آیا ہے۔ ہائے کیا قسمت پائی ہے آپ نے آم بادشاہ ہم تو لندن کی گلیوں میں چند دن گزارنے کے خواب دیکھتے رہے اور آپ ملکہ کے محل پہنچ گئے اتنا صدمہ لگا کہ پوچھو مت بھل بھل آنسو بہنے لگے اور دل سے آواز آئی۔
اے کاش میں بھی تیرے باغ کا کوئی آم ہوتا
خدمت میں ملکۂ برطانیہ کی پہنچا ہوتا
تو وہ رکھ کر پلیٹ میں بڑے ناز کے ساتھ
اپنے بوڑھے ہاتھوں میں اٹھاتی مجھ کو
میں بھی اپنی قسمت پہ نازاں ہوتا
وصی شاہ معذرت۔۔۔
ہم کراچی میں رہتے ہیں ہم نے سندھ اسمبلی آج تک سو کوس دور سے دیکھی ہے کہ آم (عام) افراد کا آنا جانا منع ہے۔ ایک وہ ہے اقرااِلحسن (سرِعام) بتاؤ عام آدمی ہو کر معزز ایوان میں گھس گیا، دیکھا نہ حشر آم (عام) آدمی کا۔ دوسرے یہ حضرات کو آم کی پیٹیوں کی پیٹیاں پہنچ گئیں۔ اسمبلی کے اندر ٹھنڈے ٹھنڈے کمروں میں اب توسُنا ہے لفٹ میں بھی اے سی لگ گئے ہیں کہیں سائیں سرکار کو گرمی نہ لگ جائے حالاں کہ وہ گرمی بھی زیادہ دور نہیں دو چار ہاتھ ہی رہ گئے ہیں۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی تو بات ہو رہی تھی میٹھے رسیلے آموں کی، سنہرے سنہرے مزے دار آموں کی۔ پچھلی عید ببن بھائی نے ٹنڈوآدم بھیجے تھے کیا مزے کے تھے آج تک ذائقہ ہے زبان پر لیکن اس کے بعد ببن بھائی مع اہل و عیال پورے دو مہینوں کی چھٹیاں گزار کر گئے۔ ہمارے گھر تو ہمیں ٹنڈوآدم کے آم کی جگہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ مضمون لکھنے سے پہلے ہم نے سوچا کہ ملک سے باہر رہنے والے رشتے داروں سے بھی پوچھیں وہاں کہ آم کیسے ہوتے ہیں۔ہم نے اپنی بھانجی جو کچھ عرصہ قبل ہی کینیڈا شفٹ ہوئی ہیں اور بہت اچھی طرح سیٹل ہیں کیوں کہ ان کے میاں کا نام نا معلوم افراد میں شامل ہوگیا تھا واہ یہ کیا بات نکل آئی۔ خیر جب ہم نے رضیہ جو اب راضی کہلاتی ہیں فرمانے لگیں کہ کیا بتائوں پاکستان اتنا یاد آتا ہے۔ جب بھی آموں کا موسم آتا ہے۔ کینیڈا کے آم توبالکل انگریز میم کی طرح پھیکے سیٹھے ہوتے ہیں دیکھنے میں تو بہت ہی مزے دار لگتے ہیں مگر کھانے میں بالکل حکومتی ترجمان کے بیان کی طرح بدمزہ۔ لو بتائو کینیڈا میں رہ کر بھی پوری مبشر لقمان ہے یہ رضیہ۔ اس کی اماں بھی ایسی ہی تھیں الیکشن کے دنوں میں بنارس میں رستم خان سے پورے ہزار روپے لئے ووٹ کے اور ووٹ اسلم بھائی کو ڈال دیا اس کو کہتے ہیں آم کے آم اور گٹھلیوں کے بھی دام۔
اب آتے ہیں آم کی خصوصیات کی طرف اب ہم مرزا غالب تو نہیں کہ کہہ دیں آم ہوں اور بہت سارے ہوں، اتنے مہنگے آم۔ آم تو سیر دو سیر ہی مل جائیں تو غنیمت ہے۔
ہم تو کہتے ہیں آم ہوں اور اپنے ہوں پرائے آم پہ ہم نظر نہیں رکھتے یہ کام تو ہمارے قوم کے ہمدرد سیاستدانوں کا ہے۔ہم نے تو یہ بھی سُنا ہے کہ درجن بھر پیٹیاں تو رائے ونڈ میں بھی منڈھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آموں کے ٹوکرے اپوزیشن پر تعریضوں کے ڈونگرے بن کر برسیں گے۔ برس تو بادل بھی رہے ہیں کہ آم اور ساون کا تو جنم جنم کا ساتھ ہے اور ساون کا مزا ہی آم اور پکوڑے اور گرم گرم چائے کے ساتھ ہے کیوں کیا خیال ہے؟ آپ کا صحن چمن میں کرسیاں لگا کر کہ آم اور پکوڑے کی دعوت شیراز اڑانے کے بارے میں؟ ہم بھی چلے اپنی زندگی میں تھوڑا سا انجوائے کرنے۔
آم کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں سندھڑی، چونسا، سنہری، سرولی، انوررٹول واہ جی واہ کیا بات ہے آم کی۔ ویسے ان اقسام میں ہمیں اپنے سیاستدانوں کی جھلک سی نظر آتی ہے، مثلا سندھڑی سے ہمیں شاہ سائیں نظر آتے ہیں۔ شاید سندھڑی جیسا آم آپ کو پوری دنیا میں نہیں ملے گا اور ہمارے بڑے سائیں جیسا دنیا میں نایاب نہیں، اب تو ایسے عظیم لوگ بننا ہی بند ہو گئے ہیں۔ دسہری جیسے سیاستدان جن کا لوگوں سے اپنی ہی دسو کسی دی گل وچ کان نہ دھرو جیسا برتاؤ ہوتا ہے۔ چونسا سے عوام کا خون چوس کر اپنے محلات کھڑے کر کے آف شور کمپنیاں بنانے والے ہمارے بھولے بھالے معصوم چہرہ پولیٹیشن ہی ذہن میں آتے ہیں اور ان کے گونگلو بچوں کی صحت دیکھ کر ہمارے ملک کے عوام کی غربت کی بڑھتی شرح کی وجہ ہمیں اچھی طرح سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ اوہ ہم تھوڑا جذباتی ہوگئے حالاں کہ آم (عام) کا ذکر کرتے ہوئے خاص کا ذکر چہ معنی وارد۔ اب سنیں آم کی خصوصیات آم بہت خوش رنگ (اگر آپ کو پیلا زرد پسند ہے تو) ہوتا ہے اور ذائقہ تو پوچھیے ہی مت اور اگر یہ آم کسی دوست کے فارم کے ہیں تو اور بہ طور گفٹ ملے ہیں تو اس کے لذت اور ذائقے میں ایسے اضافہ ہوتا ہے، جیسے رشوت خور افسران کی ایفی شینسی میں۔ لفافے کی وصولی کے بعد ہر علاقہ کہ آموں کی تاثیر الگ الگ ہوتی ہیں۔ جیسے کہ سندھ کے آم کچھ میٹھے اور کچھ کھٹے ہوتے ہیں پنجاب کے آم بہت ہی میٹھے اوراوپر سے خوبصورت گلابی اور زرد کا حسن امتزاج جیسے کسی دوشیزہ کا سنہرا پن۔ سُنا ہے کہ انڈیا کے آم بھی آج کل دنیا بھر میں مشہور ہو رہے ہیں، ہوتے رہیں ہماری بلا سے ہم نے کون سا کھائے ہیں جو کھاتے ہیں وہ ہی بتائیں گے کہ کیسے ہوتے ہیں؟
ویسے مودی صاحب تو ہمارے وزیرِ اعظم کی پیاری نواسی کی شادی کی مبارک باد دینے آئے تھے تو شاید وہ لائے ہوں گے بے شمار گفٹ کے ساتھ آم کے تحفے سُنا ہے کہ آم کے تحفے لینے اور دینے سے محبت بڑھتی ہے لیکن یہ بڑھتی محبت اگر آموں تک ہی محدود رہے تو اچھا ہے کچھ اور دے دیا تحفے میں ہمیں تو۔۔۔؟؟ ذرا سوچئے گا ضرور۔